بیروت، بحیرۂ روم کنارے
بحیرۂ روم کے بالکل سامنے آسٹریلیا سٹریٹ میں میری شریک حیات ریما عبداللہ گوئندی کی والدہ پروفیسر ڈاکٹر ھدہ عدرہ کا گھر۔ صبح اٹھتے ساتھ ہی جب میں سمندر کے وسیع پانیوں پر نظر ڈالتا تو میرے دماغ میں بحیرۂ روم کنارے آباد اس شہر بیروت کے اس حسین ترین مقام پر موجود ہوتے ہوئے اس خطے کی ہزاروں سال کی تاریخ ذہن میں گھوم جاتی۔ سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے مچھیروں کی واپسی کا منظر اور کہیں مشینی اور چپوئوں سے چلنے والی تفریحی کشتیاں اور اُن پر سوار مقامی لوگ اور سیاح۔ سمندر کنارے محو پرواز پرندے، اور کنارے کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے وسیع فٹ پاتھ جس پر صبح سویرے زیادہ تر لڑکیاں کانوں میں ایئر فون لگائے، موسیقی سنتے، تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی ورزش کرتی نظر آتیں۔ حُسن اور زندگی کا بنائو سنگھارلبنانیوں پر ختم ہے۔ عرب ہی نہیں ساری مسلم دنیا میں حسین ترین قوم اور بنائو سنگھار، فیشن اور Classy طرزِزندگی میں کوئی مسلم ملک لبنانیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی لبنانی رات کو سونے کا لباس یا چپل پہنے سڑک پر آجائے۔ اور اسی طرح صبح وشام سیر کرتے لڑکے لڑکیاں جس قدر حسین نظر آتے، اسی طرح بنے سنورے، لگتا ہے سیر کرنے نہیں بلکہ کسی فیشن پریڈ میں شامل ہونے جا رہے ہیں۔ میرے اندر ایک کلونیل عادت ہے، Bed Tea کی، میں صبح سویرے ریما اور اُن کی والدہ کے ہمراہ گھر کی بالکنی میں سونے کے لباس میں چائے کے تین چار کپ اور ایک سلائس کے ساتھ ناشتہ کرتا جبکہ ریما اور اُن کی والدہ منہ ہاتھ دھونے، بال بنانے اور باقاعدہ ناشتے کی تیاری کے بعد بالکنی آتیں۔ اُن کی پلیٹ میں چار پانچ زیتون، ایک کٹا ہوا اطالوی ٹماٹر، کٹے ہوئے کھیرے کے قتلے اور قسم قسم کی پنیر کے ساتھ لبنانی روٹی کے دو تین نوالے اور روکا سلاد۔ اور پھر خوشبودار زہر کی طرح کڑوا عرب قہوہ (کافی)۔ کافی پینا لبنانیوں پر ختم ہے۔وہ بڑے اہتمام کے ساتھ (عرب قہوہ) سیاہ کافی پیتے ہیں۔ چھوٹی سی پیالی میں چند گھونٹ گرماگرم گاڑھی سیاہی۔کافی کی خوشبو اب میری صبح کے ناشتے کی عادت بن گئی۔
ریما کی مَم (Mom) کے ہمراہ صبح بالکنی پر بحیرۂ روم کے سامنے بیٹھے ناشتہ کرنے اور پھر شام کو چائے اور کافی کی محفل ، میری بیروت کی بہترین گھڑیاں ہوتیں۔ میرا نکاح بیروت کے ایک سنی قاضی کی عدالت میں ہوا۔ نکاح کے بعد اسی بالکنی میں لبنانی مٹھائیوں سے ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں ریما کی والدہ اور ریما کی چھوٹی بہن پروفیسر ڈاکٹر مائے عبداللہ اور مم کی ایتھوپین ملازمہ مدینہ شامل ہوئیں۔ اسی بالکنی میں شام ڈھلے جب ہم کافی اور چائے کی چسکیاں لیتے تو میں ریما اور مم سے لبنان کی خانہ جنگی سے متعلق سوالات تلاش کرکے پوچھتا رہتا۔ شام ڈھلے، سمندر کنارے گھومنے پھرنے والوں کا میلہ سا لگ جاتا ہے۔ یہ مقام بیروت کا خوب صورت ترین مقام ہے۔ رئوشے (Raouché) وہ بڑی چٹان جو سمندر بیچ ایک دروازے کی شکل میں کھڑی ہے۔ دنیا بھر میں اس کی لاکھوں تصاویر متعارف ہوئیں۔ امیر عرب ملکوں سے آئے سیاحوں کی یہ پسندیدہ جگہ ہے۔ گھر کی گلی کے نکڑ پر مشہور لبنانی مٹھائیوں کی دکان (حلاب) ہے جو لبنان کے مشرقی علاقے کی مخصوص مٹھائیوں کے حوالے سے مقبول ہے۔ لبنانی مٹھائیوں کی دکانیں جس قرینے سلیقے اور خوب صورتی سے سجی اور لگی ہوتی ہیں، ایسے لگتا ہے جیسے مٹھائیوں کی نہیں ہیرے جواہرات کی دکان ہو۔ لبنان معیارِ زندگی میں بھی مسلم دنیا میں سب سے آگے ہے۔ خانہ جنگی کے دنوں میں ریما کی والدہ تقسیم شدہ بیروت کی اس ریت کی بوریوں سے بنی چالیس فٹ دیوار کے ساتھ رہتی تھیں جہاں مشرقی اور مغربی بیروت کی تقسیم کی گئی تھی۔ مشرقی بیروت مسیحی جنگ بازوں اور مغربی بیروت مسلمان جنگ بازوں کے زیر کنٹرول تھا۔ مغربی بیروت میں ہی فلسطینیوں (PLO) کا ہیڈکوارٹر اور فلسطینی مہاجر کیمپ صابرہ شتیلا تھا (جو ابھی بھی مہاجر کیمپ ہے)۔ اُن دنوں پروفیسر ڈاکٹر ھدہ عدرہ اپنی تینوں بیٹیوں کو مغربی بیروت کے اس کچھ محفوظ مقام پر لے آئیں۔
میرے لیے بیروت کی پہلی شناخت ہی خانہ جنگی، فلسطینی مہاجر، صابرہ شتیلا ، پی ایل او اور اسرائیلیوں کا لبنان اور بیروت پر قبضہ تھا۔ آنکھ کھلتے ساتھ میں نے بیروت کو انہی خبروں کے ساتھ سنا اور جانا اور پھر جب میں ریما کے ساتھ سنی قاضی کی عدالت میں ریما کی والدہ کے حکم پر نکاح پڑھوانے گیا، اس وقت بھی میرے دماغ میں یہی سوالات اور بیروت کے نکات سوار تھے۔شام ڈھلے جب بحیرۂ روم کے سامنے بالکنی سے نیچے سینکڑوں لوگوں کو گھومتے پھرتے دیکھتا تو اُن سینکڑوں عورتوں، مردوں اور بچوں میں دو کردار ذہن میں گھربنانے لگے۔ وہاں ساحل کنارے کئی لوگ بلدیہ سے اجازت یافتہ خوب صورت ریڑھیوں پر مختلف اشیا بیچتے ہیں۔ مگر صبح ناشتے اور شام چائے کے دوران بار بار دوکرداروں کو دیکھتے دیکھتے میرا دل ان پر جم گیا۔ ایک عورت سکرٹ پہنے بنے سنورے بالوں کے ساتھ ہر شام رئوشے پہ بحیرۂ روم کنارے گھومنے والے جوڑوں کو گلاب کے پھول فروخت کرتی۔ عمر کی ستر کی دہائی کو چھوتی اس خاتون کو قریب سے جاکر دیکھا تو اس کی شخصیت بڑی جاذبِ نظر اور رازبھری سی لگی۔میں نے ایک شام ریما سے درخواست کی کہ ایک بار پھر میری مترجم بنو۔ مجھے لوگوں سے بات کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ اس حوالے سے ریما بہت Reserved ہے۔ یہ اُن کا قومی انداز ہے۔ وہ لوگوں سے فوراً گھلنے ملنے، بولنے چالنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ ہر شام بحیرۂ روم کنارے عاشقوں کو گلاب کے پھول فروخت کرنے والی یہ رازداں چہرے کی مالک بارعب اور Humble خاتون، اب میرے تجسس کا باعث بنی ہوئی تھی۔ ریما نے میری درخواست قبول کی اور ہم گھر سے نکلے۔ چند منٹوں بعد ہم سمندر کنارے گھومنے والوں کے لیے رکھے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ میں نے ریما کے لیے گلاب کے پھول خریدے۔ عورت اپنے گاہک عاشقوںکو Serve کرکے خوش محسوس ہوئی۔ رازداں چہرہ کھل اٹھا، جب اس کے ہاتھ میں فروخت کیے گئے پھولوں کا معاوضہ آیا۔ میرے کہنے پر ریما نے اس سے سوال کرتے ہوئے اس کا نام پوچھا۔ اس نے جواب دیا، خدیجہ۔ بس اب میرے سوال تھے اور مترجم ریما! اور وہ جوابات دے رہی تھی۔ ریما نے اپنے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تعارف کروایا کہ وہ سامنے ہمارا گھر ہے، فرخ ہرروز وہاں بیٹھے آپ کو دیکھتا ہے۔ میرے شوہر کا وطن پاکستان ہے۔ خاتون کے جوابات دل دہلا دینے والے تھے۔ خدیجہ کا بیٹا خانہ جنگی کے دنوں میں اسرائیلیوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے شہید اور سارا گھر تباہ ہوگیا۔ شوہر بھی خانہ جنگی کی نذر ہوا۔ ایک بیٹی بچی جو ایک بم دھماکے میں اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئی۔ کہنے لگی، اب میری کُل کائنات میری بیٹی روائیدہ ہے۔ شام ڈھلے رئوشے روزگار کی دنیا ہے۔ خدیجہ نے خانہ جنگی میں اپنے پر بیتنے والی داستان سنائی تو جہاں میری آنکھیں پُرنم ہوئیں، وہیں اداسی نے بھی دل میں گھر کرلیا۔ بیروت کا دفاع کرنے والے شہید کی ماں ہرروز شام ڈھلے بیروت کے خوب صورت ساحل کنارے جھاڑیوں میں پھول چھپا کر رکھتی اور ایک دو گلدستے جھاڑیوں سے نکال کر رئوشے میں شامیں گزارنے والے عاشقوں کو گلاب کے پھول فروخت کرتی ہے۔ خدیجہ نے داستان سنانے کے بعد کہا کہ مجھے فخر ہے میرا بیٹا ارضِ وطن کے دفاع میں شہید ہوا اور آج میں یہاں آزادی سے گلاب کے پھول بیچتی ہوں۔ میری تو آنکھیں ہی پُرنم ہوگئیں، مگر خانہ جنگی کے ماہ وسال میں پلنے بڑھنے والی ریما کا سارا چہرہ ہی آنسوئوں سے بھیگ گیا۔
