(Last Updated On: )
بیگم قدسیہ اعزاز رسول کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہونے والی ان خواتین میں جنھوں نے ہندوستان کے آئین کا مسودہ تیار کیا، آپ واحد مسلم خاتون تھیں۔ہندوستانی آئین کا مسودہ تیار کرنے والے کل ۳۸۹؍ ممبران میں پندرہ خواتین تھیں۔جن کے نام اس طرح ہیں ۔۔
امّو سوامی ناتھن، دکشیانی ویلایودھان، بیگم قدسیہ اعزاز رسول، درگا بائی دیش مکھ، ہنسا جیو راج مہتا، کملا چودھری، لیلا رائے، مالتی چودھری، پورنیما بینر جی، راج کماری امرت کور، رینوکا رے، سروجنی نائیڈو، سچیتا کرپلانی، وجے لکشمی پنڈت، اینی میسکارین۔
Ammu Swaminathan, Dakshayani Velayudhan, Begum Qudsiyyah Aezaz Rasool, Durga Bai Deshmukh, Hansa Jivraj Mehta, Kamla Chaudhry, Leela Roy, Malati Chaudhry, Purnima Bannerji, Rajkumari Amrit Kaur, Renuka Ray, Sarojini Naidu, Sucheta Kripalani, Vijaya Laxmi Pandit, Annie Mascarene
ہندوستانی آئین کی دستور ساز اسمبلی کے منتخب اراکین کے ذریعے بنایا گیا آئین ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو نافذ ہوا اور عموماً اس کا سہرا ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے سر باندھا جاتا ہے۔کچھ مرد اراکین کے نام کبھی لے لئے جاتے ہیںمگر اس عمل میں شامل خواتین کو لوگ شائد ہی جانتے ہوں۔ان خواتین نے حقوق نسواں ، بندھوا مزدوروں کے مسائل وغیرہ پر ہونے والے مباحثوں میں اپنی رائے کا بھر پور اظہار کیا۔ان خواتین سیاستدانوں کی زبردست اہمیت ہے جن کا ورثہ ہمیں جد و جہد آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔ان کے کارہائے نمایاں کو خاطر خواہ مقام نہ مل سکا البتہ انھیں آزادی خواہوں کے روپ میں جانا گیاجب کہ یہ سب بیسویں صدی کی ہندوستانی سیاست کی اہم شخصیات تھیں۔ ان پندرہ خواتین نے ہندوستان میں حقوق نسواں کی حقیقی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔انھیں women architect of India کہنا درست ہوگا۔ا ن خواتین نے ہماری کثیر الثقافتی قوم کی شناخت برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جس کا ثبوت ہماری آئین سازی کی دستاویزات ہیں۔آج جب آئینی عقائد پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں ، ایسے میں ان بہادر خواتین کو یادکرنا لازمی ہے جن میں ایک نام بیگم قدسیہ اعزاز رسول کا بھی شامل ہے۔
بیگم قدسیہ کے والد سر ذو الفقار پنجاب کی مالیر کوٹلہ ریاست سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کی والدہ محمود سلطان لوہارو کے نواب علاء الدین احمد خان کی صاحبزادی تھیں۔قدسیہ نے اسی متمول گھرانے میں آنکھ کھولی۔۱۹۲۹ء میں ان کی شادی سنڈیلہ ، ہردوئی ، اتر پردیش کے ایک تعلقدار نواب اعزاز رسول سے ہو گئی۔شادی کے دو سال بعد ۱۹۳۱ء میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔اب بیگم قدسیہ مستقل طور پرسنڈیلہ میں رہنے لگیں۔ وہاں انھیں بیگم اعزاز رسول کا خطاب دیا گیااور اسی سے ان کی شہرت ہوئی ۔اتفاق سے ان کے مایکے اور سسرال دونوں جگہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لی جاتی تھی۔لہٰذاقدسیہ میں سیاسی رجحان بچپن سے موجود تھا۔