حافظ معاویہ مسجد کے احاطے سے گزر کر زنجیر سے بندھے لوٹے میں پانی بھرنے لگا ۔ وضو کرنے کے بعد کندھے سے سرخ ڈبیوں والے تکونی رومال سے منہ پونچھتا ہوا نماز جمعہ کے لئے اندر چلاگیا ۔۔ اس کی عمر بمشکل بیس سال کے لگ بھگ ہوگی چہرے پر ہلکی داڑھی سفید قمیص ٹخنوں سے اونچی سفید شلوار سر پرعمامہ اور گلے میں لٹکتا سرخ سفید ڈبیوں والا تکونی روما ل اس کی الگ ہی شخصیت اور پہچان تھا ۔وہ سیدھا پہلی صف میں جاکرنفلوں کی ادائیگی کے لئے کھڑا ہوگیا ۔ جیسے ہی اس نے سلام پھیرا ۔ مولوی صاحب نے مسکراتی ہوئی ا یک نظر اس پر ڈالی اور پھر پاس بیٹھے ایک بچے سے مخاطب ہوکر بولے ۔
''ہاں بھئی بڑے ہوکر کیا بنو گے ۔''؟
چار سال کے بچے نے پرجوش انداز میں رٹا رٹایا جملہ دہرا دیا ۔ '' مجاہد'' ۔
مولوی صاحب کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہوگئی ۔
ابھی مسجد لوگوں سے بھری نہیں تھی۔ جمعہ میں کچھ وقت تھا ۔ مولوی صاحب شاید اسی وقت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے ۔ بچے کو مخاطب کر کے پھر بولے
''ہاں بھئی تقریر آتی ہے ۔''؟ بچے نے اثبات میں سر ہلایا ۔اور تقریرشروع کردی ۔''پاکستان کے اس نظام میں ہم نہیں چل سکتے ۔ انقلاب، جہا دکے بغیر نہیں آسکتا.۔۔۔۔ نہیں آسکتا۔۔۔ ۔ نہیں آسکتا ۔'' پرجو ش تقریر سن کر مولانا صاحب نے خوش ہوکر اس کی پیٹھ تھپتھپائی ۔ اور حافظ معاویہ کے برابر بیٹھ جانے کا کہا ۔ ساتھ ہی جمعہ کی آذان کے لئے موذن کو اشارہ کیا ۔
آذان کے اختتام تک مسجد نمازیوں سے بھر چکی تھی ۔ مولوی صاحب خطبہ کے لئے اٹھے ۔ قریب کھڑے طالب نے آگے بڑھ کر ان کو سہارا دیا اور منبر تک پہنچنے میں مدد دی ۔ مولوی صاحب نے دعا دی ۔اللہ تمہیں شہاد ت نصیب کریں ۔ ایک ساتھ آمین کی صدا گونجی ۔
۔منبر پر بیٹھ کر پانی کے چند گھونٹ حلق میں اتارے ۔مجمع پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی ۔لکھی ہوئی تقریر کے صفحات کو ترتیب دیا اور مسنون آیات کی تلاوت کے بعد خطبہ کا کچھ یوں آغاز کیا ۔
براداران اسلام۔ !''جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے ۔دشمنوں نے چاروں طرف سے یلغار کر رکھی ہے ۔ مسلمان معصوم ہیں'' ۔ یہاں کچھ دیر رکے کھنکار کر گلہ صاف کیا اور جوشیلے انداز میں خطبہ جاری رکھا ۔'' تم جانتے ہو کچھ بے غٖیرت اور بے شرم اسلام کالبادہ اوڑھ کر ہمیں ہی گالیاں دیتے اور بدنام کرتے ہیں ۔ کون ہے تم میں سے جو جہاد کے لئے تیار ہے ۔ آج ان دشمنوں کو ختم کردو پہلے اپنے ہی ملک میں آسیتن کے چھپے ہوئے سانپوں کو تلاش کرو ۔ جو اسلام کی جڑیں کاٹ رہے ہیں ۔ یاد رکھو ہم اسلام کے محافظ ہیں ۔ ہم ہیں مجاہد ۔ یہاں رک کر انہوں نے حافظ معاویہ کی طرف گہری نظروں سے دیکھا '' یہ شہادت کا وقت ہے ۔'' پھر دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے خطبہ جاری رکھا ۔'' مجھ سے کچھ نادان پوچھتے ہیں ہمارے بیوی بچے ہیں ان کا کون سہارا بنے گا ۔ ارے نادانوں ان کا سہارا اللہ بنے گا ۔ تم جاو نکلو میدان جہاد کے لئے ۔۔ تم ان گندی مندی ضدی میلی کوچیلی بیویوں کی بات کرتے ہو ۔ جن سے بدبو اٹھتی ہے ۔ تم دنیا کی فاحشہ عورتوں کے چکر میں جنت کی پاکیزہ بیویوں کو کیوں بھول جاتے ہو ،یہ سب عقل کے دھوکے ہیں دل کی یہ خوشی فہمی ہے اور خوش گمانی ہے یہاں کانٹے ہی کانٹے ہیں ۔ ہر پل ہزاروں کہانیاں غموں کے قصے ۔ ان سب کے لئے جنت کو بھلا دینا بڑی ہی بیوقوفی اورنادانی ہے ۔ ۔میرے بھائیو پاگل ہے وہ نوجوان جو جوانی کی لذ ت جو محض چند دن کی ہے اس کے پیچھے جنت کی لذت حوروں کی لذ ت کو پیچ دے اور دنیا کی فاحشہ عورتوں کی لذت کو لے ۔
برادران اسلام اب میری بات غور سے سنیں ۔
دنیا کی عورتوں اور جنت کی حوروں کے درمیان بات چیت ہوگی ۔ جنت کی حور کہے گی ہم نے تو موت کا ذائقہ ہی نہیں چکھا ہم تو ہمیشہ سے وفادار ہیں ۔ ہم نا بوڑھی ہوتی ہیں اور نا ہی مرتی ہیں ۔اور ناآپس میں لڑتی ہیں ۔ اب بتاو بھائیو تمہاری بیویاں ان حوروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہیں ۔ ؟
تو سوچو میرے بھائیوں ایسی حوریں جن کا پسینہ مشک جیسا ہوگا ۔ ان کو حوائج ضروریہ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی ۔ ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے حسن و نزاکت کی وجہ سے گوشت کے اندر سے نظر آئے گا ۔ ان کی آنکھیں اپنے خاوندوں کے علاوہ غیر کو دیکھنے سے پاک ہوں گی ، وہ بے غیرت نہیں ہوں گی ۔ غیرت میں آکر تم لوگ جو اپنی عورتوں پر تیزاب پھینک دیتے ہوں یا قتل کر دیتے ہو یا زندہ جلا دیتے ہو وہاں ایسا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا ۔ یہ دنیا کی عورتوں کی طرح کی عورتیں نہیں ہوں گی ۔ ایک مرد کو ہزاربلکہ اس سے بھی زیادہ حوریں ملیں گی ۔تومیرے بھائیوں جہاد کے لئے نکلو او رحوروں کو حاصل کر لو جو تمہاری منتظر ہیں ''۔
مولوی صاحب صاحب تھوڑی دیر کے لئے رکے پانی کا گلاس اٹھا کر دوتین گھوںٹ پیئے تمام نمازیوں پر ایک نظر ڈالی اور پہلے سے بھی زیادہ جوش اور جزبے کے ساتھ بولے ' ۔ مجھے امید ہے پوری دنیا میں اللہ تعالی کا اسلامی نظا م نافظ ہو کے رہے گا ''۔مسجد میں موجود نمازیوں نے ہاتھ اٹھا کر ایک ساتھ کہا '' ان شاء اللہ'' ۔ ۔ ''کیا تم اسلام کے لئے اپنی جانیں دو گے ۔''؟ مجمع مین جو ش پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا ''ان شاء اللہ'' ''کیا تم اسلام کے لئے جیل جانا پڑے تو جاو گے ۔''اب کچھ جوشیلے نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے اور مولانا صاحب کے بیان کی پرجوش تائید کی گئی ۔اس کے بعد مسجد الجہاد الجہاد کے نعروں سے گونج اٹھی ۔
