بے گھری کی ہر قسم میں آدمی گھر کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے؛ جلاوطن شخص، جذباتی وتخیلی سطحوں پر مسلسل وطن میں ہوتا ہے، اور گھر واپسی کی شدید آرزو میں مبتلا ہوتا ہے۔ چوں کہ عملاً گھر واپسی ممکن نہیں ہوتی، اس لیے وہ اپنی آرزو کی تکمیل اس میں دیکھتا ہے کہ وہ اپنی یادداشت میں اور اپنے تخیل میں ’گھر واپسی‘ کا سفر شروع کرے، جو دراصل گھر کی تخیلی تعمیر کا عمل بن جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ ایک طرف ’گھر‘ا ور وطن سے مکانی طور پر وابستہ اشیا کو کام میں لاتا ہے، یعنی اپنے گھر اور وطن سے وابستہ زبان و ثقافت، اشیا و مناظر وغیرہ کو اپنی شاعری میں زیادہ سے زیادہ جگہ دیتا ہے، اور دوسری طرف وہ گھر میں رہنے کے بنیادی تجربے کی بازیافت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید شاعری اور جدید آرٹ میں بچپن، ماضی اور ثقافتی روایات کو نئے نئے طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جو تخلیق کار کسی دوسری زبان کو ذریعہء اظہار بناتے ہیں، وہ بھی اس میں اپنی اوّلین زبان اور اس کی ثقافت کو شامل کرتے ہیں۔ گویا دوسرے یا استعمار کار کی زبان میں وہ مداخلت کرتے ہیں، اسے اندر سے تبدیل کرتے اور Appropriateکرتے ہیں۔
گھر میں رہنے کا تجربہ، ہر طرح کی وابستگیوں کا پروٹوٹائپ ۔۔۔۔اور اپنی ماہیت کے اعتبار سے ’’اوّلین تجربہ‘‘ ہے؛ یعنی تازہ، جملہ محسوسات، یا ہستی کااوّلین، شدید تجربہ، جو کسی خاص مقام اور کسی خاص لمحے میں واقع ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جلاوطنی کی حالت میں جس گھر کی تخیلی تعمیر کی جاتی ہے، وہ دراصل ’ لمحے و مقام‘ میں رہنے بسنے کے اس اوّلین تجربے کی بازیافت ہوتی ہے، جس میں ا ٓدمی اپنی ہستی کی اصل و سرچشمے تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ حقیقت میں یہ اپنے چھوڑے ہوئے گھر کی طرف واپسی نہیں ہوتی ،اس لیے کہ چھوڑا ہواگھر اور جگہیں اپنی اصل شکل میں باقی نہیں ہوتیں، البتہ ان کے کچھ نشانات و آثار باقی ہوسکتے ہیں۔ اسی بات کو منیر نیازی نے ایک شعر میں پیش کیا ہے:
واپس نہ جا منیر کہ تیرے شہر میں وہاں
جو جس جگہ پہ تھاوہ وہاں پہ نہیں رہا
احمد مشتاق نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات کہی ہے:
جاتے ہوئے ہر چیز یہاں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا
اس اشعار میں بھی بین السطور یہ بات موجود ہے کہ گھر واپسی میں چیزوں کو ان کی اوّلین جگہ پر،جہاں ان کا اوّ ل اوّل تجربہ کیا تھا، انھیں دیکھنے کی آرزو ہوتی ہے، اس لیے کہ ان چیزوں سے ،اوران کی ترتیب ہی سے اوّلین تجربہ ممکن ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ آرزو پوری نہیں ہوتی۔ چوں کہ یہ آرزو پوری نہیں ہوتی، اس لیے گھر ، چیزوں اور ان کی ترتیب کی یاد تخیل کو شدت سے انگیخت کرتی ہے۔ گھر کی تخیلی تعمیر ہی کی کوشش میں بعض جدید تخلیق کاروں نے اپنے فن ،اپنی تحریر ، اپنی شاعری کو’ گھر‘ بنایا ہے۔ وہ جس دنیا سے بچھڑا ہوتا ہے، اسے اپنی نظم میں خلق کرتا ہے؛جن گلیوں کی اس نے خاک چھانی ہوتی ہے، ان میں سفروہ اپنی نظموں میں کرتا ہے۔ وہ حقیقی دنیا کے ودیعت کردہ احساسِ زیاں (Sense of Loss)کا مداوا، اپنی تخیلی دنیا کے حاصل سے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقی دنیا کے زیاں کا احساس ، تخیلی دنیا کے’حاصل‘ سے مٹ نہیں جاتا؛ وہ ایک’ بنیادو اصل‘ کی صورت، ہمیشہ موجود رہتا ہے، جو تخلیق کار کو اپنی طرف پلٹنے کے لیے مہمیز کرتا رہتا ہے، یعنی جدید جلاوطن شاعر کا یہ مقدرہے کہ وہ گھر واپسی کا تخیلی سفر کرے۔اسی دوران میں وہ چھوڑی ہوئی دنیا کی شبیہ، اور اس کی باز آفرینی سے، ایک ایسا متن تخلیق کرتا ہے، جو اسے درپیش دنیا کی اجنبیت کو گوارا بنانے کے قابل بناتا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ جدید زمانے میں آرٹ کا بنیادی مطلب ہی اس ’اصل ‘ کی طرف سفر کرنا ہے، جو کہیں وطن و گھر ہے، کہیں ثقافت و زبان ہے، کہیں گم شدہ شناخت ہے، کہیں فطرت ہے اور کہیں قدیمی خواب ہیں۔ فیض کی نظم ’دل من ،مسافرمن‘میں وطن بدر کے دل ہی کو مسافر کہا گیا ہے۔ وطن بدر کا دل ،اپنے وطن کی یاد سے اس درجہ معمور ہوتا ہے، اور اس قدر بے چین کہ وہ راہگیروں سے بھی اپنے گھر کا پتا پوچھتا ہے۔
مرے دل، مرے مسافر/ہوا پھر سے حکم صادر/کہ وطن بدر ہوں ہم تم/ دیں گلی گلی صدائیں /کریں رخ نگر نگر کا/کہ سراغ کوئی پائیں/ کسی یار نامہ بر کا/ہر اک اجنبی سے پوچھیں /جو پتا تھا اپنے گھر کا
اگرچہ اس نظم کا باقی حصہ خانہ پری محسوس ہوتا ہے،تاہم درج بالا اقتباس میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ جلاوطن شخص کس طرح اپنی نظم کو گھر بناتاہے۔وطن بدری کے بعد ،شاعر کا دل جن گلیوں کا مسافر ہوتاہے، اور جس نگر کا رخ کرتا ہے، اور جس نامہ بر کی تلاش کرتا ہے، اور جن اجبنیوں سے گھر کا پتا پوچھتا ہے، ان سب کا تعلق نظم سے ہوتا ہے۔ وہ کہیں باہر نہیں، بلکہ نظم ہی میں۔۔۔۔۔نظم کی تخلیق کے دوران میں،اور نظم کے متن میں۔۔۔ اپنے گھر کی تلاش کرتا ہے۔
ثروت حسین کی نظم ’ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہوسکتی ہے‘ میں نظم اورجلاوطنی کے تعلق پر چند اچھی لائنیں لکھی گئی ہیں۔ نظم کا اگر کوئی گھر ہوسکتا ہے تو وہ جلاوطن کا دل ہے۔
نظم کا بھی ایک گھر ہوگا
کسی جلاوطن کا دل یا انتظار کرتی ہوئی آنکھیں
کیوں؟ اس لیے کہ نظم بھی ایک صنف ِشاعری کے طور پر اسی مہاجرت و بے خانمائی و بے دخلی ومعزولی کی ’حالت ‘ سے دوچار ہوتی ہے، جس میں جلاوطن کا دل گرفتار ہوتا ہے؛دونوں کا دکھ اور تجربہ ملتا جلتا ہے۔ جدید نظم ،مقبول شاعری کی دنیا، اور سماج سے اسی طرح بے دخل ہے،جس طرح کوئی شخص اپنے وطن میں جلا وطن ہوتا ہے؛ دونوں’ اپنوں‘ میں ہوتے ہوئے اجنبی ، درماندہ اور دربدر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جلاوطن کا گھر نظم ہے، اور نظم کا گھر جلاوطن کا دل ہے۔
("نظم کیسے پڑھیں" مطبوعہ 2018 سے اقتباس)
پینٹنگ: شاکر علی