وہ اپنے والد اور والدہ کے ساتھ اس وقت کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوتی تھیں۔ان کی سسرال میں پردے کی سخت پابندی تھی۔وہ اپنے شوہر کے ساتھ لکھنؤ میں رہتی تھیں جہاں وہ پردہ نہیں کرتی تھیں مگر جب سنڈیلہ آتیں تو ٹرین کے دروازے سے پردے دار پالکی لگ جاتی جس میں بیٹھ کر وہ گھر پہنچتیں۔وہ سنڈیلہ کی لڑکیوں کی ناچ گانے کی محفل میں شریک ہوتیں ۔آپ قوالی اور مشاعرے کی دلدادہ تھیں۔ لہٰذا ان محفلوں میں بھی تشریف لے جاتیں۔مالیر کوٹلہ تقسیم ہند کے دوران عموماً پر امن رہامگر دوسرے علاقے تشدد زدہ تھے جہاں قدسیہ بچپن میں اپنے والد کے ساتھ کام کرتی تھیں۔اس طرح ۱۹۲۰ء کے آس پاس ان کی ملاقات ممتاز قوم پرست شخصیات ، ، نو آبادیاتی حکام ، دانشوروں و دیگر قوم کے بہی خواہوں اور سیاست دانوں سے ہوتی رہی۔قدسیہ کے والد ایک عظیم قوم پرست تھے۔چونکہ وہ ایک ہندوستانی ریاست سے وابستہ تھے اس لئے کھل کر کسی سیاسی پارٹی سے اپنی دلچسپی کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔اس لئے انھوں نے خاموشی سے سوراج پارٹی کی حمایت تو کی مگر اس کی رکنیت نہیں لی ۔انھیں ڈر تھا کہ کہیں ان کے اس اقدام سے ان کی املاک ضبط نہ کر لی جائے اور ان کی اولاد اس ورثہ سے محروم رہ جائیں۔اس وقت ہندوستانی معاشرہ بری طرح فرقہ وارانہ سیاست کا شکار تھا۔۱۹۰۹ء میں انگریزوں نے ایک آئینی اصلاح کے ذریعے مسلمانوں کے لئے ایک علٰحدہ انتخابی حلقے کی تجویز پیش کر دی۔یہاں سے مذہبی اور ذات برادری کا تعصب زور پکڑ گیااور ہندو مسلم احیاء پرستوں کا کردار نمایاں طور پر دیکھنے کوملا۔نو آبادیاتی دور میں ایک طرح سے یہ ہندوستانیوں کی درجہ بندی کی مہم ہے۔بیگم قدسیہ نے ایسی مسموم فضا میں آنکھیں کھولیںاور سن بلوغ تک پہنچتے پہنچتے ان کا بھرپور مشاہدہ کیا۔۱۹۳۵ء میں گرنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی منظوری کے بعد نواب اعزاز رسول اور بیگم قدسیہ اعزاز رسول مسلم لیگ میں شامل ہو کر انتخابی سیاست میں داخل ہو گئے۔۱۹۳۷ء میں بیگم اعزاز رسول باقاعدہ انتخابی میدان میں اتریں۔وہ ان چند خواتین میں سے تھیں جنھوں نے یو پی کی غیر مختص سیٹ سے چنائو لڑا اور شاندار جیت درج کرائی۔وہ قانون ساز اسمبلی کے لئے منتخب ہوئیں اور ۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۰ء تک قانون سازکونسل کی نائب سر براہ رہیں۔۱۹۴۶ء میں وہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے لئے منتخب ہوئیں اور مسلم لیگ کے ان ۲۸؍اراکین میں سے ایک تھیں جنھوں نے با لآخر اس میں شمولیت اختیار کی۔اس وقت وہ پارلیمنٹ میں واحد مسلم خاتون تھیں۔۱۹۵۰ء میں ہندوستان میں مسلم لیگ تحلیل ہو گئی اور وہ کانگریس میں شامل ہو گئیں۔انھوں نے ۱۹۵۲ء سے ۱۹۵۴ء تک کونسل میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنی موجودگی درج کرائی۔وہ ہندوستان کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی پہلی خاتون تھیں جو اس مقام تک پہنچیں۔پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں ۱۹۵۲ء سے ۱۹۵۴ء تک کی مدت کے لئے پہلی راجیہ سبھا کی ممبرنامزد کیا۔ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۸۹ء تک کے لئے وہ اتّر پردیش قانون ساز اسمبلی کی رکن رہیں اور ۱۹۹۰ء تک اتّر پردیش قانون ساز کونسل کی رکن کے طور پر سرکاری عہدوں پر فائز رہیں۔وہ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۷۱ء کے درمیان سماجی فلاح و بہبود اور اقلیتی امور کی وزیر رہیں۔آپ تقریباً بیس برس تک اتّر پردیش خواتین ہاکی فیڈریشن کی صدر رہیں۔سنہ ۲۰۰۰؍ عیسوی میں ان کو سماجی فلاح و بہبود کے لئے عمدہ کارکردگی پر پدم بھوشن اعزاز بھی تفویض کیا گیا۔وہ ان ۷۴؍ خواتین میں سے ایک تھیں جنھوں نے ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو قومی پرچم کو قانون ساز اسمبلی کے چیر پرسن ڈاکٹر راجندر پرساد جی کو سونپا تھا۔الغرض بیگم قدسیہ کا ہندوستانی سیاست میں ایک طویل اور شاندار کیریر رہا ہے۔ان سب کے باوجود ہندوستان کی آئینی تاریخ میں ان کا ذکر کم ہی کیا گیاجب کہ آئین ساز اسمبلی کے مباحثے اور صوبائی سیاست پر عالمانہ تحریروں کے پانوشت یعنی فوٹ نوٹ میں ان کی غیر معمولی موجودگی درج ہے تاہم ان کے نام پر توجہ نہیں دی جاتی ، دانستہ یا غیر دانستہ ، اس پر غور کیا جا نا چاہئے۔دراصلجب مسلم خواتین کی بات آتی ہے تو تاریخی خاموشی ایک سنگین مسئلہ ہے۔حصول آزادی کے شروعاتی ایام میں ہندوستان میں مسلم خواتین پر پسماندگی کا دوہرا بوجھ تھا۔انھوں نے تقسیم ہند کے بعد سیاسی علحٰدگی پسندی کے ساتھ مسلمانوں کے تصادم کی وجہ سے اپنی حیثیت کو محدود پایا بلکہ ایک طرح سے مسلم خواتین کو تاریخ میں backward, mute, other سمجھا گیا۔انھیں کسی بھی صورت فعال جانا ہی نہیں گیا۔ان کی تحریکوں کو بھی تاریخ میں جگہ نہیں ملی۔ اس طرح انھیں انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد جنسی نا مساوات اور اقلیتی ہونے کی دوہری مار جھیلنی پڑی۔بیگم قدسیہ اس نابرابری کا شکار ہوئیں جس کا انھیں احساس تھا۔کس طرح نو آبادیاتی ہندوستان کے بعد کی مسلم خواتین نے اکثر قومی حیثیت کے خلاف مزاحمت اور اس کے مطابق اپنی شناخت پر انھوں نے گفتگو کی ،ان کے خطوط ، سوانح عمری اور آئین ساز اسمبلی میں ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۰ء کے دوران ان کی ہونے والی تقریروں سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ا نھوں نے طبقاتی ، صنفی اور مذہبی پس منظر کی اپنی متعدد شناختوں پر بات کی ۔ان کی سوانح عمری From Purdah to Parliament, A Muslim Woman in Indian Politics ۲۰۰۱ء میں آئین ساز اسمبلی میں ان کی بحث کے ۵۱؍ برس کے بعد شایع ہوئی جسے ان کی محتاط دستاویز کہا جا سکتا ہے۔ان کی ایک اور کتاب Three Weeks in Japanہے ۔اس کے علاوہ وہ مختلف اخبارات اور رسائل میں بھی لکھتی رہیں۔غیر منقسم ہندوستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کی واحد مسلم خاتون رکن ہونے کے ساتھ ہی بیگم قدسیہ کے ساتھ کئی فرسٹ جڑے ہوئے ہیںمثلاً وہ پہلی مسلم خاتون ہیں جو برطانوی حکومت کے دور میں ایک غیر محفوظ یعنی نان رزرو سیٹ سے انتخاب جیتیں، پہلی اقلیتی خاتون جو حزب مخالف کی سربراہ قرار پائیں، پہلی خاتون جو کونسل کی نائب صدر بنیں۔انھوں نے مسلم لیگ کی رکن کے طور پر متحدہ صوبوں یعنی آج کے اتّر پردیش کی نمایندگی کی۔اس وقت بہت کم خواتین کو یہ موقعہ ملا۔
