سرسید احمد خان نے ایک بار کہا تھا کہ مسلمان بے معنی تعصبات اور جھوٹے احساس تفاخر میں زندہ ہیں۔ اس کے ساتھ یہ مفلس اور پس ماندہ بھی ہیں جس کی وجہ سے ان کے مسائل دو چند ہوگئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ اپنی بہتری کے لیے کچھ زیادہ نہ کرپائیں گے۔ سرسید احمد خان کا برصغیر کے مسلمانوں سے متعلق یہ خیال کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ دنیا بدلتی گئی مگر برصغیر کے مسلمان نہیں بدلے اور عہد گم گشتہ کے قصے کہانیوں کو دہرا کے زندگی کے دن گذارتے رہے۔ گورے کو کالے پر برتری نہیں اور عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں کے آفاقی پیغام کو بھول کر زات پات کے نظام میں اس قدر الجھے کہ تباہی و بربادی نے کچھ نا چھوڑا اور نتیجہ یہ نکلا کہ حویلیوں میں کام کرنے والے ملازموں کے گھروں میں نواب صاحبان پناہ گزین ہوئے۔ لکھنو کی شاندار حویلیوں کے دروازے راہ چلتے اٹھائی گیروں کے لیئے کھل گئے کیونکہ پیٹ کا دوزخ بھرنا تھا۔ مگر اس زلت بھری زندگی میں بھی ماضی کا احساس تفاخر نا گیا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی۔ تین براعظموں یورپ، ایشیا اور افریقہ میں دولت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد قومی ریاستیں وجود میں آئیں۔ مگر ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ مغل عہد کے خاتمے پر قومی ریاست تشکیل نا ہوسکی اور ہم ایک بادشاہت سے دوسری بادشاہت کے وفادار بن گئے۔ لہذا صدیوں سے قائم ہمارے مزاج پر پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی فرق نہیں پڑا۔ شاید ہم اسی طرح تخت پر براجمان بادشاہ کے ہی غلام رہتے اگر دوسری جنگ عظیم شروع نا ہوتی ۔دوسری جنگ عظم کا فائدہ یہ ہوا کہ برٹش ایمپائر ٹوٹ گیا اور اس کے ٹوٹنے سے جہاں دیگر بہت سے ملک وجود میں آئے جو پہلے تاج برطانیہ کے باجگزار تھے وہاں پر برصغیر کی تقسیم کا کام بھی ہوگیا۔
اس سب کے باوجود سرسید احمد خان کی بات پتھر پر لکیر کی طرح ثابت ہوئی ۔ملک بن گئے مگر ہم اپنے بے معنی تعصبات اور جھوٹے احساس تفاخر سے نہیں نکلے۔اسی جھوٹے احساس تفاخر کے زیر اثر ہم نے مشرق میں رہنے والے اپنے ہی بھائیوں کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ نسلی اعتبار سے عجمیوں اور کالوں نے محنت کی اور آج ان کی معاشی حالت ہم سے بہت بہتر ہے ۔ان کی تعلیم کا معیار بہت اچھا ہے ۔انہوں نے کسی جھوٹے احساس تفاخر کو سینے سے نہیں لگایا۔حالانکہ وہ زہنی طورپر ایک صدی قبل بھی پسماندہ نہیں بلکہ روشن خیال تھے۔مسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ میں ہوا اور اس تنظیم کو چلانے کے لیے وہاں کے نوابوں نے دل کھول کر عطیات دئیے اور اس وقت ہماری طرف جھوٹے احساس تفاخر کا اژدھا ہمارے فکری اثاثوں کو ہڑپ کیئے جارہا تھا۔
