بے پناہ شادمانی کی مملکت : ریاستی جبر کیخلاف جرأت مند بیانیہ
ناول ’دی گاڈ آف اسمال تھنگز‘ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والی معروف انڈین فکشن نگار اور ایکٹیوسٹ اروندھتی رائے کا دوسرا ناول ’دی منسٹری آف اَٹموسٹ ہیپی نیس‘ بیس سال کے طویل وقفے کے 2017میں منصہ شہود پر آیا۔
بیس سال کے درمیانی عرصے میں اروندھتی رائے نے انسانی حقوق کے حوالے سے بھرپور زندگی گزاری، دل ودماغ جھنجھوڑنے والے شہرہ آفاق مضامین لکھے، ڈیموں کی عالمی تجارت کیخلاف میدان میں اتریں ، ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں قلم کی جادوئی طاقت دکھائی، علاحدگی پسند ماؤباغیوں کے ساتھ شب روز گزارے، گجرات کے مسلمانوں پر بیتی قیامت کے نوحے لکھے، اپنے قلم سے کشمیری فریڈم فائٹرز کی جنگ لڑی، دلتوں کو گلے لگاکر برہمنوں کی انا کو ٹھیس پہنچائی، امریکہ کی عالمی استعماریت کو للکارا، اسرائیلی درندگی کو آنکھیں دلائی، صارفیت ازم کے ڈھول کا پول کھولا، انڈین ہندوازم کی تحریکوں سے پنجے لڑائے، گالیاں کھائیں، قتل کی دھمکیاں سمیٹیں اور بغاوت کے مقدمات جھیلے۔ بقول امیر مینائی:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اردو زبان کی خوش قسمتی رہی کہ اروندھتی رائے کے ایما پر ممتاز مترجم ارجمند آرا نے تین مہینے دس دن لگا کر ناول کا ’بے پناہ شادمانی کی مملکت ‘ کے عنوان سے اردو ترجمہ کیا اور مصنف کے ساتھ کئی گھنٹوں پر مشتمل طویل اٹھارہ بیٹھکوں میں ترجمے پر نظرثانی کی، اس پرمشقت طریقے سے ناول کا ایک معیاری اردو متن، منشائے مصنف کے عین مطابق اردو زبان میں ڈھل کر سامنے آگیا جسے عالمی ادب کے سہ ماہی ادبی رسالے ’آج ‘ نے نہایت اہتمام کے ساتھ پاکستان میں شائع کیا ہے۔ ناول کا اردو ترجمہ اس حوالے سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اروندھتی رائے کے مطابق ناول کے بہت سے حصے بنیادی طور پر اردو میں سوچے گئے ہیں۔ ناول کو پڑھنے کے بعد یہ بات بالکل درست نظر آتی ہے، بنیادی طور پر ناول کو اردو میں لکھا جانا چاہئے تھا لیکن ریاستی جبر کیخلاف اتنے جرات مند بیانیے کی اردو زبان میں تشکیل فی الوقت محال نظرآتی ہے۔
ناول کا آغاز ایک کھنڈر نما قبرستان سے ہوتا ہے، اختتام بھی اسی قبرستان میں ہوتا ہے۔ قبرستان کو موت، خاموشی یا بے حسی جس شے کا بھی استعارہ یا علامت سمجھیں ،ناول کے چوکھٹے میں یہ علامتیں اور استعارے خوب سجتے ہیں۔
'بے پناہ شادمانی کی مملکت‘ کی کہانی مختلف ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہوئی ہے، جیسے کسی سانحہ میں شیشہ کا کوئی بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگیا ہو، کچھ ٹکرے خون آلود ہیں، کچھ کو جوڑنے میں قارئین کا تخیل خون آلود ہوجاتا ہے۔ کرداروں کی بھرمار ہے، ہرکردار کو ریاستی جبر نے انوکھے طریقے سے اپنا شکار بنایا ہے۔ کسی کا دوست گجرات فسادات میں کاٹ دیا گیا، کسی کا باپ دلت ہونے کی بنا کر مجمع کی وحشت کا نشانہ بنا، کسی کی معصوم بچی اور بیوی فوج کی اندھا دھند فائرنگ سے گھر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
