بیروت کی گلیوں میں یاسر عرفات
میں لبنان کے ایک سرحدی قصبے خیام پر کھڑا دوسری طرف مصنوعی طور پر آباد کی گئی بستیوں کو اپنے ویڈیو کیمرے میں ریکارڈ کررہا تھا۔تبھی میں نے بے ساختہ ریما گوئندی سے کہا کہ وہ ہے اسرائیل۔ ریما نے سخت لہجے میں جواب دیا، یہ فلسطین ہے۔ سرحدی باڑھ کے ساتھ جڑی ایک عورت سرحد کی دوسری طرف رخ کیے سجدے میں تھی۔ دوسری طرف جہاں قبلہ اوّل ہے، جہاں یروشلم ہے، جہاں القدس ہے۔ عرب دنیا کی اُم کلثوم کے بعد مقبول ترین مسیحی لبنانی گلوکارہ فیروز نے اس شہر پرایک ایسا شہرہ آفاق گیت گایا، ’’القدس زہرۃالمدائن‘‘ جو عرب دنیا کے ہر گھر میں بجتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین یا نام نہاد اسرائیل کے مسلمان اور مسیحی گھروں میں بھی، حتیٰ کہ قدیم فلسطینی یہودی گھروں میں بھی۔ لاہور میں جب میں صبح کا ناشتہ کرتا ہوں تو یہ گیت لبنانی کافی کی مہک کے ساتھ میرے کانوں کو چھوتا ہے۔ لبنان میں صبح فیروز کے گیتوں سے ہوتی ہے۔ جس نے اسرائیلیوں کی بربریت دیکھنی ہو تو سابقہ خیام جیل جائے، جہاں اٹھارہ سال کے نوجوان کو اسرائیلیوں نے گرفتار کیا اور جب وہ رِہا ہوا تو زندگی کی چوتھی دہائی میں تھا۔ خیام کا قصبہ اپنے شاعروں اور ادیبوں کے لیے معروف تو تھا ہی، اب اپنی سرزمین کی حفاظت کرنے والے فدائین کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسرائیل کے خلاف مسلسل مزاحمت خیام کی شناخت ہے۔ اسی قصبے میں ریما گوئندی کے والد کامل عبداللہ نے جنم لیا اور یہیں اُن کی قبر ہے۔ کامل عبداللہ شاعر بھی تھے اور استاد اور سیاسی رہنما بھی۔ انہوں نے کمال جنبلات کے ساتھ مل کر لبنان کی ایک ترقی پسند جماعت پروگریسو سوشلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پروگریسو سوشلسٹ پارٹی تب سے آج تک لبنان کی ایک مقبول جماعت ہے۔
ریما اور میں جب کمال جنبلات کے بیٹے ولید جنبلات کو ملنے اُن کے گائوں میں ترک دور کے بنے ایک محل نما گھر مختارا کے قصبے گئے تو وہاں لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ولید جنبلات، دُروز کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ ہم نے ملاقات کے لیے وقت مانگ رکھا تھا۔ جب ہماری ملاقات کا وقت قریب آیا تو ہجوم میں ایک سوٹڈ بوٹڈ نوجوان تیزی سے سر گھماتا نظر آیا۔ میں نے ریما سے کہا، یہ پروگریسو سوشلسٹ پارٹی کا ایک ’’جیالا‘‘ ہے اور ہمیں ہی تلاش کررہا ہے۔ اور یہی ہوا۔ ریما حیران تھی کہ میں نے کیسے یہ درست اندازہ لگالیا۔ میں نے ریما سے کہا، عوامی اور ترقی پسند جماعتوں کا سیاسی کلچر ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے ایسے کئی جیالوں کو ترکی کے سابق وزیراعظم اور میرے دوست جناب بلندایجوت کی جماعت ڈیموکریٹک لیفٹ پارٹی کے دفتروں میں دیکھ رکھا ہے۔ یہ لبنانی جیالا میرا اور ریما کا نام پکارنے لگا اور ہم نے ہاتھ کھڑا کرکے اپنے موجود ہونے کا اشارہ دیا۔ وہ تیزی کے ساتھ ہمیں روایتی لبنانی طرزِ تعمیر پر کھڑی محل نما عمارت کی سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے مہمانوں کے ایک بڑے کمرے میں لے گیا۔ قومیں اپنے گھروں اور محلوں کے طرزِ تعمیر سے پہچانی جاتی ہیں۔ ادب آداب، سلیقہ اور نفاست تو لبنانیوں پر ختم ہے۔ قدیم عرب روایت اور جدت کا حسین امتزاج تھا یہ مہمانوں کا کمرا۔