جب معروضی حالات ہی ایسے ہوگئے کہ برٹش ایمپائر نے زمین بوس ہونا تھا اور برصغیرنے تقسیم ہونا ہی ہونا تھا تب ہماری طرف سوچ سمجھ کر نئی سیاسی جماعت کا ساتھ دیا گیا۔عوامی سطح پر قائد کی چاہت ضرورتھی مگر طاقتور جاگیرداروں ، مخدوموں ، سرداروں اور نوابوں کے ہوتے ہوئے کسی عام آدمی کا اوپر آنا ممکن ہی نہیں تھا۔لہذا طاقت پھر انہی پستہ قامت پست سوچوں کے ہاتھ میں آ گئی اور بطور قوم فکری سفر رک گیا۔ ایک نئی سیاسی اشرافیہ تشکیل پائی جس کے پاس وسائل بھی تھے اور جدید تعلیم بھی تھی ۔لہذا انہوں نے جی بھر کے حکمرانی کی اور کررہے ہیں ۔عوام کو اسی سطح پر رکھا گیا جہاں ان کی جگہ بنتی تھی۔اس بات کی دلیل یہ ہے کہ آج بھی کروڑوں بچوں کو سکول میسر نہیں ہے ۔دو کروڑ سے زائد ان پڑھ نسل کچھ مدت میں جوان ہوجاے گی خود سوچیں اس کا ہم کیا کریں گے۔اپنے ملک میں وسائل نہیں کہ ان کو روزگار دیں اور بیرون ملک وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
ہماری بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ مشرقی سرحد کے دونوں طرف رہنے والوں نے انہیں احساسات کے پیش نظر اپنے تنازعات کو حل نہیں کیا۔دشمنیوں کو پرپروان چڑھایا ، اسلحے کے انبار لگا دئیے مگر انسانوں پر توجہ نہیں دی۔یہی بے معنی تعصبات ہی ہیں جس کے سبب کم وبیش ایک سو پچاس کروڑ لوگ بدترین زندگی گذار رہے ہیں ۔سوچیئے کہ میٹھے پانی کے دریا، بہترین موسم ، زرخیز زمینیں اور محنت کشوں کی کثرت کے باوجود ہمارے حالات بہتر نہیں ہورہے ۔ سماجی اعتبار سے ہم مزید پستی میں گررہے ہیں ۔رنگ ، نسل ، قوم اور مذہب کو اپنی شناخت بنانے کی بجائے ہم نے وجہ تنازعہ بنا دیا ہے ۔ایک ایسی دشمنی میں گھر گئے ہیں جو ہم نے شروع نہیں کی ۔اس جھگڑے کی ابتدا تو کسی اور نے کی ہے تو اس تعصب کا ایندھن ہم کیوں بن رہے ہیں۔
مگر بنانے والوں نے جو چاہا وہ ہمیں بنا دیا۔آج ہم چاہیں بھی تو ان بے معنی تعصبات سے جان نہیں چھڑا سکتے ۔نفرتیں ہمارے اندر تک سرایت کرچکی ہیں۔ہمارے لہجے کڑوے اور زہریلے ہیں ہمارے رویے پست معیار کے ہوچکے ہیں ۔ہم صرف وہ سننا چاہتے ہیں جو ہمیں پسند ہے ہم وہ بولنا چاہتے ہیں جو ہماری منشا ہے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ہمارے لفظوں کے نشتر سے کتنے دلوں کو تکلیف پہنچ سکتی ہے ۔غور کریں تو ہم سراپا نفرت ہیں نفرت کھاتے ہیں نفرت کی آگ پھونکتے ہیں۔
دریاے سندھ کے کنارے رہنے والے اور جمنا کنارے رہنے والے کب نفرتوں کو فروغ دیتے تھے ۔فضا کب اس قدر گھٹن کا شکار تھی ۔کچھ تو ہوا ہے جو غلط ہے وگرنہ اتنی نفرت کیسے پیدا ہوگئی ۔اب تو ان بے معنی تعصبات کی گٹھڑی سرپراٹھائے بہت دور نکل آئے ہیں اب واپسی بھی کریں تو شائد واپسی کا راستہ نا ملے ۔محبتیں بانٹنی ہیں تو ہمارے خمیر میں شامل نفرتوں کو کرنا ہوگا۔کوئی ہے جو ہمیں ایک بار پھر مٹی میں ملا دے اور نئے سرے سے ہماری تشکیل کرئے ہمارے اندر نئی روح پھونکے۔ہمیں پھر سے زمیں پر اتارے تاکہ ہم خود کو بہتر تخلیق ثابت کرسکیں ۔کوئی ہے جو ہمیں دوبارہ انسانوں کا روپ دے سکے۔
سوہنی دھرتی کے لاوارث شہید ارضِ وطن کے عسکری یتیموں کا نوحہ
بہت سال پہلے کا ذکر ہے ۔ لاہور سے سیالکوٹ آیا مانی چھاوٗنی کے شمال مشرقی گیٹ کے پار لال...