بے مقصد باتوں پر الجھنا،
اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا
ایسے ہی کسی بات کو پکڑ لینا
اور اسکی کھال اڈھیر دینا
پچیس سال کی اس رفاقت میں
میں آج تک اس سے جیت نہیں پایا
وہ ہر بات وییں سے شروع کرتی
جہاں پچھلی شام ہم نے ختم کی ہوتی
میں ہر شام قبر کھودتا
سب کچھ دفناتا
مٹی ڈالتا،پانی دیتا
وہ بھی وعدہ کرتی
آئند کبھی اس پرانی قبر کے
قریب نہیں جائے گی
سب بھول جائے گی
مگر ہر صبح
میرے اٹھنے سے قبل ہی
وہ پھر عدالت لگاتی
پرانی قبریں اکھیڑتی
مردے زندہ کرتی
مجھے کٹہرے میں کھڑا کرتی
اور خود جج بن جاتی
اسکے الفاظ آرے کا کام کرتے تھے
مجھے اندر تک چیرتے
میں ہر بار لہو لہان ہو جاتا
اور پھر وہ اپنے ہاتھوں سے
میرا لہو صاف کرتی
میرے زخموں پر مرہم رکھتی
۔۔ اور میں کہتا پینو
کیوں اتنی تکلیف اٹھاتی ہے
خود بھی دکھی ہوتی
مجھے بھی دکھ دیتی
بھول کیوں نہیں جاتی سب
وہ روتی اور کہتی
تم نے بےوفائی کی تھی
محمد رفیق،
کیسے بھول جاوں
میں جب بھی سوچتی ہوں
میرا خون کھولتا ہے
تم نے میری ذات کی تذلیل کی تھی
مجھے جھٹلایا تھا
اور تم کہتے ہو بھول جاوں
میں پھر منت سماجت کرتا
روتا معافی مانگتا
اور وہ مان جاتی
اس پل وہ مجھے
کسی معصوم بھولی بھالی
گڑیا کی ماند لگتی
جو کبھی کوئی سوال نہیں کرتی
مگر اگلی صبح جانے پھر کیا ہوتا
ان پرانی بوڑھی ہڈیوں میں
پھر زخمی شیرنی جاگ اٹھتی
وہ پھر جھپٹتی اور مجھے لہو لہان کر دیتی
یہ عورت ذات بھی بڑی ظالم ہے
مرتے دم تک معاف نہیں کرتی
کہتی ہے کہ کر دیا ہے
مگر یاد پھر روز دلائے گی
الفاظ کے ایسے نشتر چلائے گی
کہ روح تک گھائل ہو جائے
اور پھر کتنے مزے سے بیٹھ کر
زخم سیئے گی ،مرہم لگائے گی
مجھے لگتا تھا
وہ مر جائے گی
تو جان چھوٹ جائے گی
ظالم نے مر کے بھی نہیں بخشا
ایسی عادت ڈالی اپنی کہ
یاد تک اپنی نہیں رہی
ظالم زخم دیتی تھی
مگر دوا بھی کرتی تھی
کتنی بھی خفا کیوں نہ ہوتی
مگر ہر بات میں پہلے رکھتی تھی
کہیں جانا ہوتا تو
نئی لاٹھی رکھتی
کلف والا سفید جوڑا نکالتی
جوتے چمکاتی
سلامتی کی دعا دیتی
باہر نکلتا تو یار رشک کرتے
اور اب اس کے بعد
دن بھر ایک کونے میں
پڑا رہتا ہوں
اب بھی ویسا ہی ہوں
مگر کوئی پوچھتا ہی نہیں
ایسے جیسے وہ نہیں
میں مر گیا ہوں
ظالم کہا کرتی تھی
محمد رفیق!
روز رب سے دعا کرتی ہوں
تم سے پہلے مروں
تم نے میری قدر نہیں کی
مگر وعدہ کرتی ہوں
مر گئی تو دھاڑیں مار مار کے
رو گے
ہر پل بس مجھے یاد کرو گے
اور میں اسکی بات پر
قہقہہ لگا کر ہنستا
آج بھی جب یہ یاد کرتا ہوں
تو ہنستا ہوں مگر نہ جانے
یہ کمبخت آنسو کہاں سے آ جاتے ہیں