اگوکی کی کہانی ۔ 3
ـــ
خواتین و حضرات، حفاظتی بند باندھ لیجیے، کرسی کی پشت سیدھی رکھیں، کھانےکی ٹیبل فولڈ کرلیں، سگریٹ کا گُل بُجھا دیں۔ کھڑکی کےپردے اُٹھا دیجیے تھوڑی دیر میں ہم سکردو کے ہوائی اڈے پر اترنے والےہیں باہردرجہ حرارت منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈہے۔ ہم امیدکرتےہیں کہ آپکاسفرخوشگوارگزراہوگا
سکردوکےبریگیڈمیس میں میجرزاہدچشتی لہک لہک کرہوبہوفلائٹ اٹینڈینٹ کےلہجےاورآواز کی کمال مہارت سےنقل اتارتےہوئےیہ ڈائلاگ بیسیوں دفعہ دہراچکےتھے۔ وہ کچھ دیرپہلےپی آئی اےکی راولپنڈی سےسکردوکی پروازپر اس دلرباوادی میں اترےتھےاوراب خوشی سےپھولےنہیں سمارہے تھے۔ ان کےاوپر بیان کیےگئےڈائلاگ میں چھپےطنزکےنشترکاہدف 14 عباسیہ کےافسروں کی وہ ٹولی تھی جودو دن پہلےراولپنڈی سے بذریعہ مشہ بروم کوچ سروس ابھی کل ہی سکردوپہنچی تھی۔ ایک چوبیس گھنٹےکےسفرکی تھکن ان کےجوڑوں اورچہرے سے عیاں تھی اس پرطُرّہ میجرچشتی کی وہ چہکتی دل جلاتی آواز۔ اورصاحبو میجرصاحب جوچہک رہےتھےتوایسےہی نہیں چہک رہےتھے
سکردوکامتلوّن مزاج موسم ہوبہو ہمارےکرنل محمدخان کے سفرنامے بسلامت روی کی فرنگی میموں جیسا ہے جن کے بارے میں گستاخانہ جسارت کرتے ہوئے مرشدی و آقائی مشتاق احمد یوسفیؔ نےکہاتھا کہ آپ نےسفرنامےمیں ذاتی ضرورت سےزیادہ میمیں ڈال دی ہیں، اگلےایڈیشن میں دل پرپتھررکھ کےان میں سےنصف کونکال دیجیےگا
مکرمی کرنل محمدخان نےکہاتھا کہ آپ بجافرماتےہیں، مگرکیاکروں، جسےبھی نکالتاہوں وہ روتی بہت ہے
سکردوکی پروازکےپسنجرمینیفیسٹ میں سےآپ جس مسافرکوبھی نکالنا چاہیں وہ رونا شروع کردے گا
ابرار کی بلو کے گھر جانے کے امیدواروں کے مصداق سکردو کی سواریاں بھی صبح صبح ٹکٹ کٹا لین بنا اسلام آباد انٹرنیشنل کے ٹارمیک پر کھڑے جہاز میں اپنی اپنی نشستوں پر آبیٹھتی ہیں۔ پائلٹ سمیت سب کے کان سکردو کے کنٹرول ٹاور سے موصول ہونے والی موسمی صورتحال پرلگےہوتےہیں اکثر اوقات جہاز ٹیک آف نہیں کرتااورسواریاں ہوائی سفرکےسیٹنگ پلان کی ڈرائی ریہرسل کرکےجہازسےاُتر واپس راولپنڈی اسلام آبادکی راہ لیتی ہیں تاکہ اگلےدن دوبارہ اسی فلائٹ پرقسمت آزماسکیں۔ کبھی کبھی اسلام آباد۔سکردوکی ڈگرکےچندبرگزیدہ مسافراس ہوائی سفرکی فل ڈریس ریہرسل بھی کرلیتےہیں کہ سکردوکےموسم کی ابتدائی کلیئرنس ملنےکےبعدجہازاڑان بھرتااپنی مستی میں کاغان، ناران اوربابوسرٹاپ کوپھلانگتانانگاپربت کی قربت میں چلتاچلاجاتاہےکہ اچانک منزلِ مقصودکوبادل ڈھانپ لیتےہیں اورچھٹ کےنہیں دیتےاورجہازسکردوکی گم گشتہ وادی کےاوپرسے ہی فضائی چکرلگاکرفری رائیڈدیتاہواواپس اسلام آباداترجاتاہے
