بیگم افطاری کے انتظام میں کوئی کمی بیشی نہیں رہنی چاہیے،
میں نے آموں کی پیٹی بمشکل نیچے رکھ کر پھولے سانس سے صوفے کی طرف لپکتے ہوئے فاطمہ سے کہا،
میرے خدایا اور کتنی بار کہیں گے پہلے کبھی کوئی کمی بیشی رہی ہے جو اتنی تائید کررہے ہیں،پچھلی بار بھی ایسی مزے کی افطاری کروائی تھی آج تک آپ کے دوست تعریفیں کرتے ہیں،
فاطمہ نے زچ آکر کر کہا-
میں نے کہا:ہاں بھئی وہ تو یاد ہے آج بھی ویسی ہی ہونی چاہیئے تمہیں پتا ہے دوست احباب ہیں تو ذرہ تمہاری بھی عزت ہوگی میری بھی،
ہاں ہاں ٹھیک ہے آپ فکر نہ کریں ویسی ہی ہوگی،
فاطمہ نے مجھے دیکھے بغیر روح افزاء کی بوتل دودھ میں انڈیلتے ہوئے کہا،اور ساتھ ہی کہا کہ
چکن بریانی،مٹن کڑائی،بیف،شوارمہ،کباب،ذردہ،نہاری،پکوڑے سموسے،ملک شیک یہ سب تیار ہوچکے ہیں کجھوریں بھی منگوا لی ہیں بس فروٹ کاٹنے والا ہے آپ ذرہ مدد کردیں نا ٹائم تھوڑا رہتا ہے،
خیر میں نے چھری لی اور فاطمہ کی مخالف سمت بیٹھ کر فروٹ کاٹنا شروع کردیا کچھ ہی دیر میں افطاری کا انتظام مکمل ہوا اور ساتھ ہی ہم نے صحن میں سجے ڈائنگز پہ لگا دی،دوستوں اور رشتہ داروں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا،افطاری کے ٹائم تک سب پہچ چکے تھے،افطاری کا وقت ہوتے ہی سب نے افطاری کی اور خوش گپیں کرتے کھانا کھا رہے تھے ارے نوید یار تھوڑا ہی کھانا ایسا نا ہو کہ تمہیں یہاں سے اٹھا کر لے جانا پڑے ھاھاھا افضال نے نوید سے مذاق کرتے ہوئے کہا جس پہ سب ہنس پڑے اور ہنسی مذاح کے ساتھ سب لذیذ کھانوں کی لذت سے لطف اندوز ہورہے تھے-
سب کھانے سے فارغ ہوکر جزاک اللہ بہت مزہ آیا کہتے ہوئے نکل رہے تھے
میں ہاتھ دھونے کےلیے بیسن پہ گیا بیسن کی نل کھولی تو ساتھ ہی میرے کان میں ایک بچی کی آواز آئی امی سب لوگ تراویح بھی پڑھ رہے ہیں اور ہم نے ابھی تک روزہ افطار نہیں کیا،سحری بھی صرف پانی سے کی تھی
میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا،یہ آواز پڑوسیوں کی 12 سال کی بچی کی تھی،میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اخلاقیات کے خلاف ہے دیوار سے انکے گھر میں جھانکنے پر مجبور ہوگیا،دیکھا کہ وہ بچی اپنی ماں کے سر پہ کھڑی تھی اور اسکی ماں چار پائی پر سر جھکائے بیٹھی تھی اور اس سے نظریں نہیں ملا رہی ہے اور باقی بچے اپنی بڑی بہن کا سوال سن کر اپنی ماں کے جواب کے منتظر تھے
بچی بار بار کھانے کا مطالبہ کررہی تھی میں یہ دیکھ کے جیسے پتھر کا ہوگیا،اسکی ماں نے جب سر اٹھایا تو نظر مجھ پہ پڑ گئی اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں مجھ پہ نظر پڑتے ہی زبردستی مسکرائی اور چادر سے آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگی بھائی کیسے ہیں آپ،یہ لڑکی بہت ضدی ہے ابھی کھانا کھایا ہے سب نے اب پھر ضد کررہی ہے،وہ جھوٹ بول رہی تھی شاید جانتی تھی کہ میں نے بچی کی باتیں سن لی ہیں،میں سوچ رہا تھا کہ افطاری کرتے وقت جو سب بار بار کھانے کی تعریف کررہے تھے اور ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ بھائی کم کھاؤ وغیرہ وغیرہ وہ سب انہوں نے سنا ہوگا تو کیا بیتی ہوگی ان
کب فاطمہ یہ سب دیکھ کر میرے پہلو میں آ کھڑی ہوئی مجھے کچھ پتا نہیں چلا،
