لیکن بے بسی کیوں ؟ یہ زندگی تو زیرو زاویہ پر شروع ہوتی ہے اور ادھر ہی دائرہ مکمل کر کہ ختم ہو جاتی ہے ۔ ہمارے دُکھڑے اس دائرے کہ ساتھ گدھ یا چمگادڑ کی طرح کیوں چپک جاتے ہیں لاکھوں دکھوں کی صورت میں ۔ اسے ہی ہی کہتے ہیں کہ جو ہے اس پر خوشی اور شکر نہیں ، بلکہ جو نہیں ہے اس پر رونا دھونا ، شام غم اور تنہائ ۔ ہم اپنی بے بسی کی وجہ سے تنہا نہیں ہوتے ، بلکہ کائنات کہ ساتھ اپنے آپ کو نہ relate کر کہ افسردہ ہو جاتے ہیں اور اکیلے ۔ یہ سارے ڈیپریشن ، یہ سارے دکھ اسی بات کہ ہیں ۔ اگر مجھے رُوزویلٹ پارک صبح جنت کی سیر کروا دیتا ہے تو آپ کو کوئ نزدیکی باغ کیوں نہیں؟ اس فلم میں عورت کو بے گھری تنگ نہیں کر رہی تھی بلکہ کسی کا ساتھ نہ ہونا جو جون نے پورا کیا ۔ آپ کہ اردگرد ہزاروں جون پھر رہے ہوتے ہیں لیکن دل ہے کہ دماغ کہ نیچے لگ کر حساب کتاب کرنا شروع کر دیتا ہے ۔
کل میری بیگم کہ رہی تھی Simba جب تم کمرے میں نہیں ہوتے تو دروازہ پر کھڑا ہو کر میاؤں میاؤں کرتا ہے ۔ اس کہ دل کی دھڑکن میرے دل کی دھڑکن سے ٹیون ہوئ ہوئ ہے ۔ وہ پھر دن کو اس کمی کو پورا کرنے میرے بستر کے نئچے سوتا ہے اور میری خوشبو کہ ساتھ محو ، میرا انتظار کرتا ہے شام تک ۔ ہم دونوں کا رشتہ کوئ پیسہ یا عہدہ کا نہیں ایک بہت ہی سادہ اور شفاف محبت ، اُس کائنات کہ ساتھ جس میں سِمبا اور میں برابر کہ حصہ دار ہیں ۔ دونوں مست اس رقص میں جو شاندار بھی ہے اور دلچسپ بھی ۔
میرے دوست صادق ملک ، پامسٹ بھی ہیں اور اس سے زیادہ دنیا شناس ۔ دست شناسی انہیں اس دنیا کہ بے شمار کرداروں کہ قریب لے آئ جس سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ۔ وہ کل کہ بلاگ پر فرما رہے تھے کہ مقدر تو بلکل اسی طرح ہے کہ آپ جیسے کٹھ پتلیوں کہ کھیل میں ڈور ہلا رہے ہیں اور شام کو اس کی اجرت لے کر گھر چلے جاتے ہیں ۔ استاد تو وہ ہے جو آپ سے یہ ہدایت کاری کرواتا ہے اور پتلیوں کا ناچنا بھی ان کا مقدر ۔ جیسے وہ گانے کا اشعار ۔
میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی اور ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری ۔
انہی اشعار پر یہ سارا کھیل شروع اور ختم ہو جاتا ہے ۔ بُدھا نے اس سے نجات نفی میں جا کر کی اور صرف change کو permanent کہا اور مزید یہ کہ کوئ چیز eternal نہیں اور نہ ہی satisfying–