اسی درخواست کو میں نے ایک دن پھر دہرایا، ’’ریما مجھے اُس بنچ پر بیٹھے ادھیڑ عمر شخص سے ملنا ہے۔ میرا بیروت، میری جہاں گردی تو یہی ہے۔ میں نے آپ سے بیروت کے کسی مشہورِ زمانہ نائٹ کلب لے جانے کی درخواست تو نہیں کی۔‘‘ پہلے تو ریما نے میری درخواست مسترد کی اور پھر ایک دن قبول کرہی لی۔ ہم دونوں گھر سے نکلے، گھر کے سامنے بحیرۂ روم کنارے پیدل چلنے والے راستے پر رکھے بنچ پر اس شخص کے ساتھ جا بیٹھے۔ وہ پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی مختلف نمائشی ٹوکریاں بُن رہا تھا۔ بنچ کے نیچے خالی کارٹن اور اس میں رکھا پیناسونک کا ٹیپ ریکارڈر۔ روز شام ڈھلے جب وہ آتا تو اس ٹیپ ریکارڈر پرگانے بجتے جن کے بول ہوا کے رخ کے سبب کبھی کبھار میرے کانوں تک بھی پہنچتے۔ کلام کا آغاز کرنے کے لیے میں نے اس کے ہاتھوں سے بُنی چار پانچ پلاسٹک کی ٹوکریاں خریدیں۔ اور ریما کو مترجم بنا کر سلسلۂ کلام شروع کردیا۔ تم کب سے ٹوکریاں بنارہے ہو؟اس نے مجھے غور سے دیکھا اور ریما سے پوچھا، اسے عربی کیوں نہیں آتی؟ ریما اب میری مترجم تھی، اس نے بتایا کہ میرا شوہر پاکستانی ہے۔وہ بے ساختہ بولا، آہا تم پاکستانی ہو، بھٹو کے ملک سے ہو! کتنا بڑا لیڈر تھا۔ اوہ اسرائیلیوں نے اسے امریکیوں کے ہاتھوں مروا دیا۔ اپنے ایک ایجنٹ کے ذریعے جن نے میرے سینکڑوں بہن بھائیوں کو اردن میں قتل کیا۔ جنرل ضیا۔
میں سمجھ گیا کہ یہ ادھیڑ عمر شخص فلسطینی ہے۔ اس نے بتایا، ابویاسر میرا نام ہے۔ یہ پلاسٹک کی بُنائی میں نے اسرائیلی جیل میں سیکھی تھی جہاں میری زندگی کے پندرہ سال اسرائیلیوں نے گلا دئیے۔ میرا گھر داھئیے کے اندر فلسطینی کیمپ میں تھا۔ اسرائیلیوں نے جب بیروت پر قبضہ کیا تو میرے گھر کو دھماکہ خیز مواد لگا کر بھسم کردیا۔ سوائے میرے، سب اس دھماکے میں خاکستر ہوگئے۔ میں گھر سے باہر تھا۔ بندوق اٹھائے مشرقی بیروت میں جنگ بازوں سے نبردآزما۔ پھر مجھے گرفتار کرلیا گیا اور اسرائیل لے گئے۔ پندرہ سال دن اور رات صیہونی زنداں میں گزارے۔ کام کے لیے پلاسٹک کی بنوائی کروائی جاتی۔ رِہا ہوا تو پھر بیروت آیا۔ اپنے وطن فلسطین سے محروم۔ لبنان ہی اب میرا وطن ہے۔ میں، میرے کیسٹ پلیئر اور پلاسٹک کو بُنتے سیتے ٹوکریاں بنانا ہی اب میری زندگی ہے۔
میں چار سال قبل دوبارہ بیروت گیا۔ ابو یاسر اب وہاں نظر نہیں آتا تھا۔ غائب ہوگیا۔ یقینا اس جہان سے ہی غائب ہوگیا ہوگا۔ ریما نے بتایا کہ خدیجہ کو پچھلے سال دیکھا تھا، اب وہ بھی غائب ہوگئی۔ اس برس 12نومبر کو ریما کی والدہ (مم) ریما کی گود میں اس جہان سے رخصت ہوئیں۔ اب یہ گھر برائے فروخت ہے۔ مم مجھے بتاتی تھیں کہ امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے سے برسائے گئے بموں کے دھماکے ابھی تلک میرے کانوں میں گونجتے ہیں جو سامنے بحیرۂ روم میں آ دھمکے تھے۔ اب آسٹریلیا سٹریٹ میں ریما کی مم کا گھر ، اپنے آخری مکین کے رخصت ہوجانے کی اِن داستانوں کو اپنے ساتھ لیے، نئے مکینوں کے ساتھ نئے گھر میں بدل جائے گا۔
“