ہم دونوں کی عمروں میں زیادہ فرق نہ تھا ۔ وہ مجھ سے یہی کوئی چھ سات سال بڑا تھالیکن لاگ لگ جائے تو مہ و سال کافرق کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔۔ لاگ کی یہ چنگاری میرے وجود میں پہلی بار تب بھڑکی جب اس نے چپکے سے میرے ساتھ سرگوشیاں کرنے کا فن سیکھ لیا ،اس خیال سے کہ، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔
تسلیم ، اس حیاتِ بے کیف میں اوروں نے بھی مجھے مسکن بنایا مگر سچ تو یہ ہے کہ میرے لئے وہ سب ہیچ تھے۔میر ا ان سے تعلق فقط اتنا تھا کہ آئے ،ٹھہرے اور چل دئیے۔۔۔۔پَراُس کی تو بات ہی کچھ اور تھی،وہ آیا،اور پھر میرے وجود کے اندر تازہ نم مٹی کی بھینی بھینی خوشبو بن کے ہمیشہ کیلئے ٹھہر گیا۔میرے اوراُس کے وجود کے درمیان بھلا اور کوئی کہاں حائل ہو سکتا تھا،سوائے اندیشوں کے۔کمال کا جادوگر کہ تہی دامن ہونے کے باوجود ہر ملاقات میں خوشنما رنگوں والے تازہ ترین اندیشے مجھے ہدیہ کرتا رہتا اوریہ مقدس اندیشے جب بھی مجھ پہ نچھاور کرتا تو میرے لئے بھی جی جان سے اپنے وجود کے نہاں خانے میں ان کی پرورش لازم ہو جاتی۔
’’ میں تو کسی اور کی امانت ہوں ،اگر اسے مجھ سے چھِین لیا گیا تو میرا کیا بنے گا؟‘‘۔ہر اندیشہ آنکھ کھولتے ہی مجھ سے اس سوال کا جواب ضرور چاہتا۔
’’میری تقدیر میں صرف ایک کرائے کی عمار ت بن کے رہ جاناہی لکھا تھا کہ چاہے جو بھی آئے ،اپنا حق جتلائے اور میری خواہش جانے بنا میرے وجود کا مالک بن بیٹھے؟‘‘
وہ اوروں جیسا نہیں تھاکیونکہ وہ ’’اور‘‘ تھا ہی نہیں اور تو اور وہ ’’وہ‘‘ بھی نہیں تھا ۔گو میری ذات سے اُس کی دلچسپی اوروں سی تھی، پھر بھی جانے کیوں اس کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔ راتوں کو میری آغوش میں پناہ لیتے وقت وہ اپنی ہر خواہشِ نفس کو بڑی نفاست سے خود پہ اوڑھ کر پھر مجھے اوڑھ لیتا تھا، یوں گویا وہ خود کو ڈھانپ لیتا تھا۔
میرے بند درو دیوار روز راہ تکتے کہ کب بنا دستک دئیے وہ مجھے خود پہ دسترس دلا کر مجھ پہ دسترس حاصل کر لے ۔ میرے باطن کا ظاہر ہو یا اس کے ظاہر کا باطن،۔۔۔۔ ہم دونوں پہ سب ظاہر تھا۔ حالِ دل جب بھی کہتا،ماضی میں کہتا۔شاید اُسے ماضی میں جینے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔دوئی کا ایسا قائل تھا کہ خود کو بھی ہمیشہ دو کر کے سوچتا اور ادھر میرا خیال اُس کے اور اپنے متعلق’’وحدت الوجود‘‘ ہونے کا ایسا ایقان پیدا کر گیا تھا کہ اس کے بعد میں نے خود ہی اس ایقان کو خواجہ سرائی کی ’’خواجگی‘‘ عطا کر دی تا کہ ہوس میں آ کر بھی کچھ اور جنم دینے کے قابل نہ رہے۔۔۔۔وہ پھر بھی بیگانہ رہا، اورسچ تو یہ ہے کہ اس کے متعلق میرے جذبات کو بیان کرنے کے لیے اگر کوئی صحیفہ بھی نازل ہو جاتا تو وہ الہام کئے ہر لفظ کو چومتا اور میرے حال دل پر ایمان لانے کی بجائے، غلاف میں لپیٹ کر انجانے پن کے کسی طاق پر رکھ دیتا۔
