بنگلے کا گیٹ کھلا اور ایک ملازم نما شخص نے کاغذوں کی ٹوکری لاکر برابر کے خالی پلاٹ میں اگی جھاڑیوں کے پاس لاکر الٹ دی۔ وہ مڑا اور بنگلے میں داخل ہوکر گیٹ بند کرلیا۔ گلی سنسان تھی۔ ہم دونوں کاغذوں کے ڈھیر کی جانب لپکے۔ ہماری توجہ خالی لفافوں پر تھی۔ سعید کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔ اس نے دو ڈاک کے لفافوں کے کونوں پر سے احتیاط سے وہ حصے پھاڑ کر الگ کئے جن پر ٹکٹ چپکے ہوئے تھے۔ مجھے بھی دو ایک ایسے ہی لفافے مل گئے۔
یہ سوسائٹی کے علاقے میں غیرملکیوں کے بنگلے تھے جہاں ہم مٹر گشتی کررہے تھے۔ یہاں غیر ملکی سفارتی مشن، ہوائی کمپنیوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ملازمین رہتے تھے۔ یہ ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سال تھے۔ میں چوتھی اور سعید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہماری چھٹیاں تھیں اور ہم ہل پارک اور شہید ملت روڈ کے آس پاس کی گلیوں میں آوارہ گردی کرتے پھر رہے تھے۔ ابھی ہل پارک نام کے کسی پارک کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہاں بڑے بڑے اور خوبصورت بنگلے تھے جن میں بڑی تعداد میں غیرملکی اور یوروپین آباد تھے۔ سوسائٹی کی سڑکوں پر اکثر شام کے وقت ان گوروں کے بچے اور عورتیں گھڑسواری کرتے نظر آتے۔ اب شائد ہی کوئی بچا ہو جسے یہ مناظر یاد ہوں۔
میں اور سعید یہاں بنگلوں کے پچھواڑے یا آس پاس کے خالی پلاٹوں میں پڑے ہوئے کچرے کے ڈھیر سے ڈاک کے ٹکٹ اور سگریٹ کے خالی پیکٹوں کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ ڈاک کے ٹکٹ تو بمشکل ملتے، مہنگے سگریٹوں کے پیکٹ البتہ مل جاتے۔ ہمارے گھر وں کے آس پاس تو صرف کے ٹو، قینچی، ڈائمنڈ اور پیلا ہاتھی کے پیکٹ ہی ملتے۔ ان بنگلوں کی کچرا کنڈیوں میں تھری کاسل، پلئرز نمبر تھری، گولڈ لیف اور گولڈ فلیک کے پیکٹ ملتے جن کی قیمت سو ، دوسو ، پانچسو ہوتی۔ کے آٹو، قینچی، پیلا ہاتھی وغیرہ سستے یعنی ایک پانچ یا دس کے پیکٹ ہوتے۔
شاید کسی کی کی سمجھ نہ آئے کہ یہ پانچ دس اور سو کے پیکٹ کیا ہوتے تھے۔ یہ دراصل سگریٹ کے پیکٹوں کی ہماری مقدر کردہ “ قیمت” تھی۔ ہم ان پیکٹوں سے تاش کی طرح ایک احساس گناہ کے ساتھ اور گھر والوں سے چھپ کر کھیلتے۔ یہ حالانکہ جوا نہیں تھا لیکن سگریٹ کے پیکٹ چونکہ نوٹوں کا نعم البدل تھے چنانچہ یہ جوا کی قسم کا ہی کھیل تھا۔ ہم بہت سارے پیکٹ جمع کرتے۔ بلکہ ہم کچھ دوستوں نے ایک ٹیم بنا رکھی تھی اور ہم اپنے جمع کئے پیکٹ ایک ساتھ رکھتے اور کبھی کبھار کمرہ بند کرکے ان پیکٹوں کی “ ٹرین” بناتے اور پھر دوسرے بچوں کو تماشہ دکھانے کے لیے کمرہ کھول کر اندر آنے کی دعوت دیتے۔ سب کے جمع ہونے کے بعد ترتیب سے کھڑے کئے ہوئے پیکٹوں کے سرے کو جنبش دیتے اور پورے کمرے میں بل کھاتے سگریٹوں کے پیکٹ گرتے چلے جاتے۔
