’’اے ٹانگے والے!مجھے اس طرح مت دیکھ! تمہاری جیب میں اپنے گھوڑے کی گھاس کے پیسوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے ۔
اے صاحب! آپ میرے ساتھ چلیں کہ میں ’’ہوں‘‘___کیا میں نہیں ہوں؟‘‘
صاحب میرے ساتھ چل پڑا اور میں رو پڑی۔
ہم نے دیکھا کہ فقط ایک پھٹا ہوا تولیہ اپنے ز یریں بدن پہ لپیٹے وہ چھت سے لگی سوئی ہے۔ نیچے فرش پہ ایک’’سیلنگ فین‘‘چل رہا تھا جس کی تیزہوا سے تولیہ آدھا لپٹا ہوا اور آدھا پڑپڑانے لگا تھا۔
’’یہ ادھ ننگی لڑکی کون ہے؟‘صاحب نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’میری چھوٹی بہن ہے۔‘‘میں نے جواب دیا،’’عورت ہے نا اس لئے الٹی سیدھی حرکتیں کرتی رہتی ہے۔‘‘
’’اوہ!‘‘صاحب ہمدردی کرنے لگا تو میں نے اپنے باطن کے زرد دانت دکھا کر اسکی ہمدردی کاتمسخر اڑایا۔اگر میں پکڑی جاتی تب بھی وہ برا نہ مانتا کہ ’’میں‘‘تھی۔
خواب گاہ کے بستر پہ آکے ہم لیٹ گئے اور وہ’’مجھ سے‘‘لطف اندوز ہونے لگا۔
کچھ دیر بعد،پسینے پسینے ہو رہے لمحوں میں سے ایک لمحہ چرا کر میں نے اوپر دیکھا تو صاحب کے پھینکے گئے بلکہ ’’مجھ پر‘‘نچھاور کئے گئے پیسے ہوامیں ادھر ادھر اڑ رہے تھے۔
’’شریر کہیں کا!‘‘میں نے اچھل کر ایک روپیہ دبوچ لیا۔
صاحب خلاص ہو گیا تو اسے باہر چھوڑ کر میں واپس اپنی بہن کے پاس آئی ۔وہ اب اپنے پورے کپڑے پہن کر نیچے فرش پہ بیٹھی ہوئی تھی تو یہ سب پیسوں کا کمال تھا۔صاحب کے پیسوں کی بو سونگھ کر ہی وہ چھت چھوڑ کر نیچے آئی تھی۔
’’آپا!بھوک!۔۔۔آپا!پڑھائی اور سکھلائی کی فیس۔۔۔آپا!۔۔۔۔‘‘
’’ہاں،ہاں۱ میں سب لائی ہوں میری چہیتی!‘‘کہہ کر میں نے اسے کچھ پیسے دیئے تو وہ خوش ہوئی اور میں؟؟؟
میں’’میں ہوں‘‘کا سوچ کر غسلخانے میں آئی،صاحب کے گناہ کی ساری گندگیاں گٹر کی نالی میں بہادیں اور آکر عبادت کے لئے بیٹھ گئی۔
’’کیا میں نہیں ہوں؟‘‘میں نے ہاتھ اٹھا کر سوال کیا۔
’’تم ہو۔۔۔۔اور بہت زیادہ ہو۔‘‘مجھے دعا قبول ہونے کی آوازآئی۔پھر اپنے’’بستر‘‘پہ آکر میں ایک ’’عورت‘‘بنی لیٹ گئی اور سکون سے سو گئی۔
******
’’اے رکشہ والا!مجھے اس طرح مت گھور!تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔صرف دو وقت کی روٹی کے پیسے ہیں۔
اے صاحب!آپ میرے ساتھ چلیں!میں کہتی ہوں چل!زبردستی چل!کہ میں خوبصورت ہوں۔‘‘
اس پر صاحب مسکراتے ہوئے میرے ساتھ’’میرے گھر‘‘آیا۔
’’یہ کون ہے جو سر کے بل کھڑی ہو کر کتاب پڑھ رہی ہے؟‘‘حیران ہوکر اس نے پوچھا۔
’’میری چھوٹی بہن ہے۔‘‘میں جواب دینے لگی،’’پڑھائی میں کمزور ہے۔اسے میں نے ہی ایسا کرنے کو کہا ہے تاکہ الٹی ہو کر کی گئی محنت مشقت کی یاد آنے پر ،اسی بہانے اسے اپنا سیدھا سبق بھی یاد آئے۔‘‘
’’اوہو!بہت ہی نرالا اور اچھا طریقہ ہے۔‘‘صاحب مسکرا کر بولا تو میں نے اپنے کھلے گریبان پہ دوپٹہ اچھی طرح رکھ کر صاحب کی بے جاتعریف کا غیر محسوسانہ مذاق اڑایا اور پھر فوراً ہی اپنے دوپٹہ اور کپڑوں کا بھی مذاق اڑایا کہ کتنے ڈھیلے اور بے بس ہیں کہ پیسے دیکھ کر میرے بدن سے دور بھاگتے ہیں۔
پھر چل کر ہم’’خواب گاہ‘‘میں آئے جہاں صاحب،بستر پر،میرے کپڑوں کی سرسراہٹ اور گریباں کی بھول بھلیوں میں گم ہونے لگا۔ ۔۔۔۔۔اور جب بڑی مشکل سے وہ خود کو اپنے ہی ’’جسم‘‘ کی چنگل سے چھڑا سکا تو بے چارہ بہت پسینہ پسینہ تھا۔
