گزشتہ رات ڈنر کے لیے میں "بیچ لگژری ہوٹل" گیا، کئی مرتبہ میں اس ہوٹل میں جا چکا ہوں. اس بار جب میں ہوٹل کے داخلی دروازے سے اندر جا رہا تھا تو میری نظر غیرارادی طور پر ہوٹل کے "سنگِ بنیاد" کی تختی پر پڑی، مجھے تھوڑا تجسس ہوا کہ آخر اس ہوٹل کا "سنگ بنیاد" کب رکھا گیا…؟ یہی سوچ کر جب میں "تختی" کے قریب گیا تو مجھے علم ہوا کہ اس ہوٹل کا سنگِ بنیاد پاکستان کے قیام سے محض تین ماہ پہلے یعنی گیارہ مئی 1947 کو رکھا گیا تھا۔
اس کے نیچے ایک اور تختی بھی لگی ہوئی تھی جو اس ہوٹل کے افتتاح سے متعلق تھی۔ اس پر 21 مارچ 1948 کی تاریخ درج تھی۔ یعنی پاکستان بننے کے دس مہینے بعد یہ ہوٹل عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ مزید براں سنگِ بنیاد کی تختی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ہوٹل "مسٹر ڈی بی آواری" کی ملکیت ہے، جن کا تعلق پاکستان کے اقلیتی پارسی مذہب کے ماننے والوں میں سے تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان ابھی نیا نیا تقسیم ہوا تھا۔ معرضِ وجود میں آنے والے نئے مُلک پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذہب کے پیروکاروں کی بھی اچھی خاصی تعداد آباد تھی، مُلک کے کئی بڑے بڑے ہندو اور پارسی خاندان یہاں پر سرمایہ کاری کر رہے تھے۔ اُس وقت ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہو گا کہ آنے والی دہائیوں میں یہاں کی فضا ایسی تبدیل ہو جائے گی کہ شہری مذہب و زبان کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے اور تعصب پرستی کو مذہب بنا کر پُوجا جائے گا۔۔۔
"بیچ لگژری ہوٹل" بحر عرب کے کنارے پر واقع ہے، کل رات میں بالکل سمندر کے کنارے والی کرسی پر بیٹھ گیا، ابھی ڈنر شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا، لوگ بھی آہستہ آہستہ جمع ہو رہے تھے لیکن میں وہاں بیٹھے بیٹھے اچانک ہی ستّر کی دہائی میں پہنچ گیا۔۔۔ وہ وقت جب میں میٹرک کا طالبعلم تھا۔ کراچی اُس وقت اپنے "نائٹ کلبوں" کی وجہ سے مشہور تھا، جہاں پر امیر اور غریب دونوں کو یکساں طور پر شراب تک رسائی حاصل تھی۔ اُس وقت کراچی شہر میں ایک سے زائد شام کے انگریزی کے اخبارات شائع ہوا کرتے تھے، جن کے صفحات مشہور رقاصاؤں (بین الاقوامی) کی تصویروں سے بھرے ہوتے تھے۔ اُس زمانے میں بالخصوص کراچی کے باشندے ہفتے بھر کے کام کاج کے بعد ویک اینڈ پر پارٹیوں کا رخ کرتے تھے۔ شہر کے ان نائٹ کلبوں میں مشہور امریکی جاز موسیقاروں کی دھنوں پر بیروت، قاہرہ، بنکاک اور منیلا سے آئی ہوئی حسینائیں پرفارم کیا کرتی تھیں۔ اُس زمانے میں کراچی میں پلے بوائے، Oasis ،Excelsior اور Club007 ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔
کلب 007 تو اسی بیچ لگژری ہوٹل کا حصہ تھا اور آج بھی جہاں پر میں بیٹھا ہُوا ہوں وہاں سے 007 کا بورڈ نظر آرہا ہے، لیکن اب یہ ایک ویران اور خالی ہال کی شکل میں اداس سا کھڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی ویرانگی کو دیکھ کر دل رنجیدہ سا ہو جاتا ہے۔۔۔ گئے زمانوں میں یہاں پر کیسی کیسی رعنائیاں ہوا کرتی تھیں۔
ستر کی دہائی کے آغاز تک پاکستان ایک روشن خیال ملک سمجھا جاتا تھا، شنید ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کلبوں میں جانا پسند کرتے تھے، لیکن تاریخ کا یہ ظلم ہے کہ پاکستان میں اسلام پسندی کی لہر کی وجہ سے ان ہی کی حکومت نے 1977 میں شراب، گُھڑ دوڑ اور نائٹ کلبوں پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے بعد فوجی آمر ضیا الحق نے تو اپنا اقتدار مذہب اسلام کی من پسند تشریح کے سہارے ہی مضبوط کیا اور 1980 کی دہائی کے آغاز سے ہی کراچی شہر میں عام آدمی کے لیے نائٹ لائف ختم ہو گئی. رفتہ رفتہ امیر لوگوں نے اپنے گھروں میں "Bar" بنا لیے جہاں پر رنگین نجی محفلیں بھی پابندی سے منعقد کی جاتی رہیں، لیکن افسوس کہ عام آدمی کو اپنا غم غلط کرنے کے لیے کوئی بھی موقع میسّر نہیں آسکا، یہی سبب ہے کہ ہمارے معاشرے میں تشدد کو خوب فروغ حاصل ہوا اور عدم رواداری کے بھیانک دور کا آغاز ہوا، یہی عدم رواداری ہمارے ملک کی روشن خیال قدروں کو نگل رہی ہے۔
“