بہتر از ملاقاتِ مسیحا و خضر ــــ
یعنی کہ حد ہوگئی۔
مگر غائب دماغی کی کوئ حد نہیں.
یہ عید اس اعتبار سے یادگار بن گئ تھی کہ ساڑھے بارہ کے قریب اچانک ہمدم دیرینہ اور مشفق دوست جناب ڈاکٹر عارف نوشاہی کا فون آیا کہ اگر آپ گھر پہ ہیں تو میں پندرہ بیس منٹ میں آپکے ہاں آسکتا سکتا ہوں. میں اس وقت کسی عزیز کی طرف نکل چکا تھا مگر اس دولتِ بیدار کی یوں آمد کی خبر سنکر جواب دیا کہ چشمِ ما روشن ضرور تشریف لائیے اور بھاگم بھاگ واپس گھر لوٹ آیا. ڈاکٹر صاحب ویسے تو اسلام آباد میں مقیم ہیں مگر روزِ عید واہ کینٹ تشریف لائے تھے اور وہاں سے فون کیا تھا. حسبِ وعدہ ٹھیک بیس منٹ بعد نوشاہی صاحب مع اپنے ایک صاحبِ علم دوست جناب محمد عبد اللہ قادری کے تشریف لے آئے.
عارف نوشاہی صاحب اس وقت فارسی زبان و ادب، مخوطہ شناسی اور ہند ایران توران میں تحیقیق کے میدان کے ایسے گوہرِ نایاب ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں فارسی زبان و تحقیق کا چرچا ہے وہاں انکے نام کا ڈنکا بجتا ہے.
آکے بیٹھے تو بتایا کہ چند روز پہلے اچانک فون کی گھنٹی بجی. دوسری طرف سے آواز آئ
"میں الہ آباد سے شمس الرحمن فاروقی بول رہا ہوں. ایک ادبی اصطلاح ہے "نخل بندی" اس کا مطلب پوچھنا تھا"
یعنی اس سطح کے عالم ہیں ہمارے نوشاہی صاحب کہ آج کی اردو فارسی کا ایک بہت بڑا نابغہ ـــ شمس فاروقی ـــ انہیں انڈیا سے فون کرکے استعانت چاہتا ہے.
نوشاہی صاحب باتیں بھی کرتے رہے اور دیوانہ بکار خویش ہشیار کے مصداق چائے پانی کے وقفے کے دوران میری کتابیں بھی ٹٹولتے رہے اور "مصطلحات الشعرا" اور "کلاسیکی ادب کی فرہنگ" جو نظر آئ تو اسمیں سے نخل بندی کی سندیں بھی تلاشتے رہے. یہ محفل ایک ڈیڑھ گھنٹہ رہی اور پھر انکی معیت میں میں بھی مقبرہ لالہ رخ کی طرف نکل گیا کہ جہاں گھر سے دس منٹ کی دوری پر اور روز کا رستہ ہونے کے باوجود میں بھی سالہا سال کے کے بعد جا پاتا ہوں.
افسوس کہ تحقیقاتِ ادبیاتِ فارسی کے اس نایاب محقق کی اپنے گھر آمد کا ذکر کرنا ٹلتے ٹلتے ٹل ہی گیا.
یعنی کہ حدِ بیروں از حد ہی ہوگئ میری غائب دماغی کی.
آگے کی روداد ذرا نوشاہی صاحب کے قلمِ گوہر بار سے:
"عید فطر ۱۴۳۹2018/ کا دن
حسب روایت صبح بڑے بھایی صاحب اپنے بچوں کے ساتھ عید ملنے آے،
ایک مدت سے ڈاکٹر سفیر اختر صاحب سے ملاقات نہیں ہویی تھی، ان سے ملنے اور انھیں اپنی کتاب پنجاب میں فارسی ادب جس کا انتساب انھی کے نام ہے ، پیش کرنے ، نیو واہ سٹی گیا اور اس کتاب کے ساتھ دیگر جدید مطبوعات پیش کیں۔ واہ ہی کے ایک محلہ احمد نگر میں ہمارے قدیم دوست سید محمد عبداللہ قادری رہتے ہیں ،انھیں بھی اپنی جدید کتب پیش کیں، پنجاب میں فارسی ادب کے ایک مقالےغلام حسین ساہو والا کا فارسی کلام کسی زمانے میں قادری صاحب نے مہیا کیاتھا۔قادری صاحب نے اپنے اہتمام سے چھاپی کچھ کتب عنایت کیں۔واہ سے حسن ابدال کی مسافت چند کلو میٹر ہی ہے ۔ گورڈ ن کالج کے زمانے کے ایک قدیم ہمکار ڈاکٹر عزیز ابن الحسن وہاں رہتے ہیں ان سے ملنے حسن ابدال گیا۔ انھوں نے بھی اپنی ایک کتاب عنایت کی۔ حسن ابدال میں کچھ تاریخی آثار بھی ہیں ،مجھے حکیم ابوالفتح گیلانی کا مقبرہ دوبارہ دیکھنے کا اشتیاق تھا۔یہ مقبرہ باغ لالہ رخ کے اندر واقع ہے۔وہاں گیے تو اس باغ کو محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے تالا لگا ہوا تھا اور باہر سے مقبروں ، باغ اور تالاب کی جو حالت دیکھی گیی وہ افسوس ناک اور اپنے تاریخی آثارسے بے اعتنایی کا بین ثبوت تھا۔ یہ باغ گورودارہ پنجہ صاحب کے بالمقابل واقع ہے۔ گورودوارہ میں جانے کی اجازت تو نہ ملی لیکن باہر سےایک جھاتی ڈال لی۔ یہ تصاویر آج کی مصروفیات کی ہیں۔ اس سفر میں میرے چھوٹے بیٹے شایان حسن نےہمراہی کی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“