پیکٹوں کا کھیل تو ایک فضول سا اور وقتی کھیل تھا۔ لیکن ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنا ایک سنجیدہ مشغلہ تھا۔ یوں تو صدر میں پوسٹ آفس کے آس پاس ٹکٹ بیچنے والے بھی ہوتے تھے لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں کہ اس عیاشی کے متحمل ہوتے۔ بحرین سے چچا کے خط آتے جن سے میں ٹکٹ اتار لیا کرتا لیکن یہ عموماً ایک جیسے ٹکٹ ہوتے۔ یہ بھی کام آتے تھے کہ “ ڈپلیکیٹ “ ٹکٹوں کو دوسروں کو دے کر ان سے اپنی پسند کے ٹکٹ مل جاتے۔ ہمارے پاس کوئی البم وغیرہ نہیں تھی۔ اسکول کی استعمال شدہ کاپیوں میں ٹکٹ چپکاتے۔ چوتھی جماعت کا امتحان پاس کرنے پر چھوٹے چچا نے مجھے ایک سستی سی البم )Stamp Album) خرید دی تھی، ساتھ ہی کچھ ٹکٹ بھی خرید دئیے تھے۔ ٹکٹوں کو لفافوں سے کاٹ کر نکالنا، پانی میں بھگو کر احتیاط سے کاغذ سے الگ کرنا، ایک پیڑھی پر پھیلا کر دھوپ میں سوکھنے کے لیے رکھنا، خشک ہونے کے بعد انہیں اتار کر البم میں ترتیب وار چپکانا۔ اچھا خاصہ وقت اس کام میں صرف ہوتا لیکن ہمارے انہماک، شوق اور دلچسپی میں کمی نہ آتی۔
اور ہم اردو میڈیم کے طالب علم جنہیں چوتھی جماعت میں بہت ہی واجبی سے انگریزی آتی تھی، بہت سے ملکوں کے ناموں سے واقف ہوگئے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ Magyar Posta ہنگری کے، Deutsche Bundespost مغربی جرمنی کے اورجن ٹکٹوں پر کسی ملک کا نام نہیں لکھا ہوتا لیکن ایک تاج کی اور ملکہ الزبتھ یا کنگ ایڈورڈ کی تصویریں ہوتی ہیں وہ برطانیہ کے ٹکٹ ہوتے ہیں۔ اور جن پر ملکہ الزبتھ اور تاج کے ساتھ یوگنڈا کینیا اور تانگانیکا لکھا ہوتا ہے وہ افریقی ملک ہیں جو کبھی برطانیہ کے زیر تسلط رہے۔ ان ڈاک ٹکٹوں سے ہمیں دنیا بھر کی معلومات گھر بیٹھے حاصل ہوتیں۔ پھر اپنے ملک کے ٹکٹ تھے جو خاص مواقع پر جاری کئے جاتے اور ہمیں تاریخ اور حالات حاضرہ کا علم ہوتا رہتا، میرے چچا کو بھی یہی شوق تھا۔ بڑے چچا نے انہیں بحرین سے بڑی خوبصورت اور قیمتی البم بھیجی تھی اور ان کے پاس بڑے نادر و نایاب ٹکٹوں کا بڑا ذخیرہ تھا جو انہوں نے امریکہ جاتے وقت مجھے دے دیا تھا۔ دربدر کی ہجرتوں میں یہ اللہ جانے کہاں رہ گیا۔ چچا کو “ فرسٹ ڈے کور” جمع کرنے کا بھی شوق تھا جو ہر نئے ٹکٹ کے ساتھ محکمہ ڈاک جاری کرتا اور اس میں ٹکٹ پر دی گئی تصویر کے بارے میں معلومات ہوتی تھیں۔
اور یہ ایک مشغلہ نہیں تھا جو بچپن میں اپنایا۔ جیب میں کبھی اتنے پیسے نہ ہوئے کہ کوئی مہنگا شوق پال سکتے لیکن اس کم مائیگی کے باوجود الحمدللّٰہ زندگی کے اتنے سارے رخ دیکھے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں اپنے آپ کو کسی نہ کسی قسم کے شوق ہائے فضول میں مصروف رکھا جنہیں آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو وہی حاصل زندگی معلوم ہوتے ہیں۔
