یہ ان دنوں کی بات ہے جب پی ٹی وی لاہور میں رفیق وڑائچ جبرل مینیجر تھے اور ذوالفقار فرخ ابھی صرف اسسٹنٹ پروڈیوسر۔۔۔ ان دنوں وہ شہنشاہ نواب کو اسسٹ کر رہے تھے ، گو کہ بعد میں وہ ٹی وی کے پروگرام پروڈیوسر، سکرپٹ ایڈیٹر ایگزیکٹو پروگرامز مینیجر، جنرل مینیجر، اور پھر ڈائیریکٹرتک کے اعلٰی عپدوں تک فائز رہے ۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ لاہور ٹی وی پر رفیق وڑائچ کے زمانے میں فرخ صاحب نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا ۔ "بیڈن روڈ " ایک نظم ْ جہاں میرے ارمانوں کی ثروت رہتی ہے ۔" یہ نظم شاید دوستوں میں بیٹھ کر مذاق مذاق میں لکھی گئی تھی لیکن کافی دلچسپی سے پڑھی اور سنی گئی ، معاملہ سنجیدہ اُس وقت ہوا جب حسن رضوی نے وہ نظم اٹھا کر جنگ کے ادبی ایڈیشن میں شائع کر دی ۔ لیکن بعد ازاں اس نظم نے کافی طوفان مچایا .
وہاں بیڈن روڈ پر کوئی اور ثروت بھی رہتی تھی جو فرخ صاحب کے ارمانوں کی ثروت نہیں تھی ، کیوں کہ وہ ثروت تو کوئی اور ہی تھی اصل ثروت ان سے کب اور کہاں ملی یہ میرے علم میں نہیں ۔میرے علم میں تو یہ بات آئی کہ بلاوجہ والی ثروت جو نظم کی ہیروئین تھی ہی نہیں ، اُس کے والد پی ٹی وی میں آ کر جی ایم رفیق وڑائچ صاحب کے کمرے میں واویلا مچانے لگے کہ اِس پی ٹی وی کے ایک شاعر نے میری بیٹی پر نظم لکھ دی ہے جس کی وجہ سے میری بیٹی کی منگنی کھٹائی میں پڑ گئی ہے ۔ اس ثروت کے والد صاحب دھمکیاں دے رہے تھے کہ وہ پورے پی ٹی وی کو مزہ چکھا دیں گے اور اس شاعر کو تو اٹھوا ہی لیں گے جو ایسی نظمیں لکھتا ہے ۔
رفیق صاحب نے فرخ صاحب کو اپنے کمرے میں طلب کیا اور پوچھا ۔ " آخر کیوں تم نے ان کی بیٹی پر نظم لکھی ؟ "
"ان کی بیٹی پرنہیں لکھی سر ۔۔۔۔ میں نے تو بیڈن روڈ پر لکھی ہے ۔۔۔۔۔۔
میں تو ان کی بیٹی کو جانتا تک نہیں ہوں ۔ "
" اوئے پر توں بیڈن روڈ تے کیوں لخی ۔۔۔ توں برانڈتھ روڈ تے لخ دیندا جیل روڈ تے لخ دیندا تھوڑیاں سڑکاں نیں لہور وچ ، تینوں لوڑ کیہ سی بیڈن روڈ تے لِخن دی۔"
بڑی لے دے کے بعد رفیق صاحب نے اس غلط والی ثروت کے والد کو سمجھا بجھا کر رخصت کیا ۔ اور فرخ صاحب کو ایک زبانی وارننگ دی کہ خبردار جے مُڑ کے توں کسے وی روڈ تے کدی کوئی نظم لخی بلکہ ہن جے توں کوئی نظم لخی یا لخن دی کوشش کیتی تے میں تینوں سسپینڈ کر دیاں گا ۔ فرخ صاحب نے وعدہ کیا کہ
ٍ "سرمیں آئندہ کبھی شاعری ہی نہیں کروں گا ْ ۔ " لیکن انہیں جی ایم رفیق صاحب یا کسی ثروت کا باپ بھی شاعری کرنے سے نہیں روک سکا ۔
اُن کی ایک نظم سنیئے
ہم سنبھلتے تو تب بھی کیا ہوتا
برف کی اُن سِلوں پہ تھے ہم لوگ
جو پھسل جاتی ہیں ٹھہرتی نہیں
برف کے ریگزار ِ سرد میں یہ
چھیل دیتی ہیں منظروں کے بدن
پاؤں پیوست ہو چکے ہیں مگر
مت سمجھنا کہ ہم گریں گے نہیں
ایک وقت آئے گا اے جان ِ جہاں
آر پار ہو کے اِن سلوں میں سے
منجمد آب ِ سخت جاں کے لیئے
لقمئہ ِ گرم بن کے بکھریں گے
چار جانب دیار ِ یخ بستہ
جس میں اپنے سفید سایوں کو
کون دیکھے گا سب کی آنکھوں میں
برف بن کر جمے ہوئے آنسو
ہم کو ہم سے بھی راز رکھیں گے
برف کی چوٹیاں پھسل جائیں
تو پھسل جاتے ہیں جہان بھی ساتھ
لاکھ سورج بھی جل اُٹھیں لیکن
