مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ برا لگنا کیا ہوتا ہے اور یہ تب کی بات ہے جب میں ابھی اچھے اور برے کی تفریق سے کافی دُور تھا.. اماں رو رہی تھی اور ابا کے تھپڑوں اور ٹھوکروں کی زد میں تھی.. مجھے نہیں پتا تھا کہ کس وجہ سے ابا پہ وحشت سوار تھی، میں ساتھ والے کمرے کے دروازے کی آڑ سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک احساس ہوا کہ میں رو رہا ہوں..
ابا اپنی وحشت نکال کے تھک چکا تھا اور ہانپتے ہوئے اپنی چارپائی پہ سیدھا لیٹ گیا… اماں چپ چاپ روتی رہی پھر کچھ دیر بعد اٹھی اور ابا کی ٹانگیں دبانے لگی.. ابا خاموش لیٹا رہا.. میں پتھر بنا کھڑا دیکھ رہا تھا.. تھوڑی دیر ٹانگیں دبانے کے بعد ابا کی دھوتی چارپائی کے نیچے پڑی تھی اور ابا نے اپنی وحشت نکالنے کا دوسرا راستہ نکال لیا تھا .. اماں پھر ابا کی وحشت کی زد میں تھی مگر اب رو نہیں رہی تھی… کچھ دیر بعد ابا کھڑا دھوتی باندھ ریا تھا اور اماں اپنی چارپائی پہ سر جھکائے بیٹھی تھی.. میں اس وحشت کے کھیل سے تھک کے سو گیا…
ابا گاؤں کی جامع مسجد کے پیش امام تھا اور سارا گاؤں جھک کے انہیں سلام کرتا تھا.. ابا اکثر محافل میں کہا کرتا تھا کہ میری زندگی بھر کی کمائی یہ عزت ہے بس..
اماں یا تو دن میں گھر سنبھالتی تھی یا پھر رات کو ابا کی وحشت، اس کے علاوہ اماں کو کوئی کام نہیں آتا تھا..
میں دن بھر قرآن پڑھتا، سکول جاتا اور نمازیں پوری کرتا تھا مگر رات، ہر رات میں اپنے برا لگنے کے پہلے احساس تلے کاٹتا تھا… میں جب بھی اماں کو پڑے نیل دیکھتا، تو اماں کی بے بسی پہ روتا تھا.. اماں میرا رونا سمجھتی تھی اور میرے آنسو پونچھتے بس یہی کہتی تھی کہ "خدا سب دیکھ رہا ہے، وہ میرے صبر کا پھل بھی دے گا اور میری بے بسی کا صلہ بھی، میرے بیٹے میرا خدا بے بس نہیں ہے، اور پھر تم ہو ناں میری ساری دنیا" .. اور پھر اماں کے اپنے ہی آنسو سے تر ہونٹ میرے ماتھے پہ ثبت ہو جاتے…
پھر ابا نے مجھے میری اماں سے دُور مجھے دارالعلوم میں ڈلوا دیا… فجر کی نماز سے عشا کی نماز تک ہر روز ایک ہی روٹین کے دن گزرتے تھے اور رات اپنی چارپائی پہ لیٹا اماں پہ گزرتی رات گزارا کرتا تھا.. جب بھی کبھی چھٹیوں میں گھر آتا مجھے اماں بہت کمزور لگتی اور اماں کو میں… ہم ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کرتے تھے مگر میرا سارا درد اور اماں کے سارے نیل ہم بانٹ لیتے تھے…
اماں سوکھتی جا رہی تھی جیسے کوئی درخت.. ابا بھی بوڑھا ہو گیا تھا مگر اس کی سخت طبیعت، جسے میں پورے ایمان سے وحشت مانتا تھا، ویسی ہی تھی..اماں اب بھی زیرِ عذاب تھی…
جی چاہتا تھا کہ اماں کو لے کے کہیں نکل جاؤں، جہاں ابا نہ ہو… جہاں اماں اپنی سانولی رنگت کے ساتھ دھوپ اڑائے اور زندگی میں کہیں بھی کوئی نیلا رنگ نہ ہو… مگر میں بے بس تھا… میں رو سکتا تھا، اماں کے نیل گن سکتا تھا مگر اس سے آگے میرے پَر جلتے تھے… مگر مجھے اماں کے ایمان پہ یقین تھا کہ میری اماں کا خدا بے بس نہیں ہے…
دارالعلوم میں سال پہ سال گزر رہے تھے، وہی کھونٹے سے بندھے جانور جیسی زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن فارسی کے استاد صاحب نے کہا کہ تم گاؤں جاؤ فوراً… وجہ پوچھنے پہ بھی نہ بتا رہے تھے بس جانے کا کہہ رہے تھے.. میرا دل سر پٹ دوڑ رہا تھا اور بس گاؤں کی طرف دوڑ رہی تھی.. دل میں خیالات ایسے آ رہے تھے کہ دل ڈوبنے لگتا تھا… بس سے اتر کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی…
گھر کے باھر تک لوگ کھڑے تھے، اندر سے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں.. میرا تھوک گلے میں اٹک رہا تھا… جانے کب میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ کاش میرا ابا مرا ہو…
جانے کیسے گھر کے اندر داخل ہوا، کون کون گلے سے لگا مجھے نہیں پتا… صحن کے درمیان میں چارپائی پڑی تھی اور چارپائی کے گرد عورتیں بیٹھی رو رہی تھی… میں قریب گیا.. اماں بائیں آنکھ کے نیچے بڑا سا نِیل لیے سفید چادر میں لپٹی پڑی تھی… کچھ فاصلے پہ ابا اپنا سَر جھکائے مردوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا…
اماں مر گئی تھی، ایمان مَر گیا تھا … دُور کہیں خدا گردن جھکائے اپنی بے بسی کے بوجھ تلے کُبڑا ہوا جا رہا تھا….