مولوی صاحب کا خطبہ گویا ہر نمازی کے دل کی آوا ز بن گیا ۔سب کو یہی محسوس ہورہا تھا کہ جیسے آج ایک دفعہ پھر ان کا ایمان تازہ ہوا ہے ۔ ، جہاد کا شوق اور حوروں سے ملنے کا اشتیاق جوش مارنے لگا ۔
حافظ معاویہ نماز کی ادائیگی کے بعد حال کمرے سے باہر نکلا صحن میں رکھے کولر کی طرف بڑھا زنجیر سے بندھے گلاس میں پانی ڈالنے لگا ۔ مولوی صاحب کے خطبے نے اس کی پیاس اور بھی بڑھا دی تھی ۔ تھکے تھکے قدم اٹھاتا گھر کی طر ف روانہ ہو ا۔ اس کے دماغ میں مولوی صاحب کا خطبہ گونج رہا تھا ۔
مولوی صاحب کے کہے گئے ہر لفظ نے اسے اپنے حصار میں لے لیا تھا ۔ گھرقریب آنے پر ٹاٹ کا بوسیدہ کپڑا اٹھایا او ر سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا ٹوپی دروازے کے پیچھے لگے کیل سے لٹکائی ۔ تسبیح کو تکیے کے نیچے رکھا ۔ مقدس کتاب کو چوم کر واپس طاق پر رکھ کر باہر نکلا ۔ اچانک ماں کی کھانسی نے اس کے چہرے کے تاثر کو فورا بدل دیا اور ایک ناگواری سی ابھر آئی ۔
''بھائی ماں کی دوائی؟ ۔ '' ۔ گل مینا سراپا سوال بنی اس کے سامنے کھڑی تھی
''میں جمعہ سے آرہا ہوں کوئی سیر کرنے نہیں گیا تھا'' ۔حافظ معاویہ کے لہجے میں طنز اورغصہ تھا ۔
'' بھائی وہ ماں اس کی طبیعت بہت خراب ہے ''۔ گل مینا کو تشویش ہورہی تھی ۔ جب سے آپ جمعہ پر گئے تب سے کھانس کھانس کے برا حال ہے ۔ گل مینا روہانسی ہورہی تھی ۔ ایک موٹا سا آنسو نکل کر اس کی گال سے بہتا ہوا کچی زمین میں دفن ہوگیا ۔
'' اچھا تمہیں بہت خیال ہے ماں کا خود لے آتی جاکے دوائی ۔ اتنی عقل نہیں تم میں کہ آج جمعہ ہے اور دکانیں بند ہیں ۔ عجیب جاہل عورتیں ہیں۔''
''دنیا کی عورتیں'' ………..،..'' دنیا کی عورتیں'' ۔معاویہ کے دماغ میں ہتھوڑے بن کر یہ الفا ظ گونجنے لگے ۔ اس کی جھنجھلاہٹ اور بھی بڑھ گئی
''لیکن بھائی …….۔۔۔۔۔ گل مینا کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گئے ۔
''خاموش ہوجاو''۔۔۔۔ وہ چلایا ۔..''ایک تو گھر میں کوئی سکون نہیں لینے دیتا ۔ساری رات ماں کھانس کے جگاتی رہتی ہے دن کو تم میرا دماغ چاٹتی ہو ۔ میں ہی چلا جاتا ہوں گھر سے'' ۔حافظ معاویہ کی آواز میں غصہ اور آنکھوں میں انگارے دہک رہے تھے ۔
ایسے میں ماں کی کمزور آواز آئی ۔
''کیوں بھائی سے بحث کرتی ہے بھائی کو کھانا دے ۔ بھوکا ہے تھک گیا ہوگا ''۔ابھی شاید وہ اور بھی کچھ کہنا چاہتی تھی کہ کھانسی کاشدید دورہ ایکدفعہ پھر پڑ گیا ۔