آنچ آتی نہیں سِلوں پہ کبھی
لاکھ آنکھیں بھی اشک برسائیں
برف کے سلسلے پگھلتے نہیں
مدتوں سے وہ زائران ِ قدیم
آج بھی استخوان ِ سرد ہیں جو
منتظر ہیں ہماری آمد کے
کون جانے کے کب سے دفن ہیں وہ
برف کے منجمد صحیفے میں
مدتوں سے سطور ِ جامد ہیں
آج ہو جائیں گے رقم ہم بھی
اس صحیفے کی ٹھنڈکوں میں کہیں
کیا خبر برف کو کہ کون ہیں ہم
ہم کو چوٹی سے کھینچ لائی ہے وہ
ہم تو ازلوں سے اس صحیفے کی
جان ِ جاں آیئہ ِ اواخر ہیں
اس خوبصورت نظم کے بعد اب ایک اور واقعے کا ذکر سُنیئے ۔
رفیق صاحب کی عدالت میں ایک اورکیس پہنچ گیا وہ یہ کہ ہماری شادی کے بعد فرخ نے مجھے ببلی کہہ کر پکارنا شروع کر دیا تھا ۔ اس ببلی نام سے مجھے تو ستی کپڑی آگ لگ جاتی تھی ۔ ایک دن ٹی وی کے کوریڈور میں جب فرخ نے مجھے ببلی کہہ کر بلایا تو دو تین لوگوں نے مجھے مُڑ کر دیکھا ۔ مارے غصے اور شرمندگی کے میں وہیں لڑ پڑی تھی ۔ ٹھیک اسی وقت وہاں سے رفیق صاحب گزر رہے تھے وہ ہمیں اپنے کمرے میں لے گئے اور کہا
" تسی دونویں ایتھے بہہ کے تمیز نال لڑو ، تے جناں مر ضی لڑو۔ پر ایہہ دسو جھگڑا کیہہ اے ْ ۔"
" یہ مجھے ببلی کہتا ہے ْ "میں نے شکایت کی
ْ " کیوں بھئی، توں اینوں ببلی کیوں کہنا ایں ؟ "
"یہ شکر کرے میں اسے پنکی نہیں کہتا ۔ " فرخ نے جواب دیا
"توں شکر کر کڑیئے ایہہ تینوں پنکی نئیں کہندا ۔چلو شاباش ہن نہ لڑْنا ۔ " رفیق صاحب نے چائے وائے پلا کر اور سمجھا بجھا کر اپنے تئیں یہ معاملہ نمٹا دیا ۔
لیکن یہ میں ہی جانتی ہوں ان پنکیوں اور ببلیوں کے میلے میں کیسے کیسے مزید جھمیلے پروان چڑھے ۔
ہماری شادی ہوئی تومحبت میں آ کر موصوف مجھے گھمانے کے لیئے مقبرہ جہانگیر لے گئے وہاں ایک مقام ایسا تھا کہ آگے تانگے پر ہی بیٹھ کر جایا جا سکتا تھا لہذا تانگہ روکا گیا ، میں پیچھے بیٹھنے لگی تو کہا نہیں ہم اگلی سیٹ پر بیٹھیں گے
میں جھجکی تاہم ان کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی ۔ جب تانگے والا بیٹھنے لگا تو اسے حکم دیا
" نونو ، آگے نہیں ،
تم چلو پیچھے ۔ "
اس نے پریشان ہو کر کہا
" پچھے کنویں ؟ ۔۔ باوْجی میں تانگہ وانا اے ۔۔۔ "
" لیکن تم ہمارے ساتھ نہیں بیٹھو گے "
باوْجی نے فائینل فیصلہ سنا دیا اورپھر پتہ نہیں کس طرح بیچارے تانگے والے نے تانگے کے پائیدان پر بیٹھ کر تانگہ چلایا ۔
آفس میں ایک عورت سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تو میں نے پوچھا یہ خاتون کون ہیں ۔ بولے بیچاری بوڑھی عورت ہے ۔ بال سب سفید چہرے پر جھریاں ۔ اگلے دن دیکھا تو پتہ چلا وہ سب میک اپ کا کمال تھا خاتون گِٹ اپ میں تھی جبکہ اصل میں وہ ایک جوان جہان خاتون تھی اور ماڈرن بھی ۔
ایک دن دو لڑکیاں میرے آفس میں آئیں اور پوچھنے لگیں ۔ یہ جو ٹی وی میں ذوالفقارفرخ صاحب ہیں یہ کیسے آدمی ہیں ؟
اچھے آدمی ہیں ۔ میں نے کہا لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ۔
یہ وہی ہیں نا جن کی بیوی شاعرہ تھی بیچاری روڈ ایکسیڈنٹ میں مر گئی تھی ،
کوئی کہہ رہا تھا ان کی بیوی شاعرہ ہے اور نام پروین ہے تو پروین شاکر توفوت ہو چکی ہے نا ۔ دوبارہ شادی نہیں کی کیا انہوں نے ؟ شریف آدمی ہیں نا ۔۔ ؟؟؟
