شناختی کارڈ تو ہوگا آپ کا؟ ذرا یاد کیجئے کیسے بنا تھا؟… نادرا کے دفتر گئے‘ لائن میں لگے‘ فارم پُر کیا‘ بجلی کے بل کی فوٹوکاپیاں کروائیں‘ انگوٹھے کے نشانات لگائے‘ والد کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی ساتھ لگائی وغیرہ وغیرہ… اور پھر تمام تسلی کے بعد نادرا نے آپ کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کر دیا۔ اس کارڈ کے بارے میں نادرا کا دعویٰ ہے کہ اس میں غالباً25 سکیورٹی فیچرز ہیں‘ کوئی اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا‘ جونہی آپ کا کارڈ سکین ہوتا ہے ایک ایک چیز سامنے آجاتی ہے۔گویا جب آپ کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بن گیا تو آپ کے بار بار تصدیق کروانے کے سارے جھمیلے ختم ہوگئے۔ لگتا ایسا ہی ہے لیکن اگر آپ کے بچے کا 'ب فارم‘ نہیں بنا تو ابھی سے ذہن میں بٹھا لیجئے کہ آپ ایک نئے عذاب سے گزرنے والے ہیں۔ اس موقع پر آپ کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بھی زیرو ہوجاتاہے۔
بڑے بیٹے نے 9th کا امتحان دینا ہے‘ اچانک سکول کی طرف سے آرڈر آیا کہ 'ب فارم‘ جمع کرائیں کیونکہ رجسٹریشن کے لیے بچے کا نام بھیجنا ہے۔ میں نے 'بے فارم‘ کا نام ضرور سنا تھا لیکن کچھ پتا نہیں تھا کہ یہ کیا ہوتاہے اور اسے 'ب فارم‘ کیوں کہتے ہیں۔ اتفاق سے علامہ اقبال ٹائون کے کریم بلاک میں نادرا کا ایگزیکٹو آفس موجود ہے۔ تسلی ہوئی کہ ایگزیکٹو قسم کی سہولیات موجود ہوں گی۔ اگلے روز بسم اللہ پڑھ کر دفتر میں قدم رکھا اور پائوں من من کے ہوگئے۔ اے سی بند تھا‘ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی‘ پنکھے موجود تھے لیکن صرف سٹاف کے لیے۔ ہر کائونٹر کے پیچھے ٹوکن نمبر کی سکرین چل رہی تھی‘ اطمینان ہوا کہ چلو ٹوکن لے لیتا ہوں‘ کچھ دیر بعد آجائوں گا۔ ٹوکن والی مشین بھی موجود تھی تاہم تین چار دفعہ بٹن دبانے پر ٹوکن تو نہیں نکلا البتہ مشین سے آواز آئی'بھائی جی جائو لائن میں لگو‘۔ میں حیرت سے اچھل پڑا۔ اتنی اچھی اردو بولنے والی مشین میں پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں مشین سے باقاعدہ مکالمہ شروع کرتا‘ وہی آواز دوبارہ میرے کان کے قریب آئی اور میں بوکھلا گیا‘ مڑ کر دیکھا تو گارڈ ایک طرف کھڑے لوگوں کے ہجوم کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ 'مشین سے ٹوکن کیوں نہیں نکل رہے؟‘۔ بیزاری سے بولا'مینوں کی پتا‘‘۔
چھوٹا سا ہال کمرہ‘ اے سی بند‘ لوگوں کا ہجوم اور سخت گرمی… دم گھٹنے لگا۔پانی کی تلاش میں اِدھراُدھر نظر ڈالی لیکن ناکامی ہوئی۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ 'ب فارم ‘ کہاں اور کس کائونٹر سے بنے گا۔ 'معلومات ‘ والے کائونٹر پر قاسم نامی ایک نوجوان کھڑا تھا جو بیک وقت تین کائونٹرز پر باری باری لوگوں کی 'تسلی‘ کروا رہا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد بمشکل ہجوم میں سے راستہ بنا کر اس تک رسائی حاصل کی اورکچھ بنیادی باتیں پوچھیں تو جواب ملا 'کل صبح ساڑھے آٹھ بجے اہلیہ اور بچے کے ہمراہ آجائیں‘۔ بے بسی سے عرض کی کہ حضورمیں تو گرتا پڑتا پہنچ جائوں گا‘ اہلیہ بھی آجائیں گی لیکن بچے نے تو سکول جانا ہے، کیااس کی چھٹی کروانی پڑے گی؟ کائونٹر کے پیچھے سے آواز آئی'ہاں جی‘‘۔ ماشاء اللہ اتنا مختصر اور جامع جواب سن کر مزید کسی سوال کی گنجائش ہی نہ رہی۔ چلتے چلتے ایک چھوٹی سی انفارمیشن پوچھ لی کہ بھیا یہاں پانی کیوں نہیں رکھا؟ جواب ملا'اندر کمرے میں ہے‘۔ حیرت ہوئی‘ پوچھا 'کمرے میں کیوں اور پھر کیسے پتا چلے گا کہ اندر کمرے میں یہ نعمت موجود ہے‘؟ مزید بیزاری سے بولے'انفارمیشن کائونٹر پر آکر انفارمیشن لی جاسکتی ہے‘۔
'ب فارم ‘ یقینا ضروری ہوتا ہوگا لیکن سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس کے لیے ساری معلومات دوبارہ سے حاصل کرنا کیوں ضروری ہے جبکہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ میں ایک ایک چیز پہلے سے موجود ہے ‘ اوپر سے مردم شماری کا پہلا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ نادرا کے دفتر میں 'ب فارم‘ بنوانے والوں کی حالت دیکھنے کے قابل ہے۔ اگرنادرا کے ایگزیکٹو دفاتر میں یہ حال ہے تو اندازہ لگا لیں کہ نارمل دفاتر میں کیا ہوتا ہو گا۔ ایک صاحب سخت پریشانی کے عالم میں نظر آئے‘ پتا چلا کہ گھر میں ان کی فالج کی مریض والدہ اکیلی پڑی ہیں لیکن نادرا کی فرمائش پر وہ اہلیہ اور بچے کو لے کر 'ب فارم‘ بنوانے آئے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نادرا کی ہیلپ لائن پر کال کریں تو وہاں سے جواب ملتا ہے کہ 'ب فارم‘ بنوانے کے لیے والد یا والدہ میں سے کوئی ایک بھی آسکتا ہے‘ بچے کو بھی ساتھ لانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن نادرا کے دفتر جائیں تو عملے کو ہر وہ چیز درکار ہے جو آپ کے لیے فوری طور پر مشکل کا باعث بن سکتی ہے۔ اُس پر عملے کا رویہ ایسا ہے کہ لگتاہے آپ نادرا کے دفترنہیں کسی پولیس ا سٹیشن میں آگئے ہیں جہاں کوئی کسی سے سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہیں۔ ایک عینک والے صاحب توباقاعدہ دانت پیس کر کہتے ہوئے پائے گئے کہ یہ 'ب فارم‘ نہیں… 'چ‘ فارم ہے…!!!