پہلی ملاقات پہ بھی وہ ایسا ہی تھا،۔۔۔ حد درجہ سنجیدہ،قدرے فربہ، مختصر قد، بار بار اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں جھپکاتا اور زبان کی بجائے ہاتھوں سے زیادہ بات کرنے والا۔۔۔۔ایک عرصے بعد بس یہی تبدیلی آئی کہ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے مزید گہرے ہو گئے تھے۔ ایسا مردم بیزار کہ خود سے ملے بھی مدتیں گزر جاتیں اور کبھی اتفاق سے ملاقات ہو بھی جاتی تو آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر پچھلی ملاقات کی مدت کا حساب لگانے میں وقت گزر جاتا۔ جب بھی میرے پاس آتا ،کچھ نہ کچھ کہیں اوربھی رہ جاتااور پھر لمحہ بہ لمحہ خود کو بہت زیادہ کہیں اور چھوڑ کے آنے کی عادت اس پہ اتنی غالب آ گئی کہ مجھے اس لمحے سے خوف آنے لگا جس کے خوف سے میرا ہر لمحہ خوف زدہ تھا۔پر کیا کروں، کسی حد تک میرا تعلق امید سے بھی تھااورکبھی کبھار میری امید بھی اتنی پر امید ہو جاتی کہ ہر رکاوٹ سے بے نیاز ہو کر خوف سے دیرینہ آشنائی پیدا کر کے جلد ہی کوئی نہ کوئی خواب جنم دے دیتی تھی۔تب اپناناتواں بوجھل وجود لئے مجھے اس ناجائز خواب کی پرورش کرنا پڑتی کہ اس کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہ تھا۔
کئی بار خیال آیا، میرے آنگن میں اس کے بچے کھیل رہے ہیں اور انہیں دیکھ دیکھ کر اپنے بکھرے وجود کی تکمیل کیلئے وہ ان کے وجود سے تھوڑا تھوڑا وجود لیتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ان کے وجود میں اپنا وجود بانٹ کر اپنا وجود سمیٹتا جا رہا ہے۔۔۔۔یہ تب ہوتا اگر وہ میری ویرانی محسوس کرتا اور اسے محسوس کرنے کے لئے میرے جذبات سمجھتا،میرے جذبات تب سمجھ سکتا تھا اگر وہ مجھے جان پاتا اور ایسا تب ممکن ہوتا اگر کبھی وہ خود کو جان لیتا۔
ایک روز کہنے لگا ۔
’’میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے‘‘۔
پھر تو جیسے مجھ پہ قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔اب اسے کون سمجھائے کہ احتیاط سے کام لے اور الفاظ کے استعمال میں ہوشمندی کا مظاہرہ کیا کرے کہ لفظ تو کجا صرف ایک نقطہ بھی بے اثر معنی کو پر اثر مغنی میں تبدیل کر دیتا ہے اور لفظوں کی ذرا سی جھول بھی وجود سے عدم کی جھولی میں جھولا جھلا سکتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کہیں سے، کہیں کا بھی نہ رہے۔
اب کیا یہ بھی میں ہی بتاؤں، کہ پور ا جملہ یوں ہونا چاہئے تھا؟
’’ہمار ا اس دنیا میں کوئی اور نہیں ہے‘‘۔
