بے خوابی
مظہر اپنے نئے تعمیر شدہ مکان میں ایک آسیب کے مانند رات رات بھر گھومتا رہتا ہے۔ ایسے میں بہت سے سوالوں کے بیچ میں وہ خود سے یہ سوال ضرور پوچھتا ہے، کہ اس کی بے خوابی کس دن شروع ہوئی تھی۔ اس کے رت جگوں کے دوران ہونے والی خود کلامی میں سب سے اہم سوال یہی ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بچپن کی تشنہ حسرتوں ہی میں اس کا بیج موجود تھا، لیکن یہ یاد نہیں آتا کہ اس بیماری کا آغاز کس دن ہوا۔ کئی بار اسے لگتا ہے کہ جب وہ پہلی بار ریشماں کو لے کر شیخ جبار کے گھر گیا، تو واپس آ کے تمام رات جاگتا رہا تھا۔ اسے بار بار وہ منظر یاد آتا جب شیخ صاحب کی بے باک نظریں ریشماں کے چہرے سے پھسل کر اس کے گریبان میں اٹک جاتی تھیں جہاں دوپٹا سنبھالنے کی کوششیں، سیاہ بدلیوں کے پیچھے چھپنے اور نمودار ہونے والے ہلال جیسا منظر پیش کر رہی تھیں۔
مظہر کا باپ ایک معمولی درزی تھا، جس نے بیٹے کو تعلیم دلانے کی بجائے اپنی دکان پر بٹھا دیا تھا۔ مظہر کو اسکول جانے کا بہت شوق تھا، اس لیے بھی دُکان پر اس کا جی نہیں لگتا تھا۔ وقت کے ساتھ یہ شوق ایک خبط میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ جب کبھی محلے کے بچوں کے اسکول یونیفارم سلنے آتے، تو اس کے لہو میں انار سے پھوٹنے لگتے۔ باپ کی مار پیٹ کے باوجود اس کے اندر بیٹھا معصوم بچہ اپنی ضد پر اڑا رہا۔ اکثر وہ اسکول کی چھٹی کے وقت، اپنی دکان سے باہر آ کر کھڑا ہو جاتا اور رنگ برنگے یونیفارم پہنے بچوں کو اپنے سامنے سے گزرتے دیکھتا۔ اِدھر اُدھر سے پوچھ تاچھ کر کے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا تو سیکھ گیا تھا، لیکن شخصیت میں وہ اعتماد نہ آ سکا جو رسمی تعلیم سے ممکن تھا۔ حسرتیں تھیں کہ دھیمی آنچ پر پکتی رہیں۔
جوانی کا خواب ناک دور شروع ہوئی، تو اس کا باپ اس کے لیے ایک بوڑھی ماں اور دو سلائی مشینیں ورثے میں چھوڑ کر چل بسا۔ نوجوانی میں تمام ذمہ داریاں سر پہ آن پڑیں تو وہ کام کی طرف توجہ دینے لگا، لیکن اس کا دل پھر بھی نہ لگتا تھا۔ یہ دیکھ کر اس کی ماں نے اپنے دور پار کے رشتے داروں میں سے ایک یتیم لڑکی ریشماں سے اس کی نسبت طے کر دی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ڈری سہمی سی ریشمان نے مظہر کے دل کی سیج پہ قدم جما لیے۔ ماں شاید اسی انتظار میں تھی۔ ادھر بیٹے کی شادی ہوئی، اُدھر ایک ماہ بعد اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔
عورتوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے، جو نکھرنے کے لیے مرد کی جسمانی قربت کی محتاج ہوتی ہیں۔ ریشماں اُسی قسم سے تھی۔ ایک مدقوق کلی نے چند ہی مہینوں میں ایسا رنگ رُوپ نکالا، کہ پھول کی خُوش بُو چاروں اور بکھر گئی۔ مظہر میں سے اس کی محرومیوں کا احساس جاتا رہا۔ وہ خواب جو دیکھا ہی نہیں تھا، تعبیر کی صورت سامنے تھا۔
