رحمان بھائی جینیئس ہیں اور یہ بات میں کئی سال سے مانتاہوں۔ خاص طور پر رحمان بھائی کی تخلیقی صلاحتیں جن میں ایک انجنئر اور ایک شاعر گھل مِل جاتاہے، بڑی عجب ہیں۔ رحمان بھائی کی اکثر باتوں سے کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملتاہے۔ گزشتہ دنوں ہم ایک افطاری میں اِکھٹے ہوئے تو رحمان بھائی نے اپنی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ واقعہ تو دلچسپ ہے ہی اور میں آپ کو سناتا بھی ہوں، لیکن آپ یہ دیکھیے! کہ رحمان بھائی نے نابغۃ زبیانی کے زمانے سے لے کر آج تک، گویا ڈیڑھزار سال میں پہلی مرتبہ کیسا عجب طریقہ ایجاد کیا، ایک بے وزن شاعر کو یہ بات سمجھانے کا کہ ’’آپ فی الواقعہ بے وزن ہیں‘‘۔ کیونکہ ہوتا یوں ہے جو لوگ وزن کو نہیں سمجھتے وہ اِس بات سے بھی بالکل بے خبر ہوتے ہیں کہ وہ وزن کو نہیں سمجھتے۔ میں نے بھی زندگی میں ہزارمرتبہ دیکھا کہ جو لوگ شعر کو وزن میں نہیں پڑھ پاتے وہ اصل میں شعری وزن کو سرے سے سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ جتنا بھی سمجھایا جائے وہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ ’’کیسے نہیں ہے وزن میں؟‘‘۔ ہمیں تو بالکل وزن میں لگتاہے۔ یہ بڑا دلچسپ منظر ہوتاہے۔ تمام شاعراس بات سے واقف ہیں۔ خیر! تو رحمان بھائی نے مندرجہ ذیل واقعہ سنایا،
’’طالب علمی کا زمانہ تھا۔ یو ای ٹی لاہور جیسی جابر یونیورسٹی کی شُہرت کا دور تھا۔ میں انجنیئربننے گیا ہوا تھا۔ یو ای ٹی سے ایک ادبی پرچہ بھی نکلتا تھا اور میں اس پرچے کا ایڈیٹر یعنی کہ ’’مدیر‘‘ تھا۔ یونیورسٹیوں میں اُن دنوں طلبہ تنظیموں کا، آج کی نسبت زیادہ ’’روایتی طرز‘‘ کا رواج تھا۔ آئے روز طلبہ تنظمیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتی رہتیں، اس لیے لیڈر ٹائپ طلبہ خاصے اکڑخان ہوا کرتے تھے۔ تحکّمانہ انداز میں بات کرتے اور میرے جیسا شاعر مزاج طالب علم تو ویسے بھی، ایک ہی بھبھکی سے سہم جاتا تھا۔ خیر! تو کئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ اِسی ٹائپ کا کوئی طالب علم ایک غزل دے جاتا اور کہتا کہ آئندہ پرچے میں اس کی غزل شائع کردی جائے۔ میں پریشان ہوجایا کرتا تھا کیونکہ شاعری بے وزن ہوتی تھی جبکہ غزل دینے والے طالب علم کا لہجہ قدرے تحکّمانہ ہوتا تھا۔ میں سوچ میں پڑجاتا کہ انہیں کیسے سمجھاؤں کہ یہ غزل نہیں ہے یہ فقط نثر لکھ کر لے آئے آپ۔
آخر ایک ترکیب مجھے سُجھائی دی۔ میرے پاس جب وہ غزل لاتے تو میں کہتا، ’’آپ کی شاعری بے وزن ہے، اس لیے پرچے میں شائع نہیں ہوسکتی‘‘۔ ظاہر ہے وہ برہم ہوجاتے اور کہتے، ’’تمہیں کیسے پتہ کہ یہ بے وزن ہے؟ ہم نے جو کہہ دیا کہ وزن میں ہے توبس پھر وزن میں ہے۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ بے وزن ہے؟‘‘۔ تب میں ان سے کہتاہے، ’’آپ کے کمرے میں کوئی شاعری کی کتاب پڑی ہے؟ کسی بھی شاعر کی؟‘‘۔ ظاہر ہے، کوئی نہ کوئی کتاب تو ہوتی ہی تھی، میں انہیں کہتا ، ’’آپ وہ کتاب لےآئیں، پھر میں آپ کو سمجھاتاہوں کہ آپ کی غزل کیونکر بے وزن ہے‘‘۔ وہ کتاب لے آتے تو میں کہتا، ’’اچھا اب ایک کھیل کھیلتے ہیں، آپ یوں کریں کہ کہیں سے بھی، کسی بھی شعر کو پہلے ٹِک کرلیں۔ ایک نشان لگا لیں۔ اب اُس شعر کے مصرعوں میں موجود لفظوں کی ترتیب بالکل الٹ پلٹ دیں۔ پچھے کا لفظ آگے اور آگے کا لفظ پیچھے لگا دیں، سب کچھ بدل دیں۔ اور وہ بے ربط اور بے ترتیب جملے مجھے سنائیں‘‘۔ وہ حیرت سے مجھے تکتے رہتے اور میرے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے۔ وہ مجھے بے ترتیب الفاظ والے جملے سناتے اور میں وہ بے ترتیب الفاظ سن کر اُنہیں واپس اصلی شعر سنا دیتا۔ ظاہر ہے میں انہیں اصلی شعر اس وجہ سے تو نہ سناتا تھا کہ وہ شعر مجھے زبانی یاد ہوتا تھا بلکہ اس وجہ سے سناسکتا تھا کہ میں ٹوٹے پھوٹے بکھروں ہوئے لفظوں کو سنتے ہی فوراً سمجھ جاتا تھا کہ اصل مصرعے کے اندر کون سی بحر میں یہ الفاظ کس طرح جُڑے ہوئے ہونگے۔ تب میں انہیں کہتا، اب جو شعر میں نے آپ کو سنایا ہے اس کو کتاب والے شعر کے ساتھ میچ کریں‘۔ ظاہر ہے شعر بالکل میچ ہوجاتا۔ وہ ششدر رہ جاتے۔ یہ کرکے پھر اُس کے بعد میں اُن سے کہتا کہ اب میں اِسی کتاب کے کسی شعر کے مصرعے کو توڑتا ہوں۔ جیسے آپ نے ترتیب بدلی ویسے ہی الفاظ کی ترتیب بدلتاہوں۔ اب آپ مجھے اس ترتیب کو واپس درست کرکے ویسے ہی شعر سنا دیں جیسے میں نے آپ کو سنایا۔ ظاہر ہے وہ ایسا نہ کرپاتے لیکن اُنہیں یہ تسلیم کرنا پڑجاتا تھا کہ، ’ہاں! تم ٹھیک کہتے ہو۔ اگرچہ ہمیں ابھی بھی سمجھ نہیں آئی کہ وزن کیا ہوتا ہے لیکن اتنا پتہ چل گیا ہے کہ کچھ ایسا میجک ضرور ہے جو تمہارے پاس ہے اور ہمارے پاس نہیں ہے‘‘۔