اور پھر خود کویوں دِلاسا دیا کہ شاید اس جملے میں، میں ہومر کے یولیسس کا کردار ’’کوئی نہیں‘‘ ہوں ۔تب مجھے یہ جملہ بامعنی لگا کیونکہ یوں جملے اور معنی میں ربط پیدا ہو گیا تھا ۔وہ ربط جس سے اسے بھی رابطہ تھامگر صرف بیگانگی کا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی بیگانگی طویل اور گفتگو مختصر تر ہوتی گئی۔اب تو اس کے ہاتھ بھی اس کی زبان کی طرح کم گو ہوتے گئے۔پھر یہ بھی احساس ہونے لگا کہ اس کے وجود کا تقریبا سارا حصہ کہیں اور رہ گیا ہے اورمیرے پاس صرف اس کے وجود کی پرچھائیں رہ گئی ہے۔
وہ دِن کیسے بھلاؤں؟جب وہ دیوانہ وار چلانا شروع ہو گیاتھا۔
’’بالائے آسماں اور زیرِ زمیں کوئی راز مجھ سے پنہاں نہیں ۔ہر بھید بھری بات کا بھید مجھ پہ آشکار ہے۔جنت و دوزخ کی حقیقت مجھے معلوم ہے۔ آدم و حوا زمیں پہ کِس جگہ اترے مجھے سے پوچھئے۔ سائنسی علوم کی فطرت کو ’’کیسے‘‘ سے ’’کیوں‘‘ میں بدل ڈالنا میرے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔میں مابعدالطبیعیات کو طبیعیات بنا کر قبل از طبیعیات کے منظر سے بھی لطف اندوز ہو سکتا ہوں۔آسمان کے تارے ،زمین کی موجود و معدوم مخلوق،ریت کے ذرات،سمندر کی سیپیاں، سب شمار کر سکتا ہوں میں۔۔۔۔ہاں سب بتا سکتا ہوں،بس اتنی سی خبر مل جائے کہ میں کدھر ہوں تو سب بتا دوں گا۔۔۔ہاں سب بتا دوں گا۔۔۔ لیکن میں ہوں کدھر؟اگر میں اِدھر ہوں تو اُدھرکون ہے جدھر میں سوچ رہا ہوں کہ میں ہوں اور اگر میں اُدھر ہوں تو اِدھر کون ہے جدھر میری سوچ نہیں لیکن میں پھر بھی ہوں۔۔۔۔میری بے بسی ڈیکارٹ دیکھ لیتا تو یقیناًخود اپنے فلسفے سے منحرف ہو جا تا کیونکہ
’’ میں سوچ رہا ہوں‘‘ لیکن ’’میں پھر بھی نہیں ہوں‘‘۔ ہاں کہیں نہیں۔ کہیں بھی نہیں۔‘‘
اس روز وہ کہتا چلا گیا۔ اس کے ہاتھ چپ تھے اور زباں بول رہی تھی۔ پھر وہ میرے اندر یوں گر گیا جیسے خود کو میرے سپرد کر دیا ہو۔ اس روز مجھے اپنا کھوکھلا پن دکھائی دینے کے ساتھ سنائی بھی دیا جس میں اس کے الفاظ گونج بن کر مجھے رخنہ رخنہ کرتے گئے ۔ سدا کی طرح اس روز بھی میرے اندر پھولوں کی سیج تھی نہ کوئی مخملی لحاف۔سو اسے سردی سے بچانے کے لئے میری دسترس کبھی بھی خود کو اس کے گرد لپیٹنے سے زیادہ نہ ہو سکی۔
اس واقعے کے بعد اس کی خامشی مزید زباں دراز ہو گئی اور مجھ میں بھی غیر مسموع خاموشی سننے کی سکت بڑھ گئی ۔رفتہ رفتہ اسے محسوس کر کے ہی محسوس کرنا پڑتاتھا۔
یاد سا پڑتا ہے ،زندگی میں ایک بار اسے مسکراتے بھی دیکھا تھا۔
اس روز وہ فرط مسرت سے بستر پر دراز مجھے گھورتا رہا۔ اس کی آنکھوں کی چندھیا دینے والی چمک،لیٹے لیٹے اپنی الجھی انگلیوں سے بالوں کے الجھاؤ کو درست کرنا،کبھی بڑھی ہوئی شیو پر ہاتھ پھیرنا اور یونہی کروٹیں بدل بدل آنکھیں بند کر کے پھر سے کھول دینا،۔۔ او ر پھر اس کے لبوں سے پھول جھڑنا ۔۔۔اُف، وفور مسرت سے میرا بھی وجو درقص کرنے لگ پڑاتھا۔
