بیریوکریسی کے احتساب پر اتنی چیخ و پکار کیوں؟
کل اتفاق سے مجھے امریکہ میں انڈونیشیا کا ایک ٹریڈ ریپریزینٹیٹو امریکہ کی مشہور کتابوں کی دوکان Barnes and Noble میں تین درجن کتابوں کے ساتھ مل گیا . بڑی دیر گپ شہ رہی ۔ وہ ٹریڈ بڑھانے پر ریسرچ کر رہا تھا ۔ امریکہ کے انڈونیشیا کے ساتھ بہت سارے ٹریڈ معاہدے ہیں ۔دل خوش ہو گیا ۔ میں جب کبھی کوئ کچھا یا جراب لینے نزدیکی اسٹور Macy’s پر جاتا ہوں ، حیران ہوتا ہوں کہ جتنے کپڑے ملبوسات سری لنکا، ویتنام، بنگلہ دیش، ہندوستان ۔انڈونیشیا ، ترکی ، مصر ، اور دیگر شمالی امریکہ کے ترقی پزیر ملکوں کے ہوتے ہیں ، پاکستان کے تو کبھی شازو نادر ہی دیکھتا ہوں ۔ Macy’s تو رکھتا ہی نہیں Sears ایک سستی chain رکھتی ہے ۔ وہاں سے پچھلے سال ایک عدد پاجامہ لے لیا ۔ پہلے رنگ اترا، پھر سلائ اور آخر میں خود اُتر گیا۔
میرا چھوٹا بھائ McGill گیا ، ایل ایل ایم کرنے ۔ اُن دنوں ہمارے اسکول کے سینئر اور میرے بیچ میٹ عارف احمد خان مانٹریال میں کمرشل قونصلر تھے میں نے کہا اس سے ملے ؟ کہتا بلکل، کیا اسٹائل سے رہتا ہے ،Montblanc کا قلم استمعال کرتا ہے ، ایک مہنگی ترین گاڑی اس کے نیچے ہے ۔ کینڈا میں بھی اس کے ہاس نوکر چاکر ہیں ۔ بہت مزے ہیں ۔ میں نے فلبدی کہا تم پر بھی لعنت اور اُس پر بھی ، یہ بتاؤ پاکستان کی لیے کچھ کر رہا ہے؟ جواب نفی میں تھا۔
انہی دنوں طارق باجوہ موجودہ اسٹیٹ بینک گورنر چھ سال یعنی دو ٹرم LosAngeles میں پاکستان کا کمرشل ونصلر کی گزار رہا تھا۔
جب میں پچھلے سال کچھ دن کے لیے لاس اینجلس میں مقیم تھا بہت سارے پرانے پاکستانیوں سے پوچھا کہ باجوہ اسکول کا بہت زہین طالب علم تھا اُس نے ٹریڈ کے لیے کچھ کیا؟ اکثر تو اسے جانتے ہی نہیں تھے اور کچھ نے کہا کہ زیادہ وقت نزدیکی مسجد اور بچوں کی پرورش میں صرف کرتا تھا۔ اس کا ٹریڈ سے کیا واسطہ ۔عظمت رانجھا واشنگٹن میں چھ سال پاکستان کے ٹریڈ منسٹر رہا، اُن کے بارے میں جب پوچھا پتہ لگا کہ اُن کو ملنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا امریکی صدر کو۔ یہی حال موجودہ ٹریڈ کمشنر کا ہے ۔ ای میل تک کا جواب نہیں دیتا۔
میں ایک دفعہ ہانگ کانگ میں تھا تو اخبار میں پڑھا کہ پاکستانی کمرشل قونصلر ڈاکٹر بلال نے نشے میں دُھت کار کا حادثہ کر دیا ۔ کار چکنا چُور ہو گئی خود بچ گئے ۔ڈاکٹر ہمارے جونیر تھے ڈی ایم جی میں ، اُن کے ایک کارندے سے پوچھا ڈاکٹر صاحب خیریت سے ہیں ؟ فرمانے لگے بلکل ، بلکہ خوش ہیں وہ گاڑی بدلنا چاہتے تھے ۔ موصوف کا ہانگ کانگ میں کام سوائے پروٹوکول اور بیوی کو پی ایچ ڈی کروانے کہ کچھ نہیں تھا ۔
