(مشاعرہ بازی اورادا کاری )
جیسا کہ ہم جانتے ہیں غزل کا آغاز درباری شاعری، قصیدہ نگاری کی تشبیب سے ہوا..
قصیدہ نگاری دراصل بادشاہوں کی جھوٹی تعریف ہی ہوتی تھی تاریخ گواہ ہے عرب و عجم میں خدا کی ثنا کے مقابلے میں لوگوں نے قصائد زیادہ لکھے .یہ بھی سچ ہے کہ کسی زمانےمیں شاعری کا معیار ہی قصیدہ نگاری سمجھا جاتا تھا. لیکن سچے شعراء جنہوں نے اپنا لہو کاڑھ کر فن کو جلا بخشی اور انسانی شعور کی افزائش کی اس قصیدہ نگاری کی بدعت اور مشاعروں کے ہنگاموں سے دور رہے.اسی لئے شعرو شاعری تہزیب و تمدن کا لطیف مظہر،شائستگی کی پہچان اور سماجی توقیر کے لئے طرّہ امتیاز سمجھی جاتی رہی ہے.
درباری شاعری منافقت کا شکار ہوگئی کیونکہ بقول شخصے" شاعروں کی ان دباروں کے ساتھ قدر و منزلت تھی یہاں سے انکو تنخواہ و وظائف ملتے تھے اور طرح طرح کے انعام و اعزازات سے نوازا جا تا تھا"
ابن الوقت شاعروں اور متشاعروں نے روزی روٹی کی خاطر جھوٹی ستائشوں کے دفاتر لکھ مارے.
چونکہ ایسے شاعروں کامقصد، حصول دنیا انعام و اکرام اور دنیوی یا سستی شہرت تھی اس لئے ان کی اک دوسرے سے نوک جھونک اور لڑائیاں بھی ہوتی رہیں.
پرانے تزکرے اس قسم کی نزاعی داستانوں اور نام نہاد ادبی معرکوں سے بھرے پڑے ہیں.
ادبی نزع کے جہاں کئی نقصانات ہوئے مثلا حقیقی اور ارادی شعرا کومفاد پرستوں نے پیچھے دھکیل دیا.. جھوٹ اور جعل سازی کو فن کاری اور استادی کے طور پر منوایا گیا..اردو فارسی میں بڑا ادب پیدا ہونے کی بجائے خوشامدی شعراء پیدا ہوئے اور خوشامدی ادب قصیدہ، ثناگوئی منقبت نگاری وغیرہ کو فروغ ملا.
اس طرح حقیقی شعرا کے حلقوں میں صحیح تربیت نہ ہو پائی .شعرا میں استادی شاگردی سلسلہ بھی مزید گروہ بندی کی شکل میں ظاہر ہوا.استادوں نے شاگرودوں کو جو تباہ و برباد کیا اسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی.یہ پیری مریدی کا دوسرا ناکام سلسلہ تھا.
مشاعرہ بازی کا سلسلہ عرب و عجم میں تقریباً ہزار سال تک قائم رہا..اردو میں دہلی سلطنت اور مختلف نوابی وزارتوں کے زوال کے بعد مشاعرے ، علاقائی حلقوں کی سر پرستی میں آگئے .اسطرح ترنم سے پڑھنے والے لوگ اور جزباتی رو میں بہانے کے ہنر جاننے والے لوگ مشاعروں کی زینت بنتے گئے.
ادبی معرکے تو کسی حد درست تھے انکا کچھ نہ کچھ جواز بھی مل جاتا ہے. کسی نہ کسی ادبی ماحول کو گرم رکھا.
مثلاً غالب و ذوق کے معرکے ادبی تھے.
اسی طرح سودا اور میر کے خاموش معرکے،سرد ادبی جنگیں ….یہ سچ ہے کہ پہلے پہل معرکے خفیف اور معمولی چشمک سے آگے نہیں بڑھتے تھے.طرحی مشاعروں کا کینڈا بدلا تو پھر نام نہاد شعراء سرِ محفل تعریض و تنقیص بلکہ گالی گلوچ کا دور شروع ہوگیا..اور
پھر وہ وقت بھی آیا کہ مشاعرہ اداکاری اور مکاری کے کرتب دکھانے کا میدان بن گیا ان میں تخلیقِ فن کو سامان ملنے کے بجائےمشاعرے گروہی سطحوں پر نجی جھگڑوں میں بدل گئے.
شاعری اشتعال انگیزی یا جزبات کو بھڑکانے کا آلہ کار یا وسیلہ ہوکر رہ گئی.
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کیا ہی خوب لکھا ہے:
"ہمارے درباروں میں حسد و رشک ،رقابت و غمازی اور ساز باز کی گرم بازاری ہمیشہ رہی ہے ہر منہ چڑھا مصاحب دوسرے کے پیر اکھاڑنے اور اپنے جمانے کی فکر میں فکر میں رہتا ہے اور اس میں وہ عیاریاں اور افترا پردازیاں،حرفتیں اور جدتیں کام میں لائی جاتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے"
مشاعروں میں عوامی لہجے اور جزبات کو اکسانے والی شاعری کو پرموشن ملتی رہی حقیقی شاعری نظر اندا کی جاتی رہی.
میر تقی میر کے بجائے سودا کو داد ملتی رہی اور غالب کے بدلے ذوق کی طوطی بولتی رہی..مصحفی کے مقابلے میں عظیم اور انشا محفلوں میں چھائے رہے
لیکن وقت نے کروٹ بدلی اور عہدوار فیصلہ میر غالب اور مصحفی کے حق میں ہوا
الغرض ناشناس لوگوں کی وقتی داد تحسین ہو یامشاعرے کے شاعروں کی ناموس و شہرت، جھاگ کی طرح جلد ہی بیٹھ جاتی رہی.اور ایسا ہی آییندہ بھی ہوتا رہے گا.
مصحفی نے شہرت گزیدہ نام نہاد شعراء اور متشاعروں کی خود غرضانہ اور مجادلانہ روش کے متعلق کہاتھا.
اشعار
کیا چمکے اب فقط مِرے نالے کی شاعری ہے
اس عہد میں ہے تیغ کی بھالے کی شاعری
سامان سب طرح کا ہولڑنے کا جن کے پاس
ہے آجکل انہی کی مسالے کی شاعری
شاعر رسالہ دار نہ دیکھے نہ ہیں سنے
ایجاد ہے انہی کی رسالے کی شاعری
متشاعروں کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے قوم کے درد کا بھاری پتھر اپنے کاندھوں پر نہیں بلکہ سینوں پر اٹھایا ہوا ہے ..یہ لوگ قابل عزت ہیں ..
مسکین خر اگر چہ بے تمیز است
چون بار ہمی برد عزیز است
جھوٹی عظمت کے راگ الاپنا اپنے ہمنواوں کی خایہ پوشی کرنا…ہمارے متشاعروں کا چلن ہے ہمارے مشاعرے کے شعراء بھی مبالغہ آرائی اورترنم شاعرانہ سے کام لے کر وقتی طور پر عام لوگوں کا دل جیت لیتے پیں اور انکی اکثر شاعری عشق مجازی اور سفلہ جزبات کو ہوا دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی. افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل مشاعروں میں ارادی اور حقیقی شاعری کی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں .