آج – 10/ نومبر 1912
استاد شاعر حالیؔ و حضرتِ داغؔ کے شاگرد اور معروف شاعر” بیخود بدایونی صاحب “ کا یومِ وفات…
بیخودؔ بدایونی، مولوی عبدالحئ نام، بیخودؔ تخلص۔۱۷ستمبر۱۸۵۷ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ۷۵۔۱۸۷۴ء میں وکالت کی سندحاصل کی۔ پہلے حالیؔ کے شاگرد ہوئے بعد میں داغؔ سے اصلاح لینا شروع کی۔ والد کے انتقال کے بعدسنبھل اور اس کے بعدشاہ جہاں پور میں وکالت کرتے رہے۔ ریاست جو دھپور میں سپیشل مجسٹریٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
١٠؍نومبر۱۹۱۲ء میں بدایوں میں انتقال ہوا۔ آ پ کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’فسانۂ بیخود‘‘، ’’مرآۃ الخیال‘‘ وغیرہ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر بیخودؔ بدایونی کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں
عاشقی بندگی نہ ہو جائے
—
حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
عید ہے اور ہم کو عید نہیں
—
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
ہمارے کام میں سو سو طرح فتور آیا
—
آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر
سودا مرے سر میں ہے تمنا مرے دل میں
—
نہ مدارات ہماری نہ عدو سے نفرت
نہ وفا ہی تمہیں آئی نہ جفا ہی آئی
—
ان کی حسرت بھی نہیں میں بھی نہیں دل بھی نہیں
اب تو بیخودؔ ہے یہ عالم مری تنہائی کا
—
دیر و حرم کو دیکھ لیا خاک بھی نہیں
بس اے تلاش یار نہ در در پھرا مجھے
—
شفا کیا ہو نہیں سکتی ہمیں لیکن نہیں ہوتی
دوا کیا کر نہیں سکتے ہیں ہم لیکن نہیں کرتے
—
گردشِ بخت سے بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں
مری دل بستگیاں زلف گرہ گیر کے ساتھ
—
خون ہو جائیں خاک میں مل جائیں
حضرتِ دل سے کچھ بعید نہیں
—
شکوہ سن کر جو مزاجِ بت بد خو بدلا
ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا
—
ہیں وصل میں شوخی سے پابندِ حیا آنکھیں
اللہ رے ظالم کی مظلوم نما آنکھیں
—
وہ میری آہ جو شرمندۂ اثر نہ ہوئی
وہ میرا درد جو منتِ کش دوا نہ ہوا
—
داغ کم حوصلگی دل کو گوارا نہ ہوا
ورنہ کچھ ہجر میں دشوار نہ تھا مر جانا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
بیخودؔ بدایونی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