اسلام آباد سے سکردو کے فضائی سفر کے امیدواروں میں عموماً دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک سکردو کے متمول تاجر جو بزنس ٹرپ پر ہوتے ہیں ، دوسرے سیاچن کا ویزہ لگے فوجی۔ اول الذکر پر تو وقت اور تعداد کی کوئی قید نہیں، مگر فوج اپنے افسروں اور جوانوں کو دو سےزیادہ مرتبہ قسمت آزمانے نہیں دیتی۔ سیاچن کی ہرپلٹن کاایک چاق وچوبند ذمہ دارحوالدارچکلالہ کےریئر ہیڈکوارٹر میں ہوتا ہےجسے پی سی پنڈی کہتےہیں۔ پی سی پرسنل کانٹیکٹ کامخفف ہے۔ پی سی پنڈی کےذمے اپنی یونٹ کے سکردو یا گلگت کے مسافر جوان اور افسروں کے فضائی اور براستہ روڈ ٹکٹ ہوتے ہیں اگرقسمت آپ سےبھی اتناہی پیار کرتی ہے جتنا ہم سے اور آپکو پہلے دن سکردو کی فلائٹ نہیں ملتی تو آپ اس کے اگلے دن اسی ٹکٹ پر قسمت آزماتے ہیں۔ دوسرے دن بھی پرواز منسوخ ہونے کی صورت میں پی سی پنڈی فضائی ٹکٹ کا متبادل سفری ٹکٹ آپ کو بھنا دیتا ہے اور آپ پیر ودھائی بس سٹینڈ سے مشہ بروم کوچ سروس کی نشست کے برف خانے میں اپنی تشریف چوبیس گھنٹے کے لیے رکھ کے بھول جاتے ہیں۔ بھولتے تو خیر نہیں ہاں مگر تشریف سُن ہو جاتی ہے۔ راولپندی سے سکردو بس کا سفر چوبیس گھنٹے کا ہے اور ہم نے جب پہلے پہل یہ سفر کیا تو ہمیں افسر بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے سر جی دعاواں شاواں پڑھ لئو، ایس راہ اتے دعاواں دی واواہ لوڑ پیندی اے
کیوں؟
سر دساں وچوں ایک ادھی بس ای سکردو اپّڑ دی اے
اللہ خیر کرے، کیوں؟
لگدا تسیں دریا (دریائے سندھ) اجے ویکھیا نئیں۔ بندے تے دور دی گل اندر رُڑھیاں بسّاں دی باڈی وی نئیں ملدی اپریل 99 کی سہ پہر پیر ودھائی بس سٹینڈ پر سکردو جانے والی مشہ بروم کوچ کی سیٹ پر بیٹھے اوپر بیان کی گئی گفتگو ہمارے ہم سفر کے ساتھ ہوئی جو توپخانے کا حوالدار تھا۔ اکیڈیمی سے نووارد ایک تازہ سکینڈ لیفٹین نے ہمالیہ کی بلندیوں پر موسم اور دشمن سے برسرِ پیکار 14 عباسیہ جانا تھا چکلالہ سےیکےبعددیگرےدوپروازیں کینسل ہونےپرپی سی پنڈی نے زیرِلب مسکراتےہوئےہمیں اورمیجر عبدالجبارکوبس کےدوٹکٹ تھمائےتھے۔ ہم نےاپنےہم سفرحوالدارکی بات کوسنجیدہ نہیں لیا اوربات آئی گئی ہوگئی۔ اسلام آباد سے مانسہرہ تک کا سفر جانے پہچانے رستوں پر تھا اور مانسہرہ کےایک ڈرائیورہوٹل پر مختصر وقفے اور رات کے کھانے کے بعد مشہ بروم کی پائلٹ سیٹ پر بیٹھے ہمارے ناخدا نے گاڑی کو چوتھے گیئر میں ڈال ٹیپ ریکارڈر آن کردیا تو فلم غلامی کے کومل سروں پر لتا منگیشکر اور شبیر کمار کی مدھر آوازوں نے ہمارے پپوٹے خود بخود بوجھل کردئیے
’بس ابھی یہاں کچھ دیر رُکے گی ۔ ۔ ۔
کبھی کبھی شام ایسے ڈھلتی ہے جیسے گھونگھٹ اتر رہا ہے
تمہارے سینے سے اُٹھتا دھواں ہمارے دل سے گزر رہا ہے
زِ حالِ مسکیں مکُن بہ رنجش بہ حالِ ہجراں بے چارہ دل ہے ۔ ۔ ۔
’سر جی، سر! اُٹھیں کھڑکی سے باہر دیکھیں‘ ہماری آنکھ ایک مستقل مزاج نہ تھمنے والے ٹہوکے سے کُھلی کچھ ادھ کھلی نیم وا آنکھوں اوراسی قدرنیم بیداردماغ سےباہر دیکھاتواردگردکےپہاڑوں پرچاندنی چٹکی ہوئی تھی
