بیچارا شوہر (نشرمکرر)
ہمارے پشتونوں میں بہادر اور جی دار وہ کہلاتا ہے۔ جو مار کٹائی کرسکے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بندوق نکال کر سامنے والے کو حواس باختہ کرسکے۔مگر بدقسمتی ہمشہ یہ ہوتی ہے،کہ سامنے والا بھی پشتون ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں بیوی اپنے شوہر کو نام لے کر نہیں پُکار سکتی۔کیونکہ یہ عورت کی بے شرمی اور مرد کی بے غیرتی تصور کی جاتی ہے۔ اور پشتون ڈکشنری میں بے غیرتی کے لئے پشتو میں ایک بہت ہی بُرا لفظ موجود ہے۔
ہمیں غیرت مند بننے کیلئے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ آپ بھلے کتنے ہی پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں۔آپ کو مونچھیں رکھنی پڑتی ہیں۔اور نسوار بھی ساتھ رکھنی پڑتی ہے. بھلے نسوار آپ نہ کھائیں،مگر جیب میں پڑیا ضرور ہونی چاہیے۔تاکہ دوران سفر یا حُجرے میں بیٹھے لوگوں میں سے اگر کسی نے پوچھا،کہ “لگ نسوار راکہ” ۔اور بدلے میں آپ نے کہا کہ “نیشتہ”(نہیں ہے). تو اس کے لئے تو پشتو ڈکشنری میں ایسا کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔جو اس بےغیرتی کا حق ادا کرسکے۔
سُہاگ رات کو آپ کے یار دوست آپ کو یہ کہہ کر گھر رُخصت کرتے ہیں۔کہ جاؤ مگر رُعب و دبدبے سے۔اور جیسے ہی حجلۂ عُروسی کے قریب پُہنچ جاؤ۔مُنہ دکھائی سے پہلے ایک تھپڑ جڑ دینا بیوی کے مُنہ پر۔وہ سہم جائےگی۔ دوسرا جڑ دو تو رونے لگی گی۔ پھر پانی پلانے کا حکم دو۔ پھر جو کرنا ہے وہ کرو مگر خیال رہے، کہ بیوی روتی رہے اور ڈرتی رہے۔اب بندہ ان سے یہ کیسے پُوچھے،کہ غیرتمندوں اگر یہ غیرت ہے تو کیا بیوی کو بدلے میں آپ کو گولی نہیں مار دینی چاہیے؟کیونکہ پشتون تو وہ بھی ہے۔
مگر آپ یہ نہیں پُوچھ سکتے۔کیونکہ ان دوستوں کو آپ کے باپ اور چچاؤں نے صرف پیغام دیکر آپ کے پاس بھجوایا ہوتاہے۔سوال و جواب کا حق آپ کے پاس نہیں ہوتا۔جو شوہر اپنی بیوی کو بات بات پر کُوٹتا ہے۔ اسے خاندان بھر میں بڑا غیرت مند اور معزز تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ زیادہ تر ایسے غیرت مند پچاس کا ہندسہ کراس کرکے جرگے کے سربراہ بھی بن جاتے ہیں ۔
میرا رشتہ بچپن میں ہی چچازاد کےساتھ طے ہوا۔ جو مُجھ سے عُمر میں پانچ سال بڑی ہے۔ یہ اور بات ہے۔کہ آج کل میں اس چچازاد کا چھوٹا بھائی ہوں۔اور خوشحال خان خٹک کے ازلی دشمنوں یوسفزیوں کا داماد کم شوہر بن گیا ہوں۔
بدقسمتی سے بیگم پڑھی لکھی ہے۔ اور ہندوستانی ڈراموں کی بھی بڑی شوقین ہے۔ اُنھیں بہت ڈرانے کی کوشش کی۔مگر مجھے خوشال خان خٹک سمجھ کر اس یوسفزئی نے اتنی بار مردانہ وار شکستوں سے دوچار کرڈالا۔کہ آج خوشحال بابا کی رُوح بھی نوشہرہ میں تڑپ تڑپ جاتی ہوگی۔ نتیجتاً جیسے آخری عمر میں یوسفزیوں نے خوشحال بابا کو پناہ دی۔سو میں بھی چار بچوں کے بعد ان کی پناہ میں آگیا ہوں۔
