عرس کے دن قریب آ رہے تھے اور عرس کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ پیر بابا کا یہ عرس کتنے عرصے سے جاری تھا۔ شاہ زیب اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا۔ البتہ جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا وہ ہر سال شاہ بابا کے مزار پر اسی طرح کی رونق دیکھ رہا تھا۔ مزار پرزائرین کا آنا جانا تو خیر سارا سال ہی لگا رہتا تھا۔ مگر عرس کے دنوں میں تو اس چھوٹے سے گاؤں میں گویا ایک شہر آباد ہو جاتا تھا۔ نجانے کہاں کہاں سے لوگ آ کر یہاں دکانیں سجاتے،میلے ٹھیلے کا انتظام ہوتا، بارہ شیروں اور گھوڑوں والی سرکس، موت کا کنواں، پنڈولیوں والے جھولے اور کئی رنگ برنگے کھیل تماشے۔ گاؤں کی بے جان اوربے کیف زندگی میں کچھ دیر کے لیے رنگ بھر دیتے۔ ساکت لمحوں میں ایک حرکت سی پیدا ہو جاتی۔ بھلے عارضی طور پر ہی سہی۔ غرض عرس کے ان دنوں میں گاؤں اور گاؤں والوں کے لیے عید کا سماں ہوتا۔ بچے تو عید پر اتنی موج مستی نہیں کرتے تھے جتنی عرس کے ان تین دنوں میں۔۔ دلچسپی کے اتنے سامان اور وقت صرف تین دن۔۔ گاؤں کے بچے عرس کے یہ تین دن ختم ہونے پر افسردہ ہو جاتے اور پیروجواں سب ایک مدت تک اپنی باتوں میں عرس کی یاد تازہ کرتے رہتے تھے۔ یہ گاؤں جو صرف پچاس،ساٹھ گھروں پر مشتمل تھا۔ پیر بابا کا مزار اس کی پہچان تھا۔ گاؤں کے اطراف میں سینکڑوں ایکڑ زمین مزار کے نام مختص تھی، جو بابا جی کے ایک مریدِ خاص نے زائرین کی خدمت کے لیے عطیہ کی تھی۔ اور اب اس زمین کی تمام آمدنی کے حق دار پیر بابا کے وارثین تھے۔ پیر بابا کے مقتدین میں بابا جی کی بعض ایسی کرامات کا ذکر سینہ بسینہ چلا آ رہا تھا جنھیں سن کر بابا جی کی بزرگی پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ سننے والے حیرت میں ڈوب جایا کرتے تھے۔ عرس کے تین دنوں کے دوران گاؤں کی راتیں بھی جاگا کرتی تھیں، ورنہ تو یہاں زندگی سرِ شام ہی سو جاتی تھی۔
بجلی کی سہولت بابا جی کے مزار اور اس کے اردگرد موجود وہ چار گھروں ہی کو حاصل تھی جن میں مزار کے مجاور گھرانے پختہ گھروں میں آباد تھے۔ رات کو بابا جی کے مزار کے گنبد پر روشن بجلی کا بڑا بلب مزار کی اہمیت میں اضافہ کا سبب بنتا تھا۔ کچے گھروں میں کہیں کہیں کسی ٹمٹماتے ہوئے دیےکی تھرتھراتی لو گنبد سے روشنی گھیرتے بلب کے مقابل یوں لگتی جیسے سمندر میں ڈوبتی ہوئی ناؤ۔
گاؤں کے وسط میں ایک شاندار حویلی تھی جو پیروں کی حویلی کہلاتی تھی۔ حویلی کے اطراف میں کچھ فاصلے پر کچے مکان اور جھونپڑیاں تھیں۔ حویلی اور ان مکانات اور جھونپڑیوں کے درمیان کا فاصلہ حویلی کو دھول مٹی اور گردوغبار سے محفوظ رکھتا تھا۔ گو اس مقصد کے لیے حویلی کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے درخت بھی لگائے گے تھے، جن کا سایہ حویلی کے باہر دور تک جاتا تھا،جس سے استفادہ کرنے کے لیے جانوروں کو تو کوئی ممانعت نہ تھی۔ البتہ اگر کبھی کوئی مسافر سستانے کے لیے یہاں بیٹھ جاتا تو حویلی کے قیمتی پالتو کُتے انسان کی بُو سونگھتے ہی بھونکنا شروع کر دیتے تھے۔
کبھی اس حویلی میں خوب چہل پہل اور رونق ہوا کرتی تھی۔ پیر بابا کی اولادیں اس حویلی میں مقیم ہوا کرتی تھیں، اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ گاؤں والوں کی خوشی اور غم میں بھی شریک ہو جایا کرتی تھیں۔ مگر عرصہ ہوا حویلی کے مکین مختلف بڑے بڑے شہروں میں جا بسے تھے۔ اور ان کی آپس کی تفصیلی ملاقات بھی اب صرف پیر بابا کے عرس کے موقع پر ہی ہوا کرتی تھی۔
شاہ زیب کا تعلق بھی اسی خانوادے سے تھا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد گزشتہ دو سالوں سے وہ بھی آمدنی کا حصہ وصول کرنے والوں میں سے تھا۔۔ مزار کا مجاور کریم بخش بڑا تیز اور پھرتیلی شخصیت کا مالک تھا۔ اور آج کل تو اس کی مصروفیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ پہلے شاہ زیب کا والد کریم بخش کا ہاتھ بٹانے عرس کے چند دن قبل گاؤں آ جایا کرتا تھا اور والد کی وفات کے بعد یہ فرض شاہ زیب کو ادا کرنا پڑ رہا تھا۔
