وہ روزانہ کی طرح صحرا میں اکیلا چلے جارہا تھا ، ، دور دور تک کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا ، کوئی ذی روح کوئی جھاڑی یا مکاں ۔ کچھ بھی تو نہیں ۔ بس وہ تھا اور صحرا ، کبھی کبھی اسے کوئی بھٹکا مسافر مل جاتا تو وہ چند لمحے اس سے باتیں کرتا ۔ اگر کوئی صحرا میں بھٹک گیا ہوتا تو اس کو راستہ دکھاتا ، کوئی زخمی ، بیمار یا بھوکا ہوتا تو اسے اپنے گھر لے جاتا ۔
اس کی برسوں کی محنت اور صحراء نوردی کا حاصل یہ ایک چھوٹا سا مکان ، پر صحرا کے بیچ اتارے گئے چھوٹے سے گوشہ جنت کا گماں ہوتا تھا ۔ مکان کو چاروں اور سے انگور کی بیلوں نےگھیر رکھا تھا ۔ گھر کا آنگن گلاب کے پھولوں سے مہکتا تھا ، اور غربی دیوار کے ساتھ ایک کنواں ، جس سے گلاب کے پودوں ، انگور کی بیلوں اور گھر کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئی کجھوروں کو سیراب کیا جاتا تھا ۔
مسافروں کی خدمت گزاری کرتا ، بیماروں کو وہاں موجود دوائیں دیتا اور کھانا کھلاتا ۔ ان سے صحراء سے باہر کی دنیا کی باتیں سنتا ۔
جاتے وقت ان کو بہت سی دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتا ۔ ہر مسافر کی روانگی پر وہ دو گلاب توڑنا کبھی نہیں بھولتا تھا ۔ ایک گلاب اس مسافر کو حوالے کرتا اور دوسرا اپنی ڈائری کے اس ورق میں رکھتا ، جس میں اس مسافر کا نام لکھتا تھا اور اس کے احوال درج کرتا تھا ۔
یہ سوکھے گلابوں سے اٹی ڈائریاں اور ان میں درج کہانیاں ہی اس کی کل کائنات تھیں ۔
اپنی کامل تنہائی کے لمحات میں وہ ان ڈائریوں کو پڑھتا تھا اور وہاں لکھے ناموں کے کردار لاشعور سے نکل کر اس کے سامنے آجایا کرتے تھے ۔
پر اس کا اپنا نام کیا تھا ؟ یہ آج تک کوئی نہیں جان پایا تھا ۔ شاید اس کا کوئی نام نہیں تھا یا شاید وہ ایسا مسافر تھا جو اپنی منزل کی جانب رواں دواں اپنی راہگزر کی آخری ساعتوں سے بھی بہت آگے نکل آیا تھا ۔ اور وہ اپنی ذات ، اپنی شناخت ، اپنا وجود سب کچھ کھو بیٹھا تھا ۔
اب بس اس کی زندگی کا مقصد اپنی اپنی راہگزر پر چلتے مسافروں کو بھٹکنے سے بچانا تھا ، اپنے اپنے درد سے لڑتے مسافروں کے درد بانٹنا تھا ۔ اب بس اسے اپنی اپنی راہگزر پر چلتے ہر مسافر کو منزلوں کی جانب رواں رکھنے کا جذبہ دئے رکھنا تھا ۔
وہ بے نام سا شخص اپنی راہگزر سے بھٹک کر بیچ صحرا کے ڈٹ گیا تھا ، اسے اب کسی اور بھٹکنے نہیں دینا تھا ۔
“