انٹرنیٹ کا دور ہے‘ ویزا فارم تک آن لائن بھرے جارہے ہیں لیکن نادرا میں ذاتی طو رپر 'پیشی‘ ضروری ہے۔ ذرا لوگوں کی حالت دیکھئے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی بونترے پھر رہے ہیں کہ عملہ اچانک کسی ایسی ڈاکومنٹ کی ڈیمانڈ کر دیتا ہے جو اتفاق سے اس وقت جیب میں نہیں ہوتی۔ آپ کے پاس اپنا اور اہلیہ کا شناختی کارڈ موجود ہے‘ بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ موجود ہے‘ تمام چیزوں کی فوٹو کاپی بھی موجود ہے لیکن کوئی پتا نہیں کہ کائونٹر پر بیٹھے صاحب اچانک سے ڈیمانڈ کر دیں کہ آپ اپنی بھی جنم پرچی لے کرآئیں۔ ایک خاتون گرمی سے نڈھال بیٹھی نوحہ کناں تھیں کہ وہ چار روز سے چکر لگا رہی ہیںلیکن عملہ ہر دفعہ انہیں کوئی نئی 'فٹیک‘ ڈال دیتا ہے۔
ڈی جی نادرا تک یقینا یہ کالم پہنچے گا ‘ ان سے گزارش ہے کہ اگر نادرا سنٹرز میں ٹوکن مشینیں لگائی ہیں تو ان میں کاغذ کا رول بھی لگوائیں‘ سخت گرمی میں پینے کا پانی کسی مناسب جگہ پر رکھ دیں جہاں سب کی نظر پڑتی ہو‘ اس کے لیے انفارمیشن کائونٹر سے رابطہ نہ کرنا پڑے۔ اے سی نہ چلنے کی صورت میں کچھ پنکھے انتظار گاہ میں لگوا دیں تاکہ لوگ پگھلنے سے محفوظ رہ سکیں… اور کچھ ایسا بھی کریں کہ عوام انٹرنیٹ پر گھر بیٹھے اپنا کام کروا سکیں‘ اس سے نادرا سنٹرز پر رش بھی ختم ہوجائے گا اور عملے کی جلی کٹی باتیں بھی نہیں سننا پڑیں گی‘ نیز جن لوگوں کے شناختی کارڈ بن چکے ہیں انہیں تو مزید کاغذات کے چکر سے نجات دلا دیں‘ شناختی کارڈ ہوتے ہوئے بھی اگر آپ کا محکمہ شکوک و شبہات کا شکار ہے تو اس کا مطلب ہے ہرشناختی کارڈ مشکوک ہے۔ خجل خواری عوام کا مقدرہے لیکن آپ اس میں وسیلہ کیوں بن رہے ہیں۔ مجھے تو انفارمیشن کائونٹر پر بیٹھے صاحب کی وہ بات نہیں بھول رہی جو وہ بار بار لوگوں کے سامنے دھمکی آمیز انداز میں دُہرا رہے تھے کہ 'میں دس سال صحافی رہ چکاہوں‘یہ سن کرکسی دل جلے نے جملہ اچھال ہی دیا کہ 'ایتھے امب لین آیا ایں‘۔ ایک صاحب کو تو میں نے یہ بھی کہتے سنا کہ ایجنٹ ہوتے تھے تو وہ چار پیسے لے کر سکون سے سارا کام کرو ا دیتے تھے لیکن جب سے نادرا نے ایجنٹوں کا سسٹم ختم کیا ہے ساری خواری عوام کے حصے میں آگئی ہے اور عملہ بھی شاید اسی لیے 'تپا‘ ہوا ہوتاہے کہ اب انہیں تنخواہ کے علاوہ کچھ نہیں ملنے کا…!! دوسری دفعہ پھر ڈی جی نادرا سے ہی گزارش ہے کہ عالی جاہ! نادرا کے نخرے کم کروائیں اور لوگوں کی دعائیں لیں ‘اس سے نادر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“