"حضرت عبداللّٰہ ذوالبجادین رضى الله عنه ایک نوجوان صحابی تھے-" جو مدینہ طیبہ سے کچھ فاصلہ پر ایک بستی میں رہتے تھے۔ دوستوں سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ میں ایک پیغمبر علیہ الصلوة ولسلام تشریف لائے ہیں، چنانچہ نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چوری چھپے کلمہ پڑھ لیا وآپس گھر آگئے۔ گھر کے سب لوگ ابھی کافر تھے،لیکن محبت تو وہ چیز ہے جو چھپ نہیں سکتی- اپنی طرف سےتوچھپایا کہ کسی کو پتہ نہ چلے،مگر نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا کوئی تذکرہ کرتا تو یہ متوجہ ہوتے۔
چنانچہ گھروالوں نے اندازہ لگالیا کہ کوئی نہ کوئی معاملہ ضرور ہے، ایک دن چچا نے کھڑا کرکے پوچھا ،بتاوٴ بھئ !کلمہ پڑھ لیا ہے؟ "فرمانے لگے، جی ہاں ۔" چچا نے کہا! اب تیرے سامنے دو راستے ہیں ۔ یا تو کلمہ پڑھ کر اس گھر سے نکل جا، اور اگر گھر میں رہنا ہے تو ہمارے دین کو قبول کرلے۔ چنانچہ ؛ ایک ہی لمحہ میں فیصلہ کر لیا، فرمایا:'' میں گھر تو چھوڑ سکتا ہوں لیکن اللّہ کا دین نہیں چھوڑ سکتا۔ چچا نے مارا پیٹا بھی اور جاتے ہوئے جسم سے کپڑے بھی اتار لئے۔ جسم پر بالکل بھی کپڑا نہ تھا، ماں آخر ماں ہوتی ہے…. شوہرکیوجہ سے کچھ ظاہر میں تو نہ کہہ سکی ،لیکن ! چھپ کر اپنی چادر دی کے بیٹا اپنی ستر چھپا لینا۔ انہوں نے چادر کے دو حصے کئے اور ایک سے ستر کو چھپایا اور دوسری اوپر اوڑھ لی۔ ''اسی لئے '' ذوالبجادین '' یعنی دو چادروں والے مشہور ہوگئے….
گھر سے نکلنے کے بعد قدم بے اختیار مدینہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ رات بھر سفر کیا اور صبح نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا!
اے اللّٰہ کے نبی صلى الله عليه وسلم سب کچھ پیچھے چوڑ آیا ہوں ، اب تو آپ صلى الله عليه وسلم کے قدموں میں حاضر ہوں ، چنانچہ وہیں اصحابِ صفا میں شامل ہوکر رہنا شروع کردیا۔
چونکہ قربانی بڑی دی تھی ، محبتِ الٰہی میں اپنا سب کچھ داوٴ پر لگادیا تھا،اس لئے اس کا بدلہ بھی ایسا ہی ملا تھا۔چنانچہ ان کو عشقِ الٰہی میں ایسی کیفیات حاصل تھیں کے مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوتے اور ایسا جذب طاری ہوتا تھا کہ اونچی آواز سے اللّٰہ اللّٰہ کہہ اٹھتے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ دیکھا تو ڈانٹاکہ کیا کرتا ہے،یہ سن کر نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: عمر(رضى الله عنه) ! عبداللّٰہ کو کچھ نہ کہو، یہ جو کچھ کررہا ہے اخلاص سے کررہا ہے۔
کچھ عرصہ گزرا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کیساتھ ایک غزوہ میں تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں ایک جگہ پہنچے تو بخار آگیا، نبی کریم صلى الله عليه وسلم جب انہیں دیکھنے کے لئے پہنچے تو حضرت عبداللّہ کے چند لمحات باقی تھے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ان کا سر اپنی گود مبارک میں رکھ لیا، یہ وہ خوش نصیب صحابی ؓ رضى الله عنه تھے جن کی نگاہیں چہرہ رسول صلى الله عليه وسلم پر لگی ہوئی تھیں اور وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ سبحان اللّٰہ ! گود مبارک میں ہی روح اپنے خالق حقیقی کیطرف پرواز کر گئی۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ان کے کفن کے لئے اپنی چادر مبارک بجھوائی۔
سبحان اللّٰہ ! واہ رب کی قدردانی ہے کہ جس بدن کو اس کی راہ میں ننگا کیا گیا تھا، آج اپنے محبوب صلى الله عليه وسلم کی کملی سے چھپارہا ہے۔
خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ان کا جنازہ پڑھایا۔ اور خود ہی قبر میں اتارا۔ جب انہیں قبر میں اتارا گیا تو نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : '' اے اللّٰہ میں عبداللّٰہ سے راضی ہوا تو بھی اس سے راضی ہوجا۔'' یہ ایسے الفاظ تھے جنہیں سن کر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنه وجد میں آگئے،اور کہنے لگے'' کہ میرا جی چاہتا ہے کہ؛ کاش ! آج نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ہاتھوں میں میری میت ہوتی۔''
بيشك ! اللّٰہ کی راہ میں قربانیاں دینے والوں کو اللّٰہ رب العزت یوں ہی بدلہ دیا کرتا ہے۔ اگر کوئی اللّٰہ کے لئے اخلاص ومحبت کیساتھ قربانیاں دے تو اسے دنیا وآخرت میں ایسے ہی انعامات ومقامات سے نوازا جاتا ہے۔
سبحان اللّٰہ
“