بَطَلِ اسلام سُلطان نورالدین محمود زنگی رحمہ اللہ،
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
دیباچه:
نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ
خلفائے راشدین اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے بعد جن مسلمان حکمرانوں کی عظمتِ کردار نے ہفت افلاک کی رفعتوں کو چھو لیا، ان میں الملک العادل سلطان نورالدین محمود زنگی اَنارَ اللہ برہانہ، کا نام نامی امتیازی حیثیت رکھا ہے۔ اس کی عظمت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ ہر دور کے مؤرخ دوست اور دشمن سبھی نے اس کو شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں نمایاں جگہ دی ہے۔
بعض مؤرخین نے خلفائے راشدین کے بعد تمام فرمانروایان اسلام میں اس کو سب سے بہتر قرار دیا ہے۔ اس کی سیرت پر ایک سرسری نگاہ بھی ڈالی جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلاشبہ وہ ”رائل ہیروز آف اسلام“ (نامور فرمانروایان اسلام) کی سِلکِ مروارید کا ایک دُرِ بےبہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے مثل اوصاف و محاسن سے نوازا تھا۔ وہ ہمیشہ کتاب وسنت پر عمل کرنے اور خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس کی سیرت میں ان عظیم المرتبت نفوس قدسی کی زندگی کی جھلک نظر آتی ہے جو براہِ راست فخر موجودات سرور کائنات جناب محمد مصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم کےفیضان سے متمتع ہوئے اور صحابہ کرام کے عظیم الشان لقب سے مشرف ہوئے۔
اس کا ظہور ایسے پُر آشوب دور میں ہوا جب عزیمتیں کمزور اور ہمتیں پست ہو گئی تھیں اور تشتت و افتراق نے مسلمانوں کی حیاتِ ملی کو گھن کی طرح کھا لیا تھا، قریب تھا کہ وہ صفحۂ ہستی سے یکسر مٹ جاتے کہ یکا یک رحمتِ الہی جوش میں آئی اور اس نے سلطان نور الدین محمود زنگیؒ کو اسلام کی شمشیرِ برہنہ بنا کر میدان عمل میں لا ڈالا۔ اس مرد مجاہد کا ظہور اس شعر کا مصداق تھا۔
برقِ سوزاں تیغِ بے زنہار اُو
دشت و در لرزنده از یلغارِ اُو
(علامہ محمد اقبالؒ)
اس نے فرزندانِ توحید پر پرستارانِ باطل کی ہولناک یلغار کو اپنی بلند ہمت اور قوی بازوؤں سے روکا، مصر کی کمزور فاطمی خلافت کا خاتمہ کر کے اُس پراگندگی کو دور کیا جو وادی نیل کی عظمت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی اور پھر ایک ایسی عظیم اسلامی قوت کی بنیاد ڈالی جس سے تمام یورپ کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اس مرد مجاہد کی شخصیت علم و عمل کا ایک حسین امتزاج تھا اور وہ اس شعر کا صحیح مصداق تھا۔
جمَعَ الشَّجَاعَتْ وَالْخَشُوعُ لِرَبِّهِ
مَا أَحْسَنَ الْمِحْرَابُ فِي الْمِحْرَابِ
یعنی اس کی راتیں اپنے رب کے حضور عبادت و مناجات میں اور دن میدان جہاد میں گزرتے تھے، اس نے محراب (گوشئہ عبادت) کو محراب (میدانِ حرب) کے ساتھ جمع کر رکھا تھا۔
ایک فاضل مورخ نے کیا خوب لکھا ہے:
"سلطان نورالدین مسلمان بادشاہوں میں اپنے اوصاف کے واسطے آپ ہی اپنی نظیر تھا۔ اس کی نیکی، اس کی پاکبازی، اس کا تقویٰ، اس کا انصاف، اس کے مذہبی اوصاف، اس کی عقل مندی، اس کی سیاست، اس کی شجاعت، اس کی علم و ہنر کی قدردانی، علماء کی خدمت، صلحاء کی عزت، علم کی ترقی کی کوششیں، اس کو ایک اسلامی بزرگ ہیرو (نامور فرمانروا) ٹھہراتے ہیں۔ اس کے کسی ایک بزرگ وصف کی طرف چند الفاظ میں اشارہ کرنا، اس کی بزرگی اور اس کی شان کی بے ادبی کرنا ہے۔” (حیاتِ صلاح الدین، مؤلفه منشی سراج الدین احمد مرحوم)
ہمارے دور کی ایک عہد آفریں شخصیت مولانا ظفر علی خان نے اپنے ایک مضمون میں سلطان نور الدین محمود کی عظمتِ کردار کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
”سلطان نور الدین شہید محمود بن زنگیؒ کا شمار ان چند نفوس قدسی میں ہے جو ایک عظیم الشان سلطنت کے فرمانروا ہونے کے باوجود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے، جن کی نظروں میں تواناؤں اور ناتوانوں کی ایک حیثیت تھی، جن کا عدل اپنے اور بیگانے، مسلم اور مسیحی میں کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھتا تھا، جن کو دیکھ کر خیر القرون کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی تھی۔“ (جواہرات۔ ایک تاریخی معجزہ)
اپنے تو خیر اپنے ہیں، بیگانے بھی اسلام کے اس بطلِ جلیل کی عظمت کے معترف ہیں۔ مشہور عیسائی مورخ ایڈورڈ گبن نے ”تاریخ زوال و ہبوط دولت روما، جلد ششم“ میں سلطان نور الدینؒ کے بارے میں جو بے لاگ رائے ظاہر کی ہے، وہ بھی مولانا ظفر علی خان ہی کے الفاظ میں سنیے:
”زنگی کے نامور بیٹے نور الدینؒ کی سپہ گرانہ قابلیت نے دمشق کی حکومت کو حلب کے ساتھ ملا کر شام کی صلیبی طاقتوں کا سالہا سال تک کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا، اور ہر معرکہ میں اپنے حریفوں کو زک دے کر اس نے بتدریج اپنی قلمرو کی حدود کو دجلہ سے لے کر نیل کے ساحلوں تک وسیع کر دیا۔ خود لاطینی مسیحی بھی نہ صرف اپنے اس دشمنِ جاں ستاں کی دانشمندی اور شجاعت بلکہ اس کے عدل و انصاف اور زہد و اتقا کا اعتراف کرنے پر مجبور تھے۔ اپنی روز مرہ کی زندگی اور اپنی سلطنت کے نظم ونسق میں اس مجاہدِ اعظم نے خلفائے راشدین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے اسلامی جوش اور سادگی کو تازہ کر دیا۔ اس کے محل میں سیم وزر اور دیبا وحریر کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی مملکت کے طول و عرض میں بادہ کش شراب کی ایک بوند تک کو ترستے تھے۔
شاہی خزانہ رعایا کی ضروریات کے لیے وقف تھا، اس کے گھر کا غریبانہ خرچ مال غنیمت کے اس حصے سے پورا ہوتا تھا جو اسلامی فوج کے دوسرے سپاہیوں کی طرح جائز مقدار میں اسے ہاتھ لگتا تھا۔ ایک دفعہ اس کی چہیتی ملکہ نے ٹھنڈی سانس لے کر تنگی خرچ کی شکایت کی۔ نورالدین نے جواب دیا: "بانو! افسوس ہے تمہاری خواہش پوری نہیں ہو سکتی، خدا کا خوف بیت المال کی طرف میرا ہاتھ بڑھنے نہیں دیتا، یہ مسلمانوں کا مال ہے، میں صرف اس کا امین ہوں اور اس میں سے ایک درہم کا بھی مستحق نہیں، البتہ حمص میں میری تین دکانیں موجود ہیں، ان میں تمہیں اختیار ہے۔ انہیں بیچ ڈالو یا ان کے کرایہ سے اپنی ضرورت پوری کر لو۔”
نورالدینؒ کا ایوان عدالت زبردستوں کے لیے ہیبت گاہ اور زیر دستوں کی جائے پناہ تھا۔ سلطان کی وفات کے بعد یہ نقشہ بدل گیا اور دمشق کی گلیوں میں ایک مظلوم رو رو کر پکارتا ہوا سنا گیا کہ: اے نورالدین تو کہاں ہے؟ خاک سے اٹھ اور ہم ستم زدوں کی فریاد سن“۔
ایک اور مشہور عیسائی مؤرخ آرچر اپنی کتاب "کارزارِ صلیبیہ” میں سلطان نور الدین محمود زنگی ؒ کے متعلق یوں رقمطراز ہے:
”نور الدین ان عظیم الشان بادشاہوں میں تھا جو شاہانِ شام میں مشہور گزرے ہیں، عیسائیوں نے خود اس کی بہادری اور کامیابی کا اقرار کیا ہے۔ آئندہ اور موجودہ صدی کے مسلمانوں کے لیے وہ قابل تقلید تھا۔“
طائر کا پادری ولیم لکھتا ہے:
”گو کہ وہ مسیحیوں کی جان کا خواہاں رہتا تھا، لیکن اپنی قوم کے رسم و رواج کے اعتبار سے وہ حاکم منصف عاقل و دیندار تھا۔ سب سے بڑھ کر اس کی عدالت تھی، جس کے باعث رعایا اس سے محبت کرتی تھی۔ اپنی وسیع سلطنت میں کوئی ناجائز ٹیکس نہ لیتا اور عامیوں کی طرح زندگی بسر کرتا تھا، اس کے انصاف کی وجہ سے غیر ملک والے اس کی عملداری میں آ آ کے بستے تھے۔ نورالدین گو خود ایک ہنرمند نبرد آزما اور اپنے باپ کے مانند سپاہیوں کے حقوق کا نگران تھا۔ لیکن وہ لوٹ مار کی اجازت کبھی نہ دیتا تھا تو بھی اس کے تابعین اس سے محبت کرتے اور لڑائی میں پائے استقلال جمائے رکھتے، کیونکہ ان کو وثوق تھا کہ اگر کام آئے تو ہمارا مالک ہمارے بال بچوں کی خبر لیتا رہے گا، کھانے پینے اور پہننے میں نورالدین شریعت کا جتنا خود پابند تھا اتنا ہی اسلاف کے خلاف اپنی رعایا سے بھی پابندی کراتا۔ وغیرہ وغیرہ۔“ (کارزار صلیبیہ۔ ٹی اے آرچر مترجم اثر لکھنوی)
اسی طرح دوسرے متعدد عیسائی مؤرخین نے بھی نور الدین محمود زنگیؒ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے، گو ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے خبث باطن کے اظہار سے بھی نہیں چوکے اور اس کو مکار اور حریص تک کہہ ڈالا ہے، لیکن صداقت بہر حال صداقت ہے، ہزار پردوں سے بھی چَھن کر باہر آ جاتی ہے۔ "آفتاب آمد دلیل آفتاب” یہ تو "حدیث دیگراں“ تھی، اپنوں میں عرب مؤرخین نے سلطان نور الدینؒ کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور اس سے عربی دان حضرات بخوبی استفادہ کر سکتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ اسلام کے اس بطل جلیل کی سیرت پر اردو زبان میں آج تک کوئی جامع اور مربوط کام نہیں ہوا۔
اگر ماضی میں کسی بزرگ نے اس سلسلہ میں کوئی کام کیا ہے تو وہ بھی آج کل نظروں سے اوجھل ہے۔ آج سے قریباً ایک صدی پہلے علامہ شبلی نعمانی نے رائل ہیروز آف اسلام (نامور فرمانروایان اسلام) کا ایک سلسلہ لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے جن نامور مسلم فرمانرواؤں کو منتخب کیا ان کے نام یہ ہیں:
حضرت عمر فاروق، ولید بن عبد الملک، مامون الرشيد، عبدالرحمن ناصر، سیف الدوله، ملک شاہ سلجوقی، سلطان نور الدین محمود زنگیؒ، فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، یعقوب بن یوسف، سلیمان اعظم۔ کتاب "الفاروق” (سیرت خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ) اور المامون (حیات مامون الرشید عباسی) اسی سلسلہ کی دو کڑیاں تھیں۔ افسوس کہ دوسری مصروفیات نے علامہ موصوف کو اتنی مہلت نہ دی کہ وہ اس سلسلہ کو مکمل کر سکتے۔
آخر عمر میں تو وہ یکسر سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے وقف ہو کر رہ گئے تھے۔ سیرت نگاری ایک مشکل فن ہے اور سلطان نور الدین محمود جیسی عظیم شخصیت کی سیرت نگاری کا حق علامہ شبلی جیسا سحر طراز ادیب اور بے مثل محقق ہی ادا کر سکتا تھا، لیکن قدرت کو ایسا منظور نہ تھا۔ اب بھی ملک میں ایسے اہلِ قلم بزرگ موجود ہیں جنہیں مبداء فیض نے اس فرض سے عہدہ برآ ہونے کی قابلیت عطا فرمائی ہے، لیکن معلوم نہیں وہ آج تک اس طرف کیوں متوجہ نہیں ہوئے؟
اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلطان نور الدین محمود کو تیسری صلیبی جنگ کے آغاز سے پہلے ہی معبود حقیقی کی طرف سے بلاوا آ گیا اور یورپ کی متحدہ طاغوتی قوتوں کو پاش پاش کرنے اور بیت المقدس پر عَلمِ اسلام نصب کرنے کی سعادت اس کے لائق جانشین سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے حصے میں آئی۔ اس کارنامۂ عظیم کی بدولت سلطان صلاح الدین کو جو ہمہ گیر شہرت نصیب ہوئی، اس نے سلطان نور الدین محمود کے نام اور کام کو پس منظر میں ڈال دیا، حالانکہ سلطان صلاح الدین نے سلطان نور الدین ہی کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی تھی اور اس کے شروع کیے ہوئے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت اور مجاہدانہ کارنامے اپنی جگہ پر مُسلَّم، لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا بھی ممکن نہیں کہ وہ نورالدین محمود رحمۃ اللہ علیہ ہی کی سوتی ہوئی تلوار تھا۔ اس کے عظیم مربی کو یکسر گوشۂ گمنامی میں ڈال دینا انصاف سے بعید ہے۔ نور الدین محمود کی عظیم شخصیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ عرب مورخین کو سلطان صلاح الدین کے لیے ”نورالدین ثانی سے بڑھ کر کوئی موزوں لقب نہیں ملا، حق تو یہ ہے کہ ان دونوں درویش صفت مجاہدوں کو ناموران اسلام کی صف میں برابر کی جگہ ملنی چاہیے۔
الحمد للہ کہ سلطان صلاح الدین پر اردو زبان میں کافی کام ہو چکا ہے۔ البتہ سلطان نور الدین سے بے اعتنائی برتی گئی ہے اور اسی بے اعتنائی نے مجھ جیسے ہیچدان کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی قوم کو قدرے تفصیل کے ساتھ اس جامع "سیف و تسبیح” مثالی حکمران سے متعارف کرائے جس پر وہ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے، لیکن بے جا نہ ہوگا کہ یہاں سرسید احمد خان کے ان الفاظ کا اعادہ کر دیا جائے جو انہوں نے 1889ء میں المامون (مصنفہ علامہ شبلی نعمانی) کے دیباچہ میں لکھے تھے:
یہ نہایت سچا مقولہ ہے کہ وہ قوم نہایت بدنصیب ہے جو اپنے بزرگوں کے ان کاموں کو جو یاد رکھنے کے قابل ہیں، بھلا دے یا ان کو نہ جانے۔ بزرگوں کے قابل یادگار کاموں کو یاد رکھنا اچھا اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے، اگر خود کچھ نہ ہوں اور نہ کچھ کریں اور صرف بزرگوں کے کاموں پر شیخی کیا کریں تو استخوان جد فروش کے سوا کچھ نہیں، اگر اپنے میں ویسا ہونے کا چسکا ہو تو وہ امرت ہے۔”
سلطان نور الدین محمود زنگی رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ ہمارے ان بزرگوں میں سے ہے جن کے مہتم بالشان کارناموں سے تاریخ کے صفحات گرانبار احسان ہورہے ہیں اور یہ کارنامے فی الحقیقت ایک زندہ قوم کے لیے مشعل راہ ہیں۔ مسلمان مؤرخین میں سے اکثر کی رائے یہ ہے کہ سلطان نور الدین ؒ اپنے بینظیر ذاتی محاسن، خشیتِ الٰہی، زہد و تقویٰ، جود وسخا، شوق جہاد، علم و فضل، عدل و انصاف، خدمت خلق، تبلیغ حق اور اشاعت تعلیم کی بدولت اولیاء اللہ کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
سلطان کی سیرت کا مطالعہ کر کے معلوم ہوتا ہے کہ ان مؤرخین کی رائے بالکل درست ہے اور اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں۔ فی الواقع سلطان کا وجود مسلمانوں کے لیے اللہ کی رحمت ثابت ہوا۔ اسلام کا یہ فرزند جلیل ایسے عدیم المثال کردار کا حامل تھا کہ اس پر قلم اٹھانے والا لا محالہ یہ شعر پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
کارِ ملت محکم از تدبیر او
حافظ دینِ مبیں شمشیر او
عہد صدیقؓ از جمالش تازه شد
عہد فاروقؓ از جلالش تازه شد
(علامہ محمد اقبالؒ)
ظاہر ہے کہ ایسے جامع صفات رجلِ عظیم کی سیرت نگاری بڑا ہی مشکل کام ہے، اس کے لیے بڑے وسیع علم، دِقت نظر، محنت اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ راقم الحروف کو اعتراف ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی اس کام کا اہل نہیں۔ یہ مختصر سی تالیف تو محض اہلِ قلم اور اہل علم بزرگوں کو اس کام کی طرف متوجہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
