مصر کے صدر انور سادات دنیا کے واحد حکمران ہیں جو 5 کتابوں کے مصنف تھے ۔ انور سادات خود کو انقلابی سمجھتے تھے ۔ وہ 25 دسمبر 1918 کو مصر میں دریائے نیل کے کنارے پر آباد ایک قصبے میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ شاید قدرت ان پر مہربان تھی یا ان کا مقدر اچھا تھا کہ وہ غربت اور تنگدستی کے باوجود تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر فوج میں بھرتی ہو کر ترقی کے منازل طے کر کے اعلی عہدے پر فائز ہو گئے ۔ وہ مصر اور عرب دنیا کی مقبول ترین شخصیت جمال عبدالناصر کے ساتھ مل کر مصر کے پہلے صدر شاہ فاروق کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے ۔ جمال ناصر کے صدر منتخب ہونے کے بعد وہ ان کے نائب صدر بن گئے جبکہ جمال ناصر کے انتقال کے بعد وہ مصر کے صدر اور فیلڈ مارشل بن گئے ۔
انور سادات 15 اکتوبر 1970 میں مصر کے صدر اور فیلڈ مارشل مقرر ہوئے ۔ صدر اور فیلڈ مارشل مقرر ہونے سے قبل وہ مصر کے عوام میں ایک انقلابی رہنما کے طور پر مقبول تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1954 میں جو پہلی کتاب لکھی اس کا نام انہوں نے " انقلاب کی مکمل کہانی " رکھا ۔ اس کے بعد انہوں نے 1955 میں شایع ہونے والی اپنی دوسری تصنیف کا نام " انقلاب کے نامعلوم صفحات " رکھا۔ جبکہ اس کے علاوہ انہوں نے مزید 3 کتابیں تحریر کیں جن میں 1957 میں نیل کنارے بغاوت 1958 میں جمال ناصر کے نام سے ان کی سوانح عمری اور 1978 میں ان کی آخری کتاب " شناخت کی تلاش " شایع ہوئی ۔ 1967 میں عرب اسرائیل کے مابین ہونے والی جنگ کے نتیجے میں عرب قوم کے دلوں میں اسرائیل اور ان کے سرپرست امریکہ اور برطانیہ کے خلاف شدید نفرت اور غصہ پیدا ہوا لیکن 1970 کی دہائی کے آخر میں انور سادات امریکہ کے قریب ہوتے گئے یہاں تک کہ 1978 میں انہوں نے امریکہ کے اشارے پر اسرائیل کی حیثیت کو تسلیم کر لیا ( جس طرح آجکل امریکہ کی ہدایت پر عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے جا رہے ہیں )اور کیمپ ڈیوڈ میں اس کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا ۔ انور سادات کے اس غیر متوقع فیصلے سے عرب دنیا میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔ اس دوران مصر کے معروف شاعر امل ابوالقاسم دنقل مصر کے ایک ہسپتال میں بستر مرگ پر پڑے زیر علاج تھے وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے اور زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے ۔ جیسے ہی امل دنقل کو انور سادات کے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے متنازع امن معاہدے کی خبر ہوئی ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اپنے دلی جذبات کے اظہار کے طور پر انہوں نے " لاتصالح " کے عنوان سے ایک نظم لکھ ڈالی ۔ اس نظم نے مصر سمیت دنیا بھر کے عرب عوام کا لہو گرما دیا خاص طور پر مصری عوام اس نظم کو اپنا ہتھیار بنا کر انور سادات کے خلاف بغاوت پر اتر آیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل کے اثر و رسوخ کی بناء پر انور سادات کو اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے پر نوبل امن انعام سے نوازا گیا ۔ لیکن مصر کے عوام نے انور سادات کے خلاف بستر مرگ پر پڑے ہوئے شاعر امل ابوالقاسم دنقل کو اپنا قومی ہیرو بنا لیا ۔ گویا امل دنقل کی نظم مصری عوام کی قومی نظم بن گئی ۔ انور سادات کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکتی رہی اور باالآخر 6 اکتوبر 1981 کو انور سادات پر ایک منظم حملہ کیا گیا اور زبردست فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں انور سادات و دیگر کئی اعلی عہدے داران ہلاک ہو گئے جن میں بیرون ممالک کے متعدد سفیر بھی شامل تھے ۔ امل ابوالقاسم دنقل کی اس عربی نظم کا اردو ترجمہ یہاں پیش کیا گیا ہے ۔
نظم لاتصالح / صلح مت کرنا
تم قاتلوں سے صلح مت کرنا حتیٰ کہ انہیں قتل کر کے بھی نہیں۔
تم صلح مت کرنا۔
اگر وہ تمہیں سر کے بدلے سر کی پیشکش کریں تب بھی نہیں۔
بھلا تمام سر برابر ہوئے ہیں کبھی؟
کیا ایک اجنبی کا دل تمھارے بھائی کے دل جیسا ہو سکتاہے؟
کیا اسکی آنکھیں تمھارے بھائی کی آ نکھوں جیسی ہو سکتی ہیں؟
کیا وہ ہاتھ جس نے تمھاری تلوار پکڑ رکھی تھی، اس ہاتھ جیسا ہو سکتا ہے جسکی تلوار نے تمھیں ماتم کناں کر دیا ہے؟
وہ تمھیں کہیں گے،ہم خون خرابے کو روکنے آئے ہیں،
ہم تو ثالثی کرنے آئے ہیں۔
ہاں وہ کہیں گے ہم تو تمھارے چچیرے بھائی ہیں۔
لہذا انہیں بتا دو کہ اُنہیں خبر ہی نہیں کہ اُنہوں نے کس کو قتل کیا ہے۔
صحرا کے ماتھے پر اپنی تلوار گاڑ دو (اعلان جنگ کرو)
(لڑو) یہاں تک کہ فنا انہیں خبر دے کہ تم مقتول کے کیا تھے۔
ایک سپاہی،ایک بھائی،ایک باپ، ایک بادشاہ۔
امل ابوالقاسم دنقل