’سراوپرنہیں نیچے دیکھیں‘ ہمیں جگانے والا اب بے صبرا ہونے کو آیا تھا۔ ہم نے جو کھڑکی سے سر تھوڑا باہر نکال نیچے جھانکا ہے تو نظر بلا روک ٹوک ایک عمودی گہرائی میں گرتی ہی چلی گئی ہمیں لگاکہ وہاں نیچےکوئی لہراتابل کھاتاچاندی کاتارہےجوچاندنی رات میں چمک رہاہے۔ کچھ دیرآنکھیں پٹپٹاتےجب دماغ مکمل بیدار ہواہماری آنکھوں کی پتلیوں پر گہرائی کی حقیقی اکائی منکشف ہوئی۔ نیچے، بہت نیچےپاتال میں جوچاندی کاتارلہرارہاتھا اصل میں بل کھاتا ٹھاٹھیں مارتا دریائے سندھ تھا اوپر بہت اوپر پربتوں کی چوٹیوں کی قربت میں تراشی سڑک چلتی چلی جارہی تھی اور کنارے پر محض چند انچ کی پٹی بس کے پہیوں کو گہری عمیق ڈھلان سے جدا کرتی تھی۔ اتنے میں بس نے ایک انتہائی تنگ موڑ کاٹا، ہمیں ایک بھمبھیری سی آئی اور اسی وقت ہمارے معدے میں کسی چیز نے جیسے کروٹ بدلی صاحبو ہمیں جگانے والا حوالدار تو گھوگ سو گیا، ہمیں ساری رات نیند نہیں آئی۔ یہ کہنا تو کسرِ بیانی (understatement) ہوگا کہ ہمیں نیند نہیں آئی۔ اس جاگتی پہلو بدلتی رات میں جب جب بس نے کوئی موڑ کاٹا اور وہاں تو قدم قدم پر نازک موڑ تھے ہمارا کلیجہ اچھل کر منہ کو آیا ہمیں یادہےپی ایم اےکی ایک میپ ریڈنگ ایکسرسائزمیں ہم مانسہرہ آئےہوئےتھے۔ وہاں ایک پہاڑی پربیٹھ ہمیں شنکیاری سےپرےدورافق پر پہاڑوں کاہیولہ نظرپڑاتوہم نےسوچا کہ یہ چوٹیاں کوہستان کاآغازہیں اوران کےپیچھےجو لہر داردیومالائی ہمالہ اورقراقرم اوران کے پہلو سے لگاہندوکش کا سلسلۂ کوہ ہے اس کا فسوں بھی کیا فسوں ہوگا! ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کوہستان کا سلسلۂ کوہ جبکہ وہ لہراتا بل کھاتا سندھ کو نیچے چھوڑتا اوپر کو پرواز بھرتا ہے تو چاندنی رات میں دیکھنے والوں کی نیندیں اُچاٹ کردیتا ہے
ابھی تک تو ہم دنیا کی چھت کو تصور کی آنکھ سے ہی دیکھا کیے تھے پرواز کیے بغیر اس قدر بلندی پر پہلی بار آئے تھے۔ بشام سے آگے پٹن کی قربت میں کوہستان کے بام پر چڑھے عمران کو مانسہرہ کے خاکساروں پر بڑا ترس آیا
تمہیں خاکساروں کی کیا خبر کبھی نیچے اترے ہو بام سے
اس بقیہ رات ہم سو تو نہ سکے مگر جیسا کہ دل کملے کا دستور ہے ہر موڑ کے بعد اگلے موڑ اور پھر اس سے اگلے موڑ تک قرار آتا گیا اور ہم کچھ پرسکون سے ہوگئے کہ جب یہاں تک آ ہی گئے ہیں تو اگلی منزلوں پر بھی خدا نے چاہا تو پہنچ ہی جائیں گے۔ اور اسی اُدھیڑ بن میں ہم نے چلاس سے کچھ آگے رائے کوٹ کی قربت میں دن طلوع ہوتے دیکھا صاحبو اگرہم سےکوئی پوچھےکہ پہلامحبوب لمس، اوّلین بوسہ اور قریۂ محبت میں دھراپہلاقدم کیساہوتا ہے تو بے اختیار کہہ اٹھیں گےکہ آپ نےکبھی نانگا پربت کی قربت میں جہاں ہمالیہ اور قراقرم ایک دوسرے سےگلے ملتےہیں اور ہندوکش ان کی پگ بوسیاں لیتاہے سورج کی روپہلی کرنوں کوطلوع ہوتےدیکھاہے!