۱۹۳۷ء میں ایک نان رزرو سیٹ سے انتخاب جیتنا بیگم قدسیہ کی زندگی کا بہت اہم موڑ ہے۔ان کے انتخابی حلقے کا دائرہ ہردوئی ، سیتاپور اور کھیری پر محیط تھا۔اس انتخابی حلقے کی خوبی یہ تھی کہ یہاں کے زیادہ تر ووٹر تعلیم یافتہ تھے۔یہ سرکاری ملازم اور ٹیکس ادا کرنے والے لوگ تھے مگر ان میں خواتین نظر نہیں آتی تھیں۔آپ کے مخالف دو مضبوط مرد حضرات نواب صادق علی خان شیش محل لکھنؤ سے اور سیتاپور کے بیرسٹر حبیب اشرف تھے۔مقابلہ سخت تھا۔اس پر طرہ یہ کہ اسی موقعہ پر علماء کا ایک فتویٰ آپ کے خلاف جاری ہوتا ہے کہ ایک پردہ دار خاتون کو ووٹ دینا اسلام کے خلاف ہے۔ان تمام موانع اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے آپ نے بڑی بہادری سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی۔آپ نے ایک تین نکاتی پروگرام بنایا جس میں تین Pشامل کئے Petrol, Postage, Publicity۔قدامت پسندوں کے زبردست ردعمل کے باوجود بیگم قدسیہ بھاری اکثریت سے منتخب ہوئیں۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے خلاف جاری کئے گئے فتوے کا اثر لوگوں پر زیادہ نہیں پڑا۔دوسرے یہ کہ اس وقت بھی مسلمان اتنے قدامت پسند نہیں تھے جتنا کہ ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا۔اسی زمانے میں انھوں نے پردے کو خیر باد کہا اور ایک اعلان کیا کہ وہ کسی ایسے تعلقدار کی دعوت قبول نہیں کریں گی جو اپنی بہن بیٹیوں کو پردہ کرنے پر مجبور کرتے ہیںخواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔یہ ان کا ایک جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔اس سے ان کا سیاسی کیریر شروع ہونے سے قبل ختم ہو سکتا تھامگر انھوں نے اس کی پرواہ نہیں کی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ انقلاب سیاسی ہو مذہبی ہو یا اقتصادی ،اس کی جڑیں مضبوط ہونی چاہئیں۔ان تمام واقعات سے بیسویں صدی کے آغاز میں عوامی اور ذاتی زندگی کے تضاد کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔تاہم بیگم قدسیہ کی سیکولر ، ہندوستانی اور اسلامی پرورش نے ان پر تضاد اور دشوار گذار مرحلوں میں اعتدال پیدا کرنے میں مدد کی جس کی بدولت وہ ہندوستان کی سرکاری پالیسی سازی کے دوران اپنی منفرد شناخت قائم کر سکیں۔ ۱۹۳۹ء میں کانگریس کے وزراء نے استعفیٰ دے دیا مگر بیگم قدسیہ قانون ساز کونسل کی رکن بنی رہیں۔اس وقت ان کے شوہر نواب اعزاز رسول صوبہ جات متحدہ مسلم لیگ کے جنرل سکریٹری تھے۔انھوں نے اپریل ۱۹۴۱ء میں اپنی بیگم کو محمد علی جناح سے متعارف کرایا۔وہ بیگم قدسیہ سے لیگ میں شامل ہونے کا اصرار کرنے لگے مگر وہ نہیں مانیں۔وہ پاکستان کے تصور سے بھی خائف تھیں ۔انھیں یہ خیال بار بار پریشان کر رہا تھا کہ پاکستان مالی طور پر خود مختار کیسے بن پائے گا۔حالانکہ بعد میں انھوں نے مسلم لیگ کی خواتین کی ذیلی کمیٹی میں بطور سکریٹری شمولیت اختیار کی اور جب پارٹی کے سربراہ چودھری خلیق الزماں پاکستان گئے تو بیگم قدسیہ اعزاز رسول ان کی جگہ مسلم لیگ کی سر براہ بنیں۔پاکستان کے قیام کے بعد انھیں وہاں کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پاکستان آ جانے کی خواہش ظاہر کی مگر بیگم قدسیہ ان کی خواہش کا احترام کرنے سے قاصر تھیں۔