’’یہ لو کنگھی اور پانچ سو روپیہ۔‘‘
’’کنگھی کا کیا کروں صاحب؟‘‘میں ہنس پڑی۔
’’معاف کرو ،میری بیٹی کی ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔
’’کیا ہوا صاحب؟‘‘میں نے ہمدردی کے انداز میں پوچھا۔
’’کچھ نہیں اے عورت ذات!میں ذرا بہک گیا تھا ورنہ یہاں کنگھی کا بھلا کیا کام؟‘‘اور آنسو پونچھتے ہوئے باہر چلا گیا۔
’’بدھو!بھلا یہاں کسی نے بیٹی اور کنگھی کا ذکر کیا ہے جو یہ صاحب کر کے چلا گیا ہے؟ماضی کا کوئی اچھا باپ اور نیک و صالح شخص لگتا ہے ۔‘‘یہ سوچ کر میں غسلخانے میں گئی تو وہاں پانی کی ایک بوند بھی نہیں تھی۔واپس اپنی چھوٹی بہن کے پاس آئی۔وہ ابھی تک اپنی پہلی حالت میں تھی۔میں حیران رہ گئی:
’’ساحرہ!کیا آج تم نے پیسوں کی بو نہیں سونگھ لی؟آج تو پورے پانچ سو ملے ہیں۔‘‘
’’آج پیسہ کہاں آپا؟یہ پیسے توآپ پانی خریدنے پر خرچ کریں گی۔کیا خود کو عبادت اور دعا کے لئے پاک نہیں کریں گی؟_____ تب تک میں یونہی الٹی ہو کر اپنا سبق یاد کروں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے،ٹھیک ہے!آج کل تم بہت زیادہ باتیں کرتی رہتی ہو۔‘‘میں نے اپنی بے بسی پہ جل کر کہا ورنہ اسکی بات تو صحیح تھی۔
کچھ دیر بعد خریدے گئے پانی کے چھینٹے جسم پہ پڑے تو آج کے صاحب کی بیٹی اور کنگھی یاد آئیں۔آج غسل کرنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگی۔عبادت اور دعا سے فارغ ہو کے میں دوبارہ ساحرہ کے پاس آئی۔وہ بدستور سر کے بل کھڑی تھی۔
’’اب بس بھی کرو ساحرہ!میں عبادت تک کر چکی۔‘‘
’’اچھا‘‘کہہ کر وہ اپنے کو سیدھا کر گئی اور پھر مجھ سے لپٹ کر بولی:’’میری اچھی آپا،خدا آپ کو لمبی عمر دے!‘‘
خوش ہو کر میں اسکے رخسار چومنے لگی تو اچانک اس خوف نے مجھے دبوچ لیا کہ کیا پتہ میرے بعد ان رخساروں پہ کسی غیر مرد کے ہونٹ جذب ہو جائیں۔
’’نہیں!میں ساحرہ کو ہر حال میں ایک اچھے مقام اور محفوظ جگہ میں پہنچا کر ہی دم لوں گی۔‘‘یہ احساس لئے میں نے ساحرہ کو گلے لگا کر بھینچ لیا۔
’’مجھ سے ایسے نہ لپٹیں آپا!میری چھاتیاں دب کر درد کرتی ہیں۔‘‘
’’کمینی!تم جوان ہونے کا دعوی کرتی ہو؟جاو،مجھ سے دور ہوجا!‘‘غصہ میں بھر کر میں نے اسے اپنے سے پرے ہٹایا۔
اس پر وہ آنکھیں پھاڑ کر حیرت سے مجھے دیکھنے لگی کہ یہ اچانک مجھے کیا ہو گیا ہے!اس نے کونسی بے ادبی اور گستاخی کی ہے!
میرا دل پیسج گیا۔نرمی سے اسے گلے لگا میں ر رونے لگی۔وہ معصومیت کا پیکر تھی۔میں ہی غلط تھی۔
’’آپا!کیا اب میری باری ہے؟‘‘اس نے رندھے گلے سے پوچھا۔
’’ہاں،ساحرہ ہاں!تمہاری بہن اب بوڑھی ہو رہی ہے۔سارے گاہک اب تم پر ہی اپنی گندی نظریں تاڑنے لگے ہیں۔تم بھاگ جاؤ ساحرہ!میرے جسم اور حسن کی گھنگھرو کسی بھی وقت ٹوٹ کر بکھر سکتی ہے۔پھر تم کیا کروگی؟کہاں سے کھاؤگی؟کیا پہنو گی؟؟‘‘
’’نہیںآپا!میں آپ کو چھوڑکر کہیں نہیں جاؤں گی۔میں بھی آپ کی طرح اپنے آپ سے مقابلہ کروں گی۔۔۔۔۔‘‘اور اسکی سانسوں میں مجھے کچی طوائف کی بو آنے لگی۔
پھر ہم دیر تک بازار کے بھاؤ کے متعلق باتیں کرتے گئے۔(ختم شد)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...