آج ہمارے نوجوان ناولوں کے رسیا ہیں اور آئے دن شائع ہونے والے اسلامی تاریخی ناولوں نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا۔ ان ناولوں میں عشق و عاشقی کی جگہ پیدا کرنے کے لیے تاریخ کو بُری طرح مسخ کیا گیا ہے۔ نوجوان ذہنوں پر اس کا جو اثر پڑ سکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ نو جوانانِ قوم میں ٹھوس علمی و ادبی اور تاریخی کتابوں کے مطالعہ کا شوق پیدا کیا جائے، کیونکہ اس سے ان کے موجودہ ذہنی رجحان اور فکر و نظر میں صحت مند انقلاب پیدا ہو سکتا ہے، ایسی کتابوں سے سہ گونہ مقاصد حاصل ہوں گے۔ ایک تو اردو زبان کا دامن مالا مال ہوگا، دوسرے اسلاف کو بقائے دوام کی زندگی ملے گی۔ اور تیسرے قوم میں حمیت اور زندگی کی اعلیٰ اقدار کو اپنانے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
اس ضمن میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم آب زر سے لکھے جانے کے قابل وہ الفاظ یہاں نقل کر دیں جو نامور مؤرخ مولانا عبدالرزاق کانپوری نے اپنی عظیم الشان تصنیف "نظام الملک طوسی“ کے دیباچہ میں لکھے ہیں:
”دنیا کی تمام مہذب اقوام کی طرح ہمارا بھی فرض ہونا چاہیے کہ ان اسلاف کو جو صفاتِ خاص سے اپنے زمانہ میں ضرب المثل تھے بقائے دوام کی زندگی سے محروم نہ رکھیں اور یہ زندگی ان کو اس طرح میسر آ سکتی ہے کہ انہوں نے اپنی حیات مستعار میں جو معرکة الآرا کام کیے ہیں، ہم ان کو منظر عام پر لائیں اور گمنامی کے ساتھ صفحہ ہستی سے نہ مٹنے دیں، کیونکہ معمولی مرنا تو وہ مر چکے، لیکن اصلی موت کا وہ دن ہوگا جس دن ان کے کارنامے ہماری غفلت سے مٹ جائیں گے۔“
سچ پوچھیے تو یہی الفاظ زیر نظر کتاب کی تالیف کے محرک ہوئے ہیں اور برا بھلا جو کچھ بھی مجھ سے بن پڑا ہے، لکھ کر حاضر کر دیا ہے۔
؎ برگ سبز است تحفه درویش
آخر بالکل کچھ نہ کرنے سے کچھ تو کرنا بہتر ہے۔ قارئین کرام نے اس جذبہ کی قدر کی تو میری خوش قسمتی ہوگی، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ مجھے امید ہے کہ اہل علم بزرگ میری حقیر علمی استعداد کے پیش نظر اس کتاب کو سیرت نگاری کے اعلیٰ بلکہ ادنیٰ معیار پر بھی نہیں جانچیں گے اور اس کے اسقام کا سختی سے محاسبہ نہیں فرمائیں گے۔ ہاں ناشرین اور مؤلف کو ان سے مطلع فرمائیں تو یہ ان کا احسان ہوگا۔ بشرط زندگی آئندہ اشاعت میں ان اسقام کے دور کرنے کی مقدور بھر سعی کی جائے گی۔
اِنْ شَاءَ اللَّهُ الْعَزِیز۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
راجی غفران و شفاعت:
طالب الہاشمی
طبع جدید جنوری 2005ء
=======
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے:
تاریخِ عالم کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو دنیا کی مختلف قوموں کے اسبابِ عروج و زوال کا آسانی سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ قانونِ قدرت سب قوموں کے لیے یکساں ہے۔ جب کسی قوم نے چند خاص اصولوں کو مضبوطی سے اپنا لیا وہ برابر ترقی کی منزلیں طے کرتی گئی، جب اس نے ان اصولوں کو ترک کردیا تو کوئی تدبیر اس کو قعرِ مذلت میں گرنے سے نہ بچا سکی۔
اقوام ومِلَل کو اوج کمال تک پہنچانے کے لیے جو عوامل کار فرما رہے ہیں، ان میں اتحاد، بے غرضی اور جفا کوشی کو ہمیشہ نمایاں اہمیت حاصل رہی ہے، جب کوئی قوم باہمی تشتت و افتراق میں مبتلا ہوگئی اور جادۂ اعتدال سے ہٹ کر اسراف و تبذیر اور عیش پرستیوں میں مشغول ہو گئی تو اس پر تنزل اور ادبار کے دروازے کھل گئے اور ذلت و مسکنت کے مہیب عفریت نے آناً فاناً اسے اپنے جبڑوں میں دبوچ لیا۔
قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ سرِ دست ہمارے مَبحث سے خارج ہے۔ ہم یہاں صرف ان حقائق پر ایک سرسری نظر ڈالیں گے جو پانچویں صدی ہجری کے آخر میں دنیائے اسلام کو سیاسی زوال اور قومی تنزل کی آخری حد تک پہنچانے پر منتج ہوئے۔ خلافت راشدہ کے بابرکت دور کے بعد عالم اسلام کی زمام اقتدار بنوامیہ کے ہاتھ آئی، اُمویوں کی شخصی حکومت کی ہزار خرابیوں کے باوجود ان کے دور میں اسلامی دنیا کی مرکزیت قائم رہی اور دینی سیاسی اور نسلی یک جہتی کے لحاظ سے مسلمانوں کا شیرازہ بندھا رہا۔
(نسلی یک جہتی سے ہماری مراد نسلی تفوق نہیں ہے، بلکہ عرض مُدعا یہ ہے کہ بنو امیہ میں حکمران اور مالدار طبقوں سے قطع نظر عام لوگوں کا طرز حیات زیادہ سے زیادہ سادہ اور تکلفات سے دور تھا اور اس پر عربوں کے سادہ بدوی تمدن اور معاشرت کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ان کا عمود مذہب اور مدارِاستدلال کتاب وسنت کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ عوام الناس کا رجحان طبع ہی تھا کہ اگر ذی ثروت طبقہ تزفہ اور تنعم کی چیزوں کو اختیار بھی کرنا چاہتا تھا تو اس کو ان میں عربی ذوق اور سیلان کے مطابق مناسب تبدیلیاں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا تھا، کیونکہ بصورت دیگر رائے عامہ کی زبردست قوت ان کو اور کچھ نہیں تو رسوا ضرور کر سکتی تھی۔)
یہی مرکزیت اور یک جہتی کی بدولت انہوں نے اسلامی فتوحات کو وسعت دے کر مشرق و مغرب میں دُور دُور تک پھیلا دیا۔ دوسری صدی ہجری میں جب گردشِ زمانہ نے بنوامیہ کے قصیر اقتدار کو منہدم کردیا تو بنو عباس نے اس کے کھنڈروں پر اپنی شوکت وسطوت کی عمارت تعمیر کی۔ عباسیوں کے اقبال کی بہار حقیقی معنوں میں صرف ایک صدی تک رہی اور اس زمانہ میں ہارون الرشید اور مامون الرشید جیسے فرمانرواؤں نے دولتِ عباسیہ کو انتہائی عروج پر پہنچا دیا، تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ خلافتِ عباسیہ کے آغاز ہی میں مسلمانوں کی مرکزیت اور یک جہتی کا شیرازہ بتدریج بکھرنا شروع ہو گیا تھا۔
(دنیائے اسلام کی مرکزیت پر پہلی ضرب اس وقت لگی جب دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصورکے عہد میں عبدالرحمٰن الداخل (اُموی) نے ہسپانیہ میں ایک خود مختار حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے بعد میں ایک الگ خلافت کی صورت اختیار کرلی۔)
عباسیوں نے حصولِ سلطنت کے لیے عربوں کے خلاف عجمیوں کو استعمال کیا تھا اور اس طرح ملتِ اسلامیہ کے جسد میں نسلی عصبیت کا زہر گھول دیا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، عربی اور عجمی عناصر میں عصبیت کا جذبہ شدید ہوتا گیا اور امین الرشید اور مامون الرشید کے عہد تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے دو متحارب فریقوں کی صورت اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ معتصم باللہ کے عہد میں ان کے جوڑ توڑ نے عباسی سلطنت کو نمایاں خطرے سے دو چار کر دیا۔
عباسی حکمران اگر دانش مندی اور سوجھ بوجھ سے کام لیتے اور عصبیتِ جاہلیہ کے اس خطرناک مسئلہ کو اسلام کے غیر متبدل اصولوں کی بنیاد پر حل کرنےکی سعی کرتے تو فی الواقع وہ ایک ایسا کارنامہ سر انجام دیتے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیتا اور ملتِ اسلامیہ کے لیے عظیم کامرانیوں اور سعادتوں کا باعث بنتا۔
لیکن بدقسمتی سے ان حکمرانوں کے ذہنی اور عقلی قوا مفلوج ہو چکے تھے۔ انہوں نے اس مسئلہ کو حل کرتے کرتے اور مسائل کھڑے کر دیے اور پھر مسائل در مسائل کا ایسا چکر چلا کہ دنیائے اسلام اپنے شاندار ماضی کی روایات کا ماتم کدہ بن گئی۔ (اس کا سبب عیش و آرام کی زندگی اور عجمی تہذیب کا اثر و نفوذ تھا۔)
آٹھویں عباسی خلیفہ معتصم باللہ (218ھ تا 227ھ) نے عربوں اور عجمیوں کے متضاد عناصر کے خلاف ایک تیسرے (یعنی ترکی) عنصر کو ابھارا۔ اس نے نہ صرف خود ترکی وضع اختیار کرلی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ترکی کی ایک زبردست فوج مرتب کی اور ہزاروں ترک غلاموں کو حکومت کے مختلف عہدوں پر فائز کر دیا۔ یہ لوگ شاہانہ خلعت پہنے اور سونے کی پٹیاں باندھے بازاروں میں گھوڑے دوڑاتے پھرتے تھے اور لوگوں کو دق کرتے تھے، ان کی چیرہ دستیوں سے اہل بغداد اس قدر تنگ ہوئے کہ آخر خلیفہ کو ترکوں کے لیے بغداد سے کئی میل دور ایک نیا شہر "سامرا” یا "سرمن رائی” بسانا پڑا اور وہ خود بھی وہاں جا کر مقیم ہو گیا۔ (یہ اس قوم کی حالت تھی جس کے فرزندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات: ۱۰۵)
"مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔”)
معتصم کا جانشین الواثق باللہ (227 تا 232ھ) اپنے والد کی وضع کی ہوئی حکمت عملی پرسختی سے کاربند رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کاروبارِ حکومت میں ترکوں کا عمل دخل بتدریج بڑھتا گیا، یہاں تک کہ اس کے انتقال پر دوسرے تمام عمائد سلطنت کی رائے کے خلاف ترکوں نے المتوکل علی اللہ کو مَسندِ خلافت پر بٹھایا۔ اس کے بعد پوری ایک صدی تک ترک غلام خلافت عباسیہ کی قسمت سے کھیلتے رہے اور خلفاء کو کٹھ پتلیوں کی طرح اٹھاتے اور گراتے رہے۔
247ھ میں انہوں نے المتوکل علی اللہ کو اس کے اپنے بیٹے المستنصر باللہ کے ہاتھوں مروا دیا۔ چھ ماہ بعد ایک طبیب ابن طیفور کو تیس ہزار دینار رشوت دے کر زہر آلود نشتر سے مستنصر کی فصد لینے پر آمادہ کیا اور اسی کے نتیجہ میں وہ ہلاک ہو گیا۔
اس کے بعد المستعین باللہ (248 تا 252ھ) کو انہوں نے اس قدر ستایا کہ اس نے سامرا سے بھاگ کر بغداد میں پناہ لی، جب وہ ترکوں کے بلانے پر واپس نہ آیا تو اس کو معتز باللہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا، معتز نے پہلے اس کو نظر بند کردیا اور چند ماہ بعد ترکوں کے ایما پر قتل کرادیا، تین ہی برس گزرنے پائے تھے کہ انہوں نے معتز کو نہایت ذلت کے ساتھ معزول کردیا اور پھر بڑی سفاکی کے ساتھ اس کو مار ڈالا۔
(معتز ترکوں کے نزدیک لاکھ برا سہی، بہرصورت وہ خلیفۂ وقت (Head of State) تھا، ان ظالموں نے اس کے ساتھ ایسا ہولناک برتاؤ کیا کہ تہذیب انسانی نے سر پیٹ لیا۔ وہ قصرِ خلافت میں زبردستی گھس گئے اور خلیفہ کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائے۔ پہلے اس کو ڈنڈوں سے پیٹا، گالیاں دیں اور اس کے کپڑے تار تار کر ڈالے، پھر اسے برہنہ سر دھوپ میں کھڑا کردیا۔ وہ بے چارہ تپتی ہوئی زمین پر ایک پاؤں رکھتا اور ایک اٹھاتا تھا، اس پر مستزاد یہ کہ جو ترک آتا تھا اس کے منہ پر طمانچہ مارتا تھا، جب اس کی حالت ابتر ہو گئی تو مارتے ہوئے لے گئے اور تین دن تک بے آب و دانہ قید رکھا، پھر ایک تہ خانے میں بند کرکے اس کا دروازہ چن دیا اور وہیں انتہائی بیکسی کے عالم میں اس کا دم نکل گیا۔ فَاعْتَبِرُوا يَا اولی الابصار۔)
مہدی باللہ (255ھ تا 256ھ) نے خلافت کی بگڑی ہوئی حالت کو سنبھالنے کی کوشش کی اور ترکوں کا زور توڑنا چاہا تو انہوں نے اس سے جنگ کی اور گرفتار کر کے بڑی بیدردی سے قتل کر ڈالا۔
اٹھارہویں عباسی خلیفہ مقتدر باللہ (295ھ تا 320ھ) کے قتل کے بعد انہوں نے قاہر باللہ کو 322ھ میں معزول کر کے اندھا کردیا۔ پھر متقی باللہ (329ھ تا 333ھ) کو اندھا کرکے معزول کر دیا۔
اس طویل مدت میں بغداد پر عملاً ترک غلاموں کی حکمرانی تھی اور خلفاء کی حیثیت شاہِ شطرنج سے زیادہ نہ تھی، ترکوں کا سردار امیر الامراء کہلانے لگا تھا اور خطبہ میں اس کا نام خلیفہ کے نام کے ساتھ لیا جاتا تھا۔
334ھ/ 945ء میں ترکوں کی جگہ آلِ بُوَیہ (شاہانِ دیلم) نے لی اور تقریباً ایک صدی تک وہ خلافتِ عباسیہ پر چھائے رہے۔ خلیفہ کی حیثیت محض ان کے وظیفہ خوار کی تھی اور اس کو اپنے اخراجات کے لیے پانچ ہزار دینار روزانہ مل جاتے تھے۔
(اس خاندان (آلِ بُوَیہ) کا بانی ایک گمنام ماہی گیر ابو شجاع بُوَیہ تھا۔ اس کا تعلق بحیرہ خزز کے جنوب مغربی ساحل پر آباد ایک جنگجو قبیلہ سے تھا جو دیلمی کہلاتا تھا۔ چوتھی صدی ہجری کی ہنگامہ پرور فضا میں ابو شجاع بویہ کو بھی حکومت کا شوق چرایا اور اس نے علویوں اور سامانیوں کی باہمی جنگوں میں حصہ لے کر اپنی قوت مضبوط کرلی، پھر اس کے تین بیٹوں علی، احمد اور حسن نے رفتہ رفتہ رے طبرستان، جرجان اور فارس پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔
فارس کی حکومت علی بن بویہ کے ہاتھ آئی۔ جب بغداد میں ترکوں کا ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا تو خلیفہ مکتفی باللہ نے علی بن بویہ سے امداد کی درخواست کی، علی نے اپنے بھائی احمد کو ایک زبردست فوج دے کر بغداد روانہ کیا۔ ترک اس کی آمد کی خبر سن کر بھاگ کھڑے ہوئے، خلیفہ نے احمد کو معزالدولہ اور رکن الدولہ کے خطاب دے کر فارس اور الجبال کی حکومت کا پروانہ عطا کیا۔ معز الدولہ نے کچھ عرصہ بعد خلیفہ مکتفی کو اندھا کر کے قید کردیا اور مطیع اللہ کو خلیفہ بنادیا۔ اسی معز الدولہ نے بغداد میں عید غدیر اور تعزیہ داری کی رسوم جاری کیں۔
اس کے بعد عزالدولة، عَضُدالدولة، شرف الدولة، بهاؤالدولة، سلطان الدولة، مشرف الدولة، جلال الدولہ، ملک العزیز محی الدین، ابو کالیجار اور ملک الرحیم یکے بعد دیگرے برسر اقتدار رہے۔ ملک رحیم کے عہد میں آلِ سلجوق نے ان کے اقتدار اور حکومت کا خاتمہ کر دیا۔)
دیلمیوں کے دور اقتدار میں شیعہ سنی فسادات نے وہ زور باندھا کہ آئے دن بغداد کے بازاروں میں خون کی ندیاں بہہ جاتی تھیں، لیکن بات صرف شیعہ سنی جھگڑوں تک ہی محدود نہ تھی، بلکہ اور بھی بے شمار فرقوں اور سیاسی و مذہبی فتنوں نے ملتِ اسلامیہ کو ہولناک خلفشار میں مبتلا کردیا تھا۔ اس دوران میں خلافتِ عباسیہ کے ضعف اور ابتری کی یہ حالت ہوئی کہ بغداد اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو چھوڑ کر باقی صوبوں میں خود مختار حکومتیں قائم ہو گئیں جن میں سے ہر ایک "انَا وَلاَ غَیرِی” کا کوس بجارہی تھی۔
(ان خود مختار حکومتوں میں طاہریہ، (خراسان) طولونیه، (مصر) صفاریہ، (خراسان، فارس، کردستان و سیستان) سامانیه، (ماوراء النهر، خراسان و غیره) زیاریہ، (طبرستان، جرجان، اصفهان، ہمدان، حلوان) ساجیہ، ( آرمینیا، آذربایجان) اشیدیه، (مصر، شام وحجاز ) غزنویه، (خراسان، غزنی، پنجاب، افغانستان ماوراء النهر، خراسان، رے و اصفہان وغیرہ) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ان حکومتوں نے اپنے اپنے وقت پر عروج حاصل کیا اور پھر ایک دوسرے کے ہاتھوں مٹ گئیں۔)
ستم بالائے ستم یہ کہ ان خود مختار حکومتوں کے فرمانروا بھی آپس میں لڑنے بھڑنے میں مصروف رہتے تھے اور ایک مرکز پر جمع ہو جانے کی بجائے ہر وقت ایک دوسرے کے علاقے ہتھیانے کی فکر میں رہتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے حکمران خاندانوں میں سے بعض ایسے اولوالعزم فرمانروا اٹھے جنہوں نے چار دانگ عالم میں اپنی ناموری کے جھنڈے گاڑ دیے، لیکن وہ عالمِ اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا نہ کر سکے۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلمان قوم نے مِن حَيْثُ الْمَجُمُوع ارشادِ خداوندی "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تفرقوا”
"اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو، متحدہوجاؤ اور فرقہ بندی نہ کرو” کے فرمان الہی کو یکسر فراموش کر ڈالا تھا۔
ان متفرق خود مختار حکومتوں کے علاوہ دو اور خلافتیں بھی معرض وجود میں آچکی تھیں۔ ہسپانیہ میں اُموی خلافت ترقی کرتے کرتے 350ھ تک انتہائی عروج پر پہنچ گئی، اس کے بعد اس کا دور زوال شروع ہو گیا اور 422ھ میں وہ طوائف الملوکی کا شکار ہوگئی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر پہلے مرابطین اور پھر موحدین نے ہسپانیہ پر اپنا تسلط جما لیا۔ فاطمی خلافت کا آغاز شمالی افریقہ سے ہوا، پھر اس نے مصر پر قبضہ کر کے پہلے فسطاط اور پھر قاہرہ کے نو تعمیر شہر کو اپنا مرکز حکومت بنایا۔ یہ خلافت ترقی کرتے کرتے شام، حجاز، بلکہ عراق کے ایک حصے پر بھی متصرف ہو گئی اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ تک میں اس کا خطبہ جاری ہو گیا۔
بغداد میں جب آلِ بُوَیہ کا آفتابِ اقبال ڈھل گیا تو 447ھ میں خلیفہ قائم بامر الله کے ایک امیر بساسیری نے قوت حاصل کر کے عباسی خلافت کے عین مرکز (بغداد) میں فاطمی خلیفہ المستنصر باللہ (427 تا 487ھ) کا خطبہ جاری کردیا اور قصرِ خلافت پر سیاہ عباسی عَلم کی جگہ سفید فاطمی پرچم نصب کر دیا۔
اس کی تقلید واسط کوفہ اور دوسرے شہروں میں بھی کی گئی۔ عباسی سلطنت میں کامل ایک سال تک فاطمی خلافت کا خطبہ پڑھا جاتا رہا، لیکن عباسی خلیفہ کو دم مارنے کی جرات نہ ہوئی۔
(ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ساری دنیائے اسلام میں ایک ہی خلافت ہوتی اور مسلمانوں کا ایک ہی مرکز ہوتا، لیکن بیک وقت تین حریف خلافتوں نے اسلامی خلافت کو بازیچہ اطفال بنا کر رکھ دیا۔ ان تینوں خلافتوں کو ایک دوسرے کی بداندیشی کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ اپنے اپنے دوائر میں اگر انہوں نے کوئی قابل قدر کام کیا بھی تو بالآخر ان کے باہمی مناقشات نے اس پر بھی پانی پھیر دیا اور اس طرح ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ بکھر گیا۔)
اس پُر آشوب دور میں عباسی خلافت اور دوسری مسلمان حکومتوں کی کمزوری اور دینی حمیت کے فقدان کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ 318ھ میں اسماعیلیوں کی ایک شاخ قرامطہ نے اپنے سردار ابو طاہر کی قیادت میں عین حج کے زمانہ میں مکہ معظمہ پر حملہ کیا اور ہزاروں حاجیوں کو طواف کی حالت میں شہید کر ڈالا اور شہیدوں کی لاشیں چاہ زمزم میں ڈال دیں، بد بخت قرامطیوں نے جو مسلمان کہلاتے تھے اسی پر بس نہیں کی، بلکہ خانہ کعبہ کے دروازے اور حجر اسود تک کو توڑ ڈالا اور گیارہ دن تک اہلِ مکہ کو دل کھول کر لوٹا، پھر حجر اسود اور کعبہ کے قیمتی سامان آرائش کو اونٹوں پر لاد کر چلتے بنے۔
(حجر اسود بیسں برس تک قرامطہ کے قبضے میں رہا اور کہیں 339ھ میں (بعہدِ خلافت) مطیع اللہ عباسی دوبارہ مکہ میں واپس لایا گیا اور اپنی جگہ پر نصب کیا گیا۔)
جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، 447ھ / 1505ء میں عباسی خلافت پر نزع کی کیفیت طاری ہو چکی تھی اور خاص اس کے دارالخلافہ بغداد میں فاطمیوں کا خطبہ پڑھا جا رہا تھا، عین اس وقت سلجوقی ترکوں نے ترکستان سے اٹھ کر عباسی خلافت کو مٹنے سے بچا لیا۔ سلجوقیوں کے نامور سردار طغرلی بیگ کو جونہی عباسی خلیفہ کی حالت زار کا علم ہوا وہ فاتحانہ یلغار کرتا ہوا بغداد پہنچا اور بساسیری کا اقتدار ختم کر کے خلیفہ کو تخت خلافت پر بٹھایا اور خود ملکی اختیارات سنبھال کر اپنی تلوار اور ارادے کے زور سے حکومت کرنے لگا۔ اس طرح بُوَیہ خاندان کے سرداروں کی جگہ سلجوقی حکمران بغداد کی قسمت کے مالک بن گئے۔ تاہم سلجوقیوں نے خلیفہ کی ظاہری شان و شوکت اور جلال و احترام کو برقرار رکھا۔
447ھ / 1505ء سے 485ھ/ 1092ء تک عباسی خلافت کی زمام اقتدار یکے بعد دیگرے تین نامور سلجوقی سلطانوں کے ہاتھوں میں رہی۔ ان کے عہد میں عباسی حکومت کی بگڑی ہوئی ساکھ پھر بن گئی اور اس کی کمزوری کے دن پلٹ گئے۔ اگرچہ ہسپانیہ (اندلس) اور مصر کی حریف حکومتوں کی طرف سلجوقیوں نے زیادہ توجہ نہیں کی، تاہم انہوں نے دوسری چھوٹی بڑی تمام خود مختار اور سرکش حکومتوں کو مٹا کر عباسی سلطنت کو پھر متحد کردیا۔
سلجوقیوں کا یہ دورِ اقبال ان کی فتوحات، عظیم الشان علمی، سیاسی و رفاہی کارناموں اور وسعتِ سلطنت کے لحاظ سے تاریخِ اسلام کے بہترین زمانوں میں شمار ہوتا ہے۔ (سلاجقہ کے دور اقبال کے تین نامور سلاطین طغرل بیگ ،الپ ارسلان اور ملک شاہ تھے۔)
(❶ ۔۔۔ طغرل بیگ کا زمانہ حکومت 429ھ/ 1963ء تا 455ھ/ 1063ء ہے، طغرل بڑا بہادر اور اولو العزم شخص تھا، اس نے چھبیس سال کی مسلسل تیغ آزمائی کے بعد ایک وسیع سلطنت قائم کی جس میں ایران، عراق، شام اور فلسطین کے کئی علاقے اور مرد نیشاپور اور ہرات وغیرہ شامل تھے۔ اس کا عَلَمِ اقتدار دجلہ سے جیحوں تک لہراتا تھا۔
ایک دفعہ روم پر چڑھائی کی اور رومیوں کو پے در پے کئی شکستیں دے کر واپس گیا۔ 455ھ/ 1063ء میں رے کے مقام پر ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔ طغرل غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ خلیفہ بغداد کی خدمت و حفاظت کا ذمہ لے کر اس نے عباسی خلافت کو مٹنے سے بچا لیا۔ یہ اسی کا کام تھا کہ غزنویوں کی عظیم الشان سلطنت کو چند سال کے اندر بیخ وبُن سے اکھاڑ پھینکا۔ وفات کے وقت اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔)
(❷ ۔۔۔ الپ ارسلان، طغرل بیگ کا بھتیجا تھا۔ اس کا زمانہ حکومت 455ھ/1063ء تا 465ھ/1073ء ہے۔ اس نے اپنے عہد حکومت میں حجاز اور حلب فاطمیوں سے چھین لیے اور گرجستان و آرمینیا کو فتح کر کے قدیم مسیحی ریاست (Bagartids) کا خاتمہ کردیا۔
457ھ/ 1065ء میں اس نے اپنے آبائی وطن ماوراء النہر اور ترکستان پر قبضہ کر لیا۔ 463ھ/ 1071ء میں اس نے ملاذ گرد کے مقام پر رومی شہنشاہ رومانوس کو ذلت آمیز شکست دی اور کروڑوں دینار کا مال غنیمت حاصل کیا۔ 465ھ/1073ء میں یوسف خوارزمی نامی ایک قلعہ دار نے اس کی شاندار زندگی کا خاتمہ کر ڈالا۔)
(❸ ۔۔۔ ملک شاہ بن الپ ارسلان کا زمانۂ حکومت 465ھ/1073ء تا 485ھ/1092ء ہے۔ حدودِ چین سے اقصائے شام تک اور ماوراء النہر سے یمن تک اس کی سلطنت کا جھنڈا لہراتا تھا۔ یہاں تک کہ قیصرِ روم بھی اس کا باجگزار تھا۔ اس کے عہد میں دولتِ سلجوقیہ نے عروج و اقبال اور عظمت و جلال کی آخری حدوں کو چھو لیا۔ وہ نہایت راسخ العقیدہ مسلمان اور علماء و فضلاء کا بے حد قدر دان تھا۔ اس کی سخاوت، حسن اخلاق اور عدل و انصاف نے ہر ایک کے دل میں گھر کر لیا تھا۔ ملک شاہ نے 15 شوال 485ھ/18 نومبر 1092ء کو وفات پائی۔)
سلجوقیوں کے سب سے زیادہ با اقبال بادشاہ ملک شاه کے آخری زمانے میں باطنیوں کی خفیہ تحریک نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور عالمِ اسلام کی نامور شخصیتوں کو قتل کرنے کی ایک منظم سازش تیار کی۔ چند سال کے اندر اندر باطنیوں کی سرگرمیوں نے عالمِ اسلام کو اتنا شدید نقصان پہنچایا کہ کوئی بڑے سے بڑا غیر مسلم دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا تھا۔
انہوں نے اپنا سب سے پہلا شکار ملک شاہ سلجوقی کے نامور وزیر خواجہ بزرگ نظام الملک طوسی کو چنا اور ایک باطنی خودکش حملہ آور ابوطاہر حارث نے 10 رمضان المبارک 485ھ مطابق 14 اکتوبر 1092ء )کو عالَمِ اسلام کی اس عظیم شخصیت کو شہید کر ڈالا۔
اس واقعہ کے ایک ماہ بعد سلطان ملک شاہ نے بھی داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور اس کے ساتھ ہی سلجوقیوں کے شجر اقبال پر خزاں آگئی۔ سلجوقی شہزادوں میں ہولناک خانہ جنگی شروع ہو گئی اور چند سال کے اندر اندر ان کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر خود مختار حکومتوں میں بٹ گئی۔ سلجوقیوں کے زوال نے عباسی خلافت کو بھی پھر ضعف وانحطاط میں مبتلا کردیا۔
باطنی کون لوگ تھے؟
باطنیوں کو "ملاحدۂ باطنیہ” یا حشیشین بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا بانی مقام رے یا قُم نامی علاقے کا ایک شخص حسن بن صباح الحمیری تھا۔ وہ شروع شروع میں مذہب اسماعیلیہ کا پُر جوش داعی تھا، لیکن بعد میں خود ایک مستقل فرقے کی بنیاد ڈالی اور 483ھ میں شہر قزوین اور بحیرہ خزر کے مابین ایک قلعہ "قلعۃ الموت” (آشیانۂ عقاب) پر قبضہ کر کے اپنے مشن کی تبلیغ شروع کی اور ایران کے متعدد کوہستانی قلعوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے پیروکار اس کو شیخ الجبال کے لقب سے پکارتے تھے۔
اس نے اپنی جماعت کے کئی درجے بنا دیے جن کو داعی الدعاة، داعی الکبیر، داعی، رفیق، فدائی، لصیق اور عوام کا نام دیا۔ ان میں سے فدائی وہ لوگ تھے جو آنکھ بند کر کے بلا حیل و حجت "شیخ الجبال” کے ہر حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ ان کا طریق کار یہ تھا کہ اپنے مخالفوں کو کسی نہ کسی طرح قتل کردیتے تھے۔ چنانچہ ان کی چھریوں سے عالَمِ اسلام کی کئی نامورشخصیتیں قتل ہوگئیں۔
بعض مورخین کا بیان ہے کہ حَسن بن صباح نے پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک سرسبز اور شاداب وادی میں مصنوعی جنت بنا رکھی تھی، وہ اپنے مریدوں کو بھنگ ( حشیش) پلا کر اس جنت میں پہنچا دیتا اور پھر چند دن کے بعد اسی طریقہ سے ان کو باہر نکال دیتا۔ یہ لوگ دوبارہ جنت میں جانے کی آرزو میں اپنی زندگیاں "شیخ الجبال” کے تمام جائز و نا جائز احکام بجا لانے کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ یہی "فدائی” دولتِ باطنیه (یا دولت اسماعیلیہ مشرقیه) کے بازوئے شمشیر زن تھے۔
حسن بن صباح 18 ربیع الآخر 1518ھ کو نوّے سال کی عمر میں ہلاک ہوا۔ اس کے بعد قلعۃ الموت کے تختِ حکومت پر کیا بزرگ امید، محمد اول، حسن بن محمد، محمد ثانی، حسن ثالث، علاؤ الدین محمد اور رکن الدین خور شاہ یکے بعد دیگرے بیٹھے۔
مؤخر الذکر کے عہد حکومت (653ھ تا 654ھ) میں ہلاکو خاں نے قلعة الموت پر قبضہ کرلیا اور ہزاروں باطنیوں کو قتل کر کے ان کی قوت ہمیشہ کے لیے توڑ دی۔ جبکہ شام اور مصر کے باطنی سلطان صلاح الدین ایوبی اور ملک الظاہر بیبرس کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ اس کے بعد باطنیوں کو کبھی تختِ حکمرانی پر بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔)
دوسری طرف فاطمی خلافت کا شیرازہ بھی چند سال سے بکھرنا شروع ہوگیا تھا۔ پانچویں فاطمی خلیفہ العزیز با الله (365ھ تا 386ھ) نے بھی عباسی خلیفہ معتصم کی طرح ترکوں اور دیلیمیوں کی ایک بڑی تعداد فوج میں بھرتی کرلی تھی، ان لوگوں نے رفتہ رفتہ اتنا عروج حاصل کیا کہ عزیز کے کمزور جانشین ان کے رحم و کرم پر ہوگئے۔
جو ترک سردار طاقتور ہوتا وزارتِ مصر پر قبضہ کر لیتا اور خلیفہ کو اپنی انگلیوں پر نچاتا۔ اس وزارت گردی نے فاطمی خلافت کو اس قدر ضعیف کردیا کہ چھٹی ہجری کے وسط تک ان کی وسیع سلطنت مصر اور اس کے آس پاس کے تھوڑے سے علاقے تک محدود ہوکر رہ گئی۔ غرض اس زمانے میں عالمِ اسلام ایک ہمہ گیر انتشار میں مبتلا ہو چکا تھا اور باہمی تشتت و افتراق نے مسلمانوں کے تمدن، معاشرت اور سیاست کے سارے نظام کو تہ و بالا کر ڈالا تھا۔
اسلام دشمن فرنگی اقوام مدت سے مسلمانوں کی خانہ جنگیوں اور ان کے ضعف و انحطاط کا تماشا دیکھ رہی تھیں۔ مسلمانوں کا رعب ان کے دلوں سے اٹھ گیا تھا اور وہ عالم اسلام پر کاری ضرب لگانے کے لیے موقع کی منتظر تھیں، ان کے نزدیک اب فصل پک چکی تھی اور اس کے کاٹنے کا وقت آ گیا تھا۔
==================
محاربات صلیبی: (THE CRUSADES)
مسلمان حکمرانوں کی باہمی رقابتیں اور خانہ جنگیاں بالآ خر رنگ لا کر رہیں۔ "واعَتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا” کے فرمانِ خداوندی کو فراموش کردینے کا جو ہولناک انجام ہونا تھا وہ ہو کر رہا۔
عین اس زمانے میں جب مسلمانانِ عالم میں اتحادِ عمل یکسر مفقود ہو چکا تھا، ان کی مرکزیت فنا ہو چکی تھی اور تشتت و افتراق نے ان کے شجر اقبال کو گھن کی طرح چاٹ لیا تھا، یورپ کی عیسائی اقوام نے متحد ہوکر سرزمین اسلام (ایشیائے کوچک، شام اور فلسطین) پر یلغار کردی۔
یہ وحشیانہ یلغار ان صلیبی جنگوں کی تمہید تھی جن میں پوری دو صدیوں تک دنیا کی دوسب سے بڑی قومیں (عیسائی اور مسلمان) ایک دوسرے کے سامنے کھڑی نظر آتی ہیں۔ تاریخ عالم میں حروب صلیبیہ (Crusades) بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ یورپ میں آج تک ان جنگوں کے بارے میں ہر زبان میں بیسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، لیکن تعجب ہے کہ مشرقی مؤرخین نے اس موضوع پر (مقابلتاً) بہت کم خامہ فرسائی کی ہے، حالانکہ یہ جنگیں حقیقی معنوں میں مشرق اور مغرب کے تصادم کی مظہر تھیں اور ان کی اہمیت یقیناً اس بات کی متقاضی تھی کہ مشرقی مؤرخین ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لکھتے۔
کیونکہ یہی ایک صورت تھی جس سے آج کی اقوامِ مشرق اور بالخصوص دورِ حاضر کے مسلمان ان جنگوں کے پس منظر میں مغربی ذہنیت کے خدو خال کا بخوبی مشاہدہ کر سکتے۔
صلیبی لڑائیاں جہاں یورپ کی آئیندہ ترقیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں، وہاں انہوں نے ایشیائی اقوام خصوصاً مسلمانوں کے قومی تنزل کا ایک نیا باب کھولا۔ مسلمان اور عیسائی دونوں بڑی قومیں ہیں۔ ظہورِ اسلام کے بعد خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں جب مسلمانوں کی فتوحات کا سیلاب شام کی عیسائی سلطنت کی طرف بڑھا تو عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش کا آغاز اسی وقت سے ہو گیا تھا۔
لیکن ان دونوں قوموں کا موازنہ کرنے کے لیے صلیبی جنگوں کے زمانہ سے بہتر اور کوئی زمانہ تاریخ میں نہیں مل سکتا۔ پوری دو صدیوں تک یہ دونوں قو میں ایک دوسرے سے برسر جنگ ر ہیں، اس دوران میں ان کے تمام عیوب و اوصاف، عاداتِ طبائع، خصائصِ انسانیت، انصاف، رحم اور شجاعت وغیرہ کھل کر سامنے آگئے اور تاریخ کا ایک طالب علم بغیر کسی دقت کے ان کا موازنہ کر سکتا ہے۔
اکثر عیسائی مؤرخین نے ان لڑائیوں کا زمانہ گیارھویں صدی عیسوی کے اختتام سے سولہویں صدی عیسوی کے اختتام تک شمار کیا ہے، لیکن بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس زمانہ میں عیسائی مؤرخین نے ہر اس لڑائی کو شامل کر لیا ہے جو عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایشیاء یا یورپ میں کسی جگہ بھی ہوئی، لیکن دراصل صرف انہی لڑائیوں کو صلیبی لڑائیوں کا نام دیا جا سکتا ہے جو ارض شام و فلسطین (اور ان کے نواحی علاقوں) میں یروشلم (Jerusalem) یعنی ”بیت المقدس“ کو حاصل کرنے یا اس سرزمین سے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے لڑی گئیں۔