’’میرا سائبان،زمین و آسمان ، تمہی ہو۔درد بدر کہاں ٹھوکریں کھاتا اگر تمہاری پناہ نہ ہوتی؟میری شکستہ دلی اور تمہاری خستہ حالی میں ضرور کوئی نسبت ہے۔دونوں کا دکھ ایک اور شاید مداوا بھی ایک ہے۔ نہیں معلوم کہ اتنی خستہ حالی میں بھی تمہار وجود ابھی تک کیسے قائم ہے مگر اتنا جانتا ہوں کہ میرے قائم رہنے کا ایک سبب تم بھی ہو۔۔۔۔‘‘
ہاں شاید کچھ ایسا ہی کہا تھا اس نے۔
وہ چارپائی سے اترا،اِِدھر اُدھر ٹہلا اور چند لمحوں بعد مجھے سائبان کہنے والا میرا سائبان بن گیا ۔پھر تو جیسے سارا عالم ہی بدل گیا۔ اس کی متلاشی نظریں میرے زیرو بم میں جانے کیا ڈھونڈنے لگ پڑیں۔بھلا مجھ سے اسے سوائے میرے اور کیا مل سکتا تھا اور مجھ میں بھلا سوائے اس کے تھا بھی کیا؟۔۔۔ د ل چاہا، وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکروں سے میرے وجود کی سبھی گرد و غبار اتار کر اندر سے خود کو تلاش کر لے،لیکن اسے بھلا اپنی تلاش ہی کب تھی؟۔۔۔پھر اس کی متلاشی آنکھیں بند ہوکر کھلیں تو حیرت اس کا بدن گئی۔
تمام منظر پر ستاروں کی حکمرانی تھی اور سارے ستارے جیسے ہمارا ہی وجود تھے۔ہم سب سے جدا تھے کہ اب اس کی دھرتی کوئی اور تھی اور میرا امبر کوئی اور۔شاید اس منظر کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کرنے کی خواہش میں اس نے آنکھیں پھر سے بند کر لیں اور مجھ سے سرگوشی کرنے لگا۔
’’زیست ایسی بُری بھی نہیں، جیسی میں خیال کرتا تھا‘‘۔
جانے وہ وصل مجازی تھا کہ وصل حقیقی ،۔۔۔۔۔ صرف یہ حقیقت جاننے کیلئے میں نے وہ رات بھی جاگتے گزاری اور یہی سوچ غالب رہی کہ اپنی تمام گفتگو میں وہ کس سے مخاطب رہا ہو گا؟وہ کیا خوشی تھی جسے پا کر اس نے کہا تھا۔
’زیست ایسی بُری بھی نہیں، جیسی میں خیال کرتا تھا‘‘۔
دفعتا خیال آیا شاید اس روز اس کے ہاتھ اور زبان دونوں خاموش تھے۔ میرے اندر ہی کوئی محویت کا عالم تھا کہ میں نے خود کو سنا اور یوں لگا جیسے اسے سنا۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس روز وہ کسی بات پر خوش ضرور تھااور اس کے لبوں پہ مسکراہٹ بھی کھیل رہی تھی۔ہاں اتنا تو یقینی ہے اور باقی شاید سارے کا سارا وہم۔۔۔۔ایک تو مجھ پہ جانے ہمیشہ سے وہم ہی کیوں الہام ہوتا رہا کہ میرا ہر الہام صرف واہمہ ہی رہا۔ میرا ہرواہمہ میرے وجود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا نشتر میرے اندر ذرا ذرا سا چبھو کر دائمی درد دینے میں طاق تھا۔