ناول کے دو مرکزی کردار ہیں، اول انجم جو کہ ایک ہیجڑہ ہے، ایک مسلمان حکیم کے گھر میں پیدا ہوکر آفتاب کہلاتا ہے، آفتاب کی والدہ کو پہلے دن ہی اپنی بدقسمتی کا اندازہ ہوجاتا ہے، وہ شوہر سے اِس بات کو چھپاتی اور مزار میں دعائوں سے بیٹے کی مردانگی کے حصول کیلئے کوشاں رہتی ہے۔ دوسری مرکزی کردار تِلوتما ہے، دہلی میں رہنے والی ایک آرکی ٹیکچر شعبے کی سابقہ طالبہ، جو کشمیر کے ایک فریڈم فائٹر سے عشق لڑاتی ہے جبکہ ایک نامور صحافی اور بھارتی انٹیلی جنس افسر اُس کے عشق میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
آفتا ب کے والد کو جب اپنے بیٹے کی حقیقت کا علم ہوتا ہے تو وہ شعیب منصور کی فلم بول کے برخلاف دردمندی سے اُس کے علاج کیلئے ڈاکٹروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اخراجات کم کرتا ہے، پیسے جوڑتا ہے تاکہ اپنے اکلوتے صاحبزادے کی سرجری کرائے لیکن اُس کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں (ایک جینوئن فنکار اور ٹی وی فنکار میں فرق نمایاں ہے)۔
آفتا ب بالآخر اپنے فطری تقاضوں سے مجبور ہوکر گھر سے بھاگ جاتا ہے اور ہیجڑوں کے مسکن ’خواب گاہ‘ میں ڈیرہ ڈال لیتا ہے۔
تِلوتما کا کردار ناول میں انجم سے زیادہ حیثیت کا حامل ہے، بعض نقادوں کے مطابق یہ کردار اروندھتی رائے کی ذاتی زندگی سے مشابہت رکھتا ہے اور بعض جگہ آٹو بایو گرافیکل ٹچ آجاتا ہے۔ ایک خاتون اور اُس کے تین عاشقوں کی تکون سے اروندھتی رائے نے قابض کشمیری خطے کا بھرپور مقدمہ پوری دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کی باریک تفصیلات سے اروندھتی رائے نے ایک ایسا کولاژ بنایا ہے جس کی دہشت انگیزی 'شائننگ انڈیا' کے عظیم تصور کو بھی گہنا دیتی ہے۔
بظاہر ’بے پناہ شادمانی کی مملکت‘ ہمیں ایک ناول کم اور سیاست نامہ زیادہ نظر آتا ہے، درمیان میں پلاٹ غائب ہوجاتا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے اروندھتی رائے اپنے مضامین کے طریقہ کار کے مطابق معلومات کی چھوٹی چھوٹی جزئیات کو جوڑ کر کوئی حساس بیانیہ تشکیل دینا چاہتی ہے، ایک موقع پر میرا سانس بھی اکھڑنے لگا، مجھے لگا کہ ناول کے سیاسی فضا نے فکشن کی سرحدوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن پھر ناول کے بیانیے نے پلٹا کھایا، وہ چھوٹی چھوٹی تفصیلات جسے میں 'سیاسی ٹوٹے' سمجھ کر غیر اہم سمجھ رہا تھا اپنی معنویت آشکا ر کرنے لگے ، کڑیوں سے کڑیاں ملنے لگیں اور پلاٹ نے کاملیت کا اشارہ دیا۔
کوئی شک نہیں کہ اروندھتی رائے نے ’بے پناہ شادمانی کی مملکت‘ کے ذریعے ایک ایسے معاشرے کا المیہ لکھا جس میں انسان اپنے بنیادی حق-جینے کے حق کو قائم رکھنے کیلئے کوشاں ہے، جرأت مندی اور بہادری کے الفاظ اروندھتی رائے کے عظیم کارنامے کے سامنے چھوٹے ہیں۔
آخری بات، ناول میں بعض پاکیزہ نقادوں کے بقول 'بازاری زبان' کا وافر مقدار میں استعمال کیا گیا ہے، ایک باوضو قاری کو یہ گالیاں ایمانی کشمکش سے دوچار کرسکتی ہیں۔ بطور نمونہ صرف ایک شعر لکھوں گا جو ناول میں دو دفعہ استعمال ہوا ہے اور میرے خیال سے ناول کا فلسفہ بھی اسی شعر میں بند ہے، اب اس شعر میں بلبل، قفس، صیاد اور فصل بہار سے کیا مراد ہے،اس کے لئے آپ کو ناول پڑھنا پڑے گا، شعر ملاحظہ کیجئے:
مرگئی بلبل قفس میں، کہہ گئی صیاد سے
اپنی سنہری گانڑ میں تو ٹھونس لے فصلِ بہار
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