بہتے وقت کی کہانی
پانچ سات سطروں کے بعد کہانی شروع ہوگی ۔ ۔ ۔ پہلے بورنگ فلسفہ پڑھ لیں
وقت آگے کو بڑھتا ہے۔ گھڑی کی سوئی ایک ہی جانب کو گھومتی ہے۔ کہساروں سے ابلنے والے چشموں کا پانی ایک ہی رخ میں بہتا ہے۔ واپسی ممکن نہیں۔ واپسی، تکرار، بوسیدگی، یا بیزار کن یکسانیت اس کائنات کا موضوع نہیں ہے۔
مگر جو لوگ اصرار کرتے ہیں کہ وقت انکے لیے تھم جائے اور پانی انکی خاطر الٹا بہنا شروع ہوجائے، زمانے سے علیحدہ کردیے جاتے ہیں اور انکا انجام اکثر پسماندگی ، پژ مردگی اور پسپائی ہی ہوتا ہے۔
لاہورشہر سے باہر کینٹ جو اب خود میں ایک شہر بن چکا ہے، مگر آرمی کی یونٹوں نے بھی اپنے مکان وہیں پکے کر رکھے ہیں (بھلے زمانوں میں فوجیں شہروں سے باہر ہوا کرتی تھیں، خیر جب آئے گا عمران ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ)۔
اسی کینٹ کا ایک بازار ، آر اے بازار کہلاتا ہے۔ اس میں ایک حکیم شفیق کی دکان بہت مشہور ہوا کرتی تھی۔ اب حکیموں کے پاس جانے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، تب ہمارے بچپن میں خمیرہ گاؤزبان، معجون دماغی، اور جوارش کلمونی (کلموہی نہیں) سے بچوں کی بہت سی امتحانی کمزوریوں کا علاج ہو جایا کرتا تھا۔ آج کل حکیم جن کمزوریوں کو دور کرنے میں جت گئے ہیں وہ بھی امتحان ہی سے متعلق ہے مگر بچوں کا نہیں۔ تعلیم بالغاں سمجھ لیجیے۔
خیر، بڑے ہونے پر کبھی پرانے علاقے سے گذر ہو تو انسان ٹھٹھک جاتا ہے۔ کچھ برس پہلے ایسی ہی ٹھٹھک کا شکار میں ہوا جب اسی بازار سے پا پیادہ گذرا ۔ حکیم شفیق کی دکان تو اب ان کے صاحبزادے سنبھالتے ہیں۔ کچھ دیر باہر کھڑا دیکھتا رہا۔ وقت کے ساتھ ایک سادہ سی دکان کو حکیم صاحب کے صاحبزادوں نے کافی ماڈرن کر لیا تھا۔ نئی عمارت ، شیشوں والے دروازے چمک رہے تھے۔ حکیم صاحب کی دکان کے بالکل بغل میں ایک رضائیوں کی دکان تھی۔ جو جیسی تیس سال پہلے تھی ویسی اب بھی تھی۔ سالخوردہ دکان پر بوسیدگی نمایاں تھی۔ دکان کا مالک بوڑھا برسوں سے مخصوص جگہ پر کرسی ڈالے بیٹھا ہوا تھا۔ پرانے ڈیزائن کی چمکیلی رضائیاں مختلف ڈھیروں میں ویسے ہی پڑی تھیں جیسے تیس سال پہلے چمکا کرتی تھیں۔ بس فرق وقت کا تھا۔ اب ان چمکیلی رضائیوں کے گاہک اس بازار کے اردگرد دور دور تک نہیں تھے۔ دکان اور مالک کی حالت سے بھی ظاہر تھا کہ بکری اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ منافع تو خیر دور کی بات ہے۔