حالانکہ اس وقت ان کی والدہ بھائی بہن سب لاہور میں تھے۔ان کی والدہ کو اپنی بیٹی کی حفاظت کی فکر تھی اور وہ چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹی اور داماد بھی وہیں آجائیں۔بیگم قدسیہ کی ساتھی بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ اور بیگم جہاندار شاہنواز پاکستان جا چکی تھیں۔بیگم شائستہ نے بھی پردہ ٹو پارلیمنٹ نامی کتاب لکھی اور انھیں دنوں انیس قدوائی نے پناہ گزینوں کے کیمپ کا بیانیہ پیش کیا۔بیگم قدسیہ کے سامنے اس وقت لسانی، مذہبی، ثقافتی اور قومی کئی مسائل درپیش تھے اور ان کی زندگی ایک زبردست تضاد کا شکار ہو گئی تھی۔ وہ سیکیولر ہندوستان میں اشرافیہ ہونے کے باوجود اقلیتی مسلم خاتون کے طور پر اپنی شناخت مستحکم کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔انھیں قومی دھارے میں اپنی پسماندگی کا احساس ہو رہا تھا۔انھوں نے آزادی کے بعد ہندوستان میں صوبائی سیاسی اور سماجی منظرنامے کو تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھا۔انھوں نے ہندوستان کی ایک کالونی سے قومی ریاست میں تبدیلی، متحدہ صوبوں کا نام بدل کر اتّر پردیش ہونا، اردو کی بدحالی، کانگریس کے اندر ادارہ جاتی خلفشار اور زوال، علاقائی سیاسی جماعتوںکی ترقی، ہندو قوم پرستی کی بحالی، ریاست میں مسلمانوں کی بستیوں کا سکڑناوغیرہ دیکھا۔بعد کے دنوں میںان کا رجحان کانگریس کی جانب ہو گیا اور مسلم لیگ سے انھوں نے دوری بنا لی۔وہ اہم سیاسی تقریبات میں سروجنی نائڈو ، وجے لکشمی پنڈت سردار ولبھ بھائی پٹیل وغیرہ کے ساتھ موجود ہوتی تھیں۔انھوں نے نہرو آزاد اور گاندھی کی بارہا تعریف کی ہے۔ان کے مطابق ۱۹۶۰ء سے سیاست تخریب سے پر ہو گئی۔پھر اندرا گاندھی کا وقت آیااور سیاست میں آپ نے ایک مسلمان خاتون کی حیثیت سے بولنا بند کردیااور قومی سیاست پر ان کی گفتگو جاری رہی۔۱۹۸۶ء میں شاہ بانو کیس میں وہ خاموش رہیں ۔بابری مسجد تنازعہ حل کرنے کی ان کی کوششیں قابل ذکر ہیں۔انھوں نے اسے protected monument بنانے کی سفارش کی تھی۔۱۹۴۸ء میں جب اقلیتوں کے لئے علحٰدہ انتخابی حلقہ بنانے اور تحفظات کی بات ہوئی تو انھوں نے ان دونوں نکات پر اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ان کا خیال تھا کہ سیکولر جمہوریت میں مسلمانوں کے مفادات دوسرے شہریوں کے مفادات سے یکساں ہونے چاہئیں۔مسلمانوں کو مساوی شہریت کے حقوق دینے کی درخواست کرتے ہوئے خیراتی دفعات سے گریز کی خواہاں تھیں۔ان کے خیال میں یہ دفعات مسلمانوں کو دوسرے گروہوں سے الگ تھلگ کرتی تھیں اور ان کی تباہی کا باعث ہو سکتی تھیں۔وہ سب کو یہ باور کرانا چاہتی تھیں کہ جو مسلمان ہندوستان میں ہیں وہ اپنی مادر وطن سے پیار کرتے ہیں۔اب تکثیری فرقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلموں کے دل میں تحفظ اور خود اعتمادی بھر دے کیوں کہ وطن سے وفاداری مانگ کر لی نہیں جا سکتی بلکہ یہ ایک جذبہ ہے جو ذہنی کیفیت سے وابستہ ہے۔ان کی حصول آزادی کے بعد کی تقریروں میں یہ درد چھلک پڑتا ہے۔انھوں نے مذہبی اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے مطالبے کو رضاکارانہ طور پر ترک کرنے کے لئے مسلم قیادت میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ڈرافٹ کمیٹی کے اجلاس میں اقلیتی حقوق پر بحث کے دوران انھوںنے مسلمانوں کے لئے علحٰدہ انتخابی حلقے کی مخالفت کی اور کہا کہ اس سے اقلیتوں کو ہمیشہ کے لئے اکثریتسے دور کر دیا جائے گا۔ ۱۹۴۹ء میں مسلم اراکین جو الگ الگ انتخابی حلقے قائم رکھنا چاہتے تھے ، انھوں نے آپ کے مشورے کا خیر مقدم کیا۔گاندھی جی کے بہیمانہ قتل کے بعد ملک کی سیاسی فکر میں مبینہ تبدیلی رونما ہوئی۔ریاستیں تحلیل ہوئیں۔سرکار ی ملازمتوں میں مسلمانوں کے لئے سرکار کی طرف سے بے اعتنائی برتی جانے لگی اورزمینداری کا خاتمہ ہوا۔بیگم قدسیہ کے مطابق آئین سازی کے عمل کے دوران مذہبی اقلیتوں کے لئے سیاسی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے متبادل طریقہ کار وضع کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔البتہ اقلیتوں کے سیاسی تحفظات کے لئے جو تصور بنا وہ گروہوں کے درمیان تفریق ختم کرنے میں سہولت فراہم کرتا تھا۔دستور ساز اسمبلی میں بیگم قدسیہ نے کہا کہ جمہوری نظام کو اچھی طرح چلانے کے لئے ضروری ہے کہ فرقہ پرستی کو ختم کیا جائے۔ان کے اس بیان سے دستور سازوں کے سامنے ایک سنگین مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ ایک مذہبی معاشرے کو سیکولر سوسائٹی میں کیسے تبدیل کیا جائے۔دستور ساز اسمبلی نے اس پر غور و خوض کیا اور ان میں سے چند ممبران نے یہ مشورہ دیا کہ ریاست سے مذہب کو قطعاً دور رکھا جائے۔مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔مزید یہ کہ کسی بھی شخص کے نام ، کسی نشان اور اس کے لباس سے مذہبی شناخت نہیں ہونی چاہئے۔یہاں پر کچھ لوگوں نے مذہبی آزادی کی وکالت کی تو ان لوگوں کا جواب تھا کہ ہندوستان جیسے معاشرے میں جہاں مذہب لوگوں کی زندگی کا اہم حصہ ہے، یہ اصول تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے۔اس اصول کو ہندوستانی سیکولرزم قرار دیا گیا۔کچھ لوگوں نے اس خیال میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہندوستانی بحیثیت ہندوستانی اپنے حقوق کو پہچانیں نہ کہ کسی مذہب اور ذات کی بنا پر۔بالفاظ دیگر ایک ہندوستانی کی شناخت حقوق پہچاننے والے شہری کے طور پر مضبوط کی جائے نہ کہ کسی مذہب یا گروہ کے ارکان کی صورت میں۔اس کے ساتھ ہی بیگم قدسیہ نے اسمبلی میں قومی زبان پر ہونے والی بحثوں میں مداخلت کی ۔کھل کر اردو کی حمایت کی ۔اس مشن میںوہ اکیلی نہیں تھیں۔انجمن ترقی اردو کے سربراہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے بھی آزادی سے قبل اردو کی وراثت کو ایک سیکولر زبان کے طور پر تسلیم کرنے کا اصرار کیا تھا۔ان کا مقصد شمالی ہند کے مسلمانوں سے اردو کی وابستگی کے مفروضے کو ختم کرنا تھا۔اردو کی حمایت میں اس مضبوط دفاع نے اسمبلی میں علاقائی زبانوں کو لے کر بحث چھیڑ دی ساتھ ہی اردو ہندی تنازعہ بھی شروع ہو گیا۔یہیں پر یہ طے پایا کہ سرکاری زبان ہندی ہوگی جو دیو ناگری خط میں لکھی جائے گی۔مگر دستور سازی کے پندرہ سال تک انگریزی تمام دفتروں میں استعمال کی جاتی رہے گی۔