بہت رتوں پہلےمیں جنوبی پنجاب کی زمینوں کی آوارہ گردی میں فورٹ عباس والوں کامہمان ہوا۔ روہی کی ایک رات بھڑکتےالاؤ کی روشنی میں جلتی بجھتی آنکھوں والےطاہر بھائی نےکہاتھا، یارعمران بھائی دنیا اتے سنگتاں تے محفل یاراں توں پرے کسے نےہورکی کھٹ لینا اے
او بابیو! ساڈی تے یاری وی اونہاں دے نال لگدی اے جیہڑے کہندے نیں کہ ساڈا کی پتہ بھانویں کل مرجائیے۔
طاہر بھائی کی بات مجھے اس شام گنڈاسنگھ والا کی بارڈر آؤٹ پوسٹ پر چھڈ یار کے ساتھ بیٹھے یاد آئی۔ قصور کے حاجی صاحب کے ساتھ ہمنواؤں کی سنگت میں ابھی کچھ دن پہلے جب میں نوکری کی گھمن گھیریوں میں اسلام آباد سے لاہور آیا تھا تو ان میں سے کسی کو جانتا تک نہ تھا۔ ایک شام اچانک ہوئی ملاقات میں اس بے غرض اور بےریا گروپ نے مجھے کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور میں نے مفتی جی کی پیروی میں یاروں کی اس ٹولی کا نام چھڈ یاررکھ دیا۔
اس شام گنڈاسنگھ والاکی سرحدی چوکی پربلندبانگ نعروں کے گونجتےشور اورسرکےاوپرسےزمین کی طرف پٹختے پیروں کی جھنجھناہٹ میں ہم اس ایک پل میں زندہ تھے کہ ساڈا کی پتہ بھانویں کل مرجائیے۔
گنڈاسنگھ والا سےنزدیک ہی شمال کی سمت بارڈر کےپارانڈیا کا کچھ سویاکچھ کچھ جاگاکھیم کرن کا قصبہ ہے۔
ستمبر1965کی جنگ میں قصورکےمحاذسےزقندبھرتےایک رسالےاور اسی برق رفتاری سےساتھ دیتی میکانائزڈ انفنٹری کےدستوں نےایک سرعت کےساتھ کھیم کرن پرقبضہ کرلیاتھا۔
ستمبر 65 کی ایک خونچکاں سویرکھیم کرن پرچڑھ دوڑتےان ہراول دستوں کےدل میں آنےوالی کل کی بےثباتی پر ایک بےنیازانہ تیقن توہوگا کہ پتہ نہیں بھانویں کل مرجایئے
اور پھر ایسا ہوا کہ ان میں سے بہت سوں نے اگلے دن کا سورج دیکھے بنا ہی ابدی زندگی کا لبادہ اوڑھ لیا۔
لاہور سےفیروزپور روڈ پکڑیں توقصور سےپہلےتقریباً نصف راستےکی مسافت میں للیانی کاسٹاپ آتاہےجس کاموجودہ نام مصطفیٰ آباد ہے مین روڈکےساتھ ہی گنج شہداء کےنام سےایک قبرستان ہے۔ یہاں مادرِوطن کی24 کیولری اور 5 فرنڑیئر فورس کےوہ سپوت دفن ہیں جو 1965کی پاک بھارت جنگ میں بیدیاں کےدفاع اورکھیم کرن پرحملےمیں کام آئے
بریگیڈیرشامی کے یادگاری مینار اور پچپن شہدا کی قبروں کا تفصیلی ذکرپھرکسی اوردن کریں گے فی الحال للیانی المعروف مصطفیٰ آباد کی طرف پلٹتے ہیں۔
للیانی سے تھوڑا آگے ہندوستانی سرحد پر بیدیاں کے اطراف بی آربی کے دفاعی مورچے فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ المعروف سینیئرٹائیگرز نے سنبھالے ہوئےتھے یہیں پر بھارتی سینا کی 4 گرینیڈیئرز اور 9 دکن ہارس کے ہراول دستوں کو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کے جوانوں نے اپنے سینوں پر روکا تھا۔
مادرِوطن کےدفاع میں یونٹ نے پندرہ جانوں کا نذرانہ پیش کیااور کل سترہ اعزاز اپنے نام کیے جن میں تین ستارہ جرات شامل تھے ان میں ایک ستارہ جرات آنےوالےدنوں کےصوبیدارمیجرعظیم خان کےحصےمیں آیا