فواد حسن فواد بھی کچھ عرصہ فرینکفرٹ میں پاکستان کا کمرشل قونصلر رہا صرف اس لیے چھوڑ کر پرائیوٹ سیکٹر جائن کر کہ مال بنایا جائے ۔ JS بینک کو قبضہ اور داغدار زمینوں کے فرائض انجام دینے لاہور آ گئے ۔ فواد کے بیچ میٹ جہانزیب جو پیرس میں پاکستان کے کمرشل قونصلر تھے ان کو تو سارکوزی جب صدر بنا پیرس میں پاکستان کے ایمبیسڈر کی پوسٹ کے لیے مانگ لیا ۔ خراج تحسین کہ لائق ہیں یہ سب بدمعاش ، غنڈے ، کام بھی دھیلے کا نہیں کیا ، خزانے کو لُوٹا اور ہیرو بھی ٹھہرے ۔
ڈاکٹر توقیر ان سب کا باپ نکلا ، گریڈ ۱۹میں ۱۴ لوگ قتل کرنے کے عوض WTO میں پاکستان کا ایمبیسڈر لگ گیا ۔
میرا سوال ان مثالوں سے صرف یہ ہے کہ کیا کبھی کسی نے ان سے یہ پوچھا کہ آپ نے ٹریڈ بڑھایا یا اپنی خدمت کی؟
ایک ہوتا ہے کرپشن کرنا ، دوسراپنے عہدے سے بددیانتی اس سے بھی بڑا بھی گھناؤنا جرم ہوتا ہے ۔ ۔ میرا چیلنج ہے ان سب بابؤں کو اگر وہ یہ بتا دیں کہ انہوں نے ایک فیصد بھی ٹریڈ بڑھایا ہو ؟
میں پچھلے کافی سالوں سے لاہور چیمبر آف کامرس کا کارپوریٹ ممبر ہوں ۔ وہاں بھی چند افراد کی داداگیری ہے ۔ دو سال پہلے الیکشن پر گیا انقلابیوں کو ووٹ دینے ۔ اپنے پرانے کالج فیلو دوست شیخ عرفان اقبال سے ملاقات ہوئ جو اُن جگّوں کے گروپ کے روح رواں ہیں ۔ مجھ سے ناراض ہوئے ۔ جیتنا تو تھا ہی اُنہوں نے میں گندا پڑ گیا۔ لیکن خیر میں نے اصولوں اور اخلاقیات کی خاطر اپنا حصہ ڈال دیا ۔ مجھے شکست ہوئ ۔ ایک دوست کے سامنے بُرا بنا لیکن سچ سے پیچھے نہیں ہٹا۔
مجھے ایک دوست نے پرانے بابؤں طارق فاروق اور اکرم ملک کی کچھ پوسٹز بھیجیں ۔ ان دونوں نے خود بیریوکریسی کی تباہی میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئ کہ اب اُن کو بھی جلاب لگے ہوئے ہیں کہ معاملات اُن تک نہ پہنچ جاۓ وہ بھی احد چیمہ کو بچاتے بچاتے اپنی پتلون نہ پھڑوا لیں ۔ عوام طیش میں ہیں ۔ ہر طرف آگ برپا ہے ۔ تم سارے لوگ جنہوں نے ملک کے ساتھ خیانت کی انشاءاللہ قبروں میں بھی زلیل و خوار ہوگے ۔ میرا کامل یقین ہے ۔ یہی قدرت کا نظام ہے ، صرف ڈھیل دی جاتی ہے ۔
رہی بات میری ، نہ میں ان تحریروں سے کوئ پیسہ لیتا ہوں ، نہ کسی عہدہ پر نظر ، نہ میں پیر ، نہ میں گُرو ۔ ایک عام انسان اپنے مشاہدے کے زریعے آپ دوستوں کو ہوشیار رہنے کا درس دے رہا ہوں ، ملک کی خاطر ، آنے والی نسلوں کی خاطر ۔ پسند آئے عمل کریں ، نہیں تو ڈیلئٹ بٹن دبا دیں۔ ویسے بھی پچھلے ستر سال سے ہم سب کا فیورٹ ڈیلئٹ بٹن ہے ۔
اتنا مجھے یقین ہے کہ ، پاکستان رہے گا ، یہ لوگ نیست و نابود ہو جائیں گے ۔
خوش رہیں آپ سب دوست ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