ہمارا ہم سفر حوالدار جسکا تعلق توپخانے کی 38 فیلڈ رجمنٹ سے تھا اور موصوف کا خود کا ان پہاڑوں میں یہ پہلا یا دوسرا سفر تھا، ہمیں کوہستان کی بلندیوں میں نیند سے اُٹھا کر ہم پر ایک احسانِ عظیم کر گیا تھا۔ بہت بعد کی رتوں میں ہم بارہا شاہراہِ قراقرم سے گزرے اور ایک دفعہ تو سوزوکی مہران سیالکوٹ سےڈرائیو کرکےسکردوگئےاورواپس راولپنڈی آئے، ہم آج تک دریائے سندھ کی قربت میں اپنےوجود پر اترتی نم ٹھنڈک اور پربتوں کی اُس نگری جسےلوگ دنیا کی چھت کہتے ہیں میں طلوعِ آفتاب کامنظرنہیں بھولے
دیکھیےشاہراہِ قراقرم کےلچھےدارسفرکا ذکر آیاتو ہمارا قلم بےقابو ہوگیا اس دلربا راستے پر سفر کی کتھا تو ایک الگ داستان ہے جسے ہم کہیں اور کہیں گے۔ فی الحال تو ہم بتانا یہ چاہ رہے تھے کہ راستے کے منظرنامے کی دلکشی اپنی جگہ، راولپنڈی تا سکردو بس کا سفر براستہ دو مختصر سٹاپ ایٹ مانسہرہ اینڈ جگلوٹ مکمل چوبیس گھنٹے کی قیدِ بامشقت ہے جس کے خاتمے پر تشریف کوباقاعدہ ارادےاورعمل کی پختگی سےنشست سےالگ کرنا پڑتاہے۔ کمرکاکُب واپس ہونےاورجُسّےکامجموعی پوسچراپنی اصل حالت میں بحال ہونے میں اگلے چوبیس گھنٹے لگتے ہیں۔ دماغ کو چڑھی بھمبھیری اپنے مشتاق احمد یوسفی کےزرگزشت والے’دف‘ کی طرح ہےکہ
دف کا مرناکھیل نہیں ہے، مرتے مرتے مرتا ہے اب ایسے میں جومہاپرش اسلام آباد سے ٹکٹ کٹا پی آئی اے کے بوئنگ 737 کی آرام دہ نشست پر نیم دراز لگ بھگ 50 منٹ میں سکردوکے ہوائی اڈے پر اتر گیا ہو تو بریگیڈ میس میں چوبیس گھنٹے کے مشہ بروم کے سفر سے کمھلائے چہروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال چہکنا تو بنتا ہے ’خواتین و حضرات، حفاظتی بند باندھ لیں، کرسی کی نشست سیدھی کر لیں ۔۔۔۔۔ الخ‘
جو میجر زاہد چشتی تھے عباسیہ کی آستانۂ عالیہ چشتیہ آلسو نون ایز کیوبک بیٹری حال مقیم رمضان گن پوزیشن، سطحِ سمندر سے بلندی 14000 فٹ کے بیٹری کمانڈر تھے
اس دن گو کہ پی آئی اے کے پی اے سسٹم کی ریکارڈنگ آپکے وردِ زبان تھی، مگر آپکا تکیہ کلام کچھ اور تھا
’بہترین ماحول، ہوادار کمرے، فلش سسٹم‘
کوئی عقل و دانش کی بات منہ سے نکل جائے یا کوئی نکتہ سمجھانا مقصود ہو تو جملے کو اوپر بیان کی گئی عبارت کا لاحقہ لگاتے۔ طبیعت میں جلال کی آمد آمد ہو تو جملے کو اسی عبارت سے کک سٹارٹ کرتے، بات کرتے کرتے کہیں اٹک جائیں یا کوئی سرا ہاتھ سے چھوٹ جائے تو اسی ’بہترین ماحول‘ کے سلف سے پلگ میں آیا کچرا صاف کرتے