ان کا زمانہ زیادہ سے زیادہ دو سو برس (1095ء سے 1291ء تک) متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس عرصہ میں مندرجہ ذیل نو جنگیں ہوئیں۔
❶ ۔۔۔ پہلی صلیبی جنگ: 1095ء سے 1142ء تک
❷ ۔۔۔ دوسری صلیبی جنگ: 1142ء سے 1148ء تک
❸ ۔۔۔ تیسری صلیبی جنگ: 1187ء سے 1192ء تک
❹ ۔۔۔ چوتھی صلیبی جنگ: 1195ء سے 1198ء تک
❺ ۔۔۔ پانچویں صلیبی جنگ: 1204ء
❻ ۔۔۔ چھٹی صلیبی جنگ: 1215ء
❼ ۔۔۔ ساتویں صلیبی جنگ: 1242ء سے 1245ء تک
❽ ۔۔۔ آٹھویں صلیبی جنگ: 1255ء سے 1270ء تک
❾ ۔۔۔ نویں صلیبی جنگ: 1290ء سے 1296ء تک
ان لڑائیوں میں پہلی تین لڑائیاں خصوصیت کے ساتھ مشہور ہیں: پہلی صلیبی جنگ کا طویل دور مجموعی طور پر صلیبیوں کی فتوحات کا دور تھا۔ دوسری صلیبی جنگ کا زمانہ مسلمانوں کے رد عمل (Reaction) کا دور تھا۔ سلطان عمادالدین زنگی شہید رحمۃ اللہ علیہ اور اس کے نامور فرزند سلطان نور الدین محمود زنگی رحمۃ اللہ علیہ نے اس دور میں عالمِ اسلام کے دفاع کی قیادت کی۔ تیسری صلیبی جنگ میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا، جس کا آغاز عمادالدین زنگی اور نور الدین محمود رحمۃ اللہ علیہما نے کیا تھا۔
اس کے بعد کی صلیبی جنگوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشینوں اور سلاطین مملوک نے صلیبی جنونیوں سے پنجہ آزمائی کی اور بالآخر ان سے سرزمین اسلام کا ایک ایک چپہ خالی کرالیا۔
ان جنگوں کے حالات بے حد عبرتناک ہیں۔ عیسائی مؤرخین کے اندازے کے مطابق ان لڑائیوں میں ساٹھ لاکھ کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ گیارھویں صدی عیسوی کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف تعصب، جہالت اور ہوسِ ملک گیری کا جو طوفان یورپ میں برپا ہوا اس نے جب ایشیاء کا رخ کیا تو انسانیت اور شرافت نے اپنا سر پیٹ لیا۔
کہنے کو تو ان لوگوں کی جنگ آزمائیوں کو مقدس لڑائیوں (Holy Wars) کا نام دیا جاتا ہے، لیکن صلیبی دہشتگردوں (Crusaders) سے ایسے ایسے افعالِ شنیعہ سرزد ہوئے کہ مغربی مؤرخین بھی نہایت ندامت کے ساتھ ان کا اعتراف کرتے ہیں۔
صلیبی لڑائیاں صحیح معنوں میں اہلِ یورپ کی جہالت و وحشت کا نقشہ کھینچتی ہیں۔ ان لڑائیوں میں شامل ہونے والے صلیبیوں کو پوپ اور دوسرے مذہبی رہنماؤں نے گناہوں کی معافی عطاء کی اور عیش پسندوں کو مشرقی عورتوں کے دلفریب حسن کی ترغیب اور مشرق کی سُرور انگیز شرابوں کی تحریص دے کر یہ یقین دلایا کہ مسیحیت کا خدا ان کے ساتھ ہے۔
صلیب کے جھنڈے تلے ان لوگوں نے ایسے ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا کہ ارض و سماء کانپ اٹھے۔ بچوں کو ماؤں کی چھاتیوں پر قتل کیا۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر ڈالے۔ بوڑھوں اور اپاہجوں تک کے بند بند کاٹ کر ہوا میں بکھیر دیے۔ اگر مسلمان نہ ملے تو غیر محارب (جنگوں سے کنارہ کش) یہودیوں پر اپنی چھریاں تیز کیں۔ جوشِ جنوں میں یہ لوگ اس قدر بدمست ہو گئے کہ انسانی گوشت کھانا شروع کردیا۔
عیسائی مؤرخ ملز (Mills) اور وان سبل (Von Sybel) اعتراف کرتے ہیں کہ: ”عیسائی افواج کے کیمپوں میں مسلمانوں کا گوشت دن دہاڑے بِکتا تھا۔“
لیکن ان سب باتوں کے باوجود یورپی تاریخوں میں (بقول سرسید امیر علی مرحوم) ان لڑائیوں کے گرد رومان کا ایک ہالہ کھینچ دیا گیا ہے۔ ہر اس سپاہی کو یا امیر کو جس نے ان لڑائیوں میں حصہ لیا، رستمِ زماں بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ (تاریخِ اسلام۔ مصنفہ سرسید امیر علی مرحوم)
صلیبی لڑائیوں کے نتائج کیا ہوئے؟
ایشیاء کے حصے میں تو ہولناک خونریزی اور مخلوقِ خدا کی بربادی کے سوا کچھ نہ آیا، البتہ یورپ کو ان نقصانات کے علاوہ کئی عظیم فوائد بھی حاصل ہوئے، ان فوائد کا اندازہ درج ذیل حقائق سے بخوبی ہو سکے گا۔
❶ ۔۔۔ صلیبی جنگوں سے پہلے یورپین اقوام کی اکثریت محض جاہل اور وحشی تھی۔ متعصب اور مکار پادریوں نے جاہل عوام کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا تھا۔ وہ جنت اور دوزخ کے مالک بنے بیٹھے تھے۔ جب صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوا تو عوام کی آنکھیں کھل گئیں۔ ان کی ملکی، مذہبی، تمدنی اور معاشرتی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔ مکار مذہبی رہنماؤں کی طاقت ٹوٹ گئی اور تو اور پوپ جیسی عظیم شخصیت کے خلاف ایک طوفان بپا ہوگیا۔
فیوڈل سٹم (نظام جاگیرداری) کے بندھن ڈھیلے ہوگئے اور اہلِ یورپ میں مسلمانوں کی شاندار تہذیب اور تمدن سے مسابقت کا جذبہ پیدا ہو گیا۔
❷ ۔۔۔ اہل اٹلی جن کے بحری جہازوں نے صلیبی جنگوں میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا، نہ صرف خود تجارت میں مشغول ہو گئے بلکہ دوسری یورپین اقوام کو بھی اس کی طرف راغب کر دیا۔ ایشیاء کے مسالے، عطریات، خوشبوئیں، قالین، ریشمی اور سوتی پارچات نہ صرف اہلِ یورپ کا معیار زندگی بلند کرنے کا باعث ہوئے بلکہ ان کی توجہ صنعت و حرفت کے میدان میں ترقی کرنے کی طرف بھی منعطف کرادی۔ غرض ان دو صدیوں میں یورپ نے ایشیاء کے اسلامی تمدن سے بہت کچھ سیکھ لیا۔
❸ ۔۔۔ شام اور مصر کے میدان عیسائیوں کے لیے دو سو برس تک جنگی درسگاہوں کا کام دیتے رہے اور انہوں نے نہایت اعلیٰ قسم کے آلاتِ حرب کا بنانا اور استعمال کرنا سیکھ لیا۔
❹ ۔۔۔ تاریخ، جغرافیہ، سائنس، حکمت، فلسفه، ریاضی غرض کوئی علم اور فن ایسانہیں تھا جس میں یورپی عیسائیوں نے مسلمانوں کے رفیع الشان تمدن اور معاشرت سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا۔ فی الحقیقت یورپ میں ان سب علوم و فنون میں ترقی کا آغاز حروب صلیبیہ کے بعد ہی ہوا۔
ان صلیبی لڑائیوں میں ایک بات بڑی نمایاں ہے، وہ یہ کہ عیسائیوں نے جب بھی مسلمانوں پر حملہ کیا، پوری طاقت اور تیاری کے ساتھ کیا۔ ساری دنیائے عیسائیت نے ہمیشہ متحد ہوکر مسلمانوں پر یلغار کی، لیکن اس کے برعکس مسلمان طاقتیں اس نازک صورت حال میں بھی متحد نہ ہو سکیں اور وہ بالعموم ہر لڑائی میں اکیلی اکیلی ہی عیسائی سیلاب کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہیں۔
اگر کسی ایک ہی موقع پر دنیائے اسلام کے مختلف حکمران شمالی افریقہ کے زیارئین، حمادئیں اور موحدین، اندلس کے بنو ہود، بغداد اور مصر کے عباسی اور فاطمی خلفاء یمن کے نجاحین اور ہمدانین، کرمان، شام و ارض روم کے سلجوقی متحد ہوکر صلیبی جنگ آزماؤں کے مقابلہ پر آ جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ آناً فاناً ان دشمنانِ اسلام کے پرخچے نہ اڑ جاتے اور ایشیاء و یورپ (بلکہ تمام دنیا) کی تاریخ کسی اور اندازے سے نہ لکھی جاتی۔
یہ قَرنِ اول کے مسلمانوں کا زبردست اتحاد اور ان کی قوت ایمانی ہی تھی جس کے بل پر انہوں نے صحرائے عرب سے اٹھ کر ایک قلیل عرصہ میں قیصر و کسریٰ کی زبردست سلطنتوں کے تخت الٹ کر رکھ دیے تھے۔ بعد کے مسلمانوں کی مقامی چپقلش، باہمی رقابتیں اور مَسند نشینی کی جنگیں ان کی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہیں۔ تاہم اس تباه کن تشتت و افتراق کے علی الرغم جو مسلمان حکمران اپنے ہم عصر مسلم فرمانرواؤں کی حمایت سے بے نیاز ہوکر محض اللہ کے بھروسے پر مہیب طاغوتی قوتوں سے بھڑ گئے اور ان کو لوہے کے چنے چبوا دیے۔
ان کی عالی حوصلگی اور عظمتِ کردار کا لامحالہ اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ شہید عمادالدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ، سلطان نور الدین محمود زنگی رحمۃ اللہ علیہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ ایسے ہی عظیم مردان کار تھے۔ اُن کے کارناموں کو مختلف زاویوں سے جانچنے اور ان کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ یہاں پہلی صلیبی جنگ کے اہم واقعات کا اجمالی تذکرہ کردیا جائے۔
===========
پہلی صلیبی جنگ کے اہم واقعات:
پیٹر دی ہرمٹ (Peter The Hermit) کی فتنہ انگیزی:
مسلمان اور صلیبی طالع آزماؤں کے درمیان سیاسی کشمکش تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت ہی سے چلی آرہی تھی، لیکن جب سلجوقیوں نے اپنے دورِ عروج میں آرمینیا اور گرجستان کے ساتھ ایشیائے کوچک کو بھی فتح کرلیا تو یہ کشمکش نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔
سطان ملک شاہ سلجوقی کی زندگی تک تو صلیبیوں کو بلادِ اسلامیہ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی، البتہ اس کی وفات 485ھ /1092ء کے بعد جب سلجوقی سلطنت چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں بٹ گئی اور ان کے حکمران ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگے تو یورپ کے صلیبی جنگجوؤں نے مسلمانوں سے اپنے مقدس مقامات اور دوسرے علاقے واپس لینے کے لیے اسے بہترین موقع سمجھا۔
اس سیاسی پس منظر میں سرزمین ی…
[11:12 AM, 4/8/2024] Waqas Saeed: بَطَلِ اسلام سُلطان نورالدین محمود زنگی رحمہ اللہ،
قسط: 05
جنگ کا پہلا دور:
پہلا صلیبی لشکر:
صلیوں کا پہلا لشکر اگست 1096ء میں والٹر دی پینی لیس (کنگال والٹر) کی سرکردگی میں ارضِ مقدس کی طرف روانہ ہوا۔ اس لشکر نے بلغاریہ سے گزرتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو اس قدر ستایا کہ وہ ہم مذہبی کا رشتہ بالائے طاق رکھ کر ان نام نہاد صلیب برداروں کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے، چنانچہ انہوں نے متحد ہوکر صلیبیوں پر ایک زبر دست حملہ کیا اور ان کے ہزاروں آدمی تہہ تیغ کر ڈالے۔
والٹر اور اس کے چند ساتھیوں نے بڑی مشکل سے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔ اس طرح یہ لشکر اپنے کرتوتوں کی بدولت اپنے ہی ہم مذہبوں کے ہاتھوں برباد ہوگیا۔
دوسراصلیبی لشکر:
صلیبیوں کا دوسرا لشکر جس کی تعداد 40 ہزار کے لگ بھگ تھی، پیٹر دی ہرمٹ کی قیادت میں روانہ ہوا۔ ان لوگوں کو پہلے لشکر کی تباہی کا حال معلوم ہوا تو ان کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ یہ لوگ بسُرعتِ تمام بلغاریہ پہنچے اور جوشِ انتقام میں وہاں کے باشندوں پر ایسے ہولناک مظالم ڈھائے کہ زمین و آسمان لرز اٹھے۔
صرف ایک شہر "ملی ویل“ کے ساٹھ ہزار باشندے صلیبی سورماؤں نے بے دریغ قتل کر ڈالے۔ ان میں عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان سبھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنی ہم مذہب عیسائی عورتوں کی عصمت دری کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ بلغاریہ کے بعد یہ لوگ ہنگری کو ویران کرتے ہوئے قسطنطنیہ کے قریب جاپہنچے۔
قسطنطنیہ کے رومی بادشاہ پیلیکولیس (ایکس) کو ان لوگوں کی سفاکیوں اور خرمستیوں کا حامل معلوم ہو چکا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ لوگ قسطنطنیہ میں داخل ہوں۔ یہی قیصرِ روم تھا جس نے سب سے پہلے پوپ اور یورپ کے دوسرے عیسائی بادشاہوں سے اپیل کی تھی کہ وہ مسیحیت کے "ناپاک دشمنوں” سے نبرد آزما ہونے کے لیے اس کی مدد کریں۔ اب وہی قیصر عیسائی سورماؤں کو اپنی مملکت سے باہر نکالنے کی تجویز سوچ رہا تھا۔
سب سے بہتر تجویز اس کو یہی سوجھی کہ ان لوگوں کو بالا ہی بالا ایشیائے کوچک پہنچا دے، چنانچہ اس نے بہت سے جہازوں اور کشتیوں کا انتظام کیا اور ان لوگوں کو آبنائے باسفورس کے پار ایشیائے کوچک کے ساحل پر اتروا دیا۔ یہاں صلیبی لشکر کے دو حصے ہو گئے۔ ایک حصہ پیٹرا اور والٹر کے ماتحت رہا اور دوسرے حصے کی قیادت اٹلی کے جنگجو سردار ریجینالڈ (رینالڈ یا رینالڈو) نے سنبھالی۔ اس میں زیادہ تعداد جرمنیوں کی تھی۔
ریجینالڈ صلیبیوں کا پہلا جرنیل تھا جو اپنے جنونی لشکر کے ہمراہ ارضِ روم (ایشیائے کوچک) کی اسلامی مملکت میں داخل ہوا۔ ان دنوں اس اسلامی ریاست کا فرمانروا سلطان قلیج (قلج یا قزل) ارسلان سلجوقی تھا۔ وہ بڑا باہمت اور غیور انسان تھا۔ اس کا خیال تھا کہ صلیبی اس کے علاقے پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کریں گے، لیکن بعد کے واقعات نے اس کا اندازہ غلط ثابت کر دیا۔
(سلطان قلیج ارسلان عظیم سلجوقی فرمانروا سلطان الپ ارسلان کے چچازاد بھائی سلیمان بن قتلمش (بن اسرائیل یا ارسلان بن سلجوق) کا فرزند تھا۔ سلیمان بن قتلمش نے 470ھ/ 1077ء میں ارضِ روم کی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ وہ ایک دانا حکمران اور ماہر سپہ سالار تھا۔ اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی سلطنت کی حدود کو شمال کی طرف درہ دانیال تک اور مغرب کی طرف بحیرہ روم تک بڑھا لیا اور قیصر روم کو خراج دینے پر مجبور کیا۔ اس نے نیقیہ (نیسیا یا نائیس (Nicea) کو اپنا مرکز حکومت بنایا۔ 485ھ/1092ء میں سلیمان کا نامور فرزند قلیج ارسلان ارضِ روم کا حکمران بنا۔)
صلیبی سب سے پہلے اس کی مملکت میں داخل ہوئے اور ایک سرحدی قلعے اگزرو گرو پر حملہ کردیا۔ اس کے مٹھی بھر محافظوں نے جان توڑ کر مقابلہ کیا، لیکن صلیبیوں کے سیلِ بے پناہ کے سامنے ان کی کوئی پیش نہ چلی۔ سب ایک ایک کرکے شہید ہوگئے، فتح کے نشہ میں بدمست صلیبیوں نے اگزروگرو کے قصبے اور اس کے نواحی علاقوں کی شہری آبادی پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ معصوم بچے، عصمت مآب خواتین اور معذور بوڑھے کوئی بھی ان سورماؤں کی درندگی اور سفاکی سے نہ بچ سکا۔ یہ لوگ دودھ پیتے بچوں کو ماؤں کی گود سے چھین کر ان کی تکا بوٹی کردیتے تھے اور قہقہے لگاتے تھے۔ نہتے باشندوں کو تہہ تیغ کرنے کے بعد مکانات اور فصلوں کو آگ لگا دیتے تھے اور مسلمانوں کا گوشت کاٹ کاٹ کر سیخوں پر چڑھاتے تھے۔
فرانسیسی مؤرخ مچاڈ لکھتا ہے:
”صلیبیوں کی آنکھوں پر تعصب نے پٹی باندھ دی تھی۔ انہوں نے صلیب کے جھنڈے کے نیچے ایسے ہولناک جرائم کیے کہ فطرتِ انسانی ان کا تصور کرکے بھی لرز اٹھتی ہے۔“
ریجینالڈ کے پیچھے پیچھے پیٹر اور والٹر کا لشکر بھی مسلمان آبادیوں پر اسی قسم کے مظالم ڈھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔
قلیج ارسلان کی ضربِ اَسَدُ اللّٰہی:
سلطان قلیج ارسلان کو جونہی ان درندوں کے لرزہ خیز مظالم کی اطلاع ملی، اس نے ان کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے زور و شور سے تیاریاں شروع کردیں۔ جب ریجینالڈ کا لشکر قتل و غارت کرتا نیقیہ کے نواح میں پہنچا تو سلطان پندرہ ہزار مجاہدوں کے ساتھ ان پر بجلی کی طرح ٹوٹ کر گرا اور صلیبی لشکر کے پرخچے اڑا ڈالے۔ صرف چند آدمی زندہ بچے جن میں ان کا سردار ریجینالڈ بھی تھا۔ ان لوگوں نے اسلام قبول کر کے اپنی جانیں بچائیں۔