ہمارےصوبیدارمیجرکاذکرکچھ دیرمیں دوبارہ آئےگا
بیدیاں کی جنگ میں جس پلٹن کے15جانبازکام آئےچندہی سالوں میں اسےایک بھاری قیمت پروفاداری کاخراج اپنےان مورچہ شریک بھائیوں کواداکرناتھا جن کےساتھ اس نے65 کی جنگ لڑی تھی منظر بدلتا ہے اور ہم خود کو ایک پرآشوب مارچ کے مہینے میں 1971 کے جیسور میں پاتے ہیں۔ 25/26 مارچ کی درمیانی رات جب آپریشن سرچ لائٹ کا باقاعدہ آغاز ہوا تو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ جیسور چھاؤنی میں نہیں تھی۔ سینیئرٹائیگرز بھارت کی سرحد پر جگدیش پور گاؤں کے اطراف جنگی مشق میں مصروف تھے 29 مارچ تک جب ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز باقاعدہ بغاوت کرچکی تھیں سینئیرٹائیگرز کی صفوں میں سکوت تھا۔ یہانتک کہ رجمنٹ میں تعینات مغربی پاکستانی افسر بھی جن میں اسوقت کے میجر اور بعد کے کراچی کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل لہراسب خان بھی شامل تھے محفوظ تھے سینیئر ٹائیگرز وہ واحد پلٹن تھی جس کے تمام مغربی پاکستانی افسر بغیر کسی جانی نقصان یا مکتی باہنی کی قید کے جیسور چھاؤنی کے محفوظ حصار میں ’حلیف دستوں’ سے آملے تھے۔
29 مارچ کو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ احکام کی بجا آوری میں محاذ سے جیسور واپس پلٹ آئی۔
ان کے راستے میں جیسور کے نواح میں 25 بلوچ کی لگ بھگ اڑھائی سو کی نفری بارکوں میں تعینات تھی۔ میجر آفتاب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سینیئر ٹائیگرز اگر چاہتے تو 25 بلوچ کی اس نفری کو تہ تیغ کرسکتے تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ کشتیا اور کھلنا میں بغاوت سے برسرپیکار یونٹوں کی بچی کھچی نفری پر ہلہ بول کر جیسور کا تغمہ اپنے سینے پر سجالیتے، مگر اس پلٹن کی رگوں میں ابھی وطن سے محبت کی رمق باقی تھی۔
کمانڈر جیسور بریگیڈیئر درانی کے احکام کی بجا آوری میں 25 بلوچ کے کرنل ڈین 30 مارچ کی صبح ہتھیار رکھوانے سینیئر ٹائیگرز کے کمانڈنٹ آفس پہنچ گئے۔
میجر آفتاب لکھتے ہیں کہ اس حکم پر کمانڈنٹ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کرنل ضیاء الجلیل سناٹے میں آگئے۔ یونٹ کے صوبیدار میجرعظیم خان ستارۂ جرات نے شدید احتجاج کیا۔ جب مغربی پاکستانی کمانڈر اپنی مجبوری کی داستان سنا چکے تو فرط جذبات میں کرنل ضیاء نےاپنےشولڈر رینک اور صوبیدار میجرنے چھاتی کےوہ تغمے جن میں لاہور کے محاذ پر جوانمردی کی گواہی دیتا ستارۂ جرات جھلملا رہا تھا اتار پھینکے