یہ عبارت ممکن ہے آپکو مانوس لگے، ہمیں بھی پہلے پہل لگی تھی۔ بھلے وقتوں کے بس اسٹینڈ یا پھر ریلوے اسٹیشن کے باہر مسافر خانوں کی قطار اپنی مارکیٹنگ کے لیے اسی پنچ لائن پر انحصار کرتی تھی۔ ’بہترین ماحول، ہوادار کمرے، فلش سسٹم‘۔ صاحب اس ترکیب کے آخر میں جو نویدِ مسرت ہے اس نے بقیہ دو خصوصیات میں بھی جان سی ڈال دی ہے۔ کیا دور تھا، بڑے شہروں میں بھی فلش سسٹم ہر جگہ نہیں تھا اور جہاں تھا وہاں اشتہار کے ذریعے اطلاع بہم پہنچائی جاتی تھی صاحبو دنیا کی طرح ہمارے شہروں نے بھی ترقی کرلی مگر سطحِ سمندر سے آٹھ ہزار فٹ سے پرے پرے دنیا اور ہماری فوج آج بھی بھلے وقتوں کے کیلنڈر پر چل رہی ہے۔ ہمارے ہر دلعزیز میجر زاہد چشتی ملتانی ؒ کے تکیہ کلام کی افادیت کا اندازہ ہمیں فرنٹ لائن پوسٹ پر ہوا کسی ترکیب سےہمالہ کی بلندیوں پر ایک باہر کو نکلی نسبتاً ہموار چٹان کے بیچوں بیچ بارود لگا کر لگ بھگ ایک فٹ قطر کا سوراخ کرکے چو اطراف دیواریں کھڑی کر دیں تو چودہ ہزار فٹ کی بلندی سے بایو ڈیگریڈیبل ویسٹ کی فری فال کے وقت سمجھ میں آتا ہے کہ فلش سسٹم کتنی بڑی نعمت ہے۔
میجر چشتی مرنجانِ مرنج یار باش قسم کے افسر تھے اور سچی بات بتائیں تو اپنے سبھاؤ میں افسر تو کہیں سے بھی نہیں لگتے تھے۔ آستانہ عالیہ (سیاچن میں رمضان گن پوزیشن اور اگوکی میں کیوبک بیٹری ہیڈ کوارٹر) مرجع خلائق تھے۔ پکے رنگ پر ہنسی اور بھی کِھلتی تھی مگر میجر صاحب گرداس مان کے گیت کے مکھڑے کی طرح ہونٹوں سے کب ہنستے تھے
بُلّیاں چوں لوک ہسدے توں اکھیاں چوں ہسدی ایں
خود بھی سخی بادشاہ تھے اور اسی نام کی فلم کے میڈم نور جہاں کے نغمے پر دل و جان سے عاشق تھے
کی دم دا بھروسہ یار
دم آوے نہ آوے
چھڈ جھگڑے تے کریے پیار
دم آوے نہ آوے
وہ تو فوجی قواعد و قوانین مانع تھے ورنہ میڈم نور جہاں کا گایا یہ گیت 14 عباسیہ کی کیوبک بیڑی کا ترانہ ہونا تھا کہ یہی ہمارے میجر چشتی کا کل فلسفہ حیات تھا۔ ہم نے انہیں کبھی کسی سے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ جھگڑنا تو دور کی بات غصہ کرتے بھی نہیں دیکھا
صاحبوتصوف کے رائج الوقت تصورسے پرے اللہ کے ولی کی یہ پہچان بھی تو ہے کہ مخلوق سے خوشدلی اور حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ اپنے شاعرِ مشرق بھی تو کہہ گئے ہیں
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
سکردو کےایک سفرکی روداد میں ہم نےاللہ کے ولی 14 عباسیہ کے میجر زاہد چشتی ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کو یاد کیا آپ سے ملے اور آپ کو دیکھے عرصہ ہوا مگر آپکی یادیں آج بھی ویسی ہی دلکش اور اتنی ہی تر و تازہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ صحت اور تندرستی کے ساتھ آپ کی عمر دراز کرے اور آپکو یونہی ہنستا کھیلتا شاد و آباد رکھے
آمین، ثم آمین