یک لخت بوڑھے دکاندار نے مجھے متوجہ کیا اور بولا، بابو جی، رضائیاں لیں گے؟ میرے نفی میں سر ہلانے پر بتانے لگا، بہت اچھی قیمت پر دیتے ہیں ہم۔ پورے علاقے میں ہم جیسی رضائی کوئی نہیں بناتا۔ اگر آپ کے کسی جاننے والے کو چاہیے تو اسکو لے کر آئیے گا، دام بہت مناسب کردیں گے۔ میں نے افسردگی سے سر ہلایا۔ بوڑھے کا چہرہ چمکا، پیچھے مڑ کر اپنے بیٹے کو مخاطب کیا، جو مجھے بھی ابھی نظر آیا، ایک مونڈھے پر بیٹھا ہوا۔ دیکھا! بابو جی اب آگے اپنے دوستوں کو بتائیں گے۔ اسی طرح گراہکی بڑھتی ہے۔ تم کہتے ہو کیبل پر اشتہار چلوا دو، اخبار میں دے دو۔ ارے تمہیں کیا پتہ کاروبار کیا ہوتا ہے۔ باقی رزق تو اوپر والے کی مرضی سے ملتا ہے۔ وہ جتنا دے۔ بوڑھا اپنے جوان بیٹے کو سکھا رہا تھا، جو بیزارگی سے سر جھکائے بیٹھے کنکھیوں سے زمین پر چلنے والی چیونٹیوں کی قطار کو دیکھ رہا تھا۔
میرے ذہن مین فلیش لائٹ کی طرح تمام واقعہ واضح ہوگیا۔ ضرور نوجوان بیٹا باپ کو بدلے زمانے کی خبر دیتا ہوگا۔ مشورہ دیتا ہوگا کہ بابا اب لوگ ایسی رضائیاں نہیں خریدتے، نہ ہی ایسے بازاروں میں لوگ آتے ہیں۔ تیس سال پہلے جب یہ رضائیوں کی دکان یہاں تھی، تو آراے بازار کے بعد واہگہ بارڈر تک دو تین سو گاؤں میں کہیں رضائیوں کی دکان اور اس بازار جتنا بڑا بازار نہیں تھا۔ اب تو لاہور سے تیس کلومیٹر باہر تک لاہور ہی لاہور ہے۔ اور ہر کالونی کے باہر وکی رضائیوں والوں نے اپنا اشتہار لگا رکھا ہے۔ بھلا اب وکی رضائیوں کے زمانے میں حکیم شفیق کے پچھواڑے والی رضائیوں کی دکان سے پرانے ڈیزائن والی بغیر نگندوں والی رضائیوں کے گاہک کہاں سے آئیں گے۔
اور باپ نے بیٹے کی بات میں سے اپنی پوری زندگی کے تجربے سے یہ مطلب اخذ کیا ہوگا کہ ہو نہ ہو یہ نئے زمانے کی خرافات ہیں جو بیٹے کے دماغ میں گھس گئی ہیں۔ انکو نکالنے کا ایک ہی حل ہے کہ اسکو بتایا جائے اسی پرانی بوسیدہ دکان پر بیٹھے بیٹھے مارکیٹنگ کیسے کی جاتی ہے۔
مجھے بہت ترس آیا۔ نہ میں بیٹے کو کچھ کہہ سکا اور نہ ہی باپ کو کچھ صلاح دے پایا۔ افسوس کے ساتھ باپ کی باتیں سنتا رہا۔ جو بہتے وقت سے بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ کائنات کا ازلی اصول حرکت میں تھا۔ بوڑھے نے اپنی قبر میں جانے سے پہلے اپنے آپ کو بوسیدگی میں دفن کر لیا تھا۔ مگر اسکا اصرار تھا کہ اسکا بیٹا بھی وہیں رہے۔ بیٹا افسردہ تھا۔ اسکے اندر ابلتی ایڈرینالین کے لیے عمل کا کوئی میدان میسر نہیں تھا۔
سال بھر بعد میرا گذر وہاں سے ہوا تو دکان کو تالہ لگا ہوا تھا اور دروازے پر جالا تنا ہوا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“