مریضہ کے ساتھ ماہرِ نفسیات کا طویل تھکا دینے والا سیشن تھا۔ سیشن ختم ہونے کے بعد اس نے سکون کا ایک گہرا سانس لیا اور اگلے مریض کو بلانے سے پہلے اپنی کرسی سے اٹھ کر کمرے کے اس دریچے تک پہنچا جہاں سے نئی بہار کا جوبن دیکھا جا سکتا تھا۔ اس نے کھڑکی تھوڑی سی کھول کر تازہ ہوا کو پھیپھڑوں میں اتارا اور کمرے میں چھوٹے قدموں سے ٹہلنے لگا۔
"یہ عورتیں، سب ایک جیسی، بے نام" اس نے ابھی ابھی اٹھ کر گئی مریضہ کے بارے میں سوچا پھر ایسی مریض عورتیں ایک قطار میں اس کے سامنے سے گزرنے لگیں۔ بس ایک آدھ عورت ہی اس قطار سے باہر تھی۔ یہ ماہرِ نفسیات جدید تعلیم اور شعور سے لیس ایک بڑے ادارے کے پینل پر تھا اور اس کی زیادہ تر مریض عورتیں اس ادارے کے افسروں کی بیویاں تھیں۔
وہ مریضہ بھی ایک خوشحال گھرانے سے آئی تھی، پڑھی لکھی بھی لگتی تھی، اور کسی اعلیٰ افسر کی بیوی تھی۔ ڈاکٹر نے حسبِ معمول بات چیت شروع کرنے کے لیے اس کا نام پوچھا تھا۔ جواب کچھ یوں تھا:
"مسز ۔۔۔۔ [فلاں فلاں]
ڈاکٹر نے اپنا سوال دہرایا تھا، مریضہ نے اپنا جواب
تیسری بار ڈاکٹر کو کہنا پڑا تھا:
"کیا آپ کا اپنا کوئی نام نہیں ہے؟ میں نے آپ سے بات کرنی ہے، مجھے اپنا نام بتائیے، پلیز۔''