بابا جی فرمانے لگے کہ بیٹا!! ہم لوگوں کی یہی خصلت بن چکی ہے کہ صبح دن چڑھے خیر سے جاگتے ہیں اُس کے بعد موبائل اٹھاتے ہیں یاروں، دوستوں سے علیک سلیک کرتے ہیں اور پھر بیت الخلا تو ہمارے کمرے کے ساتھ ہی منسلک ہوتا ہے وہاں سے ہونے کے بعد گھر والوں کو کال کرتے ہیں کہ ناشتہ بھی کمرے میں ہی دے جائیں، وہی سے ناشتہ کرنے کے بعد سیدھا نوکری کے لیے یا سکول کالج جانے کے واسطے نکل پڑتے ہیں سارا دن باہر گزارنے کے بعد رات گئے لوٹتے ہیں اور خیر سے اُسی اپنے والے کمرے میں بند ہو جاتے ہیں، کھانا فون پہ منگوانے کے بعد کمپیوٹر یا موبائل پہ گھنٹوں محو رہتے ہیں اور کب نیند آغوش میں لے لیتی ہے کچھ خبر نہیں ہوتی. ۔۔۔۔بابا جی نے ٹھنڈی آہ بھری اور پھر لب جو ہوئے کہ بتاؤ ہمارے اس رویے اور ان عادات کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنے گھر والوں کی خیریت یا اُن کے امور کا خاک پتا چلے گا، ہمیں ساتھ والے کمرے میں رہن بسیرہ شخص کی بھی خبر نہیں ہوتی اور پھر خدانخواستہ کوئی واقعہ درپیش آ جائے تو ہماری زبان یہی اگل رہی ہوتی ہے کہ بس جی پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔۔۔۔ہم پتا رکھیں تو پتا چلے نا۔۔۔۔اِس طرح زیست کے جھنبیلوں میں الجھے ہم رشتوں کی باقیات کھو رہے ہیں۔
دنیا کی ہر چیز اور ہر کام کے لیے وقت نکال لیتے ہیں مگر اپنوں کے ساتھ مل بیٹھ کر دو پل کے لئے حال احوال بانٹنے کا ایک لمحہ بھی چنداں مشکل ہے ہمارے لیے۔۔۔۔۔یہ چیزیں تو ہمہ وقت اور ہر گھڑی، ہر جگہ موجود ہیں اور دستیاب ہیں مگر یہ رشتے ایک بار بچھڑے تو پھر ملنا ندارد۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا جی میرے دوش بدوش ہی براجمان تھے تھوڑی دیر سانس لینے کو رکے اور پھر لب گویا کہ جب ہم جوان تھے نا اس وقت ان چیزوں کا دور نہ تھا مگر پوری بستی، گاؤں یا ہمسائے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے اور وہ ہمارے، سارے گھر والے ہر وقت کا کھانا ایک ہی دسترخوان پر کھاتے تھے اور اُس کے بعد مل بیٹھ کر خوب بات چیت ہوتی اور سارے دن کا حال بانٹتے، سارے دوست ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر گپیں لگاتے اور کسی پہ مشکل آن پڑتی تو سبھی مل جل کے اُس کا سدِ باب کرتے تھے مگر بیٹا اب ایسے حالات کہاں، اب تو آپ لوگوں کے پاس دو منٹ کو کوئی آ کر بیٹھ جائے تو آپ کی زبان پہ فوراً دھتکار ملتی ہے کہ "سر نہ کھاؤ"ڈسٹرب نہ کرو وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔مگر بیٹا اس سب نے ہمیں رشتوں سے اور سنگی ساتھیوں سے بہت بہت دور کر دیا ہے بہت دور۔۔۔۔
“