پھر ایک روز وہ اپنی پرچھائیں سمیت کہیں اور غائب ہو گیا۔اس کی رخصت اتنی لمبی ہو گئی کہ میں نے جان لیا اب میرا وقتِ رخصت بھی ہوا چاہتا ہے۔بارِ جدائی سے بوجھل میرے وجود کی کپکپی،میرے وجو د کے اندر رینگتی اور مجھے تہ در تہ کاٹتی چیونٹیاں بڑھاتی گئی۔ دیمک لگے اس وجود پر چھپکلیاں جب زبا ں دراز ہوتیں تو وحشت میرے اندر باہر آ بیٹھتی لیکن اس کا دور دور تک کوئی نشاں نہ مل سکا۔۔۔۔ شاید وہ کبھی نہ آتا لیکن میرے پاس چھوڑی ہر نشانی ،یاد بن بن کے جب اس کا مجسمہ بن گئی تو اسے روح دینے کیلئے اس پر آنا واجب ہو گیا اور وہ آ گیا۔
وہ آیا اور دور سے ہی مجھے گھورنا شروع ہو گیا۔ میرے خدشات پھر سے حاملہ ہو گئے۔ اس کی نگاہیں آسمان،زمین،خود اور مجھ پر پڑتی رہیں۔ شاید ایک بار پھر وہ ان سب میں کوئی ربط تلاش کر رہا تھا۔پھر وہ میرے قریب آیا اور اپنی نحیف انگلیاں میرے وجود پر آہستہ سے پھیرتا گیا۔ اس کی آنکھوں پر گہری ذمہ داری آپڑی تھی کہ اس کی زبان اور اس کے ہاتھوں کا سارا کام اس کی آنکھوں کو کرنا پڑ رہا تھا۔اس کی انگلیاں مجھے سہلاتی رہیں،آنکھیں چلاتی رہیں، رخسار میرے وجود کو چھو چھو کر جلاتے رہے۔ضرور سوا نیزے پر آنے والا سورج اس کے لمس کی حدت کو چھو کر آئے گا۔ارد گرد گھورتی نظروں کا مشاہدہ کر کے جب میں نے خود کو اور اسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہماری برہنہ حالی لوگوں کیلئے تماشہ بنی ہوئی ہے۔
’’پروردگار ،اتنا تو کشف ہو جاتاکہ اطراف میں پھیلے یہ پیپنگ ٹامز کسی کمرے کے روزن سے نہیں بلکہ کھلے آسمان تلے ہم دونوں کی برہنہ حالی پہ اپنی ہوس بھری نظریں ڈال رہے تھے تو اپنے ناتواں وجود عریاں بے بسی ڈھانپنے کیلئے ہمیں بال عطا ہوئے نہ ان میں سے کسی کی بینائی ختم ہوئی۔۔۔۔۔ایسا کیوں۔۔۔۔؟؟؟
ادھر وہ ان سب باتوں سے بے نیاز دیوانہ وار میرے وجود کے اندر اتر گیاتو میں نے اس کی برہنگی کو لباس دے کر کم از کم لوگوں کی ہوس بھری نظروں سے اسے چھپا لیا۔
اس نے آخری بار آنکھیں کھولیں ۔ مجھے گھورا اور پھریہ کہتے ہوئے ہمیشہ کیلئے سو گیا۔
’’ اس سے پہلے کہ عدم وجود کے شکاری کتے میری بوٹی بوٹی نوچ ڈالیں ، میں اپنی روح کو کہیں چھپانے کا خود ہی بندوبست کر لوں۔‘‘
ہاں مجھے لگتا ہے کہ شاید اس نے ایسا ہی کچھ کہا تھا۔
پھر شام نے رات کا لباس پہنا،دفعتا آسمان سے بجلی چمکی اور اندھیرے کو چیرتی ہوئی میرے وجود پر گرتی رہی اور ان تماشائیوں کو بھی نابینا کرنا شروع ہو گئی۔ وہ تلملائے،بھاگے،آندھی آئی، بارش ہوئی، بارش کے فرشتے طوفان نوح کے بعد پہلی بار اتنامصروف عمل دکھائی دئیے۔اس منظر سے وحشت کھا کر لوگ’’معوذتین‘‘ پڑھ پڑھ کر پناہ مانگنے لگے۔
ہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ بھی خاموش تھا اور میں بھی اور کن کہہ کر فیکون کرنے والا بھی۔
بھلا ایسا ہوتا بھی کیوں؟؟؟؟؟