میں نے اپنے آپکو بڑی مشکل سے متحرک کیا اور بجلی کی سی تیزی سے باہر کی طرف لپکا،
ارے ارے کہاں جا رہے ہیں کیا ہوا خیریت تو ہے نا آرام سے جائیں آخر ہوا کیا ہے،فاطمہ سوال پہ سوال کررہی تھی میں بغیر کسی سوال کا جواب دئیے بازار کی طرف بڑھا وہاں سے ہر وہ چیز جو میں نے افطاری میں کھائی تھی لے کے واپس چل دیا،میرا ہر قدم مجھے بھاری لگ رہا تھا اس بچی کی باتیں اور اس بیوہ خاتون کے آنسو مجھے نہیں بھول رہے تھے،خیر میں نے آدھے گھنٹے کا سفر 10 منٹ میں طے کیا اور آکر دروازے پہ دستک دی تو اسی بچی نے دروازہ کھولا،مجھ پہ نظر پڑتے ہی اسکی آبدیدہ آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں،وہ واپس دوڑی اور شور مچانے لگی کہ دیکھو جاوید انکل کیا لائے ہیں دیکھو جاوید انکل کیا لائے ہیں سب بچے میری طرف لپکے اور میں نے سارا سامان ایک طرف رکھ کے سب کو باری باری سینے سے لگایا اور پیشانیوں پر بوسے دئیے،انکی ماں یہ سب دیکھ کر بلک بلک کر رونے لگی،جیسے انسان کا ضبط ٹوٹا ہو
میں بھی اپنے آنسو نا روک پایا
بچوں کا شور سن کر فاطمہ بھی دیوار پر آگئی تھی یہ سب دیکھ رہی تھی اور جب میں نے اسکی طرف دیکھا تو مجھے دیکھ کر مسکرائی اور اپنے آنسو پونچھنے لگی-
میں نے سامان کھولا بچوں کے ساتھ بیٹھ کر انکو کھانا کھلایا،ہر لقمے کے ساتھ بچے مسکرا کر شکر گزار نگاہوں سے میری طرف دیکھتے بچوں نے جی بھر کے کھانا کھایا،جب سب کھانا کھا چکے تو میں نے کہا آپ لوگ آرام کرو اور امی سے بھی کہو کہ کھانا کھا لیں میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں،بچوں نے کہا ٹھیک ہے انکل،میں وہاں سے چلا اور مارکیٹ سے آکر مہینے بھر کا راشن لیا اور دوبارہ انکے گھر آیا،سارے بچے سو چکے تھے اور انکی ماں جاگ رہی تھی مجھے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور نظریں جھکا کے کہنے لگی کہ بھائی اتنی زحمت کیوں اٹھائی آپ نے،میں نے کہا آپ میری بہن ہو اس میں زحمت والی کونسی بات ہے یہ کہہ کر میں نے سامان ایک طرف رکھنا شروع کیا،جب سامان رکھ چکا تو میں نے سوئے ہوئے بچوں کی طرف ایک نگاہ دیکھا تو جیسے سکون آگیا،میں نے کہا ٹھیک ہے بہنا چلتا ہوں،یہ کہتے ہی میں باہر کی طرف چل دیا نکلتے ہوئے اس خاتون کی بھری آواز سے میں نے سنا کہ بھائی خدا آپکو کسی کا محتاج نہ کرے
اسکی دعا سن کر مجھے لگا کہ جیسے میں نے دنیا و آخرت کی دولت پا لی ہو،میرے پورے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی میں باہر نکلا تو اس نے دروازہ بند کرلیا،اسکے بعد ہر روز اس گھر سے بچوں کے ہنسنے کھلینے کی آوازیں آتیں جنہیں سن کر میری روح کو سکون ملتا-
اتنا سکون مجھے اپنی پوری زندگی میں پہلی بار ملا تھا مہمانوں کو کھانا کھلانے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اسی اضطراب میں ڈوبا تھا کہ پتا نہیں کوئی کمی بیشی نہ رہ گئی ہو،گھر پہنچ کر سجدہ شکر ادا کیا اور خدا سے رو کر معافی مانگی کہ خدا مجھے معاف فرما جو میں اب تک اس بات سے غافل تھا-
ہم کھاتے پیتے گھروں کے دوستوں رشتہ داروں کو کھانے پر مدعو کرکے سمجھتے ہیں کہ بڑا ثواب کما لیا لیکن اس بارے میں کبھی نہیں سوچا کہ کیا ہماری طرف مستحقین تک انکا حق پہنچ رہا ہے-
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