اے بہادر جنگجو تمہیں کیا ہوا ہے
کہ تم یہاں اکیلے بے سود پڑے ہو؟
تمہارا چہرا پیلا کیوں پڑ رہا ہے ؟
ندی کے کنارے لہلہاتی گھاس سوکھ چکی ہے ،
اور پرندوں نے چہچہانا ترک کر دیا ہے
لیکن اے بہادر جنگجو تمہیں کیا مشکل آن پڑی ہے ؟
کہ تم یوں پثرمردہ اور غم سے نڈھال کیوں دکھ رہے ہو ؟
گلہریوں نے اناج سے اپنے غلے بھر لیے ہیں
فصلیں کٹ چکی ہیں ۔۔۔۔
مگر میں تمہاری پیشانی کو
موتیے کی مانند کوری
ہوتے دیکھ رہا ہوں
جس پہ اذیت کی نمی اور
بخار کی بوندیں ٹپک رہی ہیں
اور تمہارے سرخ گلاب جیسے
گالوں کو پھیکا پڑتے دیکھ رہا ہوں
جو جلد مرجھانے کو ہیں!!!
میں گہری سبز وادی میں
اک عورت سے ملا تھا ۔۔۔۔
اتنی حسین عورت سے ۔۔۔
ایک پری کی بچی کی طرح خوبصورت عورت سے
جس کے لمبے گھنے بال تھے
اس قدر نازک اندام کہ
اس کے پاوں زمین پر نہیں پڑتے تھے
گویا ہوا میں تیرتی تھی۔۔۔۔
اس کی بڑی بڑی اجنبیت بھری آنکھیں تھیں ۔۔۔
میں نے اس کیلئے پھولوں کا تاج بنایا ،
اس کی نرم و نازک کلائیوں کیلئے کنگن بھی بنائے
اور اس کے گرد خوشبو کو لپیٹ دیا
وہ محبت بھری نگاہوں سے
میری طرف دیکھ رہی تھی
اور اس نے میرے لیے محبت کے
میٹھے گیت گنگنائے ۔۔۔۔
میں نے اسے اپنے ساتھ دوڑتے ہوئے گھوڑے پہ بٹھا لیا ۔۔۔
اور اس کے بعد سارا دن میں
کچھ اور دیکھ نہ پایا
جوں جوں گھوڑے کی رفتار بڑھتی
وہ آگے کو جھگتی اور گانا گاتی،
پریوں والا پیارا گیت۔۔۔۔۔۔
وہ میرے لیے مزیدار ، میٹھی بوٹیاں اور جنگلی شہد کھوج کے لائی۔۔۔
جسے کھا کے من و سلویٰ کی یاد تازہ ہو جائے
اور پھر اک الگ سی زباں میں اس نے مجھ سے کہا
کہ میں تم سے سچا پیار کرتی ہوں
اور مجھے اپنے جادوئی غار میں لے گئی ۔۔۔۔۔
جہاں وہ خوب روئی ، اور غم سے اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں
جیسے وہ کوئی بہت بڑے غم سے بھری ہوئی تھی۔۔۔۔
اور میں نے اس کی بڑی بڑی حسین آنکھوں کو اپنے
ہاتھوں سے بند کیا اور
ان آنکھوں کو چپ کرانے کیلئے
میں نے چار بار ان پر اپنی
محبت کی مہر ثبت کی
اور وہاں اس نے مجھے پیار بھری لوری سنانا شروع کی اور مجھے نیند آ گئی
اور میں نے تب ایک شدید ڈراونا خواب دیکھا
اور جو میرا اب تک کا آخری خواب تھا ،
کہ میں ایک ٹھنڈی پہاڑی کی طرف پڑا ہوں
میں نے وہاں پیلاہٹ کا شکار
بادشاہوں ، شہزادوں اور بہادر جنگجؤوں کو دیکھا
وہ سب موت کی پیلاہٹ کا شکار تھے ۔۔۔۔۔
اور وہ سب مجھ پہ چلائے
کہ وہ حسن کی دیوی، پریوں جیسی حسینہ
رحم سے خالی ہے ۔۔۔۔۔
اس نے ہماری طرح تمہیں بھی
اپنے جال میں پھنسا لیا ۔۔۔۔
میں نے ماند پڑتی روشنی میں ان کے فاقہ زدہ ہونٹ دیکھے
جو منہ کھولے ہوئے مجھے آنے
والے خطرے سے خبردار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
اور جب میں اس خواب سے بیدار ہوا تو۔۔۔۔
میں نے خود کو اس ٹھنڈی پہاڑی پر لیٹے ہوئے پایا ۔۔۔
اس لیے میں یہاں بےسود اور بدحال پڑا ہوں
جب کہ ندی کے کنارے لہلہاتی گھاس سوکھ چکی ہے
اور پرندوں نے چہکنا بند کر دیا ہے ۔
شاعری: La Belle Dame Sans Merci
شاعر: جان کیٹس
ترجمہ : طیبا سید