احوال یہ تھا کہ کنوارا مظہر اتنا بے وقعت رہا، کہ قریب سے گزرتی عورتیں اس سے بے پروا اپنی غیبتوں میں مگن رہتیں اور لڑکے اپنے معاشقوں کا ذکر جاری رکھتے تھے؛ جیسے مظہر کچھ بھی نہیں ہے۔ اب نقشہ بدل گیا تھا۔ محلے کے بزرگ احترام سے پیش آنے لگے تھے، اور گلی کے نُکڑ پر نوجوان کا جھمگٹا رہنے لگا تھا۔ جن کی نگاہیں مظہر کے گھر کے کِواڑ پر لگی رہتیں۔ جب مظہر کا اس نکڑ سے گزر ہوتا تو نوجوانوں کی سرسراتی سرگوشیاں مزید مدھم ہو جاتیں، یا مکمل سناٹا چھا جاتا۔ مظہر کو لگتا تھا کہ اس سناٹے کے پردے میں پوری انسانی تاریخ کے معاشقے بول رہے ہیں۔
ریشماں کو جب اس قدر توجہ اور محبت ملی، تو اس کی برسوں سے دبی حسرتیں رقص کرتی باہر نکل آئیں اور اس کے دل و دماغ پر قابض ہو گئیں۔ وہ آئے روز بل کھاتی، اٹھلاتی ہوئی نت نئی فرمایشیں کرتی اور مظہر بھاگ دوڑ کر اس کی فرمایشیں پوری کرتا۔ زندگی میں پہلے بار اسے دھن دولت کی اہمیت کا احساس ہوا، تو وہ دُکان کو زیادہ وقت دینے لگا۔ رات کو دیر تک کام کرنے کے باوجود اس کی آمدن، لگاتار بڑھتے اخراجات کا پیچھا کرتے ہانپنے لگی۔
شیخ جبار اس محلے کے سب سے متمول شخص تھے۔ ان کی جنرل اسٹور سے ضروریات زندگی کی ہر شے مل جایا کرتی تھی؛ یہی وجہ تھی کہ دوسرے محلوں کے لوگ خریداری کے لیے ان کے جنرل اسٹور پر آیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ریشماں، اڑوس پڑوس کی عورتوں کے ہم راہ شیخ جبار کی بیوی سے ملنے چلی جایا کرتی تھی۔ شیخانی مہمان عوتوں کو ڈراینگ رُوم سے آگے نہ جانے دیتی تھی، مبادا اس کے گھر کو نظر نہ لگ جائے۔ شیخ جبار کو جب جب مہمان خواتین کی آمد کی خبر ہوتی، وہ ڈھیروں لوازمات گھر بھجوا دیا کرتے؛ کبھی ایسا بھی ہوتا، کہ دُکان ملازموں کے حوالے کر کے خود سامان دینے گھر چلے جایا کرتے۔ تاہم جب جب ایسا ہوتا، ریشماں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اپنے گھر لوٹ آتی تھی۔ البتہ مظہر نے یہ محسوس کیا تھا، کہ جب کبھی وہ شیخ صاحب کے گھر سے واپس اپنے گھر آتی، تو اس روز کسی نہ کسی بات پر جھگڑا ضرور ہوتا تھا۔ ایسی رات مظہر کو بہت دیر سے نیند آتی تھی۔
شادی کا پہلا برس چُٹکی بجاتے ہی گزر گیا۔ قدرت نے ان کی جھولی میں ایک خُوب صورت سا لعل ڈال دیا ۔ ہاشم کی پیدایش دونوں کی زندگی میں چند بڑی تبدیلیوں کی نقیب ثابت ہوئی۔ مظہر کا بھولا بسرا جنون پھر سے جاگ اٹھا۔ وہ خود تو اسکول نہ جا سکا تھا، لہذا اس نے عہد کیا کہ جو حسرتیں اس کے اندر پلتی رہی ہیں، ان کا مداوا اپنے بیٹے کو اعلی تعلیم دلا کر کرے گا۔
گزشتہ سال سے مظہر کی ساری کمائی ریشماں کی فرمایشوں پر خرچ ہوا کرتی تھی؛ اب اس میں ہاشم کی شکل میں ایک حصے دار پیدا ہو گیا تھا۔ محض یہی نہیں ہوا، بلکہ شوہر کی توجہ کا ایک بڑا حصہ بھی ننھے منے بچے نے جذب کر لیا تھا؛ ریشماں پر اس بات کا منفی اثر ہوا، یوں گھر میں توتکار آئے روز کا معمول بن کر رہ گیا۔ ایک دن جب مظہر دُکان پر تھا، تو شیخ صاحب، ہاشم کے لیے بیش قیمت تحفہ لے آئے، جسے ریشماں نے بخوشی قبول کر لیا۔ اس روز جب مظہر گھر کا سودا سلف لینے گیا تو شیخ جبار نے پیسے لینے کے بجائے مظہر کے نام کا کھاتا کھول کر اس میں وہ رقم درج کر لی۔