میری حیثیت ،میری اوقات ہی کیا؟میرا شمار عجائباتِ عالم میں تھوڑا ہی ہوتا ہے جن کی شان و شوکت کا ایک عالم دیوانہ ہے اور یہ عالم ہے کہ لگتا ہے عالم تو صرف عجائبات کا ہی ہے۔ میرے مقام کو بھلا کوئی فلن کیا مقام دے سکتا تھا؟مکاں ہوتے ہوئے بھی مجھ میں بے مکانی مکین رہی کہ امکاں کو لاامکاں کر کے مجھے مکاں کیاگیا۔
میں لیننگ ٹاور نہ تھا کہ جس کا جھکنا بھی اس کی عظمت کو ایستادہ کرتا گیا، جس کے رکوع نے اہل دانش کو فکر و تدبر کے سجدے کی تسبیح میں مگن کر دیا کہ اس کے قیام کی کوئی صورت پیدا کر کے ، تمام صورت حال کو بے حالی سے نکال کے، اس حسیں عمارت کے حسن کو قائم کیا جائے۔۔۔۔ اور میں؟۔۔۔ ہاں میں۔۔۔۔۔ رکوع کی لذت سے قطعی بے نیاز،قیام سے سیدھا سجدے میں جانے والا۔۔۔ میرا قیام فنا فی الوجود،میرا سجدہ فنا فی اللہ، میری تسبیح فنافی البقا اور میری تقدیر بقا فی الفنا۔۔۔
میں ہستی ء ناپائیدار۔۔،پیغمبر،اوتار،ولی،صوفی،کسی کے نقش پا تک میری رسائی نہیں۔میری راتوں میں کوئی شب اسری اور نہ کوئی براق۔نہ میری جبیں پہ آسمان والوں کا نزول و سجود، میری کوئی صلیب نہ میرے لئے کوئی مصلوب،نہ میں حب،نہ محب ،نہ محبوب تو پھر میرے لئے اقبال’’ سلسلہ روز و شب‘‘ کا نوحہ کیونکر لکھے؟۔۔۔ میں تو آلودہ اور تنفس میں حائل ہونے والی گرد میں اٹا ایک بوسیدہ و لرزیدہ مکاں، جس کا تاریخ میں کوئی نام نہ نشاں۔۔۔۔ میری تعمیر میں سنگ مرمر اور لال پتھر کہاں؟ میں تو گارے اور پرانے ملبے کی غیر ہموار اینٹوں سے تعمیر کیا وہ شاہکار جس کے معمار نے اس کی بنیاد سے نکلتی ہوئی ہر دیوار کو جیسے پسِ دیوار ہی رکھا۔میں کس مان سے کہو ں کہ پرورددگار نے میری حفاظت کیلئے بھی ابابیل سنبھال رکھی ہیں ۔۔۔۔۔ میں تو چمگادڑوں کا وہ مسکن ، جس سے سورج بھی اپنی کرنیں چھپا چھپا رکھتا ہے۔مالک سے میرا بھی تعلق ہے لیکن ہیولائے اول میرے لئے جنت سے کوئی حجر اسود نہیں لائے کہ میرے مقدر میں بوسے نہیں بلکہ کن کھجورے،ٹڈیاں،مکڑیاں ،چیونٹیاں اور چھپکلیاں میری بوسیدہ مٹی کی دیوانی ہیں‘‘۔۔۔۔
مجھے اپنا نہیں اس کا غم تھا۔ایک تو وہ مجھے چھوڑ گیا اور دوسرامیرے وجود کے اند ر مڑے تڑے ٹھنسے ہوئے ہوئے کاغذوں کے ساتھ ایک تعویذ بھی جو کبھی اس نے اپنی حفاظت کیلئے رکھا تھا نیچے گر گیا جسے چومنا اور سجدہ کرنا مجھ پہ واجب ہو گیا تھا۔
پہلی بار سمجھ آیا کہ یہ جو مکڑیاں میرے اندر صدیوں سے جالا بنتی جا رہی ہیں،درحقیقت وہ کسی کو بچانے کی فکر میں تھیں لیکن جانے کیوں مجھے یہ تدبیر ناکافی لگی اور حفاظت کیلئے مجھے زیادہ بندوبست کرنا پڑا۔
پس، اس کی عریا ں بے بسی ڈھانپنے، تعویذ چومنے اور مالک کی حمد و ثنا کیلئے مجھے سجدہء شکر میں گرنا ٖپڑا۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1848062638758051/
“