جی ہاں کافی شریف آدمی ہیں ۔ اور ان کی بیوی کے مرنے کا تو مجھے آج آپ سے ہی پتہ چلا ۔۔۔ پھران دونوں نے وہیں اپنا مسکارہ لپسٹک وغیرہ درست کیئے پاوْڈر کی پفنگ فریش کی اور موصوف کے کمرے کی جانب روانہ ہو گئیں ۔
ذوالفقار فرخ کو گانا گانے کا بھی بہت شوق ہے ۔ ایک رات جب انکے گانے کا سلسلہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا تو امی نے کمرے میں آکے کہا
"میرا پتر، ادھی رات لنگھ گئی ، توں گانے گا گا کے کھپ گیا ایں ، چل ہن سوں جا ۔ سویرے دفتر نئیں او جانا ۔؟ "
میوزک ، فوٹو گرافی ، شاعری ، پرفیومز ، لانگ ڈرائیو اور عشق کرنا فرخ کے مشاغل ہیں اپنے تعلیمی دور میں بہت پڑھتے تھے اپنے اور لڑکیوں کے لیئے نوٹس بنانے میں اپنا تمام تعلیمی عرصہ گذاردیا سو اسی دھن میں موصوف نے اپنی ماسٹر کی ڈگری گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کر لی ۔ لڑکیوں کو نوٹس کے ساتھ ساتھ شعربھی لکھ لکھ کر دینے پڑتے تھے اس لیئے شاعری بھی جان کو لگ گئی ۔
نوکری کے زمانے میں فرخ نے رفیق صاحب سے شاعری نہ کرنے کا وعدہ تو کیا تھا لیکن یہ کچی پنسل سے بنائے خاکے جیسا وعدہ تھا ۔ سب جانتے ہیں کہ چور چوری سے چلا جاتا ہے لیکن شاعر شاعری سے نہیں جاتا
فرخ کی شاعری سے کچھ اشعار سنیئے
سنگ ِ بے چشم ہوں کس طرح رلایا جاوْں
میں فقط ریت کیا جاوْں ، اُڑایا جاوْں
تیمم کر بھی لو اب میرے دل سے
یہ پتھر پاک ہونا چاہتا ہے
بن گیا زہر آج میرے لیئے
دیکھ تیرے جہان کا لُقمہ
روز کنواں خالی ہوتا ہے آنکھوں کا
روز وہ آ کر اس میں پانی بھرتی ہے
کتنی عجلت میں رومال تلاش کیا میں نے
اور رومال بڑھانے تک تو گجرے بھیگ گئے
سادہ ورق ملا ہے ترے آنسووْں کے ساتھ
تو کیا کیا لکھ گیا ہے کسی کے دباوْ میں
زمیں کا ذائقہ گھوڑے کی ٹاپ سے چکھا
تو میری ساری کدورت پس ِ غبار گئی
میں لرزتا تھا اُسکی پلکوں پر
شاخ ِ نازک پہ آشیانہ تھا
مدقوق روشنی میں ہوں اُجڑا ہوا مکاں
مجھ میں قیام کر کے پرستان کر مجھے
میں نے اُسے سمیٹ لیا بازوْں میں اور
تھوڑی ہی دیر میں وہ دوبارہ بکھر گیا
میں رقصِ آب میں اور لشکر حباب میں تھا
میں جیت جاتا مگر ان کے درمیاں تم تھے
یہ معجزہ تو نہ تھا میرا پار اتر جانا
سمدروں کی تہوں میں کہیں رواں تم تھے
مرنے کے بعد جسم تو ساکت ہوا مگر
آنکھوں میں ایک اندھا سفر جاگتا رہا
مدت کے بعد ٹوٹ کے سویا تمام رات
شریان ِ چشم میں وہ مگر جاگتا رہا
میں نے شام کو ہی اُسکی آنکھوں میں دیکھ لیا
بارش کا امکان رات کے ڈیڑھ بجے کے بعد
تاریکی میں میری خاطر جلتے رہتے ہیں
چاند اور روشندان ، رات کے ڈیڑھ بجے کے بعد
یہ اشعار میں نے اپنی یاد داشت کے حوالے سے لکھ دیئے ہیں ۔ فرخ نے جتنی بھی شاعری کی بہت خوبصورت ہے لیکن اُس نے اپنی شاعری کو، اتنی لفٹ نہیں کرائی جتنی اپنی دیگر سرگرمیوں کو ۔۔۔
وہ بھی حسن کوزہ گر کے جیسا رہا ۔۔۔ اس نے اپنی اولین توجہ کی چیزوں کو موخر ہی رکھا ۔۔۔ وگرنہ اس کی لکھی پوئی ایک ایک سطر حسن کوزہ گر کے اُن رنجور کوزوں کی طرح نہ ہوتی جنہیں اُس نے کتنے ہی سالوں سے پلٹ کر نہیں دیکھا
اُسے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ اسکی شاعری پر بھی وقت بالکل ایسے ہی گزرتا ہے
ْ کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے ْ .