اپنی پیدائش کے تیرہ ارب اسی کروڑ سال بعد کائنات جاگ رہی ہے۔ اس کے ایک چھوٹے سے نیلے سیارے میں کسی نے اس سیارے سے باہر جھانکنا شروع کیا ہے۔ ہر بار دیکھنے والے کو یہ پہلے سے بڑی نظر آئی ہے۔ نظام شمسی، کہکشاں اور پھر کھربوں کہکشائیں جو گروپ، کلسٹر اور سپر کلسٹر کے پیٹرن میں پائی جاتی ہیں۔ شعور رکھنے والے اور ستاروں کو گھورنے والے بہت سی چیزوں پر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں لیکن اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ یہ کہکشائیں خوبصورت ہیں، سحرانگیز ہیں۔
لیکن خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہے، فزکس کے قوانین میں نہیں۔ جب تک اس کو دیکھنے والی آنکھ بند تھی تو یہ خوبصورت نہ تھی۔ یہ چیز ہمارے جاگنے کو مزید متاثرکن بنا دیتی ہے۔ ہمارا اس کو دیکھنا خود ایسی چیز ہے جو سراہنے کے لائق ہے۔ اس نے اس کائنات کو ایک بغیر دماغ کی زومبی سے ایک ایکوسسٹم میں بدل دیا ہے جہاں حسن ہے اور امید بھی۔ معنی، مقصد اور مطلب کی کھوج بھی۔ اگر کائنات بیدار نہ ہوئی ہوتی تو شاید بس جگہ کا ایک ضیاع ہوتی۔ کیا اس کی یہ بیداری کسی حادثے یا ہماری اپنی کوتاہ نگاہی کا شکار ہو سکتی ہے اور یہ واپس ابدی نیند میں جا سکتی ہے؟
یا پھر یہ پہلے سے بھی بہتر ہو سکتی ہے؟ ہم ستاروں کو دیکھتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کہیں اور بھی کوئی انہیں دیکھ رہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم ایسا کرنے والے پہلے ہیں یا نہیں۔ لیکن ہم کائنات کو جتنا جان چکے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ابھی آنکھیں کھول کر دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ جس طرح صبح کی پہلی کرن پر نیند ٹوٹنے پر کوئی آنکھ ملتا اٹھتا ہے، ابھی وہ مرحلہ ہے۔ آنکھ کھول کر فلک اور فضا کو دیکھنا تو باقی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ شعور اس زندگی کو ان افلاک سے متعارف کروا دے جو اربوں کھربوں برس ان کہکشاؤں کے گوشوں میں پھلتی پھولتی رہے یا پھر واپس گہری نیند میں چلی جائے۔ یہ فیصلے اس چھوٹے سے نیلے سیارے میں لئے جائیں گے۔ شاید ہماری زندگیوں میں ہی۔
کائنات کی بیداری اربوں برس کا قصہ ہے، دو چار صدی کی بات نہیں لیکن اگلی دو چار صدی میں کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ٹیکنالوجی کی تلوار سے ہو گا۔ ٹیکنالوجی کی تلوار دو دھاری ہے۔ یہ مشکلوں اور مسائل کو بھی کاٹ سکتی ہے اور خود ہم کو بھی۔
۔میکس ٹیگ مارک کی کتاب لائف تھری پوائنٹ زیرو سے