میری شادی کی تقریب کراچی میں ہوئی تھی۔ والد صاحب بوجوہ ناراضگی شامل نہیں ہوئے۔اور والدہ حضور (بوجوہ ضد ابا حضور کی) شادی کی تقریبات میں پیش پیش تھیں۔ بلکہ ایک طریقے سے اماں نے مجھے یوسفزیوں کے کنٹرول میں دے دیا تھا۔ سو کچھ ماہ جب میرے چچا بھی مبارکباد دینے کراچی پہنچ گئے۔تو ابا حضور نے گاؤں پدھارنے کا حُکم بھیجا۔تاکہ شادی کی تقریب دُھوم دھام سے دوبارہ ہوجائے۔اور پشتون ولی کا اعادہ کیا جائے۔
بیگم کی کافی منتیں کیں۔کہ آپ اپنے غصے کو کنٹرول میں رکھیں، اور میری عزت کا بھرم رکھیں۔ کہ وہاں گاؤں میں اگر آپ کی حرکتیں معلوم پڑگئیں،تو میں تاحیات اپنے قبیلے میں کسی کو منہ نہیں دکھا سکوں گا۔نہ جانے کون سی قبولیت کی گھڑی تھی۔یا شاید اللہ کو بھی میری بےبسی پر رحم آگیا تھا۔کہ خلاف معمول وہ مان گئی۔
میرے زندگی کے بس یہی حسین لمحے تھے،جو اُن دنوں گاؤں میں گزارے۔ اتنی بہترین ایکٹنگ کی بیگم نے،کہ دل خوش کردیا۔ وہ لڑکیوں کے جُھرمٹ میں بیٹھی ہوتی،اور میں آکر ایک اشارے سے اسے اٹھا دیتا۔ اور وہ جُھکی آنکھوں سمیت سر جھکا کر کھڑی ہوجاتی۔ میرے دل میں لڈو پھوٹتے،ایک تشنہ ارمان کے دُکھ سمیت،کہ کاش یہ زندگی ایسی ہی گزر جائے۔ میں گرجدار آواز میں پانی پلانے کا کہتا۔اور وہ گُھونگھٹ نکالے بُہت ہی با ادب طریقے سے پانی کا کٹورا لے کر آتی۔اور میں چارپائی پر شاہانہ انداز میں گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ایک نخوت بھرے انداز میں اُس سے کٹورا لے کر پانی پینے لگ جاتا۔
قسم سے چس آجاتی۔
ایک دن وہ امی کےساتھ باورچی خانے میں ناشتہ بنا رہی تھی۔کہ میں نے گرج کر اسے کہا،کہ میرے جُوتے ابھی پالش نہیں ہیں۔ کیا جُوتا اُٹھا کر سر پر ماردوں؟وہ شرمندہ شرمندہ سی بھاگ کر کمرے میں گئی۔اور پانچ منٹ کے بعد آواز دی۔
آجائیے۔۔۔
آپ کے جُوتے پالش ہوگئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے۔کہ میں کمرے میں اس کے نکلنے کے بعد گیا۔ کہ اُس کی موجودگی میں جانے کا مطلب اپنی دُرگت بنوانی تھی۔
اماں حضور بڑے فخر سے مجھے دیکھتی رہیں ۔اور رسماً کہا کہ بیٹا اتنی سختی نہ کیا کرو،نئی نویلی دُلہن ہے۔ میرا جی بھر آیا مگر آنسو چُھپاتے ہوئے جُوتے پہن لئے۔
یہی اداکاریاں اور فداکاریاں ہوتی رہیں۔ کہ ایک دن ابا حضور شدید غصے میں تھے۔اور اماں پر گرج رہے تھے۔ اماں سر جھکائے سُن رہی تھیں۔ یکایک میرے اندر بھی ایک پشتون شوہر نے انگڑائی لی ،اور میں بیگم پر گرج پڑا۔ اور ساتھ میں ایک چماٹ جڑ دی۔ یاد رہے مجھے اپنی محرومیاں یاد آگئیں،اور میں بھول گیا کہ میں شادی شدہ ہوں۔ بیگم نے جواباً ٹانگوں کے بیچ جو گُھٹنا مارا۔ مجھے واقعی یاد آگیا،کہ میں شادی شدہ ہوں۔آنکھوں میں تارے ناچتے نچواتے دہرا ہوکر بیگم کے پیروں میں پڑگیا۔ مجھے اپنے آخری الفاظ یہی یاد ہیں،کہ میں معافی کا خواستگار ہوں۔ گھنٹہ بعد طبعیت کچھ بحال ہوئی۔ تو بیگم کو پھر منتیں کرتا رہا۔کہ بس ایک دن اور صبر کرلو،پرسوں کراچی واپسی ہے۔ میری عزت کا سوال ہے۔ بس ایک دن اور۔۔۔
یہ کہتے ہوئے میں کمرے سے باہر نکلا۔ تو ابا کے کمرے سے ابا کی گھگھیائی ہوئی آوازیں آرہی تھیں۔ کہ دیکھو بیگم عزت کا سوال ہے۔بس پرسوں بہُو چلی جائے گی۔ تو جو تم نے کرنا ہے کرلو،مگر ایک دن اور میری عزت رکھ لو،
“منت کرتا ہوں”۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“