پاکستان میں انتہا پسندی اس وقت انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔ قائداعظم کا پاکستان تو نہ جانے کہاں پیچھے رہ گیا موجودہ پاکستان تو اب شدت پسندوں کا پاکستان بن چکا ہے۔ کہنے کو تو ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ ہے لیکن نہ تو ہم جمہوری رہے اور نہ اسلامی۔ جمہور ہے تو وہ آمریت سے لڑتے لڑتے آدھ موا ہو چکا ہے، جمہور باقی تو ہے لیکن سسک سسک کر گُھٹ گُھٹ کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہی حال ہمارے اسلامی تشخص کا بھی ہے، فرقہ واریت نے ہمارے اسلامی تشخص کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ علامہ اقبال کے شعر یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو، تم سبھی کچھ ہو کیا مسلمان بھی ہو کی عملی تصویر اگر کسی نے دیکھنی ہو تو وہ ہم کو دیکھ لے۔ انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ اگر آج کے زمانے میں علامہ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ نظم شکوہ لکھی ہوتی توجواب شکوہ لکھنے سے پہلے ہی کسی غازی نے ان کو مار کر جنت کما لینی تھی۔
پاکستان کے موجودہ حالات اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو ضیاالحق کے دور میں جہاں اور بہت سی خرافات کو فروغ مِلا وہاں فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی اور لسانیت کی بنیاد پر قوم کی تقسیم نے مذہبی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کو ختم کر کے رکھ دیا۔ بہت سی فرقہ وارانہ جماعتیں اور لسانی گروہ وجود میں آئے جن کو ضیاالحق کی سرپرستی حاصل تھی۔ان سب جماعتوں اور گروہوں کو بنانے کا مقصد قوم کو مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا تھا تاکہ سیاسی جماعتوں کو کمزور کر کے وہ اپنے آمرانہ دور حکومت کو طُول دے سکے۔ ضیاالحق کے مرنے کے بعد بھی بعض قوتوں کی جانب سے ان شدت پسند عناصرکی مسلسل سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے اور ان عناصر کو سیاسی قوتوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ارضِ پاک مکمل طور پر شدت پسندی کا شکار ہو چکا ہے۔ نفرت کا زہر قوم کی رگوں میں سرایت کرچکا ہے اور عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ ان شدت پسند عناصر سے اختلاف کرنے کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ نہ آپکی جان مخفوظ ہے اور نہ مال۔
پاکستان ستانوے فیصد سے زیادہ مسلمان آبادی رکھنے والا ملک ہے لیکن اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ پورن سرچ میں پاکستانی سب سے آگے ہیں۔ مدرسوں میں طالبعلم اور چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں تک مخفوظ نہیں۔ قبر میں لیٹی عورت سے لے کر چار سال تک کی بچی جنسی درندوں سے محفوظ نہیں۔ اتنی بڑی مسلمان آبادی والا مُلک اور سب عاشقِ رسول اور حرمت رسول پر کٹ مرنے کوہر وقت تیار تو پھر قول و فعل اور عمل میں اتنا بڑا تضاد کیوں؟
اقلیتوں کو دیکھیں تو تمام تر دعووں کے باوجود اور جھنڈے میں اپنا سفید رنگ رکھنے کے باوجود اقلیتیں دوسرے تیسرے درجے کا شہری بن کر رہنے پر مجبور ہیں۔ نہ ان کی عبادت گاہیں مخفوظ ہیں اور نہ جان و مال۔ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی اور پھر اقلیت سےتعلق رکھنے والی چھوٹی چھوٹی عمر کی بچیوں سے شادی کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمیشہ اقلیت سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہی مذہب کیوں تبدیل کرتی ہے اور پھر کسی مسلمان شخص سے شادی کیوں کرتی ہے؟ کیا کبھی کسی اقلیت سے تعلق رکھنےوالے لڑکے کو مسلمان کرنے کے بعد اس نومسلم سے کسی مسلمان نے اپنی بچی کی شادی کی ہے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہےاور یہی اس سارے معاملے کے اصل کو ظاہر بھی کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ جب کسی کا دل چاہتا ہے کسی بھی ذاتی رنجش کو مذہبی رنگ دے کر عوام کے جذبات کو مشتعل کرتا ہے اور پھر ان مشتعل عوام کا جتھا اقلیتوں کے گھروں اور عبادت گاہوں پرحملہ کر دیتا ہے۔ پوری کی پوری بستی جلا دی جاتی ہے، لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے لیکن کبھی اس کے ذمہ دار لوگوں کو سزا نہیں ملتی۔ ہم انڈیا اور مقبوضہ کشمیر میں اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تو بہت آواز اٹھاتے ہیں لیکن اپنے ملک میں مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر ہمارے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ یکطرفہ طور اقلیتوں کے خلاف خود ہی الزام گھڑے جاتے ہیں اور خود ہی سزا دے دی جاتی ہے۔ کیا ہم نے کبھی دوسری طرف کا موقف لینے کی بھی کوشش کی ہے؟ ہم خود ہی مدعی خود ہی منصف بن کر اقلیتوں کو سزا دے دیتے ہیں اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ آگے آپ خودسوچیں اور غور کریں۔ اگر کر سکیں تو۔
انتہا پسندی کی ایک اور قسم سیاسی انتہا پسندی بھی ہے۔ عام طور پر سیاست میں مخالفانہ رائے کو برداشت کیا جاتا ہے اور مخالف کی رائے کا احترام سیاست اور جمہوریت کا حُسن سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستانی سیاست میں بھی پچھلے کچھ عرصے سے انتہا پسندی کا عنصر پوری طرح شامِل ہو چکا ہے۔ یہ کہنا بالکل حق بجانب ہو گا کہ سیاست میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دینے میں عمران خان کا بہت بڑا کردار ہے۔ اپنے سوا سب کو چور ڈاکو، خود کو عقل مند ترین اور مخالفین کو بیوقوف اور کم عقل سمجھنا عمران خان کی عادت ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت خود بدترین نااہلیت کا شاہکار ہے۔
عمران خان کے اس سیاسی انتہا پسندانہ رویے نے پوری ایک نسل کا اخلاق تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ دلیل کا جواب دلیل سے دینےکی بجائے مخالفین کو گندی گالیوں اور بدتمیزی سے جواب دینا ان کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ یہی حال حکومتی ترجمانوں کا ہے جومخالفین کی ہر دلیل کا جواب انتہا کی بدتمیزی سے دیتے ہیں اور جو جتنا بڑا بدتمیز ہے وہ دربارِ بنی گالہ میں اتنا ہی زیادہ معتبر اور لائق تحسین سمجھا جاتا ہے۔ جھوٹ بولنا تحریک انصاف والوں کی ایک اضافی صفت سمجھی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کا کام ہی نت نئے جھوٹ گھڑنا اور مخالفین کی پگڑی اچھالنا ہے۔ اور اس کام کے لئے جو اجلاس بلائے جاتے ہیں اس کی صدارت وزیراعظم صاحب بنفسِ نفیس کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا ٹیم کو سرکاری خزانے سے بڑی بڑی مراعات دی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا چلانے والوں کو بیس بیس گریڈ کی نوکریاں دی جاتی ہیں۔ دوسروں کا تو کیا کہنا انصافیوں نے جو حال تحریک انصاف چھوڑنے والی اپنی خواتین کا کیا ہے اس کے بعد کسی اور کا تحریک انصاف والوں سے گلہ کرنا ویسے بھی نہیں بنتا۔ عائشہ گلالئی اور انصافیوں کی سابقہ نیشنل بھابھی ریحام خان کی انتہائی حد تک کردار کشی اور گالم گلوچ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا قائداعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے نفرت، انتہا پسندی اور عدم برداشت سے بھرپور پاکستان یا ایسا پاکستان جس کے بارے قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کی تقریر میں بڑی واضح گائیڈ لائن دے دی تھی کہ “آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں”
ارباب اقتدار کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا آج کا پاکستان ایسا پاکستان ہے جو قائداعظم بنانا چاہتے تھے اور بڑے واشگاف الفاظ میں اس کا اظہار کر بھی دیا تھا، یقیناً آج کا پاکستان ایسا پاکستان ہرگز نہیں ہے۔ آج کا پاکستان تو انتہا پسندی، نفرت اور عدم برداشت کا پاکستان ہے، آج کا پاکستان قائداعظم کا پاکستان نہیں بلکہ قائداعظم کو کافرِاعظم کہنے والوں کا پاکستان بن چکا ہے۔ ذرا سوچیئے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...