وقت کا کیا ہے، گزرتا چلا جاتا ہے۔ جب ہاشم کی عمر پانچ برس ہوئی، تو مظہر نے فیصلہ کیا کہ اسے شہر کے سب سے منہگے سکول میں داخل کروایا جائے۔ ریشماں نے اس فیصلے پر کچھ مناسب اعتراضات اٹھانا چاہے، تو ان کے درمیان بہت جھگڑا ہوا؛ یہ پہلی بار تھی، کہ مظہر نے بیوی کی فہمایش کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ ریشماں کو بھی اندازہ ہو گیا کہ اس معاملے پر مزید ضد کا مطلب سب کچھ تباہ کرنا ہے۔ چناں چہ وہ بھی لڑ جھگڑ کر خاموش ہو گئی؛ لیکن گھر کی فضا میں ایک تناؤ سا قائم رہا۔ مظہر کو کئی بار گمان ہوتا ہے، کہ شاید وہ پہلی رات تھی جب وہ سو نہیں سکا تھا۔
وہ شبانہ روز محنت کر کے اسکول کی ماہانہ فیس تو ادا کر سکتا تھا، لیکن بڑا مسئلہ یہ تھا، کہ داخلہ فیس، کتب اور یونیفارم کے اکٹھے اخراجات اس کے بس سے باہر تھے۔ اسے ہر صورت کہیں نہ کہیں سے یکمشت رقم کا بندوبست کرنا پڑنا تھا، اور ایڈمشن فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ بھی قریب تھی۔ وہ راتوں کو جاگ کر دیر تک سوچتا رہتا کہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کس طرح کرے گا۔ آخر ایک شب اچانک اسے شیخ جبار کا خیال آیا اور جتنا وہ سوچتا رہا، اتنا ہی یقین ہوتا چلا گیا کہ قرض ملنے کی واحد جگہ وہی ہے۔ اگلی صبح ہمت باندھ کر وہ ان کی دُکان پر گیا اور جھجھکتے شرماتے اپنا مدعا بیان کر دیا۔ مظہر کی بات سن کر وہ تھوڑی دیر تو خاموش رہے، پھر شفیق لہجے میں اس سے کہا، کہ وہ اگلے جمعے کو بعد از نماز، ان کے گھر آ جائے؛ وہاں بیٹھ کے تسلی سے بات کریں گے۔ ان کے مہربان انداز سے مظہر کی امیدیں بندھ چلیں۔ گھر آ کر جب اس نے ریشماں کو یہ بات بتائی تو وہ بھی ساتھ چلنے کو تیار ہو گئی۔ ابھی جمعے میں دو روز باقی تھے۔ مظہر کو یقین ہے کہ اس نے یہ دو راتیں بھی جاگ کر گزاری تھیں۔
مقرر وقت پر وہ شیخ صاحب کے گھر پہنچ گئے، جو انھی کی آمد کے منتظر تھے؛ وہ میاں بیوی دونوں کو اپنے بیڈ روم میں لے آئے، جس کی شان و شوکت دیکھنے لائق تھی۔ جہازی حجم کا بیڈ، نقش و نگار سے مزین سنگھار میز، آرام دہ صوفے، شیشے کی الماری میں سجے نفیس برتن اور نہ جانے کیا کچھ وہاں موجود تھا۔ ایک مسحور کن خوش بو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ شیخ صاحب نے معذرت کی کہ ان کی بیوی کی طبیعت خراب ہے، اس لیے وہ بچوں کے ساتھ میکے میں ٹھیری ہے۔ اس دوران ملازم چائے اور دیگر لوازمات لے آیا۔ ریشماں انہماک سے کمرے کا جائزہ لیتی رہی۔ مظہر کو اندازہ ہو گیا کہ اس کے اندر بہت سی حسرتیں جاگ رہی ہیں اور گھر جا کر ان کے درمیان ایک جھگڑا لازمی ہوگا۔ اس دوران شیخ صاحب اپنی بیوی کی بیماری کا ذکر لے کر بیٹھ گئے جس کی وجہ سے نہ صرف علاج پر کثیر رقم خرچ ہو رہی تھی بلکہ وہ دُکان پر بھی پوری توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔ مظہر بے دھیانی میں سب باتیں سنتا رہا۔ اس کا ذہن ٹھوک بجا کر مسلسل ان جملوں کو تولتا رہا، جو اس نے قرض مانگنے کے لیے سوچ رکھے تھے۔ اس دوران شیخ جبار مسلسل کن اکھیوں سے ریشماں کو دیکھتے رہے اور وہ بار بار اپنا دُپٹا سنبھالتی۔ مظہر نے کسی کے منہ سے سنا تھا کہ انسانی جبلتوں نے لاکھوں سال پہلے ہی آپس میں بات کرنا سیکھ لیا تھا جب ابھی لفظ ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ اسے ریشماں اور شیخ صاحب کو دیکھ کر یہی فقرہ بار بار یاد آتا رہا۔ کچھ دیرادھر ادھر کی ہانکنے کے بعد شیخ جبار نے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ رقم دینے کے لئے تیار ہیں لیکن ان کی ایک شرط ہے۔ جب تک مظہر رقم واپس نہیں لوٹاتا اس وقت تک ریشماں کو صبح سے عصر تک ان کے گھر رہ کر ان کی بیوی کی دیکھ بھال کرنا ہوگی۔ مظہر نے شیخ صاحب کے تمام امکانی اعتراضات کا رد سوچا ہوا تھا مگر یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ اس کے اندر ایک ہلچل مچ گئی۔ اس نے بہت کوشش کی، ہر طرح کے وعدے کیے، قسمیں کھائیں، حتی کہ سود ادا کرنے کا اشارہ بھی دیا، لیکن شیخ صاحب کے لہجے کی حتمیت نے بتا دیا کہ قرض کی سبیل اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ اس نے بے بسی سے ریشماں کی طرف دیکھا کہ شاید وہ انکار کر دے مگر اس کے چہرے پر پھیلی شرمیلی سی مسکراہٹ میں انکار کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔ خواب اور حقیقت کی اس جنگ میں خواب جیت گئے اور دونوں میاں بیوی شیخ صاحب سے مطلوبہ رقم لے کر گھر واپس آ گئے۔
چند روز بعد ہاشم کا ایک بہترین اسکول میں داخلہ ہو گیا۔ وہ روزانہ صاف ستھری یونیفارم پہن کر اسکول وین میں بیٹھتا، تو مظہر کے سینے میں خوشیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔ اس نے دُکان پر زیادہ وقت دینا شروع کر دیا تاکہ شیخ صاحب کا قرض جلد اتر سکے۔ لیکن ریشماں کی فرمایشیں مزید بڑھتی چلی گئیں اور ہاشم کی تعلیم کے اخراجات سوا تھے۔ وہ راتوں کو جاگ جاگ کر قرض اتارنے کے منصوبے بناتا رہتا۔
خدا بڑا کارساز ہے۔ ایک ہفتے بعد اسکول وین کو حادثہ پیش آیا، جس میں ہاشم سمیت پانچ بچے ہلاک ہو گئے۔ اس کے چند ہفتوں بعد شیخ صاحب کی بیوی بھی چل بسیں۔ ابھی ہاشم کی موت کو دو ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک دن شام کے وقت شیخ صاحب کا ملازم اس کی دُکان پر آیا اور ایک رقعہ اس کو تھما کر چلتا بنا۔ اس نے پڑھا تو وہ ریشماں کا خط تھا، مختصر لفظوں میں طلاق کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مظہر کو یہ بات پوری طرح سے یاد ہے کہ وہ رات اس نے جاگ کر گزاری تھی۔
صبح وہ شیخ صاحب کے گھر گیا، اپنی بیوی سے ملا اور واپس گھر آنے کے لیے منتیں کرتا رہا، لیکن وہ پتھر دل بنی انکار میں سر ہلاتی رہی۔ اس کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ مجھے فوراً طلاق چاہیے۔ مظہر تھک ہار کر گھر لوٹ آیا۔ اس رات وہ مسلسل جاگتا رہا۔ اس کی آنکھیں آنسو بہاتی رہیں اور دماغ کچھ بنیادی فیصلے کرتا رہا۔ صبح اس نے اپنی اور ہاشم کی تمام کتابیں آگ جھونک دیں اور پوری توجہ اپنی دُکان پر مرکوز کردی۔ اس رات کے بعد اسے پھر کبھی نیند نہیں آئی۔
آج اس کا کاروبار بہت پھیل چکا ہے۔ اس نے نیا مکان تعمیر کر لیا ہے اور ایک گاڑی کا مالک بھی ہے، لیکن اکیلے گھر میں وہ تمام رات ایک آسیب کی طرح گھومتا رہتا ہے۔ خود کلامی کرتا ہے، خود سوالی رہتا ہے کہ آخر کار بے خوابی کی یہ بیماری اسے کب لگی تھی۔ ابھی تک وہ کسی دُرست جواب تک نہیں پہنچ پایا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“