شوق یا مشغلے کئی قسم کے تھے۔ بہت سے گھر کی حد تک محدود تھے تو دوسرے بہت سے شوق گلیوں ، میدانوں اور بازاروں میں پورے کرتے۔ ڈاک کے ٹکٹوں کے علاوہ مختلف ملکوں اور زمانوں کے سکے جمع کرنا بھی ایک مشغلہ رہا گو کہ بہت محدود رہا۔ اپنی سعودی عرب، بحرین اور دوبئی کی ملازمت کے دوران دنیا بھر کے لوگوں سے واسطہ رہا۔ ان سے ان کے ملکوں کو کرنسی نوٹ ان کے دستخط کے ساتھ لیتا۔ آج بھی وہ نوٹ میرے پاس ہیں جنہیں دیکھ کر نہ صرف وہ لوگ بلکہ وہ وقت بھی یاد آتا ہے۔
کھیلوں کو بھی اگر مشاغل میں شامل کیا جائے تو بچپن سے کرکٹ اور فٹبال کھیلی، بڑے ہوکر والی بال، ٹیبل ٹینس اور ہاکی بھی کھیلی۔ ہاکی سب سے آخر میں اپنائی لیکن سب سے اچھا کوئی کھیل کھیلا تو وہ ہاکی تھی۔ دوبئی آکر باؤلنگ، رگبی اور کشتی رانی بھی کی۔ کشتی رانی یا Raft Race میں مسلسل پانچ سال اپنی کمپنی کی ٹیم کا حصہ رہا۔
میں آج کل اپنی زندگی کی یادیں فیس بک پر اپنے احباب کے ساتھ بانٹ رہا ہوں۔ ایک خاتون نے تبصرہ کیا کہ میں نے بھرپور زندگی گذاری۔ اس وقت ازراہ انکساری میں نے کہا کہ میں نے بھی عام لوگوں جیسی ہی زندگی گذاری۔ لیکن اب سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ کیا فرق ہے میرے اور دوسروں کی زندگی میں۔میرے پاس تو کبھی ضرورت سے زیادہ پیسہ بھی نہیں رہا۔ نہ کوئی عیاشیاں کیں لیکن کیوں الحمدللّٰہ زندگی ایک پکنک کی طرح گذری؟
بات یہ ہے کہ زندگی ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ قدرت نے ہمارے لیے قدم قدم پر اتنی بے شمار دلچسپیاں اس زندگی میں رکھی ہیں کہ دنیا میں اکتاہٹ اور بیزاری نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو۔ بات صرف ان مصروفیات، ان مشاغل کے انتخاب اور ان کو اپنانے کی ہے۔بقول شاعر زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔۔۔مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں۔ ایسا کوئی شوق اور مشغلہ نہیں جسے کم یا زیادہ میں نے ضرور آزمایا نہ ہو۔
کتب بینی شاید سب سے پہلا شوق تھا۔ بچپن سے رسالے، اخبارات اور کتابیں پڑھنے کا شوق رہا جو آج تک قائم ہے۔ کچھ بڑے ہوئے تو ریڈیو پر ڈرامے اور کہانیاں سننے کا شوق ہوا۔ ساتھ ہی فلمیں دیکھنا بھی شروع کیں اورایک زمانہ تھا کہ فلمیں سب سے بڑا شوق تھیں۔ ٹیلیویژن آیا تو اس پر ڈراموں کے علاوہ معلومات عامہ کے پروگرام دلچسپی سے دیکھتا۔ اسکول کالج میں کوئز پروگراموں میں حصہ لیا۔ تقریر اور مباحثے کی البتہ ہمت نہ ہوئی لیکن آخری عمر میں یہ شوق بھی پورا ہوگیا جب ایک مذہبی اور اصلاحی تنظیم سے بھر پور وابستگی کے دوران خطابت کے مواقع ملے اور وہ جو کبھی تقریر کرنے کے خیال سے ہی ہاتھ پاؤں پھول جایا کرتے تھے اب ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتا ہوں کہ ہم کہیں اور سنا کرے کوئی۔
علمی اور ادبی مشاغل کے علاوہ سوسائیٹی کے جھیل پارک والی جھیل میں اور کورنگی کریک وغیرہ میں مچھلیاں بھی پکڑیں لیکن یہ کام مجھ سے ڈھنگ سے نہ ہوا کہ پکڑی ہوئی مچھلی کو کانٹے سے نکالنے کا مرحلہ بہت تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح کورنگی چار نمبر پر غلیل سے چڑیوں کا شکار بھی مجھ سے نہ ہوسکا کہ اوّل تو نشانہ بہت برا تھا دوسرے انہیں حلال کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔
دو اور چیزیں مجھ سے نہ ہو سکیں وہ تھیں مصوری اور شاعری۔ شاعری کے لیے طبیعت بالکل موزوں نہیں۔ مصوری کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ لکھنے کا شوق البتہ عجیب حادثاتی انداز میں ہوا اور اب یہ عالم ہے کہ اگر تین چار دن کچھ نہ لکھ سکوں تو پریشان ہوجاتا ہوں کہ شاید اب اس صلاحیت کو گھن لگ گیا ہے۔
گھومنے پھرنے اور سیاحت کا بے حد شوق ہے لیکن جیب نے کبھی اس کی اجازت نہیں دی۔ بہرحال روتے پیٹتے بھی دینا کے سات آتھ ممالک دیکھ لیے۔ لیکن دنیا بھر کی ٹریول ویڈیوز دیکھنا میرا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے اور لگتا ہے کہ پوری دنیا دیکھی ہوئی ہے۔
جب تک کورنگی میں رہے باغبابی کا بھی شوق رہا۔ امتحان ختم ہونے کے بعد اکثر اپنے چھوٹے سے صحن میں نئے پودے لگاتا۔ ایک مختصر عرصے کے لیے مرغبانی بھی کی۔ ایک دوست کے ساتھ اس کے کبوتروں کی نگرانی بھی کی۔ جانور پالنے کی البتہ نوبت نہیں آئی ہاں ایک طوطا/توتا تقریباً دس سال پالا لیکن اسے بڑے بھاری دل سے جدا کرنا پڑا۔
ایک دوست سے تجوید قرآن سیکھی، تفاسیر کا مطالعہ کیا، ڈاکٹر اسرار احمد کے دروس قرآن میں شرکت کی۔ حتی الوسع حفظ قرآن کی مشق جاری رہتی ہے۔ لیکن یہ بہرحال کوئی مشغلہ نہیں بلکہ روحانی ضرورت ہے۔ تذکرہ صرف اس لیے کیا کہ ایک بڑا وقت ان مصروفیات میں بھی گذارا۔
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے ، کے مصداق دنیا کی فضولیات میں بھی جی بھر کر حصہ لیا۔ موسیقی ( سننے) کا شوق بھی ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ دوبئی میں بے تحاشا میوزک پروگرام دیکھے۔ بہت سے یاد گار مشاعرے بھی سنے۔ اور بھی بہت کچھ گفتنی اور ناگفتنی مشاغل رہے۔اور اس بڑھاپے میں اور ان دنوں جب دنیا کرونا کی وجہ سے جان ہتھیلی پر لئے پھر رہی ہے، ایک نیا شوق چرایا یعنی اپنا ایک یوٹیوب چینل بنا ڈالا۔ اور اب کسی نہ کسی طرح اداکاری اور صداکاری اور خطابت کا شوق بھی پورا ہورہاہے۔ کچھ خیرخواہوں ( یا بدخواہوں) نے کہا کہ اپنی عمر دیکھو اور حرکتیں دیکھو۔۔ یہ تو نہ کرو۔۔بھلا کیوں نہ کروں۔ اب تک جو کچھ کیا کسی سے پوچھ کر کیا جو آپ کا مشورہ سنوں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی میں بہت کچھ ہے کرنے کے لیے، یہ شوق یا مشاغل زندگی کی کٹھنائیوں کو آسان اور رنگین بناتے ہیں۔ زندگی خوش باش گذارنے ہو تو کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور اپنانا چاہئیے۔ کوئی نہ کوئی شوق ضرور ہونا چاہئیے۔ اقبال کا شعر تو کسی اور پس منظر میں ہے۔
نگاہ شوق میسر نہیں گر تجھ کو
ترا وجود ہے قلب ونظر کی رسوائی
