بیروت کی زخمی دیواریں
بیروت رفیق حریری ایئرپورٹ پر اترنے کا اعلان ہوا تو جہاز نے ایک بڑا چکر کاٹ کر اپنا رخ موڑا۔جب سے شام میدانِ جنگ بنا ہے، تب سے خلیجی ممالک سے آنے والی تمام فلائٹس کا سفر کم از کم ایک گھنٹہ بڑھ گیا ہے۔ اب جہاز عقبہ اور نہرسویز کی فضائوں کے اوپر اڑتے ہوئے لمبی پرواز کرنے پر مجبور ہیں۔ بیروت پر لینڈنگ مجھے ستر اسّی کی دہائی میں لے جاتی ہے۔ تب دنیا بھر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن سکرینوں پر سب سے پہلی خبر بیروت ہی سے آتی تھی۔ امل ملیشیا نے فلاں وادی مسیحی فلانجی جنگی گوریلوں سے واپس لے لی، یا یہ کہ فلسطینی فدائین کا بیروت کی گلیوں میں گھمسان کا رَن، دس فلسطینی فدائین شہید اور بیس مسیحی فلانجی گوریلے ہلاک۔ خبروں میں کبھی مسیحی گوریلوں کے لیڈر بشیر الجمیل، کبھی جارج حباش، یاسر عرفات، دُروز لیڈر کمال جنبلات، کبھی شیعہ ۔امل ملیشیا کے نبیہ برّی اور کبھی ناصرین (جمال ناصر کے حامی) گوریلوں کے رہبر کی خبریں چلتیں، کبھی کبھی بیروت کی گلیوں میں برپا جنگ بندی کی خبریں، علاقائی اور عالمی طاقتوں کے طرف سے جنگ بندی کی کوششیں اور اپیلیں بھی خبروں کی زینت بنتیں۔ وادی بقاع اور گولان کی پہاڑیاں، یہ دونوں نام اور مقام اسی خانہ جنگی کی خبروں سے متعارف ہوئے۔ قتل وخون، جنگ وجدل کی گونج، پہلی مرتبہ میرے کانوں میں لبنان ہی سے آئی۔ تب میں سکول میں پڑھتا تھا، پھر یونیورسٹی سے فارغ ہوگیا مگر جنگ ِ لبنان کی خبریں ہر روز میرے کانوں میں گونجتیں رہیں۔ جب میں جوان ہوا، تب سوشلزم اپنی نظریاتی سرحدوں میں دم توڑ رہا تھا اور میرے اندر سوشلزم نے انقلاب برپا کرنا شروع کررکھا تھا۔ پاکستان میں امریکہ نواز جنرل ضیا کی فوجی آمریت مسلط تھی۔ آمر جنرل ضیا کے خلاف تحریک میں شامل مجھ جیسے نوجوان سوشلسٹ ’’سرخ ہے سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے۔ خونِ ویتنام سے ایشیا سرخ ہے‘‘ کے نعرے بلند کرکے پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کے درپے تھے۔ ان نعروں کو مزید پھیلا کر ہم نے یہ نعرہ بھی اکثر لگایا، ’’خونِ ویتنام سے ایشیا سرخ ہے، خونِ لبنان سے ایشیا سرخ ہے‘‘۔ جب جنرل ضیا نے سندھ میں گیارہ جماعتی سیاسی اتحاد (ایم آر ڈی) کو کچلتے ہوئے دادو میں فائرنگ کے ذریعے غیر مسلح مظاہرین پر گولیاں چلوا کر قتل عام کروایاتو سندھ میں ایک نعرہ گونجا، ’’دادو۔۔۔ بیروت۔‘‘