گل مینا جلدی سے ماں کے پاس آئی پانی کا گلاس ماں کے ہونٹوں سے لگایا ۔اس وقت گل مینا خود کو انتہائی بے بس اور لاچار محسوس کر رہی تھی ۔ اسے یاد تھا کہ ماں نے کیسے بھائی کی ہر جائز اور نا جائزضرورت پوری کی ۔ کتنا پیار کرتی تھی ماں چھوٹے معاویہ سے ۔ ایک دفعہ مدرسہ میں داخلے سے پہلے کھیلتے ہوئے چوٹ لگی تو ماں نے نا دن دیکھا نا رات اس کے بستر سے لگی رہی ۔ اور جب تک وہ مکمل صحت یاب نا ہوگیا اس کے پا س سے نا ہٹی ۔ او رآج ماں بیمار ہے تو ۔۔۔ وہ یہ سب سوچ کر تڑپ کر رہ گئی ۔ اس نے
روٹی کے ساتھ رکابی میں سالن او ر پانی کا گلاس ایک ٹرے میں رکھا کر خاموشی سے بھائی کو دے آئی ۔
حافظ معاویہ کھانا کھاتے ہوئے سوچ رہا تھا اچھا ہی کرتے ہیں وہ مرد جو عورتوں پر تشد د کرتے ہیں ۔ ان پر تیزاب پھینکتے ہیں ۔ ان کو پاوں کی جوتی بنا کر رکھتے ہیں ۔ اونہیہ عورت تو ہے ہی ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ۔ان کی الٹی کھوپڑی میں کوئی بات آتی ہی نہیں ۔ جاہل عورتیں ۔اب ان بھیڑ بکریوں کو جہاد بالنکاح میں استعمال کیا جائے گا ہاں اس سے اچھا مصرف ان کا ہو ہی نہیں سکتا ۔ وہ غصے سےپھنکارہ۔
۔ اچانک اسے لوبان اور مشک کی خوشبو اپنے ارد گرد محسوس ہوئی ۔اسے یوں لگا جیسے ہزاروں حوریں قطار در قطار سربستہ اس کے سامنے کھڑی ہیں ان کے جسم شیشہ کی مانند ایسے شفاف کہ آر پار دیکھا جاسکتا ہے حافظ معاویہ والہانہ انداز میں اس تصور میں کھو سا گیا ۔ اور پھر بے اختیا ر مسکرا دیا ۔
اس کی اڑان بہت اونچی تھی وہ پائیلٹ بننا چاہتا تھا ۔ پر ابا نے اسے قریبی مدرسے میں ڈال دیا جہاں ابتدائی دینی تعلیم کے ساتھ قرآن بھی حفظ کر وایا جاتا تھا ۔ معاویہ نے بتہرا کہا کہ وہ دنیا وی تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتا ہے مگر مدرسے کے مولوی صاحب نے اسے فساد کی جڑ قرار دے کر معاویہ کے ابا کو اس کے حصول سے سختی سے منع کر دیا ۔ اصل تعلیم تو یہی دینی تعلیم ہے جو آخرت کو سنوارتی ہے ۔ مولوی صاحب ابا کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ معاویہ کے مدرسے میں داخل ہوجانے سے گھریلو اخراجات میں نمایا ں کمی آگئی تھی ۔ اس کے کھانے پینے رہائش کا مسئلہ بھی حل ہوگیا تھا ۔ پھر ابا کی اچانک حادثاتی موت سے گھریلو اخراجات بھی مدرسے نے اٹھالئے ۔ ایک معقول رقم گھر پہنچ جاتی ۔ معاویہ کو بس جمعہ کو گھر جانے کی اجازت تھی ۔شروع میں تو اسے زنجیروں سے باندھنا پڑتا تھا ۔ اسے ماں کی یاد پل پل ستاتی تھی ۔ مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسے جیسے صبر آگیا تھا ۔ لیکن اب جب بھی وہ گھر آتا ہمیشہ اکھڑا اکھڑا اور بے زار رہتا ۔
فضا میں حبس بڑھتا جارہا تھا ۔سرخ آندھیاں اور بارش روز کا معمول بن گئیں ۔ ۔ ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلنے لگیں ۔ساتھ ہی روزگار کے بھی کئی مواقع پیدا ہوگئے ۔ کفن دفن کا انتظام ہونے لگا ۔ لوگ اپنے عزیزوں کے لاشے دفناتے اور کچھ دن کی خاموشی کے بعد پھر نماز جنازہ کے لئے صفحیں درست کرنے لگتے ۔ اب شاید ہی کوئی گھر ایسا تھا کہ جس کے عزیز رشتے دار اپنے پیارے کسی نا کسی بم دھماکے کا شکار نا ہوئے ہوں۔