مزار کے فرش کی دھلائی جاری تھی اور ماربل لگے فرش سے بہنے والا گندا پانی مزار کے باہر کچی زمین کی نرم مٹی کو کیچڑ میں بدل رہا تھا۔ جس میں ننگ دھڑنگ بچے اور نو عمر لڑکیاں کھیل کود میں مصروف تھیں۔ شاہ زیب نے فرش دھونے والے مزدوروں کو ہدایات دینا شروع کر دیں۔
مجاور کریم بخش دیگوں کے حساب کتاب میں مصروف تھا۔ پہلے زائرین شہر سے پکی پکائی دیگیں ساتھ لے آیا کرتے تھے۔ جب سے کریم بخش نے پکی پکائی دیگیں یہیں سے فراہم کرنا شروع کی تو دیگیں ساتھ لانے کا سلسلہ بند ہو گیا تھا۔ اس طرح زائرین کو بھی سہولت ہو گئی تھی۔ ایک ہی دیگ دو دو تین تین بار فروخت کرنے سے کریم بخش کا بھی بھلا ہونے لگا تھا۔ البتہ گاؤں کے بھوکے ننگے غریب جو پہلے مزار پر بننے والے لنگر سے ایک ہی باری میں دو تین وقت کا کھانا لے جاتے تھے، اب دوبارہ مانگنے آتے تو انہیں کریم بخش کی جھڑکیاں سننا اور گالیاں کھانا پڑتیں۔۔ شاہ زیب کے لیے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا۔
آج عرس کا تیسرا دن تھا،محفلِ سماع عروج پر تھی اور قوال حضرات صوفیائے کرام کا عارفانہ کلام جو انسان سے محبت اور مساوات کے درس پر مبنی تھا، بڑے خسوع و خصوع سے گا رہے تھے۔ کلام کا پیغام پیر بابا کے مرقد پر بڑی سنگِ مرمر کی طرح واضح و شفاف تھا۔ صاحبزدگان اور مقتدین سمیت سب سامعین،جذب و مستی کی کیفیت میں جھوم رہے تھے۔ مگر شاہ زیب کے دل و دماغ پر کچھ اور ہی کیفیت طاری تھی۔ وہ محفلِ سماع میں عارفانہ کلام سے لطف اندوز ہونے کی بجائے باہر کھلی فضا میں آگیا۔
مزار کے مرکزی دروازے پر گندے غلیظ بچے جن کے بال الجھے اور مٹی سے اٹے ہوئے تھے، تن پر بوسیدہ کُرتے تو موجود تھے، البتہ نچلے دھڑ کپڑے اور پاؤں جوتوں سے محروم تھے۔ وہیں کھڑے کھڑے طبلے کی تال پر وہ محبت اور مساوات کا عارفانہ کلام سنتے ہوئے، تالیاں بجابجا کر جھوم رہے تھے۔ مزار کے چمکتے ہوئے اجلے فرش کو ان کے گندے پاؤں اور عطر دان سے چھڑکی ہوئی خوشبویات کو ان کے اجسام سے نکلتی بدبو سے بچائے رکھنے کے لیے مزار کے احاطے میں ان کا داخلہ ممنوع تھا۔ مرکزی دروازے سے گزر کر اندر آنے والوں کے لیے ان بچوں پر حقارت کی نظر ڈالنا بھی واجب و مستحب تھا۔ بچوں کے اس ہجوم میں شاہ زیب کی نگاہیں ان لڑکیوں کو تلاش کرنے لگیں جن کا خیال اب تک آسیب کی طرح اس کے ذہن سے چمٹا ہوا تھا۔
عرس کا اختتام ہو چکا تھا۔ چڑھاوے اور نزرانے کے مال کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو بھی شاہ زیب نے کسی بے صبری اور پسند نا پسند کا اظہار نہیں کیا تھا۔ تقسیم کے وقت اس نے چند سادہ سادہ سی چادریں چُن کر انہیں لینے کی خوہش ظاہر کی تو صاحبزدگان نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے ہوئے اس کی یہ خواہش بخوشی پوری کر دی۔
دن ڈھل رہا تھا اور شاہ زیب اردگرد کے ماحول سے بے خبر، لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنی دھن میں مگن چلا جا رہا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک کشمکش جاری تھی۔ اس کی آنکھوں کی پتلیوں پر اٹکے نو عمر لڑکیوں کے سراپے ہولیوں کی ماند اس کے آگے آگے دوڑے چلے جا رہے تھے اور وہ جلد از جلد ان تک پہنچنا چاہتا تھا۔ غیرارادی طور پر اس کی رفتار میں اضافہ ہونے لگا۔ جب وہ ان جھونپڑیوں تک پہنچا جہاں نو عمر لڑکیاں،کسی اجنبی کی آمد سے بے خبر کھیل میں مصروف تھیں تو اس کی سانس پھول رہی تھی۔ جسے بحال کرتے ہوئے اس نےآواز دے کر لڑکیوں کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ اپنے کاندھے پر لٹکے بیگ میں سے چادریں نکالیں اور لڑکیوں کی طرف بڑھنے لگا کہ اچانک کسی نے جھپٹ کر چادریں اس کے ہاتھ سے چھین لیں اور ساتھ ہی ایک آواز ابھری۔۔ نا سائیں نا۔۔ یہ مزار پر چڑھاوے کی چادریں ہیں۔ گندے غلیظ جسموں پر ڈال کر، میں چادروں کی بے حُرمتی کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ شاہ زیب نے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔ یہ مزار کا مجاورکریم بخش تھا۔ اور اس کے پیچھے باقی صاحبزدگان کھڑے تائید میں سر ہلا رہے تھے۔۔۔۔۔۔