21؍مارچ 1863*
شاعری میں خصوصاً محاورات کا استعمال ، حضرتِ داغؔ کے شاگرد اور ممتاز و معروف شاعر” بیخودؔ دہلوی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام سیّد وحید الدین، تخلص بیخودؔ ۔ پہلا تخلص نادرؔ تھا۔ ۲۱؍مارچ ۱۸۶۳ء کو بھرت پور میں پیدا ہوئے۔ دہلی ان کا مولد ومسکن تھا۔ بیخودؔ نے دہلی میں اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا حالیؔ سے ’’مہرِ نیم روز‘‘ اور اساتذہ کے دواوین پڑھے۔ حالیؔ ہی کے ایما سے داغؔ کے شاگرد ہوئے۔ شاعری بیخودؔ کو ورثے میں ملی تھی۔ شاعری میں دلی ٹکسالی زبان،محاورات اور روز مرہ کا استعمال جس خوبی سے بیخود کرتے تھے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی وجہ سے تمام اساتذۂ فن نے انھیں داغؔ کا صحیح جانشین تسلیم کیا ہے۔ بیخودؔ خوش پوشاک اور خوش خوراک ہونے کے علاوہ شاہ خرچ بھی تھے۔ ۱۹۴۸ء میں وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کچھ وظیفہ مقرر کردیا تھا۔ ۱۵۰ روپیہ ماہوار وزارت تعلیم حکومت ہند سے ملتا تھا جس کے سربراہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ ان کے دو دیوان ’’ گفتارِ بیخود‘‘ اور ’’شہوارِ بیخود‘‘ طبع ہوچکے ہیں ۔ ۲؍اکتوبر ۱۹۵۵ء کو دہلی میں انتقال کر گئے۔
*
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•
ممتاز شاعر بیخودؔ دہلوی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
ہم تیرے شناسا ہیں ہمیں غیر سے کیا کام
آگاہ کسی سے بھی نہیں تیرے سوا ہم
—
آئنہ دیکھ کے خورشید پہ کرتے ہیں نظر
پھر چھپا لیتے ہیں وہ چہرۂ انور اپنا
—
آپ کو رنج ہوا آپ کے دشمن روئے
میں پشیمان ہوا حال سنا کر اپنا
—
چشمِ بد دور وہ بھولے بھی ہیں ناداں بھی ہیں
ظلم بھی مجھ پہ کبھی سوچ سمجھ کر نہ ہوا
—
دل تو لیتے ہو مگر یہ بھی رہے یاد تمہیں
جو ہمارا نہ ہوا کب وہ تمہارا ہوگا
—
غم میں ڈوبے ہی رہے دم نہ ہمارا نکلا
بحرِ ہستی کا بہت دور کنارا نکلا
—
ہمیں پینے سے مطلب ہے جگہ کی قید کیا بیخودؔ
اسی کا نام جنت رکھ دیا بوتل جہاں رکھ دی
—
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا
—
کیا کہہ دیا یہ آپ نے چپکے سے کان میں
دل کا سنبھالنا مجھے دشوار ہو گیا
—
میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا
—
نظر کہیں ہے مخاطب کسی سے ہیں دل میں
جواب کس کو ملا ہے سوال کس کا تھا
—
سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
—
زاہدوں سے نہ بنی حشر کے دن بھی یارب
وہ کھڑے ہیں تری رحمت کے طلب گار جدا
—
بات کرنے کی شب وصل اجازت دے دو
مجھ کو دم بھر کے لئے غیر کی قسمت دے دو
—
دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں
میرے روٹھے ہوئے مہمان چلے آتے ہیں
—
مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند
—
بات وہ کہئے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں
کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لیے
—
دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر
جو ادھر دل میں ہے یا رب وہ ادھر پیدا کر
—
دونوں ہی کی جانب سے ہو گر عہدِ وفا ہو
چاہت کا مزا جب ہے کہ تم بھی مجھے چاہو
—
حوروں سے نہ ہوگی یہ مدارات کسی کی
یاد آئے گی جنت میں ملاقات کسی کی
—
حجابِ دور تمہارا شباب کر دے گا
یہ وہ نشہ ہے تمہیں بے حجاب کر دے گا
—
رند مشرب کوئی بیخودؔ سا نہ ہوگا واللہ
پی کے مسجد ہی میں یہ خانہ خراب آتا ہے
✧◉➻══════════════➻◉✧
بیخودؔ دہلوی
بشکریہ : اعجاز زیڈ ایچ*