لیکن زندگی بغیر کسی مقصد ، کسی جدوجہد کے بغیر بھی بھلا کوئی زندگی ہے۔یہ مشغلے محض وقت گذاری کا زریعہ نہیں یہ انسان میں یکسوئی، کچھ سیکھنے اور جاننے کی جستجو، محنت کی عادت اور مطالعے کا شوق پیدا کرتی ہے۔ مطالعہ، مختلف کمالات سیکھنے اور سمجھنے کا۔
اور ان مشاغل کی کوئی حد نہیں نہ زمان ومکان کی کوئی قید ہے نہ ان کے لئے مال وزر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے تو صرف شوق اور لگن کی۔ میں نے تو چند ایک ہی مشاغل کا ذکر کیا۔ کبوتر بازی، پتنگ بازی، سیاحت، ماہی گیری، شکار، دستکاری، موسیقی، مطالعہ، کشیدہ کاری، کوہ پیمائی، ورزش، رقص، تیراکی، مصوری، سنگتراشی، ظروف سازی ، سوئیٹر بننا، کوکنگ، بیکنگ، سلائی کڑھائی، مکرامے، کھجور کی باسکٹ بنانا اور دنیا جہان کے اور بہت سے مشغلے اور شوق۔ کیا کچھ نہیں ہے کرنے کے لئے ؟۔
جو کچھ آپ کو پسند ہے وہ کرتے رہنا آپ کی زندگی کو پررونق بناتا ہے، زندگی بامقصد معلوم ہوتی ہے۔ زندگی سے جمود، یک رنگی، بیزاری اور بوریت سے نجات دلاتی ہے۔ اپنے پسندیدہ مشاغل میں مصروف رہنے سے گذرتی عمر کا اندازہ نہیں ہوتا،اداسیاں دور ہوتی ہیں کہ ان کا وقت ہی نہیں ملتا۔ جو اپنا وقت مشاغل میں گذارتے ہیں ، اپنے حال کو زیادہ پر لطف بناتے ہیں۔ جن کے بہت سارے مشاغل ہوتے ہیں وہ نہ صرف ایک طویل بلکہ پرمسرت اور خوش باش زندگی گذارتے ہیں۔ جب زندگی اداس کرتی ہے تو یہی مشغلے حوصلہ دیتے ہیں۔
اگر کوئی مشغلہ نہیں ہے تو نیا مشغلہ سیکھیں ۔ یہ بھی ایک پرلطف تجربہ ہے۔ بہت سے لوگ بہت سے کام رضاکارانہ طور پر بطور مشغلہ کرتے ہیں۔ آپ بریل سیکھ سکتے ہیں کہ نابیناؤں کو پڑھا سکیں۔ اگر فارغ ہیں تو کسی اسپیشل اسکول کے بچوں کے اساتذہ کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ دوستوں کا گروپ بنا کر بوڑھوں کے مراکز اور ہسپتالوں کے دورے کرکے، مریضوں اور معمر افراد کو گلدستے، پھل، مٹھائیاں، کتابیں اور دیگر تحائف تقسیم کرسکتے ہیں۔ میرے ساتھ مراکش کی ایک نوعمر لڑکی کام کرتی تھی جو دوبئی آنے سے پہلے بھارت میں دھرم شالہ میں تبتی بچوں کو انگریزی سکھا رہی تھی جبکہ وہ خود عربی اور فرانسیسی بولتی تھی۔ دھرم شالہ کا سن کر اس نے پہلے خود انگریزی سیکھی۔ اس لڑکی عمر بمشکل پچیس چھبیس سال ہوگی۔
نگاہ شوق میسر نہیں گر تجھ کو
کوئی سا بھی اچھا سا مشغلہ اپنا لیں ۔ آپ زندگی سے شکایت کرنا چھوڑ دیں گے۔پچھلے چھ ماہ سے میں گھر میں قید ہوں ۔ کہیں آنا جانا نہیں، نہ کسی سے مل پایا ہوں۔ یہاں ساٹھ سال سے زیادہ لوگوں پر پابندی کچھ زیادہ ہے۔ لیکن الحمدللّٰہ مجھے کبھی تنہائی، یک رنگی اور بیزاری کا احساس نہیں ہوا۔ اللہ کی یاد، گھر کے کام، کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا، یوٹیوب پر کچھ نہ کچھ کرتے رہنا، ہلکی پھلکی ورزش، تیراکی، مطالعہ، ٹی وی دیکھنا، موسیقی سننا۔ اتنا کچھ کرنے کو ہو تو بھلا کیسی تنہائی اور کیسی بیزاری۔
آئیے زندگی آپ کا انتظار کررہی ہے۔ زندگی کو خوبصورتی سے جئیں ۔ خوش رہیں اور لوگوں کو خوش رکھیں۔ جینا اسی کا نام ہے۔