حکومتی مشینری حرکت میں آئی گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ دہشت گرد گرفتار کر لئے گئے ۔ ان کے خیالات جاننے کے لئے پوچھ گچھ کی جانے لگی ،سب کا حلیہ ایک سا تھا سفید قمیص ٹخنوں سے اونچی شلوار کندے پر تکونی رومال مگر عمامہ کی جگہ اب سر پر سفید ٹوپی تھی ۔ایک دہشت گرد کو پکڑ کر کمرے میں لایا گیا قدرے اندھیرا کرکے اس کی شناخت کو چھپانے کی کوشش کی گئی ۔ پولیس آفیسر سوال کیا ۔ اگر آپ رہا ہوگئے تو کیا پھر بھی آپ اسی رستہ پر چلیں گے ۔ ؟ کیا آپ کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی ۔؟
''نہیں جی نہیں ہرگز نہیں آئے گی ۔ان شاء اللہ ۔'' اس کے لہجہ پر اعتماد تھا
''یہ جو خود کش حملے میں ''۔۔۔ خود کش بمبار نے فورا بات کاٹتے ہوئے کہا
''خود کش نہیں ۔ فدائی کہیں ۔ ہم فدائی حملہ کرتے ہیں ۔'' اس کی آواز بلند اور زیادہ پرجوش ہوگئی
''کیا آپ سب سے بدلہ لیں گے ۔'' ؟ آفیسر نے پوچھا
میں سب سے بدلہ لوں گا ۔ جتنا ہوسکا اتنا لوں گا ۔ اس میں چاہے میرے گھر والے بھی آجائیں اگر میں کہیں بلاسٹ کرنے جارہا ہوں میرے گھر والے مجھے نظر آجاتے ہیں میں بلاسٹ ضرور کروں گا ۔ جو بھی جہاد کے خلاف ہے امریکہ کے ساتھ ہے میں اسے ختم کر دوں گا ۔ اس کے لئے مجھے بے شک دس کی جگہ سو بھی مارنے پڑے میں مارو ں گا ۔ یہ ہمارے امیر کا حکم ہے ۔'' اس کا لہجہ مستحکم تھا
گل مینا دکان سے ماں کی دوائی لینے آئی تھی۔ سامنے رکھے ٹی وی سے انٹرویو نشر ہورہا تھا۔ گل مینا نے چونک کر ٹی وی کی طرف دیکھا۔وہ ایک دم ٹھٹک گئی ۔درد کی کئی لہریں اس کے بدن میں سرایت کر گئیں ۔اس سے پہلے کہ وہ لڑکھڑا کر گرتی اس نے فورا کاونٹر پر مضبوطی سے اپنا ہاتھ جما دیا ۔ وہ اپنے بھائی کو کیسے نا پہچانتی ۔ اس کا خون تھا وہ ۔ مگر بھائی کا خون تو جیسے بالکل ہی سفید ہوگیا تھا، شائیں شائیں کرتے کانوں میں ایک باربار اس کے الفاظ ہتھوڑے کی طرح بجنے لگے '' میرے گھر والے مجھے نظر آجاتے ہیں تو میں بلاسٹ ضرور کروں گا'' ۔۔۔ اس کی نظر پھر ٹی وی پر جم گئیں ۔
ٓآپ کے گھر والوں کو پتہ ہے کہ آپ کس رستے پر جارہے ہیں ؟کیا انہوں نے اجازت دی آپ کو ؟
نہیں ۔ جب جہاد فرض ہوجاتی ہے تو والدین کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ۔
آپ نے شادی نہیں کی ؟شادی کی کوئی خواہش ؟ آفیسر نے آخری سوال پوچھا
''نہیں نہیں بالکل بھی نہیں ۔۔ حافظ معاویہ نے تیزی سے جواب دیا اور پھر زیر لب مسکرا کر بولا '' جب بہتر حوریں انتظار کر رہی ہیں ۔ تو یہاں کی ایک کو لے کر کیا کرنا ہے ۔''
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1721016114831755/
“