ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر سنکی سائینسدان غائب دماغ پروفیسر کِسی ریسرچ کے سِلسلے میں آسٹریلیا کے شمال مشرقی علاقے کے گھنےجنگلات میں گِھرے ایک چھوٹے سے دیہاتی شہر میں میٹنگ میں شِرکت کرنے گیا۔ دوپہر کے کھا نے سے پہلے کُھلی فضا کے شوق میں چہل قدمی کرتے قریبی گھنے جنگل میں گُم ہو گیا۔ نہ رستہ ملے نہ منزل۔ تھکن سے بُرا حال۔ بھوک سے آنتیں قُل ہو وَاﷲ پڑھیں ، پیاس سے حلق میں کانٹے چُبھیں۔ شام ہو گئی۔ دُور سے ایک روشنی نظر آئی۔ اُسطرف چلنا شروع کر دیا۔ قریب پہنچا توسر سبز باغ سے گھِرا چھوٹا سا خوبصورت گھرانہ دیکھا ، کھڑکی سے اُمنڈتی روشنی اور پکوان کی خوشبو کے جھونکوں نے آنکھوں کو طراوَت اور پیٹ میں کُودتے چُوہوں کو دَعوَت دی۔ جُرأت کر کے گیٹ سے گُزر کر گول پتھروں سے بنے رستے پر تھکے ماندے قدم رکھتے جا کر دروازہ کھٹکھٹا دیا۔
دروازہ کُھلا تو دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے دو نالی بندوق تھامے، پریشان سُنہری گھونگریلی مُشکِ خَتن زُلفیں ‘ غلافی بادامی آنکھوں میں دیسی گھی کی شمعِیں فروزاں رشکِ چمن غنچۂ دہن توبہ شکن سیمیں بدن ایک حسینہ نظر آئی۔ عورت نے گَردو غُبار سے اَٹا سُوٹِڈ بُوٹِڈ آئین سٹائین جیسا حُلیہ دیکھا تو ہِچکچا کر بندوق ذرا سی نیچی کی۔ پروفیسر نے اپنی طرف نشانہ لیے بندوق کی دونوں خوفناک نالیوں کا جائزہ لیا، اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر آشتی اور اپنے غیر مُسَلَّح ہونے کا مظاہرہ کیا ‘ ایک عورت کا شام کے وقت اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے ایک اجنبی مَرد سے خوف کا اندازہ کیا اور بڑی عاجزی سے اِستدعا کی۔
’’معذرت چاہتا ہوں! میَں جنگل میں راستہ بُھول گیا۔ چلتے چلتے تھک گیا ہوں۔ بڑی پیاس لگی ہے۔ پانی پلا دو تو مہربانی ہو گی۔ میَں پروفیسر ہُوں، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہُوں، بے ضرر ہُوں،بالکل تنگ نہیں کرتا۔‘‘
بندوق کی نالی نیچی کرتی شیریں سُخن حسینہ بولی ’’میرا ایک مسئلہ ہے‘ میرا شوہر آج رات گھر پر نہیں۔ میَں بالکل اکیلی ہُوں‘‘
پروفیسر نے تسلی دی، ’’ پانی پِلا دو۔ میَں پروفیسر ہُوں، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہُوں، بے ضرر ہُوں، بالکل تنگ نہیں کرتا‘‘
ناز آفریں حسینہ نے بندوق کو واپس طاق پر رکھ کر پروفیسر کو اندر بُلا کر کُرسی پر بِٹھا دیا اور ٹھنڈے پانی کا جگ اور گلاس پیش کیا۔ پانی پی کر پروفیسر کے کچھ ہوش ٹھکانے لگے، پکوان کی خوشبو نے پیٹ کے چُوہوں کو مزید وَرزِش پر آمادہ کیا تو مسکینی آواز سے بولا۔
’’مُجھے بڑی بھُوک لگی ہے۔ کھانا بھی کِھلا دو تو مہربانی ہو گی‘‘
جانِ بہاراں حسینہ بولی، ’’ مسئلہ ہے‘ میرا شوہر آج رات گھر پر نہیں۔ میَں بالکل اکیلی ہُوں‘‘
پروفیسر نے اپنی طرف ہاتھ کا اِشارہ کرتے تسلی دیتے کہا۔ ’’میَں پروفیسر ہُوں ، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہُوں، بے ضرر ہُوں۔ بالکل تنگ نہیں کرتا‘‘
حسینہ نے میز پر کھانا بھی چُن دیا۔ پروفیسر سخت بُھوکا تھا‘ اِتنا زِیادہ کھا گیا کہ پیٹ میں چُوہوں کی بھی نیند سے آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بوجھل آنکھوں سے پروفیسر نے اِدھر اُدھر دیکھ کر میزبان حسینہ سے پُوچھا۔ ’’بہت سخت نیند آ رہی ہے۔ رات ہو گئی ہے۔ اب کہیں جا بھی نہیں سکتا۔ کہیں میرے سونے کا اِنتظام ہو سکتا ہے؟‘‘
خندۂ جبیں حسینہ نے اب ذرا شرماکر کہا۔ ’’ مسئلہ ہے ،میرے پاس ایک ہی بِستر ہے۔ میرا شوہر آج رات گھر پر نہیں۔ میَں بالکل اکیلی ہُوں‘‘
چند لمحوں کےبوجھل وقفے کی سوچ کے بعد پروفیسر نے ہاتھ اُٹھا کر مسئلے کا حل پیش کیا۔
’’میَں پروفیسر ہُوں، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہُوں، بے ضَرر ہُوں۔ بالکل تنگ نہیں کرتا۔ اِسطرح کرتے ہیں۔ بِستر پر ایک طرف رُخ کر کے میَں سو جاتا ہوں ‘ دُوسری طرف رُخ کر کے تُم سو جانا‘‘۔
دوسری صُبح سویرے صبا رفتارحسینہ نے باہر جا کر گائے کا دُودھ نکالا، مُرغیوں کو دَڑبوں سے صحن میں نکال کر انڈے اکٹھے کئے ‘ کِچن میں واپس آ کر مکھن بنایا اور پراٹھوں انڈوں کا ناشتہ بنانا شروع کر دیا۔
پروفیسر کھڑکی سے باہر صحن میں مصروف دانہ چُگتی ،کچی زمین کُھرچتی ، اِدھر اُدھر پِھرتی مُرغیاں دیکھ کر کِسی سوالیہ سوچ میں مُبتلا تھا۔ حسینہ کو مخاطب کیا،
’’بڑی عجیب بات ہے۔ جہاں میَں رہتا ہوں وہاں ہمارے آس پاس بھی لوگ مُرغیاں پالتے ہیں لیکن ہر ایک کے پاس مُرغا ایک ہی ہوتا ہے۔ میَں نے نوٹ کیا، یہاں تمہاری مُرغیوں میں دو مُرغے پِھر رہے ہیں۔ وہ کیوں؟‘‘
’’ہاں اور نہیں!‘‘ حسینہ نے سمجھانے کے انداز میں لیکن دانت کچکچا کے جواب دیا۔
’’ہمارے پاس بھی اصل میں مُرغا تو ایک ہی ہے۔ دوسرا پروفیسر ہے‘ پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہے‘ بالکل بے ضرر ہے۔ کھانا زیادہ کھا جاتا ہے۔ گہری نیند سو جاتا ہے۔ مُرغیوں کو بالکل تنگ نہیں کرتا!!‘‘
“