یہاں پراگر آپ جنرل شوکت رضا کی کتاب پڑھیں تو وہ بتائیں گےکہ یہ پہلے سے طے شدہ اشارے تھے کہ جن پر رجمنٹ نے فائر کھول دیا اور 22 فرنٹئیرفورس اور 25 بلوچ کو جوابی فائر کرنا پڑا مگر وہاں موجود 25 بلوچ کے کیپٹن آفتاب گواہی دیں گے کہ کرنل ضیاء الجلیل کے دفتر سے نکل کر جیپ میں سوارہوتے ہی کمانڈنگ آفیسر نے وائرلیس پر بریگیڈکمانڈر کو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی بغاوت کی خبر دی اور جیپ میں ساتھ بیٹھے اپنے کمپنی کمانڈر کو بغاوت کچلنے کا حکم بغاوت کا علم بلند نہ کرنے پاداش اور حکم کی تعمیل میں ایک کٹھن مارچ سے پلٹتے سینیئر ٹائیگرز کو 25 بلوچ کے مارٹر اور 55 فیلڈ رجمنٹ کی توپوں کے گولوں نے آدبوچا۔ ایک افراتفری کی دھکم پیل میں جو بچے وہ مشین گن کی گولیوں سے بھون دیئے گئے ستمبر 1965 میں بیدیاں کے دفاع میں 15 جانوں کا نذرانہ دینے والی فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ سے 1971 کے جیسور میں اس کی اپنی فوج کی گولیوں نے ایک سو پچاسی جوانوں کو نگل لیا تھا
بچی کھچی رجمنٹ تو لیفٹیننٹ حفیظ الدین کی نگہداشت میں ہندوستانی سرحد کی طرف پسپا ہوئی مگر فرسٹ ایسٹ بنگال کے کرنل ضیاء الجلیل کی حمیت نے یہ بھی گوارا نہ کیا۔ انہوں نے خود کو جیسور کی سپاہ کے حوالے کردیا۔ اپنی جان خطرے میں ڈال کر ’باغیوں کی سرکوبی‘ کرنے کے اعتراف میں 25 بلوچ کے کرنل ڈین کو تمغۂ قائدِ اعظم سے سرفراز کیا گیا اور 7 بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر درانی حالات پر قابو پاکر ’بروقت‘ مشرقی پاکستان سے نکل آئے تو کچھ عرصے بعد بلوچستان کی گورنری کی مسند پر فائز ہوئے
ممکن ہے ہمارے پڑھنے والوں کو میجر آفتاب کے اسلوب میں تلخی اور شکایت کا تعصب نظر آئے مگر صاحبو جب ’مشرقی پاکستان کےمیدانِ جنگ سےآخری سلام‘ لکھنےوالا میجرآفتاب احمد یہ کہتاہےکہ کیا ہی اچھاہوتااگر ہم نےاپنےہتھیار باہمی رضامندی سےبنگال کےلوگوں کےدل کی آوازشیخ مجیب، بنگلہ دیش کی آزادی کااعلان کرنےوالےمیجر ضیاء الرحمٰن اور مکتی باہنی کےکرتادھرتاکرنل عثمانی کے سامنے ڈالے ہوتے تواس کی بات میں وزن توہے
شایدہم جگجیت سنگھ ارورہ اورجےایف آرجیکب کےحصارمیں ایک دستاویزی دستخط کی ذلت سےبچ جاتے
ہندوستانی سرحدکی طرف پس قدمی کرنےوالے سینیئر ٹائیگرز بھارتی سیناسےجاملیں گے۔ چند ہی مہینوں میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں ہندوستانیوں کےساتھ مل کرسلہٹ کےمقام پر پاک فوج سے اپنا حساب بے باق کرلیں گے
لاہور میں آر اے بازار کی قربت میں شہیدوں کا قبرستان ہے۔ یہاں سینیئرٹائیگرزکےشہیدوں کی یادگارہے
اپنےوطن سے ہزاروں میل دوربیدیاں کے دفاع میں جان دینے والوں کی یتیم یادگار اب ایک اجنبی دیس میں کھڑی ہے۔
___
ہم سے روٹھ کرگئے ان لوگوں نے سونار بنگلہ جا بسایا، ایک سرزمین جو اب ہمارے لیے اجنبی ہے
ہمارے دوست محمد حسن معراج یہ شعر پڑھا کرتےہیں
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اُڑا نیندیں
وہ درد کہ اُٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو