میرے لیے یہ خبر نہیں کہ نئی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اُن کے لیے خبر ہونی چاہیے جو نئی حکومت کے وزیراعظم جناب عمران خان کے دعووں سے انہیں ایک معجزہ گیر لیڈر سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ واقعی اقتدار میں آنے کے بعد قرضہ حاصل کرنے والا کشکول توڑ دیں گے۔ یہ کشکول صرف 1971ء میں اقتدار میں آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے وزیرخزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کی ذریعے توڑی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی مالیاتی اداروں بشمول ورلڈ بینک ،اپنے اقتدار کے پانچ سالوں میں ایک ڈالر بھی قرض نہ لیا۔ اور یاد رہے وہ پاکستان اِس پاکستان سے کہیں بدحال، پست اور شکست خوردہ تھا۔ آدھے سے زیادہ پاکستان(مشرقی پاکستان) الگ ہوچکا تھا۔ فوج ایک افسوس ناک شکست کا سامنا کرچکی تھی۔ آج کا پاکستان اُس سے کہیں بہتر ہے۔ اور یہ جو ہم نے خبریں سنیں، 25جولائی کے بعد عمران خان کو اقتدار ملنے کے ساتھ ہی کہ سعودی عرب، ایران اور دیگر ممالک فوراً اربوں ڈالر کی امداد دینے آرہے ہیں، سوال یہ ہے کہ وہ کیوں آنے کے لیے بے چین ہیں؟ پاکستان میں اُن کے مفادات کیا ہیں؟ نئی حکومت نے چین کے ساتھ تعلقات ’’حساس حد‘‘ تک پہنچانے میں نجانے کیسے تیزرفتاری دکھلائی۔ ترکی کے صدر جناب طیب اردوآن کے نمائندے اس کالم کی اشاعت تک وطن عزیز پہنچ چکے ہیں۔ وہ کیا معاملات طے کرنے آرہے ہیں۔ میں اپنے وطن کے پیٹ سے پردہ نہ ہی اٹھائوں تو بہتر ہے۔ مجھے پاک ترک تعلقات اور پاک چین تعلقات اپنی جان جیسے عزیز ہیں۔ یہ میرے سیاسی فلسفے کے اہم ستون ہیں۔ بس درج بالا چند سطور سے زیادہ نہیں لکھنا چاہتا۔ دعاگو ہوں کہ پاکستان کی نئی حکومت، ترک حکومت کی اہم خواہشات کا احترام کرے اور دونوں دوست ممالک خوب دوستی نبھائیں۔ ہمارے وزیرخزانہ جو ایک کھاد فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے اور قرضہ لینے پر خودکشی کرنے کے اعلان میں اپنے قائد عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے، اب کس منہ سے قرضہ لیں گے؟ ہاں وہ خود تو خودکشی نہیں کریں گے لیکن میرے وطن کو مزید خودکش بنانے میں مددگار ضرور ہوں گے، جیسے انہوں نے کھاد فیکٹری میں ملازمت کے دوران اس فیکٹری کا بھٹہ ہی بٹھا دیا۔
کل میں ٹیلی ویژن سکرین پر ایک شخص کو بحیثیت حکومتی تجزیہ نگار و ترجمان سن اور دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ بلند آواز میں چیخ چیخ کر اپنی نئی حکومت کی معاشی ترجمانی کررہا تھا۔ یہ صاحب یوں تو بڑے ہی دھیمے انداز میں اعدادو شمار اکٹھے کرکے ٹیلی ویژن سکرینوں پر آہستہ اور دھیمی آواز میں بول کر اپنے ’’مہذب‘‘ دانشور ہونے کا مظاہرہ کرتے اور یقین دلاتے رہے۔ جناب فرخ سلیم جو اب حکومت کے معاشی ترجمان ہیں۔ لیکن جب سے یہ معاشی ترجمان بنے ہیں، اُن کی زبان اس قدر لمبی ہوگئی۔ خدارا! بس اتنی بات تھی ڈاکٹر فرخ سلیم صاحب، معاملہ نوکری کا تھا۔ بس! وہ کل ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں قرضوں کے حصول کا دفاع کرتے ہوئے فرما رہے تھے، یہ قرضے ہماری زندگی ہیں۔ اگرا ٓپ لوگوں نے نہ لینے دئیے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ پاکستان کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے۔جناب ڈاکٹر فرخ سلیم صاحب، نوکری ملتے ہی آپ اس قدر چرب زبان ہوگئے۔ ٹوٹی کہاں کمند۔۔۔ سبحان اللہ۔
وزیراعظم عمران خان صاحب، آپ بہت بڑی طاقت کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔ عوام کے ووٹوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے خاص مجاہد آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ اس قدر کمزوریوں کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں۔ ڈٹے رہیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں۔ جب سیاست کی باگ دوڑ پراپرٹی ڈیلروں، گنے سے چینی بنانے والوں، فیکٹریوں کے بڑے بڑے عہدے داروں اور نام نہاد دانشوروں کے ہاتھوں میں آجائے تو ایسی ہی حکومتیں تشکیل ہوتی ہیں۔ شاید آپ کو یاد ہو، آج سے اکیس سال پہلے 1997ء میں غریب خانے پر کھانے پر مدعو تھے جب آپ اپنے دوستوں جناب حفیظ خان (کینیڈا والے آپ کے دوست) اور جنرل مجیب الرحمن جو آپ کی جماعت کے اوّلین ساتھی تھے اور آپ اپنا پہلا الیکشن بری طرح ہار چکے تھے۔ تو میں نے کہاتھا کہ آپ کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ ایک دن آپ اس ملک کے حکمران بن جائیں گے۔ آپ جیسا تیسا کرکے پہنچ گئے، اس کرسی اقتدار پر۔ خاکسار نے اُس وقت کہا تھا کہ پھر اقتدار سے اترنے کے بعد آپ خاکسار کے ہاں اسی صوفے پر تشریف رکھیں گے اور کہیں گے، ’’سہیل، میرے ہاتھ بھی بندھے ہوئے تھے اور پائوں بھی، بلکہ آپ تو یہ بھی کہیں گے کہ میری تو زبان بھی بندھی ہوئی تھی۔ میں کچھ کرنے اور بولنے سے بھی قاصر تھا۔‘‘ میں کسی غیبی علم کا دعوے دار نہیں۔ یہ میرا سیاسی تجربہ، زمینی حقائق اور سیاسی وژن تھا، جس بنیاد پر یہ تجزیہ اور صورتِ حال عرض کی تھی۔ اور لگتا ہے کہ آپ اس سفر پر بہت تیزرفتاری سے چل پڑے ہیں۔
اور ہاں 50لاکھ مکانات کی تعمیر کا دعویٰ۔ اوہ میرے خدایا، کاش آپ اس حوالے سے دنیا کے کسی ملک کا عمل مطالعہ ہی کرلیتے کہ کس ملک نے کیسے اور کہاں، کتنے عرصے میں حکومتی سطح پر مکانات تعمیر کرکے عوام کو دئیے؟ لگتا ہے آپ مطالعے سے زیادہ دعووں پر یقین رکھتے ہیں۔ مجھ جیسا ناچیز سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے عوام کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کے خوابوں کو پالنے والے سے ہی پوچھ لیتے کہ کیا پانچ سالوں میں پاکستان کے وسائل میں پچاس لاکھ مکانات بنانا ممکن ہیں۔ ارے وہ ولادی میر لینن کا اشتراکی روس ہی تھا جس نے انسانی تاریخ میں پہلی بار اقتدار کی بساط الٹ کر مزدوروں کی حکومت بنا ڈالی۔ اور یوں ہم نے سوشلسٹ ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں عوام کو گرم پانی، بجلی اور دیگر سہولیات سمیت مفت فلیٹ ملتے اور ان میں رہتے بستے دیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ آپ جیسے لوگ ان فلیٹس پر تنقید کرنے کے لیے یہ کہا کرتے تھے ، ’’سٹالنسٹ آرکیٹیکچر‘‘۔ اب میں ترکی جیسے سرمایہ دار ملک میں ایسے ہی سرکاری فلیٹس دیکھتا ہوں جو حکومتی ادارہ TOKI عوام کو دیتا ہے، مگر مفت نہیں بلکہ قیمتاً۔ آپ اُن دنوں آکسفورڈ میں پڑھتے تھے، جب ان سوشلسٹ ریاستوں نے لوگوں کو مفت تعلیم، مفت گھر، مفت صحت کی سہولیات دیں، جدید دنیا میں بلاسود قرضوں کی واحد مثال حتیٰ کہ حکومت اپنے شہریوں کو موسم گرما میں سیاحت کے لیے سالانہ وظیفہ بھی دیتی تھی۔ہم جیسے سیاسی جدوجہد کرنے والے ایسی جنت کے لیے سرگرداں تھے۔ وہاں اسدعمر اور ڈاکٹر فرخ سلیم جیسے کلرک نہیں تھے، وہاں سیاسی لیڈر تھے جو عوامی جدوجہد کی بھٹی سے تیار ہوکر نکلے تھے۔
افسوس، پاکستان سراب درسراب، دعووں پر دعوے کرتا ہوا مزید قرضوں میں دبتا چلا جائے گا۔ افسوس ، پاکستان روز بروز ایک Dependent State بننے کی جانب بڑھتا چلا جائے گا۔ دوسرے یا دوست ممالک کے رحم وکرم پر۔ یا عالمی مالیاتی اداروں کے رحم وکرم پر۔کاش ہم خلق خدا کو اس کے اصل حقوق دے دیں، پھر دیکھیںوہ کیسے بدلتے ہیں پاکستان۔ بے زمین کو زمین دے دو۔ بے تعلیم کو تعلیم دے دو۔ پھر دیکھو وہ خود بدلیں گے پاکستان۔
“