بیروت، لبنان کی خانہ جنگی کا مرکز تو تھا ہی، رفتہ رفتہ خطے اور عالمی طاقتوں نے بھی اس پر یلغاریں کردیں۔ شام، اسرائیل اور امریکہ۔ جنگ وجدل، قتل وخون کس قدر ہیبت ناک ہوتا ہے، کوئی بیروت کی دیواروں سے پوچھے۔ آج کے عالمی شہرت یافتہ برطانوی صحافی رابرٹ فِسک نے اسی بیروت سے بھیجی گئی جنگی خبروں اور تجزیوں سے شہرت حاصل کی۔ بیروت میں خانہ جنگی کا آغاز ایک معمولی واقعہ سے ہوا۔ فلسطینی مہاجر جو اردن میں قتل عام کے بعد لبنان ہجرت کرنے پر مجبو رہوئے، اپنے قائد یاسر عرفات اور جارج حباش کی قیادت میں بیروت پہنچے۔ 13اپریل 1975ء کی صبح فلسطینی فدائین کی ایک بس، مشرقی بیروت جو مسیحی اکثریتی علاقہ ہے، وہاں کی ایک بستی عین الرمانہ میں ایک آرتھوڈوکس گرجاگھر کے سامنے سے کیا گزری، خانہ جنگی کے ایسے شعلے اٹھے کہ اس نے سارے لبنان کو جلا کر بھسم کردیا۔ فلسطینی مسیحی نوجوانوں نے اس بس کو روکا اور کہا کہ آپ اپنا روٹ بدل لو، دوسری سڑک سے جائو۔ فلسطینیوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اور یوں موقع پر ہی 14فلسطینی ہلاک کردئیے گئے۔ اسے لبنان کی خانہ جنگی کی تاریخ میں سانحہ عین الرمانہ کہتے ہیں۔ لبنان کی خانہ جنگی کا پہلا پتھر یہیں رکھا گیا اور پھر 1975ء سے 1995ء تک بیس سال لبنان اور بیروت یوں تار تار ہوا کہ جدید انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ اس باہمی جنگ میں مارے گئے اور اس سے کہیںزیادہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لاپتا ہوگئے۔ چالیس لاکھ آبادی کا لبنان اپنی ہی آگ میں جھلس گیا۔ شیعہ، سنی، مسیحی، دُروز، فرقہ واریت اس جنگ کا عنوان ہے۔جنگ فرقہ واریت سے بڑھتی بڑھتی خطے کی ’’اہم جنگ‘‘ بن گئی۔ خطے کی طاقتوں نے بھی فرقہ واریت کی بنیاد پر اپنا اپنا حصہ خوب ڈالا۔ سعودی عرب، ایران، شام، خلیجی ممالک، سب نے یہاں اپنے اپنے فرقے کی پراکسی وار کی خوب حوصلہ ا فزائی کی۔ اسرائیل اور امریکہ بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ اسرائیل نے ایریل شیرون کی قیادت میں لبنان اور بیروت پر یلغار کی قیادت کی۔ اس نے بیروت کے جناح چوک کی عمارت پر اپنی دوربین سے دیکھتے ہوئے صابرہ شتیلا کے فلسطینی مہاجروں کے قتل عام کی قیادت، سرپرستی اور نگرانی کی۔ ایریل شیرون کے اِسی قاتلانہ کردار پر اسے ’’بیروت کا قصاب‘‘ کہا جاتا ہے۔
میری شریک حیات ریما عبداللہ کہتی ہیں، تم جس چھٹے امریکی بحری بیڑے کا ذکر کرتے ہو، میں نے 25اگست 1982ء کی صبح اس کی توپوں کو بیروت پر حملہ آور ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ صدر ریگن کے حکم نامے کے مطابق،امریکہ کا چھٹا بحری بیڑا پندرہ سو امریکی حملہ آوروں کو لے کر بیروت آیا۔ ایک طرف بیروت میں اسرائیلی فوجیں، اس بستی کے مکینوں کو قتل کررہی تھیں اور دوسری طرف بحیرۂ روم سے امریکی حملہ آور در آئے۔ فلسطینی تنظیم پی ایل او جس کی قیادت یاسر عرفات اور جارج حباش کررہے تھے۔ اب وہ دوبارہ ہجرت پر مجبور کیے گئے۔ پی ایل او کی قیادت کو بیروت سے باہر دھکیل دیا گیا۔
میں نے بیروت کی تباہی، اپنے ہاں اخبارات، کتابوں اور ٹیلی ویژن کی خبروں سے پڑھ اور دیکھ رکھی تھیں۔ مگر جب میں بیروت کی ایک بیٹی ریما عبداللہ سے پہلی مرتبہ ملا اور پھر ہمیشہ کے لیے مل گیا تو بیروت کی کہانی اب اپنے ہی گھر میں ہر روز سننے لگا۔ اس شہر کے ایک سنّی قاضی کے ہاں بیروت کی یہ بیٹی میری شریک حیات بنیں اور یوں ریما عبداللہ سے ریما عبداللہ گوئندی کہلوانے لگیں۔ بیروت میرا شہرِ عشق ہے۔ ریما سے ملاقات سے پہلے بھی یہ شہر ِعشق تھا۔ میرا ایک دوست آغا ندیم جب کابل میں مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ مل کر جنرل ضیا کی بندوق کو شکست دینا چاہتا تھا، تب ایک دن مرتضیٰ بھٹو نے کہا، ذوالفقار علی بھٹو کے فدائین میں سے کون کون بیروت جا کر اسرائیلی جارح ایریل شیرون کے خلاف جنگ لڑے گا؟ تب بیروت، ایریل شیرون کی عسکریت کے حصار میں تھا۔ آغا ندیم، بیروت آیا اور اس کی گلیوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا ایک فدائی جارح اسرائیل کے خلاف صف آراء ہوا۔ میری سیاسی جدوجہد کا ایک اور گمنام جیالا اسی بیروت کی گلیوں میں اسرائیل کے خلاف لڑتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور طویل عرصہ اسرائیل کی جیل کاٹ کر جب لاہور پہنچا تو جدوجہد کے اس فدائی سے پارٹی کی نئی قیادت آشنا نہ ہوسکی۔
بیروت اور لبنان کی گلیاں اس خانہ جنگی کی گواہی آج بھی دیتی ہیں۔ریما اور میں جب چار روز قبل بیروت ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو امل ملیشیا کے رہنما نبیہ برّی کی قدآور تصاویر نے ہمارا استقبال کیا۔ نبیہ برّی جو کبھی بیروت کی گلیوں میں شیعہ امل ملیشیا کی قیادت کرتا تھا، آج کل وہ لبنان کی اسمبلی میں سپیکر ہیں۔ ہماری گاڑی بیروت کے دل رئوشے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ راستے میں سٹیڈیم آیا۔ آہ! یہ تو وہی سٹیڈیم ہے جہاں اسرائیل کا پہلا بم گرا تھا۔ اس دن سارے بیروت میں قیامت کا سماں تھا۔ انہی کی بھڑکائی جنگ اب غیروں کے کام آ رہی تھی۔ اسرائیل اور امریکہ تک لوگ اس جنگ کے سوداگر بنے۔ گاڑی چند منٹ بعد بیروت کی آبادی کولا میں تھی۔ کولا، بیروت کی گلیوں میں لڑی جانے والی جنگ کا اہم محاذ تھا۔ تب گلیاں سنّی، شیعہ، دُروز اور مسیحی عقیدوں میں بدل گئی تھیں۔ سارا بیروت دو بڑے حصوں میں بٹا ہو اتھا۔ مشرقی بیروت مسلمان بیروت اور مغربی بیروت مسیحی بیروت۔ ریما عبداللہ گوئندی اپنی والدہ پروفیسر ڈاکٹر ھدیٰ عدرہ کے ہمراہ بیروت کی جنگ میں طے کی گئی سرحد پر رہتی تھیں۔ اس بستی کا نام راس النبع ہے۔ ریما کہتی ہیں، مسلم بیروت اور مسیحی بیروت کی تقسیم کے لیے ریت کی بوریوں سے بنی چالیس پچاس فٹ بلند دیوار قائم کی گئی تھی۔اسی محلے میں غنویٰ بھٹو بھی رہتی تھیں۔ ریما اور غنویٰ، بعد میں اس وقت دوست بنیں جب غنویٰ بھٹو کو میں نے مدعو کیا کہ آپ میری شادی کی سادہ تقریب میں شامل ہوں۔ وہ ریما عبداللہ کا نام سن کر چونک گئیں اور کہا، فرخ! تم نے آج تک (2003ء) مجھے نہیں بتایا کہ تم بیروت کی ایک بیٹی کے سحر میں گرفتار ہو۔
2003ء کے بعد میں متعدد بار بیروت آیا۔ جنگ کے بعد کا بیروت۔ اس جنگ سے بیروت کے مکینوں نے یہ سبق سیکھا کہ جینا کس قدر قیمتی ہے۔ جان کتنی قیمتی ہے۔ زندہ رہنا کتنا قیمتی ہے اور امن کتنا قیمتی ہے۔ جنگ کے کھنڈرات سے ایک نیا بیروت اور لبنان ابھرا۔ پُرامن لبنان پہلے سے زیادہ خوب صورت اور زندہ لبنان۔ پہلے سے زیادہ خوب صورت بیروت۔ زندہ رہنا تو کوئی لبنانیوں سے سیکھے۔ بیروت کی گلیوں میں جنگ فرقہ پرستوں نے شروع کی اور ’’خوب‘‘ لڑی یہ باہمی جنگ۔ مگر اس جنگ کو بیروت اور لبنان کی گلیوں اور محلوں میں کمیونسٹوں، اشتراکیوں، سوشلسٹوں اور ناصرین (جمال عبدالناصر کے حامی) نے جیتا۔ اس جنگ کو بیروت کی گلیوں اور محلوں میں اشتراکیوں نے جیتا۔ مگر اس جنگ کو شکست ماجدہ الرومی کے گیتوں نے دی۔ اس نے اپنی پُرسوز آواز میں جب گیت گاکر کہا کہ ’’کدھر ہے عرب، کدھر ہے عرب دنیا، بیروت جل رہا ہے‘‘۔ عرب دنیا کی سب سے پُرسوز آواز فیروز نے لبنانیوں کے جنگ بازوں کو جھنجھوڑا، خطے کی طاقتوں کو انہی گیتوں سے شکست دی۔ اشتراکی موسیقار مارسیل خلیفہ نے اپنے سازوں سے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ گیت اور ساز بندوق سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئے۔ لوگوں کو دلوں کو جیت گئے۔ فرقہ پرستی سے مبرا اِن فنکاروں نے آتش زدہ، جنگ کے گھمسان زدہ سے اسے امن کے شہر میں بدل دیا۔
بیروت جہاں کبھی گولیوں کی تڑتڑاہٹ، بموں اور دھماکوں کی آوازیں گونجتی تھیں، آج وہاں امن کا راج ہے۔ پچھلے پندرہ سال سے میں بیروت کی دیواروں کو گھور گھور کر دیکھتا ہوں۔ اکثر جگہ زخمی دیواریں آج بھی موجود ہیں۔گولیوں اور راکٹوں کے نشان مٹائے نہیں مٹے۔ شہر کا شہر دوبارہ بن گیا۔ کئی مکان ایسے اجڑے کہ پھر آباد نہ ہوئے، اُن کے کھنڈر آج بھی موجود ہیں۔ کئی دیواریں جن کو بھرپور طریقے سے مرمت کرکے بحال اور صاف ستھرا کردیا گیا۔ اُن دیواروں پر گولیوں سے بنے تلاش کریں تو اب بھی مل جاتے ہیں۔ بیروت کی یہ زخمی دیواریں اس جنگ وجدل، قتل اور خون کی خبر آج بھی دیتی ہیں جس کا عنوان فرقہ پرستی تھا۔
“