پیٹر اور والٹر نے ریجینالڈ کے لشکر کی تباہی کا حال سنا تو وہ غم اور غصہ سے دیوانے ہوگئے اور مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے طوفان کی طرح نیقیہ کی طرف بڑھے۔ ان کے ساتھ تیس ہزار بپھرے ہوئے صلیبی تھے۔ قلیج ارسلان پہلے ہی ان کا منتظر تھا، جونہی صلیبی فوج اس کی زد میں آئی، اس کے جانباز مجاہدوں نے اس پر تیروں کی ایسی بے پناہ بارش کی کہ آدھے سے زیادہ لشکر تیروں سے چھد کر رہ گیا جس میں والٹر بھی شامل تھا۔
اس کے بعد تکبیر کے نعرے لگاتی ہوئی سلطانی فوج نے صلیبیوں کو اپنی تلواروں پر رکھ لیا اور سارے میدان میں ان کی لاشیں بچھا دیں۔ پیٹر دی ہرمٹ اور اس کے تین ہزار ساتھیوں کے سوا جنہوں نے بھاگ کر ایک ساحلی قلعے میں پناہ لی، باقی سب صلیبی مسلمانوں کی تلواروں کا شکار ہو گئے۔ عیسائی مقتولوں کی ہڈیاں اس میدان جنگ میں سالہا سال تک عبرت کا سامان بنی رہیں۔ اس خوفناک شکست سے پیٹر کا تقدس اور ساری شہرت خاک میں مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد وہ بیسں برس کے قریب زندہ رہا، لیکن صلیبیوں نے اس کی شخصیت کو پھر کبھی پہلے جیسی اہمیت نہ دی۔
تیسرا صلیبی لشکر:
صلیبیوں کا تیسرا لشکر ایک جرمن پادری گاڈ سچال (یا گوٹیشال) کی سرکردگی میں قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوا۔ یہ لوگ سخت اخلاق باختہ اور کمینہ صفت تھے۔ جہاں جہاں سے گزرتے لوٹ مار اور قتل و غارت کو اپنی یادگار چھوڑ جاتے، یہاں تک کہ اپنی ہم مذہب عورتوں کو دن دہاڑے اغوا کرکے اپنے کیمپوں میں لے آتے تھے اور ان سے بدکاری کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یروشلم کی بجائے ان کا منتہائے مقصود شراب خوری، زنا کاری اور ڈاکہ زنی ہے۔
جب یہ شیطان سیرت لوگ ہنگری میں داخل ہوئے تو ان کی بد اعمالیاں حد سے تجاوز کر گئیں۔ اہلِ ہنگری ان کو برداشت نہ کر سکے اور یک جان ہوکر ان نام نہاد صلیبیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بلگریڈ کے نواح میں صلیبی لشکر اور اہل ہنگری کے درمیان خون ریز لڑائی ہوئی، جس میں صلیبیوں کو شکست فاش ہوئی اور میدانِ جنگ ان کی لاشوں سے پٹ گیا۔ صرف چند آدمی زندہ بچے جو چھپتے چھپاتے اپنے وطن پہنچے اور لوگوں کو اس حادثہ کی اطلاع دی۔
چوتھا صلیبی لشکر:
چوتھاصلیبی لشکر انگلستان، فرانس، فلینڈرز اور لورین سے روانہ ہوا۔ یہ سخت وحشی اور اکھڑ لوگوں پر مشتمل تھا۔ انہوں نے "مقدس جہاد” کی ابتداء یہودیوں کے قتل عام سے کی۔ کولون، منس اور دوسرے شہروں میں انہوں نے ہزاروں یہودیوں کو نہایت بے دردی سے ہلاک کردیا اور پھر لوٹ مار مچاتے ہنگری میں جا داخل ہوئے۔ اہلِ ہنگری نے پھر متحد ہوکر ان کا مقابلہ کیا اور ممسی برگ کے مقام پر ان پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ایک صلیبی بھی زندہ بچ کر نہ جا سکا۔
چوتھے صلیبی لشکر کے خاتمہ کے ساتھ پہلی صلیبی جنگ کا پہلا دور بھی ختم ہو گیا۔ اس دور میں اہلِ یورپ کو ہولناک تباہی اور بربادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ موسیو مچاڈ کے بیان کے مطابق جنگ کے ابتدائی دور میں تین لاکھ صلیبی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ یہ سب لوگ طبقہ عوام سے تھے اور ان میں کسی ملک کا سربراہ یا کوئی رئیس شریک نہیں تھا۔
==================
جنگ کا دوسرا دور:
یورپ میں زبردست ہیجان:
صلیبیوں کے ہراول لشکر جن یورپی ممالک سے روانہ ہوئے تھے وہاں جب ان کی تباہی کی ہولناک خبریں پہنچیں تو ہر طرف زبردست ہیجان برپا ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا ہے، خواص اور عوام بھی غیظ و غضب سے کھول رہے تھے اور ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ پر لگا کر اڑ جائے اور ایشیائے کوچک کو روندتا ہوا یروشلم پر صلیبی جھنڈا جا گاڑے۔
گھر گھر میں بڑے جوش و خروش سے جنگی تیاریاں شروع ہو گئیں اور 1097ء کے موسم بہار میں یورپ کے کئی نامور حکمرانوں، نوابوں اور رئیسوں کی سر کردگی میں سات لاکھ کے قریب صلیبی جنگجو مرنے مارنے کے لیے جمع ہو گئے، ان میں ایک لاکھ سے اوپر سوار باقی پیادہ تھے۔ مؤرخ "اینا کامینا” نے تو لکھا ہے کہ: ”صلیبیوں کی تعداد کا شمار ہی نہیں ہو سکتا تھا، ان کو صرف سمندر کی ریت یا آسمان کے ستاروں سے تشبیہ دی جا سکتی تھی۔“
مشرق پر یلغار کا آغاز:
مئی 1097ء میں یہ ٹَڈی دَل بڑے با ضابطہ طریقے سے مشرق کی طرف روانہ ہوا۔ اس میں چار بڑے بڑے لشکر شامل تھے۔
❶ ۔۔۔ پہلے لشکر کی قیادت لورین کا ڈیوک (نواب) گاڈ فرے ڈی بولین کر رہا تھا۔ یہ شخص ایک آزمودہ کار جرنیل تھا اور فرانس میں اس کی بہادری اور جنگی مہارت کی بڑی شہرت تھی۔ گاڈ فرے کے ہمراہ اس کے دو بھائی السیٹس ڈی بولون اور بالڈون اور ایک چچازاد بھائی بالڈون ڈی بورگ، بھی تھے، ان سب کا شمار فرانس کے نامی سرداروں میں ہوتا تھا۔
❷ ۔۔۔ دوسرا لشکر فلپ شاہِ فرانس کے بھائی ہیو آف ورمانڈو کی ماتحتی میں تھا۔
❸ ۔۔۔ تیسرے لشکر کا سرگروہ ایک نامور اطالوی جنگجو بوہمینڈ تھا۔ وہ اٹلی کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور وہاں کی ایک ریاست تارانت کا رئیس تھا۔
❹ ۔۔۔ چوتھا لشکر فرانس کے جنوبی صوبوں سے مرتب ہوا تھا اور اس کی قیادت دو نامور سردار ریمنڈا اور ایڈ ہمبرا کر رہے تھے۔
ان چار بڑے لشکروں کے علاوہ بے شمار چھوٹے چھوٹے لشکر مختلف امیروں اور نوابوں کی سرکردگی میں ہر طرف سے امڈے چلے آ رہے تھے، ہر لشکر میں اپنے اپنے علاقہ کے منتخب جنگجو شامل تھے۔ سب سے آخری لشکر ولیم فاتح (ولیم وی کانکرر) کے نامور بیٹے ڈیوک رابرٹ والیٔ نارمنڈی کی قیادت میں روانہ ہوا۔ گویا سارے یورپ کے منتخب جنگجوؤں نے مشرق پر یلغار کردی تھی۔
سقوطِ نیقیه:
صلیبیوں کا طوفانی لشکر اپریل 1097ء کے آخر میں قسطنطنیہ کے قریب پہنچا۔ قیصر روم الیکزیس نے پھر حکمت عملی سے کام لیا اور قسطنطنیہ سے باہر ہی باہر اس ٹڈی دل کو جہازوں پر لاد کر آبنائے باسفورس کے پار ایشیاء کے ساحل پر اتار دیا۔ صلیبی لشکر یہاں سے تیزی کے ساتھ ایشیائے کوچک کی سلجوقی ریاست میں داخل ہوا اور 6 مئی 1097ء کو اس کا بڑا حصہ نیقیہ کے نواح میں پہنچ گیا۔ سلطان قلیج ارسلان نے نیقیہ کے شہر اور قلعے کے دفاعی استحکامات کو مضبوط کیا۔ کچھ فوج کو ان کی حفاظت کے لیے چھوڑا اور باقی فوج کو (جو چند ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی) اپنے ساتھ لے کر شہر سے باہر نکل آیا۔
ایک نواحی مقام دوریلیوم (Dorylaeum) (موجودہ عسکی شہر) میں قلیج ارسلان اور صلیبی لشکر میں ٹکر ہوئی۔ صلیبیوں کے ٹڈی دل اور سلطانی فوج میں ہاتھی اور چیونٹی کی نسبت تھی، تا ہم مسلمانوں نے صلیبیوں پر ایسے تابڑ توڑ حملے کیے کہ وہ سراسیمہ ہو گئے۔ صلیبیوں کو مارتے کاٹتے مسلمانوں کے بازو شل ہو گئے، لیکن ان کا ایک سیلاب تھا کہ امڈا چلا آتا تھا۔ اسی دوران میں ریمنڈ اور ایڈہمیرا کی سرکردگی میں صلیبیوں کا باقی ماندہ لشکر بھی آ پہنچا۔
اس تازہ دم کمک کے پہنچنے پر عیسائیوں کا دباؤ سلطانی فوج پر اس قدر بڑھ گیا کہ اس کے لیے پسپا ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ مسلمان پیچھے ہٹ کر نیقیہ میں داخل ہوگئے اور شہر کے دروازے بند کر لیے۔ صلیبیوں نے آگے بڑھ کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔ کئی دن کے سخت محاصرے کے بعد بھی شہر فتح ہونے میں نہ آیا تو صلیبیوں نے قیصر روم سے مدد مانگی، اس نے فوراً کئی ہزار جنگجو ان کی مدد کے لیے بھیج دیے۔
مسلمان محصورین کو پچاس دن کے شدید محاصرے نے عاجز کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے صلیبی درندوں کے ہاتھوں میں پڑنے کے بجائے شہر پر قیصر روم کے قبضے کو ترجیح دی، کیونکہ وہ ان کی نسبت کسی قدر مہذب تھا۔ سلطان نے در پردہ اس سے نامه و پیام کرکے شہر قیصر روم کے حوالے کردیا اور خود اپنی فوج کو لے کر دوسرے علاقے میں چلا گیا۔ نیقیہ پر قیصر روم کا علم لہراتا دیکھ کر صلیبی بہت جھلائے، لیکن قیصر نے زر وسیم کی بارش کرکے ان کے منہ بند کر دیے۔
29 جون 1097ء کو صلیبی فوج انطاکیہ کی جانب روانہ ہوئی۔ جہاں جہاں سے یہ فوج گزرتی مسجدوں کو جلاتی یا ان کو گرجوں میں تبدیل کرتی جاتی تھی۔ اس اثناء میں سلطان قلیج ارسلان نے پھر اپنی قوت مجتمع کرلی تھی۔ اس نے صلیبی لشکر کے راستے میں آنے والے تمام علاقوں کی فصلیں جلا ڈالیں اور وہاں کے باشندوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے صلیبیوں پر طوفانی چھاپے مارنے شروع کردیے اور جگہ جگہ ان کی لاشوں کے انبار لگا دیے۔ رسد کی قلت، پانی کی کمیابی اور دشوار گزار راستوں نے صلیبیوں پر اور بھی ستم ڈھایا۔
سلجوقی سلطنت میں کہیں قدم جمانے کے بجائے انہوں نے اپنی عافیت اسی میں دیکھی کہ یہاں سے کسی طرح بچ کر نکل جائیں۔ چنانچہ قونیہ کی سرسبز وادی کو پامال کرنے کے بعد انہوں نے بڑی تیزی سے کوہستان طارس کو عبور کیا اور شام کی سرزمین پر پہنچ گئے، ان کے نکلتے ہی سلطان قلیج ارسلان نے اپنے کھوئے ہوئے علاقوں میں سے بیشتر پر پھر قبضہ کرلیا۔
صلیبیوں کی پہلی ریاست:
شام کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی صلیبی سرداروں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ بیشتر کی رائے تو یہی تھی کہ اپنی منزل مقصود کی طرف پیش قدمی جاری رکھی جائے، تاہم کچھ ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں دوسروں کے علاقے ہتھیانے اور اپنی جاگیریں پیدا کرنے کا شوق چٹکیاں لے رہا تھا، چنانچہ ان میں سے دو سربر آوردہ سرداروں بالڈون اور ٹینکر ڈارمنی نے بڑے صلیبی لشکر سے الگ ہوکر میسو پوٹیمیا (عراق) اور سلیشیا کا رخ کیا۔ ان دنوں میسو پوٹیمیا میں دیارِ بکر کے نواحی علاقے قیصر روم کی باجگزار ایک نیم خود مختار عیسائی ریاست میں شامل تھے، جس کا سربراہ ایک آرمینی شہزادہ تھوروسس تھا۔
اس ریاست کا دار الحکومت ایڈیسہ (Edessa) تھا۔ یہ عسکری نقطہ نگاہ سے بڑا اہم مقام تھا اور اسے میسو پوٹیمیا کی آنکھ کہا جاتا تھا۔ بالڈون کو تھوروس نے خود ہی ایڈیسہ آنے کی دعوت دی۔ اس سے اس کا مقصد اپنی ہمسایہ مسلمان حکومتوں کے خلاف صلیبیوں کی مدد حاصل کرنا تھا، لیکن بالڈون عرب کے روایتی اونٹ کی طرح خود ہی ایڈیسہ پر قابض ہوگیا اور وہاں صلیبیوں کی پہلی ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہ ریاست بعد میں مدتوں تک صلیبیوں اور مسلمانوں کے درمیان زبردست کشمکش کا باعث بنی رہی۔ اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں مناسب موقع پر بیان کی جائے گی۔
ٹنکرڈ نے سلیشیا کے مرکزی شہر طرطوس اور اس کے نواحی علاقے پر قبضہ کرلیا اور عارضی طور پر وہاں ہی مقیم ہوگیا۔ ان دو سرداروں کے الگ ہو جانے کے باوجود صلیبیوں کے دم خم میں کوئی فرق نہ آیا اور ان کا بڑا حصہ تیزی سے انطاکیہ کی طرف بڑھا۔ ان کی پیش قدمی اپنے جلو میں ہولناک قتل و غارت اور تباہی و بر بادی لیے ہوئے تھی۔
انطاکیہ کا محاصرہ:
انطاکیه (Antioch) شام کا پہلا اہم شہر تھا جو صلیبی طوفان کی زد میں آیا۔صلیبیوں کی نظر میں یہ ساحلی شہر بڑا مقدس تھا۔ کیونکہ دین مسیحی نے اس کی گود میں پرورش پائی تھی اور اس میں عیسائی بزرگوں کی بہت سی یادگاریں تھیں۔
صلیبی حملہ کے وقت شہر پر ایک سلجوقی امیر "یاغی سیان” (یا باغیستان) کی حکومت تھی، جسے سلطان ملک شاہ سلجوقی نے کئی سال پہلے یہاں کا امیر مقرر کیا تھا۔ طوائف الملوکی کے اس دور میں انطاکیہ کی حفاظت کی ذمہ داری تنہاء اس کے کندھوں پر آپڑی تھی۔ اس کی عسکری قوت صرف سترہ ہزار آدمیوں پر مشتمل تھی جن میں دس ہزار پیادہ، دو ہزار سوار اور پانچ ہزار عام ملازمین تھے۔ اس کے برعکس انطاکیہ پر دھاوا بولنے والے صلیبیوں کی تعداد تین لاکھ سے اوپر تھی۔ یاغیستان نے صورت حال کی نزاکت کو بھانپ لیا اور قلعے کے ایسے سخت حفاظتی انتظامات کیے کہ اسے قریب قریب نا قابل تسخیر بنا دیا۔
20 اکتوبر 1097ء کو صلیبی فوج نے انطاکیہ کا محاصرہ شروع کیا جو نو ماہ تک بڑی شدت سے جاری رہا۔ اس دوران میں مسلمان وقتاً فوقتاً قلعے سے باہر نکل کر صلیبیوں پر حملے کرتے، لیکن عیسائیوں کے ٹڈی دل کے ہاتھوں نقصان اٹھا کر واپس جانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ حلب، دمشق اور حمص کے مسلمان حاکموں نے بے دلی سے محصورین کی امداد کے لیے کچھ فوج بھیجی، لیکن وہ صلیبیوں کا حصار توڑنے میں کامیاب نہ ہوسکی اور معمولی جھڑپوں کے بعد واپس چلی گئی۔ اس کے بعد قوام الدولہ کربوغا (یا کربوقا) صاحبِ موصل ایک زبردست فوج کے ساتھ باغیستان کی امداد کے لیے روانہ ہوا، لیکن ابھی وہ راستے ہی میں تھا کہ انطاکیہ کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا۔
سقوطِ انطاکیه:
اگرچہ صلیبی محاصرین تعداد اور قوت کے لحاظ سے محصور مسلمانوں سے بیس گنا تھے اور پھر ان کو اطالوی بیڑا رسد اور کمک بھی پہنچارہا تھا، لیکن اس تفوق کے باوجود ایک نام نہاد مسلمان اہل انطاکیہ سے غداری نہ کرتا تو شاید وہ انطاکیہ کی دیواروں سے سر پھوڑ کر واپس جانے پر مجبور ہو جاتے۔ یہ غدار ایک آرمینی نو مسلم بہروز (یا فیروز) تھا۔ والی انطاکیہ باغیستان کو اس شخص پر بےحد اعتماد تھا، اس نے بہروز کو تین خاص برجوں کی حفاظت پر مامور کر رکھا تھا، لیکن اس مارِ آستین نے صلیبیوں سے ساز باز کرلی اور ایک مقررہ رات کو فصیل کے نیچے رسے لٹکا دیے۔ صلیبی ان کے ذریعہ فصیل پر چڑھ گئے اور محافظوں کو قتل کرکے شہر کے دروازے کھول دیے۔
اس کے ساتھ ہی ساری صلیبی فوج نعرے لگاتی ہوئی شہر میں گھس گئی اور ہر طرف قتل و غارت اور لوٹ مار کا طوفان مچا دیا۔ ہزاروں بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان ان کی تیغ خون آشام کی نذر ہوگئے، گلی کوچے اور سڑکیں مسلمانوں کی لاشوں سے پُر ہوگئیں۔ باغیستان بھی اس ہنگامہ میں ایک آرمینی کی تلوار کا شکار ہوگیا۔ شہر پر قبضہ کرکے صلیبیوں نے تین دن تک مسلمانوں کی لاشوں پر جشنِ فتح منایا اور اس میں شرمناک بد تمیزیوں اور خرمستیوں کی انتہا کردی، لیکن ان کی خوشی عارضی ثابت ہوئی۔
سقوطِ انطاکیہ کے چوتھے دن امیر کربوغا اپنی فوج کے ساتھ انطاکیہ کے سامنے آ پہنچا اور شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اب صلیبیوں کو اسی شہر پناہ کے اندر محصور ہونا پڑا جس کے چار دن پہلے وہ محاصر تھے۔ انطاکیہ کا قلعہ ابھی تک صلیبیوں کی دست برد سے بچا ہوا تھا اور مسلمان فوج کے چند دستے اس کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔
اب اندر سے اہل قلعہ نے اور باہر سے امیر کربوغا کی فوج نے صلیبیوں پر دباؤ ڈالنا شروع کیا اور اس کے ساتھ ہی ان کو رسد پہنچنے کے تمام وسائل منقطع کردیے، اس طرح صلیبی دوہری مصیبت میں گرفتار ہوگئے اور چند دن کے اندر اندر بھوک، بیماری اور مسلمانوں کے لگاتار حملوں نے ان میں سخت مایوسی اور بددلی پیدا کردی۔
اسی اثناء میں سلطان قلیج ارسلان بھی کچھ فوج لے کر انطاکیہ کے باہر پہنچ گیا، اب صلیبیوں کو اپنی تباہی یقینی نظر آنے لگی۔ خوف و ہراس کے عالم میں سینکڑوں صلیبیوں نے انطاکیہ سے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن اس میں صرف چند خوش قسمت ہی کامیاب ہوئے، باقی سمندر میں غرق ہوگئے یا مسلمان محاصرین کی تلواروں کا شکار ہوگئے۔
محاصرے کے پچیس دن صلیبیوں کی مہم کا تلخ ترین تجربہ ثابت ہوئے، اس وقت کوئی معجزہ ہی انہیں ہولناک تباہی اور بربادی سے بچا سکتا تھا اور عیسائی مؤرخین کے قول کے مطابق یہ معجزہ رونما ہوکر رہا۔ ایک پادری پیٹر بارتھلمی نے مایوسی کے اتھاہ سمندر میں غرق صلیبیوں کو یکایک یہ نوید سنائی کہ اس کو سینٹ اینڈریو (عیسائیوں کے ایک بڑے ولی) نے خواب میں آکر فتح کی بشارت دی ہے اور حکم دیا ہے کہ میرے بھائی پیٹر (ایک دوسرے عیسائی ولی) کے گرجا میں جا کر قربان گاہ کی زمین کھودو۔ وہاں سے تمہیں ایک آہنی بھالا (یا برچھی کا پھل) ملے گا۔ یہ وہی بھالا ہے جو خداوند یسوع مسیح کے پہلو میں مارا گیا تھا۔ اگر اس بھالے کو تم فوج کا نشان بناؤ تو یہ تمہاری نجات اور فتح کا ضامن ثابت ہوگا۔
صلیبیوں نے بڑی رد و قدح کے بعد بے دلی سے اس جگہ کو کھودا تو انہیں فی الواقع موعودہ بھالا مل گیا۔ اس بھالے کے ملتے ہی مایوسیوں کے بادل چھٹ گئے اور صلیبیوں میں ایسا زبردست جوش پیدا ہوا کہ وہ اسی وقت مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگئے۔ دوسری طرف محاصرین اپنی فتح کے یقین میں مست تھے اور ان کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ شکستہ ہمت صلیبی محصورین یکایک خوفناک جنگجوؤں کی صورت اختیار کرلیں گے۔
ان کا جرنیل کربوغا نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے خیمے میں بیٹھا ہوا شطرنج کھیل رہا تھا کہ صلیبی ”مقدس بھالے“ کو نشانِ جنگ بنائے ہوئے مہیب سیلاب کی طرح شہر سے نکلے اور مسلمانوں پرتند وتیز حملہ کردیا، کربوغا کی خامکار فوج تو ان کے پہلے ہلے ہی میں ہمت ہار بیٹھی۔ البتہ قلیج ارسلان نے بڑی ثابت قدمی سے صلیبیوں کے خوفناک ریلے کو روکا اور پھر ایسی پھرتی سے جوابی حملہ کیا کہ صلیبیوں کی صفیں درہم برہم ہو گئیں۔
عین اس وقت جب صلیبی ہزیمت سے دو چار ہونے والے تھے۔ عیسائی مؤرخوں کے قول کے مطابق ایک اور معجزہ رونما ہوا۔ ایک پادری اڈہمر قریبی پہاڑ کی طرف اشارہ کرکے بڑے زور سے چلایا، وہ دیکھو خدائی مدد آ پہنچی! مقدس شہید جارج ڈیمٹرئیسں اور تھیورڈ (عیسائیوں کے تین بہت بڑے ولی) تمہاری مدد کے لیے آ رہے ہیں۔
صلیبیوں نے پہاڑ کی طرف دیکھا تو تین سوار سفید لباس اور چمکدار زرہیں پہنے ایک مسلح جماعت کے ساتھ پہاڑ سے نیچے اتر رہے تھے۔ یہ شعبدہ بازی تھی یا معجزہ؟ اس سوال کا جواب تو عیسائی مؤرخین کی صوابدید پر منحصر ہے، البتہ ایک مسلمان مؤرخ جمال الدین کا بیان ہے کہ عین ہنگامہ کارزار میں ترکوں اور عربوں میں پھوٹ پڑگئی اور وہ صلیبیوں سے لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے۔
(عیسائی مؤرخین کا بیان ہے کہ محاصرے کے دوران میں انطاکیہ کے شہرت یافتہ پادری بارتھلمی نے صلیبیوں کو پھر کئی "معجزات” دکھائے، لیکن اب کی بار ان کو اس کی باتوں پر یقین نہ آیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ اپنی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے وہ ساری فوج کے سامنے دہکتی ہوئی آگ میں سے گزرے۔ بارتھلمی کو مجبور ہوکر ایسا کرنا پڑا لیکن وہ آگ میں بری طرح جھلس گیا اور چند دن کے بعد مر گیا۔)
حقیقتِ حال کچھ بھی ہو، یکایک عیسائیوں میں حیرت انگیز جوش پیدا ہوگیا اور انہوں نے اپنی صفیں درست کرکے مسلمانوں پر ایسا زبردست حملہ کیا کہ ان کے لیے پسپا ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ یہ واقعہ 28 جون 1097ء (دوشنبہ) کو ہوا۔
اس دن انطاکیہ کی قسمت پر مہر لگ گئی اور اس پر صلیبیوں کا مکمل قبضہ ہوگیا۔ صلیبیوں نے بوہمینڈ کی سربراہی میں یہاں اپنی دوسری ریاست قائم کی اور پھر ارد گرد کے مقامات کو فتح کرتے ہوئے معرة النعمان کی طرف بڑھے۔
مُعَرَّةُ النُّعمَان کی تباہی:
معرة النعمان (مشہور عرب فلسفی ابوالعلاء معری کا وطن) شام کا نہایت بارونق شہر تھا اور اس کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ کونٹ ریمنڈ (ریماں) کی سرکردگی میں صلیبیوں نے اس شہر کو چند دن کے اندر اندر فتح کرلیا اور اس کے اسی ہزار باشندوں کو نہایت سفاکی کے ساتھ قتل کر ڈالا اور باقی کو غلام اور کنیزیں بناکر بردہ فروشی کےلئے انطاکیہ بھیج دیا۔ ظالموں نے اسی پر ہی بس نہیں کیا، بلکہ اس خوبصورت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس کے درو دیوار کو جلا کر خاکستر کردیا۔
صلیب کے یہ نام لیوا جوشِ تعصب میں اس قدر اندھے ہوگئے تھے کہ: ”اپنے کیمپوں میں مسلمانوں کا گوشت کھلم کھلا فروخت کرتے تھے اور اسے مزے لے لے کر کھاتے تھے۔“
یروشلم کی طرف پیش قدمی:
معرة النعمان کو تباہ کرنے کے بعد صلیبی "حصن الاکراد” کے اہم مقام کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرنے کے بعد عرقہ کے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ مسلمانوں نے قلعے کا نہایت شاندار دفاع کیا اور صلیبیوں کی تمام کوششیں اس کو فتح کرنے میں ناکام ہوگئیں۔ بالآ خر مئی 1098ء میں وہ محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔
اس کے بعد وہ سمندر کے کنارے کنارے بجانب جنوب بیروت صیدا، ٹائر (صور) عکہ، قیصاریہ، ارارسوف سے گزرتے ہوئے رملہ پہنچ گئے، جو یروشلم سے سولہ میل کے فاصلے پر تھا۔ یہاں انہوں نے اپنی تمام فوج کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ پچاس ہزار صلیبی جنگجو یروشلم کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے موجود تھے۔ باقی راستے میں مسلمانوں سے لڑائیوں بھڑائیوں میں یا قحط، بیماریوں اور سفر کی صعوبتوں سے ہلاک ہو چکے تھے اور ایک کثیر تعداد نے ایڈیسہ (اعزاز) اور انطاکیہ وغیرہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
رملہ میں چند دن قیام کرکے ان پچاس ہزار صلیبی جنگ آزماؤں کا پُرخروش لشکر یروشلم کی طرف بڑھا اور 6 جون 1099 عیسوی کو اس کی دیواروں کے نیچے جا پہنچا۔
==================
ماخوذ از ”المَلِکُ العادل سلطان نور الدین محمود زنگیؒ“
تصنیف: طالب ہاشمی صاحب
یروشلم ۔۔۔ صلیبیوں کی منزل مقصود:
ساری دنیا میں اپنی قدامت اور عظمت کے لحاظ سے بہت کم شہر یروشلم یا بیت المقدس کی ہمسری کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں سبھی کے نزدیک یہ شہر بےحد مقدس و متبرک ہے۔ اس کے چپے چپے پر ان تینوں قوموں کے نہایت مقدس مقامات پھیلے ہوئے ہیں۔
(اہلِ عرب "یروشلم” کو "القدس” یا ” بیت المقدس” کہتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور رسول اکرم ﷺ شب معراج کو اسی جگہ سے آسمان پر تشریف لے گئے تھے۔ اہل یورپ اس شہر کو یروشلم (Jerusalem) ، شهر مقدس (The Holy City) جیره سلیما (Geruseleme) اور ہیگی اپولیس (Hagiopolis) وغیرہ ناموں سے پکارتے ہیں۔ مؤخر الذکر دو نام اطالوی اور یونانی زبانوں کے ہیں۔)
یہ عظیم شہر بے شمار انبیاء کا مہبط اور مَسکَن رہا ہے اور کتنے ہی جلیل القدر نبیوں کے مزارات اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ اپنی 33 سو سالہ تاریخ میں یہ شہر دنیا کی تمام عظیم الشان سلطنتوں کی یورشیں برداشت کرتا رہا ہے۔ یہ کم و بیش اکیس مشہور حملوں اور محاصروں کا ہدف بنا۔ دنیا کی کئی قوموں نے اسے مُسَخَّر کیا۔ عبرانی، یونانی، رومی اور دوسری قومیں صدیوں تک اس شہر میں اپنے اقتدار کا ڈنکا بجاتی رہیں۔
اڑھائی ہزار سال تک اس مقدس اور قدیم شہر پر برابر تباہیاں نازل ہوتی رہیں۔ ہر قوم اور ہر سلطنت نے اس پر حملے کیے اور کسی نے اس کی غارت گری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ظلم و جور کا کوئی طریقہ ایسا نہیں تھا جو فاتحین نے اس شہر کے بد قسمت باشندوں پر استعمال نہ کیا ہو۔
لیکن 637ء میں ایک عجیب قوم نے اس شہر کا محاصرہ کیا اور اس پر فتح بھی پائی، مگر فاتحین جن میں اس قوم کا سربراہِ اعلیٰ بھی تھا، اس میں اس طرح داخل ہوئے جس طرح نسیمِ سحری گلشن میں داخل ہوتی ہے، نہ کسی عمارت کی ایک اینٹ تک گری، نہ کسی انسانی رگ سے لہو کا ایک قطرہ تک بہا۔ اب تک جتنے حملے ہوئے تھے ان سب میں بیت المقدس بری طرح تباہ ہوتا رہا تھا۔ لیکن اس عجیب حملہ نے باشندگانِ شہر کی قسمت بدل ڈالی۔ غلام ہونے کے بجائے وہ ہر قسم کی بندشوں اور پابندیوں سے آزاد ہوکر راحت و آرام کے صحیح مفہوم سے پہلی مرتبہ آشنا ہوئے۔
(16 ہجری/ 637ء میں جب مسلمانوں کی فتوحات کا سیلاب یروشلم کی دیواروں کے نیچے پہنچا تو عیسائیوں نے قلعہ بند ہوکر مقدور بھر مقابلہ کیا۔ جب مقابلے سے عاجز آگئے تو صلح کی درخواست کی، جس کی یہ شرط رکھی کہ مسلمانوں کا خلیفہ خود یہاں آئے اور معاہدۂ صلح پر دستخط کرے۔
سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ یروشلم پر قبضہ آپ کی تشریف آوری پر موقوف ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ خط ملنے پر کاروبارِ خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا اور خود بیت المقدس کے لیے روانہ ہوگئے۔
علامہ شبلیؒ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس سفر کے متعلق لکھتے ہیں کہ: "ان کے ساتھ نقارۂ نوبت، خدم و حشم لاؤ لشکر ایک طرف، معمولی ڈیرہ اور خیمہ تک نہ تھا۔ سواری میں گھوڑا تھا اور چند مہاجرین و انصار ساتھ تھے، تاہم جہاں یہ آواز پہنچتی تھی کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے شام کا ارادہ کیا ہے، زمین دہل جاتی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یروشلم کے قریب جابیہ کے مقام پر قیام کیا، وہیں یروشلم کے محصور عیسائیوں کے نمائندے پہنچے اور معاہدۂ صلح لکھا گیا، اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے معمولی لباس میں پیادہ پا سردارانِ فوج کے ہمراہ بیت المقدس میں داخل ہوئے۔
انگریز مؤرخ سر ولیم میور کے بقول: ”یروشلم میں پہنچ کر خلیفہ (عمر) نے بطریق اور اہلِ شہر سے مہربانی اور شفقت سے ملاقات کی اور ان کو وہی حقوق عطا کیے جو ان کے شایانِ شان تھے۔ یہ ان کی نہایت مہربانی اور عنایت تھی کہ باشندوں پر معمولی جزیہ لگایا اور ان کے معابد اور گرجوں کو بالاستقلال ان کے قبضے میں دے دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب یروشلم کے مقدس مقامات کو دیکھ رہے تھے تو نماز کا وقت آگیا۔ بطریق (پادری) نے وہیں کپڑا بچھا دیا اور کہا کچھ حرج نہیں آپ یہیں (گرجے کے اندر) نماز ادا کرلیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا اور فرمایا:
لَوْصَلَّيْتُ دَاخِلَ الْكَنِيسَةِ أَخَذَهَاالْمُسْلِمُونَ بَعْدِى وَقَالُو هُنَا صَلَّى عُمَرُ۔ (ابن خلدون)
"اگر میں آج گرجے کے اندر نماز پڑھ لوں گا تو میرے بعد مسلمان یہ دعویٰ پیش کرکے کہ عمر نے اس میں نماز پڑھی، یہ گرجا تم سے چھین لیں گے۔”
اس کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے گرجے سے باہر سیڑھیوں پر نماز ادا کی اور ایک تحریری وثیقہ لکھ کر پادری کے حوالے کیا، جس میں لکھا تھا: اس سیڑھی پر نہ کوئی نماز ادا کرے اور نہ ہی اذان دے۔ ( ابن خلدون ج: ۲ ،٥٢۲ )
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نماز مسجد اقصیٰ کے قریب ایک مقام پر ادا کی، اس جگہ انہی کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی جو اب تک قبة الصخرا کے پاس موجود ہے اور مسجد عمر کے نام سے مشہور ہے۔ بیت المقدس کے قیام کے دوران ہی ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آج آپ اذان دیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں عہد کر چکا تھا کہ رسولِ اکرم ﷺ کے بعد اذان نہ دوں گا، لیکن آپ کا ارشاد نہیں ٹال سکتا۔ یہ کہہ کر اذان دینی شروع کی تو صحابہ کرام کو حضور ﷺ کا عہد مبارک یاد آ گیا اور روتے روتے ان کی (بشمول حضرت عمرؓ) ہچکیاں بندھ گئیں۔)
اس کے بعد مسلسل چار سو ساٹھ برس تک یروشلم اسی قوم کے فرزندوں (مسلمانوں) کے قبضے میں رہا۔ بنی امیہ کی خلافت کے زمانہ میں عیسائیوں کو بیت المقدس میں جو امن اور آرام میسر تھا، عیسائی مؤرخ آرچر نے اسے عیسائی زائرین کی زبان سے بڑی تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔ صرف بنی امیہ کے آخری خلیفہ مروان ثانی کے رویہ کے متعلق فرانسیسی مؤرخ مچاڈ نے شکایت کی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کہتا ہے کہ مروان ثانی عیسائی اور مسلمان دونوں قوموں کے حق میں یکساں طور پر جابر تھا اور جب اسے اور اس کے خاندان (بنی امیہ) کو دشمنوں (بنوعباس) نے مغلوب کرلیا تو عیسائی اور مسلمان دونوں خدا کا شکر بجالائے۔
عباسی حکمرانوں میں سے تو اکثر کے زمانہ کو یورپی مؤرخین نے عیسائیوں کے حق میں خدا کی رحمت قرار دیا ہے۔ جب عباسی خلافت ضعیف ہوگئی تو مصر میں بنی فاطمہ نے طاقت پکڑی اور اپنی علیحدہ خلافت قائم کرکے بیت المقدس سمیت شام اور فلسطین کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرلیا۔
عیسائی مؤرخین مصر کے فاطمی خلیفہ حاکم بامر الله (386_411ھ/ 996_1020ء) کے مظالم کے بےحد شاکی ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق اسی خلیفہ کے مظالم نے نہ صرف یونانی عیسائیوں بلکہ تمام یورپ کے عیسائیوں کو شام اور بیت المقدس پر حملہ کرنے کے لیے برانگیختہ کیا، مگر در اصل اس مخبوط الحواس خلیفہ کا تشدد کچھ عیسائیوں ہی سے مخصوص نہ تھا، بلکہ مسلمان بھی اس کے رویہ سے بیزار تھے۔
(عرب مؤرخین کا بیان ہے کہ حاکم کی عقل میں فتور تھا جو آخر دم تک رہا۔ اس نے پہلے تو علم کی اشاعت کے لیے بہت سے مدارس قائم کیے اور ان میں علماء و فقہاء کو تعلیم کے لیے مقرر کیا، لیکن کچھ مدت بعد ان کو ناحق قتل کرادیا اور تمام مدارس بند کرادیے۔ ایک دفعہ اس نے حکم دیا کہ کوئی شخص دن کے وقت کاروبار نہ کرے، بلکہ تمام تاجر اور دکاندار رات کو دکانیں کھولیں۔
