کیسی سیاست، کیسا طلاطلم جسے ’محافظوں کی تبدیلی‘ (Change of Guards) کے اوقات اور زائچوں میں تلاش کیا جاتا ہے اور پھر اُسی تنخواہ پہ گزارا کرنے کی بے کسی پہ آہ و بکا بھی سنائی نہیں دیتی۔ خیر سے ہمارے مردِ آہن تھے کہ خود ہی اپنی ایکسٹینشن کے پروانے جاری کرنے پہ مجال جو ذرا بھر ہچکچاہٹ محسوس کرتے۔ لیکن وہ زمانہ مارشل لائوں کا تھا۔ مردِ آہن خودکار تھے۔ مابعد مارشل لا دور میں جنرل کیانی سے مدتِ ملازمت میں توسیع کی طرح ایجاد ہوئی، لیکن ضربِ عضب کے خالق کو جستجو کے باوجود خدمات کا صلہ نہ ملا تو حرمین شریفین کی حفاظت کا مقدس فریضہ کیا کم تھا۔ دونوں ہاتھوں سے دین بھی کمایا اور دُنیا بھی! لیکن لحیم شمیم جنرل قمر جاوید تو کافی قناعت پسند دکھائی دیتے تھے۔ اُن سے دیگر دو درجن صحافیوں کے ساتھ ایک بہت ہی بے تکلفانہ ملاقات میں انہیں اپنے وقت پہ وردی اُتارنے کے عزم پہ بہت ہی پختہ پایا تھا۔ لیکن اب وزیراعظم عمران خان کے اصرار پہ کوئی کسی اچنبے کا اظہار کیا کرے کہ اُن کے تئیں اُن کی حکومت کی خارجہ، اندرونی و بیرونی سلامتی اور معاشی میدان میں تمام تر کاوشیں آرمی چیف ہی کی مرہونِ منت رہیں اور خان صاحب نے حکومت میں آنے کے تین ماہ بعد ہی اُن کی خدمات کو ایک اور ٹرم تک بڑھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اور جب یہ فیصلہ 19 اگست کو کیا گیا تو تمام بڑی جماعتوں نے جنرل باجوہ کے نام پر بیعت کرنے میں کسی بخیلی سے کام نہیں لیا۔ اب اس ایکسٹینشن پر ایکسٹینشن دینے والا یا اس کی تائید کرنے والے کل کلاں کو اگر ہاتھ ہونے کی شکایت کریں گے تو کس منہ سے۔ اب وہی ملک کے سیاسی مقدر کے حتمی ثالث (arbiter) ہوں گے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اور لوگوں کے علاوہ مجھ سے بھی نئے آرمی چیف کے حوالے سے کسی موزوں جنرل کی تلاش میں کھوج لگانے کا کہا تھا تو میں نے میاں صاحب سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا تو کوئی صوبیدار بھی پاک فوج میں واقف نہیں۔ البتہ مَیں نے اُن سے پوچھا تھا کہ آپ نے جنرل راحیل شریف کا انتخاب کیسے کیا تھا تو میاں صاحب نے حیران کُن جواب دیا تھا کہ جنرل راحیل نے اُن سے کسی سے بھی سفارش نہیں کروائی تھی اور وہ اُنہیں صرف ایک فوجی ہی نظر آئے۔ جنرل راحیل کو عہدے میں توسیع نہ دینے کے سنگین مضمرات کا سامنا کرتے ہوئے وہ عمران خان کے دھرنے کے اصل کرداروں سے بخوبی واقف ہونے کے باعث بہت محتاط تھے۔ اُس وقت چار نام سامنے آ رہے تھے۔ سب سے زیادہ نام ملتان کے کور کمانڈر کا لیا جا رہا تھا جو ضرورت سے زیادہ متحرک پائے گئے۔ دوسرا نام وہ تھا جنہیں چیف آف جنرل سٹاف کی بالائی منزل کے لیے مناسب سمجھا گیا۔ تیسرا نام بہاولپور کے کورکمانڈر کا تھا جن کے حوالے سے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے شریف خاندان کے تعلقات اُن کی تقرری میں مانع ہوئے اور پھر جنرل قمر جاوید باجوہ جو اُس وقت راولپنڈی کے کورکمانڈر تھے اور جنہوں نے اپنے دائرئہ عمل میں ریاستی عمارتوں پہ ہونے والی یلغار کو لگام دی تھی۔ مجھے بھی اُس وقت اُن سے بہتر متبادل نظر نہیں آیا تھا اور قرعۂ فال اُنہی کے نام نکلا۔ اگر سول ملٹری تعلقات فقط آرمی چیف کی شخصیت ہی کے مرہونِ منت ہوتے تو یہ سالہاسال سے جاری سیاسی اُلٹ پلٹ کیوں ہو پاتی۔ اصل حیثیت ادارے کی ہے جو انتظامیہ ہی کا بازوئے شمشیرزن ہے جس کے آئینی سربراہ وزیراعظم کہلاتے ہیں۔ خیر سے تحریکِ انصاف کی حکومت فوج کے ساتھ ایک ہی صفحہ پہ ہونے کے فیض پہ بہت شاداں ہے اور اب یہ کنفیوژن نہیں کہ اقتدار کے سنگھاسن کی پتوار کس کے پاس ہے۔ لیکن جانے سازشی نظریہ دان اور بیچارے سیاستدان اُسی درودیوار کی کیوں گریہ و زاری کرنے میں منہمک رہتے ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ مُرادیں وہیں سے بَر آتی ہیں یا پھر بگڑ بھی جاتی ہیں۔ ایسے میں پا بہ سلاسل پنجاب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حالت ایسی غیرہوئی کہ سبھی طاقتوروں کے ہاتھ پیر پھول گئے اور کوئی اُن کے ممکنہ خونِ ناحق کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نظر نہ آیا۔ میڈیکل بورڈ کی خوفناک رپورٹوں کی بنیاد پر عدالتوں سے ضمانتیں ملیں، عمران خان نے اپنے ذرائع سے ان رپورٹوں کی تصدیق کروائی اور کابینہ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے اُن کا نام ہٹانے کی توثیق کر دی۔ لیکن اپنے کرپشن مخالف بیانیے کو شرمندگی سے بچانے کے لیے سات ارب روپے کے جرمانوں کے برابر بانڈز بھرنے کی شرط لگا کر انسانی ہمدردی کے دعوئوں پر پانی بھی پھیر دیا۔ اور لاہور ہائیکورٹ نے واپسی کی تحریری یقین دہانی پہ میاں نواز شریف کو بیرونِ ملک جانے دیا۔ طیش میں آ کر وزیراعظم نے اعلیٰ عدلیہ کو طاقتوروں کو رعایت دینے کے تاثر کو زائل کرنے کا طعنہ دے ڈالا، جس پر خاموش چیف جسٹس کھوسہ صاحب کو جواب دینا پڑا کہ نام تو حکومت نے ہی نکالا تھا اور چیف ایگزیکٹو کو عدلیہ بارے بات کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے۔ البتہ 2009 کے بعد کی عدلیہ کے حوالے سے جو بات کی گئی اُس کے ناطے چیف جسٹس افتخار چوہدری اور چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالتی سرعت انگیزی نے منتخب حکومتوں کو جس طرح خوار کیا اور دو وزرائے اعظم کو جس طرح فارغ کیا، اُس سے آئینی سولین ڈھانچے کی بنیادیں ایسی ہلیں کہ انصاف پہ یقین باقی رہا نہ آزادیوں کا تحفظ۔
سُبکی تو حکومت کی بہت ہوئی اور شرمندگی چھپائے نہیں چھپ رہی۔ کھسیانے پن کو چھپانے کے لیے ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کے فراموش کردہ بیانیے کو پھر سے میدان میں اُتارا گیا۔ جیل کے بھولے بسرے عام قیدیوں کی یاد آئی اور سب کے لیے ایک قانون اور یکساں سلوک کا واویلا کیا گیا۔ بھلا تبدیلی والوں کو کس نے روکا ہے کہ وہ امیر غریب کی تفریق ختم نہ کریں۔ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو عمران خان کیوں بار بار ایوب خان کے سماجی تفریق کے دور کو پاکستان کا سنہری زمانہ قرار دیتے ہیں جس میں بائیس خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہوئی اور غریب لوگ بے حال ہوئے۔ اور پھر اسد عمر کو فارغ کر کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ٹیم آئی ایم ایف کے پروگرام کے امیر غریب کی تفریق بڑھانے کے نسخے پہ عملدرآمد کرنے کے لیے کیوں لائی گئی؟ انہیں کس نے روکا ہے کہ ہسپتالوں کا جال نہ بچھائیں، تعلیم عام نہ کریں، اور خدمات کے شعبوں پہ بنیادی توجہ نہ دیں۔ بھلا تحریکِ انصاف کی تبدیلی کا راگ الاپنے والوں کو کوئی کیسے سمجھائے کہ اس طبقاتی نظام کا ہر ادارہ طبقاتی ہے اور مراعات یافتہ طبقات کا محافظ۔ اس لیے اُن کی تبدیلی کی درفنطنی محض ایک فراڈ ہے۔
سزایافتہ نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کا بوجھ عدلیہ پر ڈال کر یا پھر میڈیکل بورڈ کی رپورٹوں کی دھجیاں اُڑا کر عمران خان سُرخرو ہونے سے رہے۔ اس جرمِ ضعیفی میں وہ سبھی اداروں کے ہم رکاب ہیں۔ اب تو وہ اپنی بے مثال کارکردگی کا سہرا بھی آرمی چیف کے سر پہ سجا رہے ہیں تو پھر کوئی سرپھرا ہی اُن سے جواب دہی طلب کر سکے گا۔ ظاہر ہے کہ سیاست کے کردہ ناکردہ گناہوں کا بوجھ کوئی سپہ سالار کیوں اُٹھائے گا؟ ان حالات میں ہمارے پہنچے ہوئے صحافی ارشاد بھٹی کی وزیراعظم کو عوامی مسائل پہ توجہ دینے کی صلاح اور حکمرانی کے معتدل رموز پہ رہنمائی دینے پہ سر دُھننے کو دل چاہتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ارشاد بھٹی کچھ ہی عرصے میں سر پیٹتے نظر آئیں گے۔ آخر کاروبارِ حکومت ایسے چلا کرتے ہیں۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ بتلائیں تو کیا بتلائیں؟!