حضرت محمد ص نے اس سے یکسر فلسفہ دیا کہ اس زندگی میں رہ کر دنیا کا وہ مقصد پورا کیا جا سکتا ہے جس کہ لیے آپ ادھر لائے گے ۔ دونوں نے عملا یہ کر کہ دکھایا جو انہوں نے preach کیا ۔ حضرت محمد ص والا نسخہ بہترین ہے ۔ یہ سچائ ، پیار، محبت اور انصاف کی بنیاد پر کھڑا ہے ۔ کل اسی بلاگ کہ کمینٹ میں صادق ملک فرما رہے تھے کہ چیزوں کو متوازن رکھنا سارے اس کھیل کی کنجی ہے ۔ یہی بات ہمارے پیارے نبی نے کی ۔ آپ متوازن اور انصاف رکھ کر اس مقصد کو بھی پورا کر سکتے ہیں کس کہ لیے آپ کو اس دنیا میں بھیجا گیا اور یقینا satisfy بھی رہ سکتے ہیں ۔ ہراری نے کہا کہ meditation آپ کو ecstasy یا جشن میں نہیں لے جاتی جو اکثر لوگ سوچتے ہیں ، بلکہ سکون دیتی ہے ۔ بلکل درست ۔ لوگ سمجھتے ہیں مراقبہ کسی جنت میں لے جاتا ہے ۔ نہیں یہ وہ brain clutter سے آزادی دیتا پے جو خوامخواہ آپ نے مدھوڑی کی طرح چموڑا ہوتا ہے ۔
اسی لیے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ
Happiness is a choice
اور روح کا جسم میں آنا ایک انتہا کی celebration ہے ۔ ہمیں یہ جشن منانا ہی نہیں آیا یا ہم نے غلط راستہ اختیار کر لیا، تقلید ہمیں لے بیٹھی ۔ مجھے اکثر جب لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت زبردست لکھاری ہیں میں ہمیشہ کہتا ہوں میں مختلف ہونے کہ علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ آپ کی زرہ نوازی ہے ۔ایک دفعہ معین اختر نے اپنے ایک شو میں کہا تھا کہ اسے ہر سوال کا جواب آتا ہے لوگ پوچھیں ۔ کسی نے اس سے پوچھا اس نے فورا جواب دیا well it depends
ہمارے ساتھ بھی المیہ یہی ہے ۔ ہم relativity کی dependence میں اپنے ہر سوال کو لے جاتے ہیں ۔ اس میں آئنسٹائین تو جیت جاتا ہے ہم ہار جاتے ہیں ۔ معاملات کو مختصر رکھیں ، محدود رکھیں ، صرف Tolle کہ Now میں رہیں اور حدیں پار نہ کریں ۔ نفی والے drunken Sufi بھی ایک حد پار کر گئے اور مثبت میکینیکل سوچ والے illusionists بھی ۔ حضرت محمد صل و علیہ وصلم والی مثبت اور متوازن سوچ رکھیں ۔ حضرت علی رضی اللہ کہ قول بغور پڑھیں ۔ اس ے آپ دنیا سے بہت لطف اندوز ہوں گے ۔
امریکی سپریم کورٹ نے ۱۹۷۳ میں ایک کیس میں abortion کو خاتون کی چائس کہ دیا اور آج تک معاملہ زیر بحث ہے ۔ یہ قدرت کہ خلاف جنگ والا معاملہ تھا لہٰزا کوئ فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔ ڈیموکریٹ اس کی حمایت کرتے ہیں ریپلیلن مخالفت ۔ آج ۴۵ سال بعد سپریم کورٹ میں جج Kavanaugh کی نامزدگی پر محض اس وجہ سے لڑائ پو رہی ہے ۔ لبرلز فورڈ پر بہت پیسہ لگا رہے ہیں جس نے اس پر ۳۶ سال پہلے جنسی طور پر پراساں کرنے کا الزام لگایا ۔ یہ جنگ مفاد کی ہے۔ قدرت کہ خلاف ۔ آپ اس طرح کی جنگوں کا حصہ نہ بنیں ۔ کس زندگی نے کب اور کس طرح ظہور پزیر ہونا ہے اس کو قدرت کہ ambit میں ہی رہنے دیں ، پہلے ہی Algorithms خدا بن رہے ہیں ، نت نیا خدا ، جان چھڑائیں ان جعلی خداؤں سے ۔
خوش رہیں ۔ آزاد اور قائم ،اللہ تعالی کے ۹۹ ناموں کی طرح۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...