ایک طویل قامت شخص ہماری طرف بڑھا۔ میں اِس کو اچھی طرح پہچانتا تھا۔ عرب ٹیلی ویژن، بی بی سی اور عالمی نشریاتی اداروں سے شائع اس کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ رکھی تھیں۔ ولید جنبلات۔ اس نے آگے بڑھ کر مسٹر گوئندی اور ریما بنت کامل عبداللہ کا استقبال کیا۔ ریما کے والد کامل عبداللہ اور کمال جنبلات بڑے گہرے دوست تھے۔ کامل عبداللہ خانہ جنگی کے دنوں میں وزارت کا حلف اٹھانے والے تھے کہ ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے۔
ولید جنبلات کو میں نے مشرقِ وسطیٰ کا ذہین ترین سیاست دان پایا ہے۔ ولید جنبلات کا ایک انٹرویو قابل دید ہے جو انہوں نے امریکہ کی طرف سے عراق پر یلغار کے بعد ، بی بی سی کے معروفِ زمانہ پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘ میں Tim Sebastian کو دیا۔ میں نے اس انٹرویو میں پہلی مرتبہ Tim Sebastian کو لاجواب ہوتے دیکھا۔ ولید جنبلات اپنے والد کے دوست کی بیٹی سے ملاقات پر اور اُس کے شریک حیات کے پاکستانی ہونے پر خوشی اور حیرانی کا اظہار کررہے تھے۔ ولید جنبلات میرے لیے ہمیشہ قابل احترام رہے۔ تب سے جب میں ابھی ریما سے ملا بھی نہیں تھا۔ اُن کی وہ تصاویر میرے ذہن میں ہمیشہ سے نقش ہیں کہ جن میں دن کے وقت وہ اپنی قیمتی موٹربائیک پر لہراتے لمبے بالوں کے ساتھ بیروت کی خانہ جنگی زدہ گلیوں میں گھوم رہے ہیں۔ کندھوں پر کلاشنکوف لٹکائے اور دن ڈھلے پیدل جنگ زدہ گلیوں میں ہاتھوں میں بندوق اٹھائے۔ وہ ابو عمار کے بہترین دوست اور میزبان تھے۔ ابو عمار، یاسر عرفات۔ انہوں نے یاسر عرفات کی صرف میزبانی ہی نہیں کی بلکہ دیگر بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے اسرائیلی جارحیت پسندوں کا بیروت اور لبنان بھر میں مقابلہ کیا۔ ’’القوات المشترکہ‘‘ لبنان اور فلسطین کی بائیں بازو اور قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں کا ایک بے مثال اتحاد تھا۔ اس اتحاد کے بانی کمال جنبلات تھے اور اہم ترین رکن فلسطین کی جدوجہد آزادی کی تنظیم پی ایل او تھی جس کے قائد ابوعمار، یاسر عرفات تھے۔ کمال جنبلات کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے لبنان کے اس عظیم سپوت ولید جنبلات نے یاسر عرفات کے شانہ بشانہ بیروت کی گلیوں میں بیرونی جارح کے خلاف جدوجہد کی۔ مجھے ایک ویڈیو اس حوالے سے روزِ اوّل سے یاد ہے جب یاسر عرفات، جارج حباش اور دیگر فلسطینیوں کو 1982ء میں بیروت خالی کرنے پر مجبور کیا گیا اور وہ بحیرۂ روم سے تیونس جانے کے لیے بحری جہاز پر سوار ہوئے تو اُن کو الوداع کرنے والا یہ طویل قامت دُروز اور سوشلسٹ لیڈر ولید جنبلات اشک بار آنکھیں لیے کھڑا تھا۔
میں نے یاسر عرفات کو پہلی بار سکول کے زمانے میں دیکھا تھا۔ سکول سے خصوصی چھٹی لے کر میں سرگودھا سے لاہور آیا جہاں فروری 1974ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی۔ لاہور کی سڑکوں پر یاسر عرفات کا مسکراتا چہرہ، کار سے باہر لہراتا ہاتھ اور اپنی دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتا ہاتھ۔ ابوعمار، یاسر عرفات نے تمام عمر جنگ میں گزار دی۔ دانشوری کرنا آسان ہے، عملی سیاست بہت مشکل۔ اور سیاست اگر آزادی کی جنگ کے گرد ہو اور جنگ دنیا کی طاقتور ترین قوتوں کے خلاف۔ یاسر عرفات کا چہرہ میں نے کبھی بغیر مسکراہٹ کے نہیں دیکھا۔ بیروت پر امریکہ، اسرائیل اور دوسرے مسلح گروپوں نے قیامت برپا کر رکھی ہو۔ یاسر عرفات کو سب نے مسکراتے ہی دیکھا۔ یاسر عرفات اور بیروت اب تاریخ میں لازم وملزوم ہیں۔ مجھے انہی گلیوں میں گھومنا ایسے لگا جیسے میں ماضی میں چلا گیا ہوں۔ بیروت کا وہ پس ماندہ علاقہ بھی جہاں کبھی فلسطین کی آزادی کا یہ رہبر اور دنیا میں آزادی وجدوجہد کا یہ سمبل رہا کرتا تھا۔ یہیں پاکستان کے معروف اشتراکی شاعر فیض احمد فیض، لوٹس جریدے کی ادارت کرنے آئے اور جنرل ضیا کی آمریت میں یہیں جلاوطن ہوئے۔ ایفرو ایشین پیپلز سالڈیریٹی کے پلیٹ فارم سے جس کا صدر دفتر قاہرہ میں ہوتا تھا اور پاکستان سے تیسری دنیا کی اس معروف تنظیم (AAPSO۔ ایفرو ایشین پیپلز سالڈیریٹی آرگنائزیشن) پر سب سے زیادہ متحرک ملک معراج خالد مرحوم تھے۔ مجھے انہوں نے اوائل جوانی میں AAPSO کی ایک کمیٹی کا سربراہ بنایا۔ زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے مجھے بار بار تاکید کی کہ تم AAPSO کے پاکستانی چیپٹر کو سنبھالو۔
فیض احمد فیض کی ایک معروفِ زمانہ نظم جو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر لکھی تھی، اس کی ایک فوٹو کاپی میرے ہاتھ کیا لگی کہ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979ء کو سزائے موت دی گئی، اس وقت پاکستان میں پیپلزپارٹی کا شاید ایک ہی دفتر موجود تھا۔ پرانی انارکلی کے آخر میں جین مندر میں قائم۔ اس وقت آفس انچارج معروف شاعر ارو پی پی پی رہنما احمد وحید اختر تھے۔ انہوں نے مجھ (نوجوان) کے ہاتھ میں خفیہ انداز میں کاغذ کا ایک ٹکڑا دیا اور کہا، اس کی فوٹو کاپیاں کروائو اور شہر میں پھیلا دو۔ یہ فیض احمد فیض کے ہاتھ سے لکھی نظم تھی:
کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کیا لوگو
یہ کس کو تم نے سر ِ دار کھو دیا لوگو
اگر کاغذ کے اس ٹکڑے کی خوشبو جنرل ضیا کے کارندوں کو پہنچ جاتی تو دس کوڑے اور پانچ سال قید کی سزا لازم تھی۔ یہ وہی جنرل ضیاالحق ہے جس نے بحیثیت بریگیڈیئر اردن کے شہر اومان میں بیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا اور اسے شہنشاہِ اردن نے عالمی آقا امریکہ کے اشاروں پر ’’کوکب استقلال‘‘ کا نشان عطا کیا تھا۔۔ا ومان میں فلسطینی جب اسرائیل کو شکست دے کر سرزمین فلسطین پر ہی اپنی آزاد ریاست بحال کرنے میں آخری کامیابی حاصل کرنے کے قریب تھے تو بریگیڈیئر ضیاالحق نے پیچھے سے وار کرکے اومان میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ اردن میں اپنوں کی دی گئی شکست کے بعد ابوعمار (یاسر عرفات) اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دوسری ہجرت اور پناہ پر مجبور ہوئے۔ بیروت نے فلسطینی فدائین کو اپنے گلے لگایا اور پھر اس کی جو قیمت ادا کی، وہ دنیا جانتی ہے۔ ان گلیوں میں گھومتے اور ان زخموں کے نشان ڈھونڈنا، اسی لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم کہیں تاریخ کو نہ بھول جائیں۔ بیروت کی ان گلیوں میں دنیا کے آزادی پسندوں اور ترقی پسندوں نے سامراج اور جنگی جنونیوں کے خلاف عملی جنگ لڑی ہے۔ مذہب، فرقے، رنگ ونسل سے بالاتر ہوکر۔ بیروت کی گلیاں اور محلے میرے لیے کبھی اجنبی نہیں تھے۔ 2003ء سے بھی پہلے میں اس کی گلیوں سے آشنا ہوا۔
بیروت کا حُسن اس کا سمندر اور پہاڑ ہی نہیں، اس کے مکان اور عمارتیں ہی نہیں بلکہ یہاں پروان چڑھنے والے اہلِ فکر ودانش، ادیب، شاعر، گلوکار، موسیقار، استاد، طلبا اور یہاں عرب اور تیسری دنیا سے آئے اہل دانش، جو بیروت کے قہوہ خانوں اور کیفے میں فکر ودانش کی محفلیں برپا کرتے۔ بیروت کا حُسن یہاں کی دانش اور آزادی و خودمختاری کا جذبہ ہے، جسے تار تار کرنے کے لیے اسرائیل اور امریکہ نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مگر بیروتیوں نے اس حُسن کو دوبارہ بحال کردیا۔ بیروت، شہرِ حُسن وجمال۔ بیروت، شہر ِ فکروخیال۔
“