1009ء میں اس نے عیسائیوں کے بہت سے گرجے منہدم کردیے، جن میں یروشلم کا کنیسة القيامة (کنیسائے مزار مسیح علیہ السلام) بھی شامل تھا، یہ گرجا عیسائیوں کے نزدیک بےحد مقدس و محترم تھا۔ جب یورپ میں اس گرجا کے انہدام کی خبر پہنچی تو عیسائیوں میں سخت اشتعال پیدا ہوا۔ عیسائی مؤرخین کا بیان ہے کہ حاکم کے اسی اقدام نے صلیبی جنگوں کا بیج بویا۔
مشرقی مؤرخین نے حاکم کے اس اقدام کی یہ توجیہ کی ہے کہ اسی زمانہ میں رومیوں نے شام پر حملہ کرکے مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھائے تھے اور ان کی مسجدیں گرا ڈالی تھیں۔ حاکم نے اس کے قصاص میں عیسائیوں کے گرجے منہدم کرادیے۔)
گیارھویں صدی عیسوی کے آخری میں آلِ سلجوق نے یروشلم مصر کی فاطمی حکومت سے چھین لیا۔ سلطان تاج الدولہ تتش (یا توتوش) ابنِ الپ ارسلان سلجوقی نے اپنی فوج کے ایک ترکمانی افسر اورتوق بن اکسب کو یروشلم کا حاکم مقرر کیا، اورتوق نے 484ھ/ 1091ء میں وفات پائی تو اس کے دو بیٹے سکمان اور ایلغازی اس کے جانشین ہوئے۔
صلیبی جب ارضِ شام میں داخل ہوئے تو اس وقت یروشلم پر یہی ترکمانی بھائی قابض تھے۔ انطاکیہ اور معرة النعمان کو برباد کرنے کے بعد صلیبیوں نے عرقہ کا محاصرہ کیا تو مصر کی فاطمی حکومت نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور اپنے محصور مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کے بجائے ایک طاقتور فوج یروشلم پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دی۔ ترکمانوں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے، لیکن مصریوں نے انہیں مغلوب کرلیا اور یروشلم پر قابض ہوگئے۔ سکمان یہاں سے کیفہ (دیارِ بکر) کو چلا گیا اور ایلغازی نے عراق کا راستہ لیا۔
(مقامِ تعجب ہے کہ عین اس وقت جب صلیبی جنگجو مسلمانوں کے لیے تباہی اور بربادی کا پیغام ثابت ہورہے تھے، مسلمان حکمران اپنے مشترکہ اور حقیقی دشمن کے خلاف کوئی متحدہ محاذ بنانے کے بجائے ایک دوسرے کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے تھے، ایک طرف مصری حکومت یروشلم کے مسلمان حکمرانوں سے اپنے پرانے بدلے چکانے میں مصروف تھی تو دوسری طرف طرابلس اور بیروت کے مسلمان امیر نقد و اجناس کی صورت میں صلیبیوں کو امداد دے رہے تھے۔)
ترکمان بالعموم جاہل لوگ تھے، ان کے عہدِ حکومت میں عیسائی زائرین کبھی کبھار ان کے اکھڑپن اور بدسلوکی کا شکار ہو جاتے تھے۔ ان کی بدسلوکی کی مبالغہ آمیز داستانیں جب یورپ میں پہنچتی تھیں تو اہل یورپ کے خون میں گرمی پیدا ہو جاتی تھی، لیکن وہ یہ بھول جاتے تھے کہ عام مسلمان بھی ترکمانوں کے اس اکھڑپن اور درشت سلوک سے محفوظ نہیں تھے۔
در حقیقت اس طوائف الملوکی اور خانہ جنگی کے پُر آشوب زمانے میں عیسائیوں اور مسلمانوں کو یکساں تکلیفیں پہنچتی تھیں۔ نواحِ فلسطین میں نظم ونسق تباہ ہو چکا تھا اور قزاقوں اور لٹیروں کی بن آئی تھی۔ وہ نہ صرف عیسائی زائرین کے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے، بلکہ مسلمان قافلوں پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے تھے۔ البتہ سلجوقیوں اور رومیوں کی لڑائیوں میں اگر کبھی عیسائیوں کو نقصان پہنچا تو وہ ان کا اپنا ہی قصور تھا، کیونکہ وہ رومی عیسائیوں کی حمایت میں خواہ مخواہ مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے، حالانکہ سلجوقیوں اور رومیوں کے درمیان کوئی مذہبی لڑائی نہیں تھی۔
یورپ میں ان سارے حالات کو عیسائیوں پر مسلمانوں کے ہولناک اور لرزہ خیز مظالم سے موسوم کیا گیا اور صلیبی جنگ کے لیے میدان ہموار کیا گیا۔ صلیبیوں کی یلغار جب یروشلم کی دیواروں کے نیچے پہنچی تو اس وقت اس شہر پر مصر کے فاطمی خلیفہ ابوالقاسم احمد المستعلی بالله کا عَلمِ اقتدار لہرا رہا تھا۔
مصر کا یہ (فاطمی شیعہ) حکمران اپنی ہمسایہ مسلمان حکومتوں کا شدید دشمن تھا۔ اس کو بغداد کے عباسی حکمران اور عباسی حکمران کو اس سے کوئی ہمدردی نہ تھی، آل سلجوق کا تو فاطمی حکمران نام سننا بھی گوارا نہ کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس میں اتنی سکت بھی نہیں تھی کہ یروشلم کے مسلمانوں کی کوئی عملی مدد کر سکتا۔
مختصر یہ کہ یروشلم کے دفاع کی ذمہ داری تنہا افتخارالدولہ کے کندھوں پر آپڑی جو (فاطمی) خلافتِ مصر کی طرف سے اس شہر کا حاکم تھا۔
یروشلم کا محاصرہ:
صلیبیوں نے 6 جون 1099ء کو بڑے جوش و خروش سے یروشلم کا محاصرہ کرلیا۔ ان کے پچاس ہزار جنگجوؤں کے سامنے یروشلم کا دفاع کرنے والی مسلمان فوج کی تعداد صرف ایک ہزار تھی۔ صلیبیوں کو یقین تھا کہ وہ یروشلم کی قلیل محافظ فوج کو دو تین دن کے اندر مغلوب کرلیں گے، لیکن ان کی یہ توقع نقش بر آب ثابت ہوئی۔
مسلمانوں نے حیرت انگیز بہادری سے صلیبیوں کا مقابلہ کیا اور ان کا منہ پھیر کر رکھ دیا۔ لیکن یروشلم کے عیسائی باشندے مسلمانوں کے لیے مارِ آستین ثابت ہوئے۔ وہ مسلمانوں کے دفاعی انتظامات کی ذرا ذرا خبر صلیبیوں کو چوری چھپے پہنچا دیتے تھے، جس سے ان کے جوش اور ہمت میں اضافہ ہو جاتا تھا۔
صلیبیوں نے محاصرے کے دوران بہت سی منجنیقیں تیار کرلیں اور ان کے ذریعہ یروشلم کی شہرِ پناہ پر بے پناہ سنگ باری کی، لیکن اپنی تمام کوششوں کے باوجود وہ چالیس دن تک شہر فتح نہ کر سکے۔ 23 شعبان 492ھ مطابق 15 جولائی 1096ء کو صلیبیوں نے اپنی تمام قوتیں مجتمع کرکے شہر پر ایک فیصلہ کن حملہ کیا۔ مسلمانوں نے سروں سے کفن باندھ کر اس مہیب یلغار کو روکا اور 12 گھنٹے کی خونریز لڑائی میں صلیبیوں کو لوہے کے چنے چبوا دیے، عین اس وقت جب صلیبی ہمت ہار بیٹھے تھے، اُن کے پادریوں نے اپنے پرانے حربے سے کام لیا اور جبلِ زیتون کی طرف اشارہ کرکے چِلائے: وہ دیکھو! سینٹ جارج تمہاری مدد کے لیے آیا ہے، (سینٹ جارج یا جرجیس عیسائیوں کا بہت بڑا مذہبی پیشوا گزرا ہے۔)
اس کے ساتھ ہی صلیبیوں نے جبل زیتون کی طرف نگاہ اٹھائی تو انہیں اس کی چوٹی پر ایک سوار دکھائی دیا، جو اپنی سپر کو ہلا ہلا کر صلیبیوں کو شہر میں داخل ہونے کا اشارہ کر رہا تھا۔ (یہ خالصتًا جادو کا کرشمہ تھا)
سقوطِ یروشلم:
بذریعہ جادو "آسمانی سوار” کے نمودار ہوتے ہی صلیبیوں میں زبردست جوش کی آگ بھڑک اٹھی، انہوں نے ایک خوفناک حملے میں مسلمانوں کے تمام دفاعی انتظامات درہم برہم کردیے اور شہر میں گھس گئے۔ یہ گھڑی مسلمانوں پر قیامت سے کم نہ تھی۔ صلیب کے ان نام لیواؤں نے شہر میں داخل ہوکر ایسی بہیمیت اور بربریت کا ثبوت دیا کہ شرافت و انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ ان قصابوں کے ہاتھوں ستر ہزار انسان بے دردی سے ذبح ہوگئے، نہ کوئی مسلمان بچا، نہ یہودی، نہ بوڑھوں کو امان ملی، نہ عورتوں اور بچوں کو۔ اس مہیب ہنگامہ میں گریہ و زاری اور موت کی چیخوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔
ریمنڈ داژیل (Raymond D’ Agile) اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: (مسجد اقصیٰ) کے صحن میں خون گھٹنوں بلکہ گھوڑوں کی باگوں تک پہنچتا تھا۔ البرٹ ڈی ایکس کا بیان ہے کہ یروشلم کے تمام محلوں، عبادت گاہوں اور کوچوں میں لاشوں کے انبار لگ گئے تھے۔ حتی کہ ویران اور تنہا جگہوں میں بھی لاشیں ہی لاشیں نظر آتی تھیں۔ قتل و غارت اور لوٹ مار کا یہ ہنگامہ سات دن تک جاری رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی۔
کسے نماند که دیگر به تیغِ ناز کُشی
مگر که زنده کُنی خَلق را و باز کُشی
اس دوران ان غارت گروں نے شہر کی ہر ایک چیز لوٹ لی۔ مسجدِ عمر میں آرائش کا اس قدر سامان تھا کہ اس سے چھ بڑے چھکڑے بھرے جا سکتے تھے۔ اس میں سونے کے بیس اور چاندی کے ایک سو بیس شَمع دان اور بے شمار دوسری قیمتی اشیاء شامل تھیں۔ ٹنکر ڈاس سامان کو دو دن تک لوٹنے میں مصروف رہا۔ اسی طرح مقتول مسلمانوں کے آراستہ و پیراستہ مکانوں میں جو صلیبی پہلے داخل ہوا اس نے اس پر قبضہ جمالیا، جب صلیبی یروشلم کے بد قسمت باشندوں کے خون سے اپنی آتش غضب فرو کر چکے تو انہیں یروشلم پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی فکر ہوئی۔
22 جولائی 1099ء کو انہوں نے ایک اجلاس عام میں گاڈ فرے ڈی بوئلن کو شہرِ مقدس کا بادشاہ منتخب کیا اور پادری ارنلف کو اپنا بڑا مذہبی پیشوا مقرر کیا۔ گاڈ فرے بڑا متعصب صلیبی تھا، اس نے اپنے لیے کنیستہ القیامہ کے محافظ کا لقب اختیار کیا اور یروشلم کو مرکزی صلیبی ریاست قرار دیا۔ ایڈیسہ اور انطاکیہ کے بعد یہ تیسری ریاست تھی جو صلیبیوں نے سرزمین مشرق میں قائم کی۔
عالمِ اسلام میں ماتم:
یروشلم کے سقوط اور وہاں کے مسلمانوں کے قتلِ عام کی خبر تمام عالمِ اسلام میں انتہائی دکھ کے ساتھ سنی گئی۔ یروشلم کے ایک عالم قاضی ابو سعید ہَروی کچھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے بغداد پہنچ کر خلیفہ مستظہر باللہ کے دربار میں صلیبیوں کے ہولناک مظالم بیان کیے تو ہر طرف سے نالہ وشیون کی آوازیں آنے لگیں۔ اسی طرح دمشق کے قاضی نے بغداد پہنچ کر خلیفہ کے سامنے اپنی ڈاڑھی نوچتے ہوئے مسلمانوں کی مظلومی کی دردناک داستان سنائی تو خلیفہ اور اس کے سب درباری زار و قطار رونے لگے۔ مسلمان شعراء نے دردناک مرثیے لکھے جن میں مظفر ابی وردی کا مرثیہ بہت مشہور ہوا۔ (یہ مرثیہ ابوالفدا نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔)
اس زمانہ میں سلاجقۂ عظام کے جانشین سلطان برکیا روق اور سلطان محمد باہمی جنگ میں مشغول تھے، عباسی خلیفہ نے ان کو خدا اور رسول کا واسطہ دے کر متحد ہو جانے کو لکھا، لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ مصر کی فاطمی (شیعی) خلافت کو یروشلم کے ہاتھ سے نکل جانے کا صدمہ تو بہت ہوا، لیکن آنسو بہانے اور دعائیں مانگنے کے سوا اس سے کچھ بن نہ پڑا۔ غرض مسلمانوں کے ضعف اور افتراق کی بدولت صلیبیوں کو ارضِ شام وفلسطین میں قدم جمانے کا خوب موقع مل گیا۔
سقوطِ طرابلس:
گاڈ فرے کو یروشلم زیادہ عرصہ حکومت کرنا نصیب نہ ہوا۔ ایک سال بعد (18جولائی 1100ء) کو اسے پیغامِ اجل آ گیا۔ اب صلیبیوں نے گاڈ فرے کے چھوٹے بھائی بالڈون (اول) کو ایڈیسہ سے بلا کر اس کا جانشین مقرر کیا۔ گاڈ فرے یروشلم کا بادشاہ بننے کے بعد اپنی ریاست میں چنداں توسیع نہیں کر سکا تھا۔ بالڈون نے بادشاہ بنتے ہی ملک گیری کی مہم کا آغاز کردیا اور اگلے چند سالوں کے اندر حیفہ، بیسان (جو دمشق سے بحیرہ روم جانے والے راستہ پر واقع تھا) ارسوف، قیصاریہ، صور، عکہ، سیڈون، طرابلس اور بیروت کو فتح کرلیا۔
اس زمانے میں بحیرۂ روم کے یہ ساحلی شہر بڑے خوشحال اور بارونق تھے۔ صلیبیوں نے ان پر قبضہ کر کے وہاں کے مسلمان باشندوں کو بڑی بیدردی سے ذبح کر ڈالا اور ان کے گھر اور مساجد ومدارس اور خانقاہیں جلا ڈالے۔
ان بد قسمت شہروں میں طرابلس کا شہر خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ بیسں ہزار کی آبادی کے اس شہر پر بنو عمار کی حکومت تھی جو علم و ہنر کے بڑے سر پرست تھے۔ شہر میں کئی اعلیٰ درجے کے کتب خانے اور مدارس تھے۔ بلور، کاغذ، اون، ریشم اور کتان اس کی خاص صنعتیں تھیں جو ہزارہا کاریگروں کا ذریعہ معاش تھیں۔
مشہور ایرانی سیاح ناصر خسرو اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے: "طرابلس ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہ نہایت سرسبز اور شاداب کھیتوں اور باغوں سے گھرا ہوا ہے۔ انگوروں کی بیلیں، نارنگی سنگترہ، کھجور اور دوسرے پھلدار درختوں کے باغ عجب بہار دیتے ہیں۔ شہر میں اس قدر رونق ہے کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ چار پانچ یہاں تک کہ چھ منزلہ مکانات بھی بنے ہوئے ہیں۔
دکانیں نہایت شاندار ہیں اور ہر قسم کے سامان سے بھری ہوئی ہیں۔ منڈیوں میں دنیا جہان کی چیزوں کی وہ بہتات ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ چوکوں اور گلیوں میں فوارے جاری ہیں۔ شہر کی جامع مسجد سنگِ مرمر کی بنی ہوئی ہے اور بڑی وسیع اور شاندار ہے۔ یہاں کاغذ بنانے کا ایک کارخانہ ہے جس میں نہایت نفیس کاغذ تیار ہوتا ہے۔”
صلیبیوں نے طویل محاصرہ کے بعد 1109ء میں طرابلس کو فتح کرلیا اور پھر جو کچھ انہوں نے شہر کے اندر کیا وہ تہذیبِ انسانی کے دامن پر ایک بدنما داغ ہے۔ مسلمان آبادی کو تہہ تیغ کرنے کے ساتھ انہوں نے طرابلس کا وہ عظیم الشان کتب خانہ بھی جلادیا، جس کی تمام مشرق میں شہرت تھی۔ مختلف روایتوں کے مطابق اس کتب خانہ میں ایک لاکھ سے تین لاکھ تک نادر و نایاب کتابیں تھیں۔ موسیو مچاڈ نے اس دردناک سانحہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
"طرابلس کے مشہورِ عالم کتب خانہ میں یونانیوں، مصریوں، عربوں اور ایرانیوں کے قدیم علوم کی ہزاروں قابل قدر یادگاریں تھیں۔ ایک سو آدمی ان کی نقل پر ملازم تھے۔ قاضی (مہتمم کتب خانہ) تمام ممالک میں نایاب اور قیمتی کتابیں خریدنے کے لیے آدمی بھیجتا رہتا تھا۔ شہر کی فتح کے بعد ایک پادری کی سرکردگی میں صلیبیوں نے اس عظیم کتب خانه کو نذر آتش کردیا۔”
مشرقی مؤرخوں نے بڑے درد کے ساتھ اس نا قابلِ تلافی نقصان کا ذکر کیا ہے، لیکن ہمارے ہم عصر مغربی مؤرخین نے اس کا مطلق ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ ان کی خاموشی سے معلوم ہوتا ہے کہ فرنگی سپاہیوں نے انتہا درجہ کی لاپروائی سے اس آگ کو دیکھا جس نے ایک لاکھ کتابوں کے قیمتی ذخیرے کو جلا کر خاکستر کردیا۔”
(تاریخ مچاڈ)
طرابلس کے محلِ وقوع اور اہمیت کے پیش نظر صلیبیوں نے یہاں اپنی چوتھی ریاست قائم کی۔ اب ایڈیسہ، انطاکیہ، یروشلم اور طرابلس ارضِ مشرق میں عیسائی قوت کا مرکز بن گئے۔ گو یہ سب ریاستیں مقامی طور پر خود مختار تھیں، لیکن ان پر یروشلم کو بالادستی حاصل تھی اور وہ رسمی طور پر یروشلم کے بادشاہ کے ماتحت متصور ہوتی تھیں۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
ماخوذ از ”المَلِکُ العادل سلطان نور الدین محمود زنگیؒ“
تصنیف: طالب ہاشمی صاحب
داستان ایمان فروشوں کی ۔۔
سلطان صلاح الدین ایوبی
مصنف:
عنایت اللہ التمش
تحریر و ترتیب:
قاری عبدلباسط الصمد
اہتمام و اشاعت:
شیراز احمد صدیقی
قاھرہ میں بعاوت اورسلطان ایوبی”
