بیمار کا حال اچھا ہے
………………………………….
حق نواز …..(مہر اور ہراج کے سابقہ اور لاحقہ سے شخصی وجاھت کا پیکر تراشا بھی جاتا ھے )……….اس جرنیلی شاھراہ پر جو ایک زمانے میں مو لتان سے دہلی جانے والی شیر شاہ سوری روذ کے حوالے سے ککھاں والی سرک بھی کہلاتی تھی …..اسی راستے پر چند کلومیثر کی کچی پگدندی پر ….کھیتوں کی اجلی اور دلھی ….بہار سمے کی گود میں خوشہ گندم کے سبزہ پہ ریشمہ خطی تصوف کے رنگ میں رنگریز ….سلطان عبد الحکیم کی سدھی نیں سے بارہ کوس اور میرے مسکن چیچہ وطنی سے اپنی سواری پر تین گھنٹے کی مسافت پر …..میرے خواب زدہ شہر تلمبہ سے نصف گھنٹہ کی مسافت پر ……حجلہ حریم دل کتابوں کو أنکھوں میں بساے رت جگے کرتی …..بھینی …..میں خود کلام ایک رسیلا اور عصیلا معشوق صفت دلدار رھتا ھے …………مجھے بہت ھی عزیز ھے کہ کتاب کلچر اور اصیل رچناوی تمدن کا اصلی نمونہ اور میری مادری زبان رچناوی کا خالص علمبردار ہے ……عالب کا شیدای اور منٹو کا فدای ہے ……..وگتی کو اگر اردو زبان میں پھبتی مان لیں تو قدرت کلام معجز نمای میں شہنشاہ وقت ھے ………اسے میرے پاس اتوار کو تشریف لانا اور پھر 24 کلومیٹر دور ھمراھی میں …..ایک تہزیبی شخصیت اور راوی راکھشاں کے علمی وارث …..معروف محقق اور بزرگ جوان ……کال بولیندی اور چانجے چھتے …..جیسی نوادرات کتب کے خالق …..اے . ذی .اعجاز سے …..ایک تاریخی اثار …..ھرپہ ….کے پہلو میں ھم نشیں شہر میں …….نرول باتاں ….کرنی تھیں ……وھاں سے پھر …….ساھیوال پرنٹنگ پریس کے درویش اور ادب کے خاموش مگر متحرک مجاھد ….ا ختر علی خان ….کو …..کتابوں کے جرنیل پروفیسر مظفر حسین ورایچ کے نادر خزینہ نوازش کتب خانے کی زیارت سے دل ونگاہ کو سیراب کرتے ھوے دیکھنا تھا ……..اقبال اور اندلس ……جیسی شہکار تخلیق کے خالق ….مورخ اور لسانیات کے ایک گوشہ گیر ….شہرت سے گریزاں مگر کام کے دھنی ہیں …..قرطبہ ….پانچ سو برس تک اسلام کا علمی اور ثقافتی مرکز رھا….دو شاعروں نے اس کی روح تک پہنچنے کی کوشش کی . ایک نے اسے …..باوقار اور خلوت پسند ….کہا اور دوسرے نے …..خاموش قرطبہ 'نیم رومی نیم مور ' کہا …..پروفیسر مظفر نے …..اپنی اس دلدار کتاب میں اقبال شناسی میں اسی …اندلس ….کو دریافت کیا جہاں دسویں صدی میں مدنی زندگی کی سہولتیں میسر تھیں جب ……لندن اور پیرس کے کوچے …..تاریکی میں ذوب جاتےاور بارش کے بعد دلدل بن جاتے ہیں …….اس قلندر ادیب کی کتابوں کے پیسے اسلام اباد کا ایک کتاب فروش لکھاری …..دباے ہوے ہے ……………………………اپنی دھن کا پکا اور وعدے کا سچا ….مہر حق نواز ہراج ……رزق ھنر کو حلال کرکے ستر کلومیٹر کے واپسی سفر میں …..گنے کی قوی ہیکل وزن سے بال بال بچا اور پشت پہ گھر بناے سایکل سوار طالب علموں کو بچاتے بچاتے بیچ سرک پر سر کے بل گرا …..ھمیشہ سر کو اٹھا کر چلنے اور انکھوں میں انکھیں دال کر کھری کھری سنانے والا ……گٹے گودے چھلنی کرا بیٹھا ……..شالا مسافر کوی نہ تھیوے ککھ جنہاں توں بھارے ہو ………….
ستم رسیدہ ….اجل رسیدہ ھونے سے بچا تو اسے داد ستم دینے کے لیے ھم اس اتوار کو اس کی ….بھینی …..جا پہنچے ……میاں چنوں میں ….جاوید اقبال سہو …..میرے منتظر تھے جہاں سے خوشی محمد کی برفی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ پرھنے کی بجاے …ھمہ یاراں بہشت ….لیکر ….مرزا جی کی بایسیکل کی رفتار پر جاوید سہو کی سواری کو باد بہاری بنایا ………تلمبہ …..میں قیصر فاروق تگہ (جو مہر سے اولین تعارف کا سبب بنے )انتظار میں سوکھ کر کانٹا ھو رھے تھے حالانکہ وہ گوبھی کے پھول تھے …….بہت دلارے اور اردو ادب کے سچے خیر خواہ ….علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایک اور ریسرچ سکالر کو ھم نے ….پرانی ککھاں والی سرک کو فتح کرنے کا سندیسہ دیا …..اور ….کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں اباد …..کی اقبالی خواھش کے خواب بنتے ….پرانے ممبر صوبای اسمبلی کے گھر سے بعلی اراستہ شاھراہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز کیا …….ایک طویل وقفے کے بعد تازہ اور خالص ھوا اور ھلکی نرم مخلمیں دھوپ میں جاتی سرما کا لطف خوب اٹھایا …لطافت بھری دھوپ جو ماتھوں کو چومتی اور سروں پر ھاتھ رکھتی ہے اور زھرہ وشوں ..دلبروں …سیم تنوں اور گل رخوں کی یادوں کے چمن زار کھلاتی ھے ……گاھے گاھے پدرم شاعر بود کی یاد دلاتے رھے مگر ھم دونوں زیر لب ….محبت کے گیت گنگناتے اور تصویر بتاں کو دل میں سجاتے …..وھاں پہنچے جہاں یار کی تیمار داری کے لیے قیصر ….حق نواز کے ھاں قصر محبت سجاے منتظر تھے ………پھر جاگتی انکھوں سے ھراج کے نشان عشق کی بجاے زخم دل گنے ….اسی قطار میں …..ادب کے ایک اور شہسوار بھی شمار ھوے ……..میں نے بہت کم ایسے نوجواں دیکھے ہیں جن کے وسعت مطالعہ اور قدرت کلام پر رشک اے …….وہ کہے اور سنا کرے ….کا جملہ …عزیز القدر راحیل فاروق پر صادق اتا ھے ……گفتگو بحر طویل ھوگیی …کلام میں طعام کا ہرج مرج ھوا…….لزت کلام اپنی جگہ اور لزت طعام اپنی جگہ ……ہر چیز چنیدہ اور دید وشنید کی جھلکیاں ان سطور کے بعد ……گیارہ بجے واپسی ھوی تو میدیا پر مبارک بادی کا شور تھا …..ھمارے پاس کوی اور کام نہیں تھا اس لیے …..عمران خان کی شادی …..کو خبر کی بجاے ….چسکہ بنا لیا ……واہ رے بھیا ……سوچتا ہوں اسی قوم کے وارث ھم ہیں
نکھوں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“