اردو کو ملک کی دوسری زبان کی حیثیت سے دیکھنے کے خیال کی شدید مخالفت جاری تھی کیوں کہ اسے مسلمانوں کی زبان کے طور پر دیکھا جا رہا تھااور یہ علحٰدگی پسندی اور تحریک پاکستان کی شناخت سمجھی جا رہی تھی۔بیگم قدسیہ نے اردو کو اتّر پردیش کی علاقائی زبان کے طور پر پہچان دلانے کی بھی بے سود کوشش کر ڈالی۔۸؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اتّر پردیش کی حکومت نے ہندی کے استعمال کو سرکاری زبان کے طور پر با قاعدہ لاگو کر دیا۔بیگم قدسیہ کا ایک خیال یہ بھی تھا کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔کچھ خواتین ممبروں نے اس کی مخالفت کی مگر بیگم قدسیہ نے اس کی وضاحت میں کہا کہ سرکاری اسکولوں میں فرقہ وارانہ مذہبی تعلیم نہیں دی جانی چاہئے۔بیگم قدسیہ کی جانب سے درخواست دئے جانے کے باوجود۶۵۔۱۹۶۴ء میں اتّر پردیش حکومت نے لسانی اقلیتی کمیشن کو یہ ہدایت دی کہ وہ مزید اردو ہائی اسکول نہ کھولے کیونکہ سرکار لسانی اقلیتوں کی مادری زبان کے ذریعے تعلیم فراہم کرنے کی جانب اب مائل نہیں ہے۔وہ اردو کی حمایت میں ناکامی ملنے کے باوجووہ اپنے موقف کی وکالت کرتی رہیں۔۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۹ء کے دوران اقلیتی کمیشن کی چیرپرسن رہتے ہوئے آپ نے اردو اساتذہ کی تقرری ، جونیر ہائی اسکولوں کے لئے اضافی گرانٹ اور مسلم طلباء کے لئے کوچنگ کلاسز کا مطالبہ کیااور مائینارٹیز کو اپنے ادارے کھولنے اور چلانے کے حق کی بات کی۔حالانکہ مائینارٹیز کے مسئلے آج تک حل نہیں ہوئے۔بعد کے دنوں میں ان کے خیالات اقلیتوں کے رزرویشن کو لے کر بدل گئے۔ایک بار انھیں قانون ساز اداروں اور سروسیز میںمسلمانوں کے لئے رزرویشن کی ضرورت پر گفتگو کرنے کے لئے ایک کنونشن میں مدعو کیا گیا تو ان کے خیالات کچھ یوں سامنے آئے:
“As communal feelings have grown and the concept of Hindutva has gained popularity, it is time now to think anew of how to improve the educational and socio economic conditions of Muslims.”
جب کہ ۲۶؍ فروری ۲۰۲۰ء کا انڈین ایکسپریس ان کے بارے میں پر زور طریقے سے لکھ رہا ہے :
The only Muslim woman to oppose minority reservations in the Constituent Assembly
بیگم قدسیہ نے دولت مشترکہ میں ہندوستان کی شمولیت کو سراہا۔دولت مشترکہ نے ہی ہندوستانی آئین کے آرٹیکل ۱۷؍ کے ذریعہ چھواچھوت کو برطرف کرتے ہوئے آرٹیکل ۴۴؍ پر عمل کرنے کی تلقین کی۔بیگم قدسیہ اپنے وقت کی خواتین کے لئے مثال ثابت ہوئیں۔ان کی سیاست میں آمد سے دیگر خواتین بھی سیاست میں آنے کی ہمت مجتمع کر پائیں۔آپ بیس سال تک ویمن ہاکی فڈریشن آف انڈیا کی صدر ہونے کے ساتھ ویمن ہاکی فڈریشن آف ایشیا کی بھی صدر رہیں۔ان کے اعزاز میں بیگم اعزاز رسول خواتین ہاکی ٹرافی کھیلی جاتی ہے۔آپ۱۹۵۳ء میں جاپان میں وزیر اعظم کے خیر سگالی مشن اور ۱۹۵۵ء میں ترکی میں ہندوستانی پارلیمانی مشن کی رکن تھیں۔آپ کی زندگی کا دورانیہ پوری بیسویں صدی پر محیط ہے۔آپ کی پیدائش ۲؍ اپریل ۱۹۰۹ء اور وفات یکم اگست ۲۰۰۱ء کو ہوئی۔آپ نے کچھ تصویریں ،خطوط، قانونی نوٹ اور ایک خود نوشت یادگار چھوڑی ہیں۔آج جب آئینی عقاید پر پے در پے حملے ہو رہے ہیں،ایسے میں انھیں یاد کرنا اور ان کی باز گذاشت کا مطالعہ کرنا لازم ہے۔