لیکن اُسے کوئی کامیابی نہ ہوئی۔بعد کی شہادتوں اور واقعات سے جو واردات سامنے آئی ، وہ کچھ اس طرح بنتی ہے کہ قتل کی رات سے اگلی رات مصلح الدین اپنے گیا تو پہلی بیوی نے اُسے کمرے میں بلایا۔ اُس نے بیس اشرفیاں مصلح الدین کے آگے کرتے ہوئے کہا …… ”خضر الحیات کا قاتل یہ بیس اشرفیاں واپس کر گیا ہے اور کہہ گیا ہے کہ تم نے پچاس اشرفیاںاور سونے کے دو ٹکڑے کہے تھے۔ میں تمہارا کام کر دیا تو تم نے صرف بیس اشرفیاں بھیجی ہیں۔ یہ میں تمہاری بیوی کو واپس دے چلا ہوں ۔ تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔ اب ایک سو اشرفیاں اور سونے کے دو ٹکڑے لوں گا، اگر دو دن تک مال نہ پہنچا تو ویسا ہی تیر جو خضر کے دل میں اُترا ہے ، تمہارے دل میں بھی اُتر جائے گا”۔
مصلح الدین کا رنگ اُڑگیا ، سنبھل کر بولا …… ”تم کیا کہہ رہی ہو؟ کون تھا وہ؟ میں نے کسی کو خضر الحیات کے قتل کے لیے یہ رقم نہیں دی تھی ؟”
”تم خضر کے قاتل ہو”۔ بیوی نے کہا …… ”مجھے معلوم نہیں کہ قتل کی کیا وجہ ہے ۔ اتنا ضرور معلوم ہے کہ تم نے اُسے قتل کرایا ہے”۔
یہ مصلح الدین کی پہلی بیوی تھی۔ اُس کی عمر زیادہ نہیں تھی ۔ بمشکل تیس سال کی ہوگی ۔ خاصی خوبصورت عورت تھی۔ کوئی ایک ماہ قبل وہ گھر میں ایک غیر معمولی طور پر خوبصورت اور جوان لڑکی لے آیا تھا۔ ایک خاوند کے لیے دو بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اُس زمانے میں زیادہ بیویاں رکھنے کارواج تھا۔ کوئی بیوی دوسری بیوی سے حسد نہیں کرتی تھی، مگر مصلح الدین نے پہلی بیوی کو بالکل نظر انداز کرد یا تھا۔ جب سے نئی بیوی آئی تھی اُس نے پہلی بیوی کے کمرے میں جانا ہی چھوڑ دیا تھا …… بیوی نے اُسے کئی بار بلایا تو بھی وہ نہ گیا۔ بیوی کے اندر انتقامی جذبہ پیدا ہوگیاتھا۔ یہ آدمی جو اُسے بیس اشرفیاں دے گیا تھا۔ غالباً مصلح الدین سے بڑاہی سنگین لینا چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے اس کی پہلی بیوی کو بتا دیا تھا کہ خضر الحیات کو مصلح الدین نے قتل کرایا تھا۔
”تم اپنی زبان بند رکھنا”۔ مصلح الدین نے بیوی کو بارعب لہجے میں کہا …… ”یہ میرے کسی دشمن کی چال ہے۔ وہ میرے اور تمہارے درمیان دشمنی پیدا کرنا چاہتا ہے”۔
”تمہارے دل میں میری دشمنی کے سوا اور رہا ہی کیا ہے؟” بیوی نے پوچھا ……۔
”میرے دل میں تمہاری پہلے روز والی محبت ہے”۔ مصلح الدین نے کہا …… ”کیا تم اس آدمی کو پہچانتی ہو؟”
”اُس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھا تھا”۔ بیوی نے کہا …… ”مگر تمہارا نقاب اُتر گیا ہے۔ میں نے تمہیں پہچان لیا ہے”…… مصلح الدین نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر بیوی نے اُسے بولنے نہ دیا۔ اُس نے کہا …… ”مجھے شک ہے تم نے بیت المال کی رقم ہضم کی ہے، جس کا علم خضرالحیات کو ہوگیا تھا۔ تم نے کرائے کے قاتل سے اُسے راستے سے ہٹا دیا ہے؟”
”مجھ پر جھوٹے الزام عائد نہ کرو”…… مصلح الدین نے کہا …… ”مجھے رقم ہضم کرنے کی کا ضرورت ہے؟”
”تمہیں نہیں ، اُس فرنگن کو رقم کی ضرورت ہے، جسے تم نے نکاح کے بغیر گھر رکھا ہوا ہے”۔ بیوی نے جل کر کہا …… ”تمہیں شراب کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔ اگر یہ الزام جھوٹا ہے تو بتائو کہ یہ چار گھوڑوں کی بگھی کہاں سے آئی ہے؟ گھر میں آئے دن ناچنے والیاں جو آتی ہیں، وہ کیا مفت آتی ہیں؟ شراب کی جو دعوتیں دی جاتی ہیں، اُن کے لیے رقم کہاں سے آتی ہے؟”
”خدا کے لیے چپ ہوجائو”۔ مصلح الدین نے غصے اورپیار کے ملے جلے لہجے میں کہا …… ”مجھے معلوم کرلینے دو ، وہ آدمی کون تھا جو یہ خطرناک چال چل گیا ہے ۔ اصل حقیقت تمہارے سامنے آ جائے گی”۔
”میں جب چپ نہیں رہ سکوں گی”۔ بیوی نے کہا …… ”تم نے میرا سینہ انتقام سے بھر دیا ہے۔ میں سارے مصر کو بتائوں گی کہ میرا خاوند قاتل ہے۔ ایک مومن کا قاتل ہے۔ تم میری محبت کے قاتل ہو۔ اس قتل کا انتقام لوں گی”۔
مصلح الدین منت سماجت کرکے اُسے چپ کرانے لگا اور اُسے قائل کر لیا کہ وہ صرف دو روز چپ رہے ، تاکہ و اس آدمی کو تلاش کرکے ثابت کرسکے کہ وہ قاتل نہیں ہے۔ اُس نے بیوی کو یہ بھی بتایا کہ غیاث بلبیس نے چند ایک مشتبہ افراد پکڑ لیے ہیں اور قاتل بہت جلدی پکڑا جائے گا
: رات گزر گئی۔ اگلا دن بھی گزر گیا۔ مصلح الدین گھر سے غائب رہا۔ اس کی دوسری بیوی یاداشتہ بھی کہیں نظر نہیں آئی۔ شام کے بعد مصلح الدین گھر آیا اور پہلی بیوی کے کمرے میں چلاگیا۔ اُس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کرتا رہا۔ بیوی اُس کے فریب میں نہیں آنا چاہتی تھی ، مگر پیار کے دھوکے میں آگئی۔ مصلح الدین نے اُسے کہا کہ وہ اس آدمی کو ڈھونڈرہا ہے، جو بیس اشرفیاں دے گیا تھا …… کچھ دیر بعد بیوی سو گئی۔ اُس رات مصلح الدین نے ملازموں کو چھٹی دے دی تھی۔ گھر میں ایسی خاموشی تھی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مصلح الدین بہت دیر سوئی ہوئی بیوی کے کمرے میں رہا، پھر اُٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔
آدھی رات کا عمل تھا ۔ ایک آدمی اس گھر کی باہر والی دیوارکے ساتھ پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا۔ ایک آدمی اُس نے کندھوں پر چڑھ گیا ۔ تیسرا آدمی ان دونوں کو سیڑھی بنا کر اوپر گیا اور دیوار سے لٹک کر اندرکی طرف کود گیا۔ اس نے اندر سے بڑا دروازہ کھول دیا۔ اس کے دونوں ساتھی اندر آگئے۔ اس گھر میں رکھوالی کتا ہر رات کھلا رہتا تھا، اس رات وہ بھی ڈربے میں بند تھا۔ شاید ملازم جاتے ہوئے بھول گئے تھے کہ اُسے کھلا رہناہے۔ تینوںآدمی برآمدے میں چلے گئے۔ اندھیرا گہرا تھا۔ وہ دبے پائوں چلتے گئے۔ گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ایک نے اُس کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا ، جس میں مصلح الدین کی پہلی بیوی جسے وہ فاطمہ کے نام سے بلایا کرتا تھا، سوئی ہوئی تھی۔ کواڑ کھل گیا۔ کمرہ تاریک تھا۔ تینوں آدمی اندر گئے اور اندھیرے میں ٹٹولٹے ہوئے فاطمہ کے پلنگ تک پہنچ گئے۔ ایک آدمی کا ہاتھ فاطمہ کے منہ پر لگا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ سمجھی کہ مصلح الدین کا ہاتھ ہے۔ اس نے ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا …… ”کہا جارہے ہیں آپ؟”
اس کے جواب میں ایک آدمی نے اس کے منہ پر کپڑا رکھ کر اس کا کچھ حصہ اُس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ فوراً بعد تینوں نے اُسے بازوئوں میں جکڑلیا۔ ایک نے منہ پر ایک اور کپڑا کس کر باندھ دیا ۔ ایک نے ایک بوری کی طرح کا تھیلا کھولا۔ دوسرے دو آدمیوں نے فاطمہ کو دہرا کرکے رسیوں سے اُس کے ہاتھ اور پائوں باندھے اور اُسے تھیلے میں ڈال کر تھیلے کا منہ بند کردیا۔ انہوں نے تھیلا اُٹھایا اور باہر نکل گئے۔ بڑے دروازے سے بھی نکل گئے۔ گھرمیں کوئی مرد ملازم نہیں تھا۔ خادمائیں بھی اس رات چھٹی پر تھیں۔ تھوڑی دور ایک درخت کے ساتھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ تینوں آدمی گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ ایک نے تھیلا اپنے آگے رکھ لیا۔ تینوں گھوڑے قاہرہ سے نکل گئے اور سکندریہ کا رُخ کر لیا۔
صبح ملازم آگئے ۔ صلح الدین نے فاطمہ کے متعلق پوچھا ، دو خادمائوں نے اسے تلاش کرکے بتایا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔بہت دیر تک جب اس کا کوی سراغ نہ ملا تو مصلح الدین ایک خادمہ کو الگ لے گیا۔ بہت دیر تک اُس کے ساتھ باتیں کرتا رہا، پھر اُسے غیاث بلبیس کے پاس چلا گیا۔ اُسے کہا کہ اُس کی بیوی لاپتہ ہوگئی ہے۔ اس نے اس شک کا اظہار کیا کہ خضرالحیات کو فاطمہ نے قتل کرایا ہے اور خضر مرتے مرتے انگلی سے ”مصلح ”جو لکھا تھا ، وہ دراصل مصلح کی بیوی لکھنا چاہتا تھا، لیکن موت نے تحریر پوری نہ ہونے دی ۔ اس کے ثبوت میں اُس نے اپنی خادمہ سے کہا کہ وہ بلبیس کو اس آدمی کے متعلق بتائے۔ خادمہ نے بیان دیا کہ پرسوں شاک ایک اجنبی آیا، جس کے چہرے پر نقاب تھا۔ اُس وقت مصلح الدین گھر پر نہیں تھا۔ اُس آدمی نے دروازے پر دستک دی تو یہ خادمہ باہر گئی۔ اجنبی نے کہا کہ وہ فاطمہ سے ملنا چاہتا ہے۔ خادمہ نے کہا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں، ال لیے وہ فاطمہ سے نہیں مل سکتا۔ اس نے کہا کہ فاطمہ سے یہ کہہ دو کہ وہ اشرفیاں واپس کرنے آیا ہے، کہتا ہے کہ میں پوری رقم لوںگا۔ خادمہ نے فاطمہ کو بتایا تو اُس نے اس آدمی کو اندر بلا لیا۔
خادمہ نے بیان میں کہا کہ فاطمہ نے اُسے برآمدے میں کھڑا رہنے کوکہا اوریہ ہدایت دی کہ کوئی آجائے تو میں اسے خبردار کردوں۔ خادمہ کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑ ی رہی۔ اندرکی باتیں جو اُسے سنائی دیں،ان میں اس آدمی کا غصہ اور فاطمہ کی منت سماجت تھی۔ ان باتوں سے صاف پتا چلتا تھا کہ فاطمہ نے اس آدمی سے کہا تھا کہ علی بن سفیان کے نائب حسن بن عبداللہ کو قتل کرنا ہے، جس کے عوض وہ اسے پچاس اشرفیاں اور دو ٹکڑے سونا دے گی۔ خادمہ کو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ فاطمہ نے اس آدمی کو بیس اشرفیاں کس وقت اور کہاں بھیجی تھیں اور کون لے گیا تھا۔ وہ پوری پچاس اشرفیاں مانگ رہا تھا۔ فاطمہ اُسے کہہ رہی تھی کہ اُس نے غلط آدمی کو قتل کیاہے۔ (اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی)یہ نقاب
پوش اجنبی کہہ رہا تھا کہ تم نے یقین کے ساتھ بتایا تھا کہ حسن بن عبداللہ فلاں وقت خضر الحیات کے گھر جائے گا۔ وہ گھات میں بیٹھ گیا۔ اُس نے ایک آدمی کو خضر کے گھر کے دروازے کے قریب جاتے دیکھا۔ اُس کا قد بت حسن بن عبد اللہ کی طرح تھا۔ قتل کرتے وقت اتنی مہلت نہ ملی کہ شکار کو اچھی طرح دیکھ کر یقین لیا جائے۔ تم نے جو وقت بتایا تھا ، یہ وہی وقت تھا۔ میں نے تیر چلا دیا اور وہاں سے بھاگنے کی کی ۔
وہ فاطمہ سے پچاس اشرفیاں مانگ رہا تھا۔ فاطمہ نے پہلے تو منت سماجت کی ، پھر وہ بھی غصے میں آگئی اور کہا کہ اصل آدمی کو قتل کرو گے تو ان بیس اشرفیوں کے علاوہ پچاس اشرفیاں اور سونے کے دو ٹکڑے دوں گی۔ اس آدمی نے کا کہ میں نے کام کر دیا ہے، اس کی پوری اُجرت لوںگا۔ فاطمہ نے انکار کردیا۔ وہ آدمی بڑے غصے میںیہ کہہ کر چلا گیا کہ میں پوری اُجرت وصول کرلوں گا ۔ فاطمہ نے خادمہ کو سختی سے کہا کہ وہ اس آدمی کے متعلق کسی سے ذکر نہ کرے۔ اُس نے خادمہ کو دو اشرفی انعام دیا۔ آج صبح وہ اس کمرے میں گئی تو فاطمہ وہاں نہیں تھی۔ اُسے شک ہے کہ اس آدمی نے انتقاماً اسے اغوا کر لیا ہے۔
غیاث بلبیس نے کچھ سوچ کر مصلح الدین کو باہر بھیج دیا اور خادمہ سے پوچھا …… ”ٍ یہ بیان تمہیں کس نے پڑھایا ہے؟ فاطمہ یا مصلح الدین نے ؟”
”فاطمہ تو یہاں نہیں ہے”۔ اُس نے کہا …… ”یہ میرا اپنا بیان ہے”۔
”مجھے سچ بتا دو”۔ بلبیس نے کہا …… ”فاطمہ کہا ں ہے؟ وہ کس کے ساتھ گئی ہے؟” خادمہ گھبرانے لگی۔ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکی ۔ بلبیس نے کہا …… ”کوتوالی کے تہہ خانے میں جانا چاہتی ہو؟ اب تم واپس نہیں جاسکو گی”۔
وہ غریب عورت تھی ۔ اُسے معلوم تھا کہ کوتوالی کے تہہ خانے میں جا کر سچ اور جھوٹ الگ الگ ہوجاتے ہیں اور اس سے پہلے جسم کے جوڑ بھی الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ وہ رو پڑی اور بولی…… ”سچ کہتی ہوں تو آقا سزا دیتا ہے،جھوٹ بولتی ہوں تو آپ سزا دیتے ہیں ”…… بلبیس نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اُسے تحفظ کا یقین دلایا۔ خادمہ نے کہا …… ”میں نے قتل کے دوسرے روز صرف اتنا دیکھا تھا کہ ایک نقاب پوش آیا تھا۔ آقا مصلح الدین گھر نہیں تھے۔ نقاب پوش نے فاطمہ کو باہر بلایا تھا۔ و ہ بڑے دروازے کے باہر اور فاطمہ اندر تھی ۔ وہ اس کے سامنے نہیں ہوئی۔ ملازموں نے اُسے دیکھا تھا، لیکن کسی نے بھی قریب جا کر نہیں سنا کہ ان کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔ نقاب پوش چلا گیا تو فاطمہ اندر آئی۔ اُس نے چھوٹی سی ایک تھیلی اُٹھا رکھی تھی ۔ فاطمہ کا سر جھکا ہوا تھا ۔ وہ کمرے میں چلی گئی تھی …… دوسری شام مصلح الدین نے چاروں ملازموں اور سائیس کو رات بھر کی چھٹی دے دی تھی۔ چار ملازموںمیں دو مرد اور دو عورتیں ہیں”۔
”اس سے پہلے ملازموں کو کبھی رات بھر کے لیے چھٹی دی گئی ہے؟”…… بلبیس نے پوچھا۔
”کبھی نہیں”۔ اس نے جواب دیا…… ”کوئی ایک ملازم کبھی چھٹی لے لیتا ہے ، سب کو کبھی چھٹی نہیں دی گئی”۔خادمہ نے سوچ کر کہا …… ”عجیب بات یہ ہے کہ آقا نے کہا تھا کہ آج رات کتے کو بندھا رہنے دینا۔ اس سے پہلے ہر رات کتاکھلا رکھا جاتا تھا۔ بڑا خون خوار کتا ہے۔ اجنبی کو بُو پر چیر پھاڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے”۔
”مصلح الدین کے تعلقات فاطمہ کے ساتھ کیسے تھے ؟”غیاث بلبیس نے پوچھا۔
”بہت کچھے ہوئے”۔ خادمہ نے بتایا…… ”آقا ایک بڑی خوبصورت اورجوان لڑکی لایا ہے جس نے آقا کو اپنا غلام بنا لیاہے۔ فاطمہ کے ساتھ آقا کی بول چال بھی بند ہے”۔
غیاث بلبیس نے خادمہ کو الگ بٹھا کر مصلح الدین کو اندر بلا لیا اور باہر نکل گیا۔ واپس آیا تو اس کے ساتھ دو سپاہی تھے۔ انہوں نے مصلح الدین کو دائیں اور بائیں بازوئوں سے پکڑلیا اور باہر لے جانے لگے۔ مصلح الدین نے بہت احتجاج کیا ۔ بلبیس یہ حکم دے کر باہر نکل گیا کہ اسے قید میںڈال دو۔ اُس نے دوسرا یہ حکم دیا کہ مصلح الدین کے گھر پر پہر ہ کھڑا کردو، کسی کو باہر نہ جانے دو۔
٭ ٭ ٭
: اُس وقت فاطمہ قاہرہ سے بہت دُور شمال کی طرف ایک ایسی جگہ پہنچ چکی تھی جہاں اِرد گِرد اونچے ٹیلے، سبزہ اور پانی بھی تھا۔ یہ جگہ عام راہِ گزر سے ہٹی ہوئی تھی۔ وہاں وہ سورج نکلنے کے وقت پہنچی تھی، گھوڑے رُک گئے ۔ اُسے تھیلے سے نکالاگیا، اُس کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا گیا اور ہاتھ پائوں بھی کھول دئیے گئے۔ اُس کے ہوش ٹھکانے نہیں تھے۔ وہ تین نقاب پوشوں کے نرغے میں تھی۔ تین گھوڑے کھڑے تھے۔ فاطمہ چیخنے چلانے لگی۔ نقاب پوشوں نے اُسے پانی پلایا اور کچھ کھانے کو دیا۔ وہ ہاتھ نہیں آرہی تھی۔ اُس کے پیٹ میں پانی اورکھانا گیا اور تازہ ہوا لگی تو جسم میں طاقت آگئی۔ وہ اچانک اٹھی
اور دوڑ پڑی۔ تینوں بیٹھے دیکھتے رہے۔ کوئی بھی اس کے تعاقب میں نہ گیا۔ دُور جا کروہ ایک ٹیلے کی اوٹ میں چلی گیء تو ایک نقاب پوش گھوڑے پر سوارہوا۔ ایڑ لگائی اور فاطمہ کو جا لیا۔ وہ دوڑ دوڑ کر تھک گئی، لیٹ گئی۔ نقاب پوش نے اُسے اُٹھا کر گھوڑے پر ڈال لیا اور خود اس کے پیچھے سوال ہوکر واپس اپنے ساتھیوں کے پاس لے گیا۔
”بھاگو”۔ایک نے اُسے تحمل سے کہا۔ ”کہاں تک بھاگو گی۔ یہاں سے توکوئی تنومند مرد بھی بھاگ کر قاہرہ نہیں پہنچ سکتا”۔ فاطمہ روتی ،چیختی اور گالیاں دیتی تھی۔ ایک نقاب پوش نے اُسے کہا…… ”اگر ہم تمہیں قاہرہ واپس لے چلیں تو بھی تمہارے لیے کوئی پناہ نہیں ۔ تمہیں تمہارے خاوند نے ہمارے حوالے کیا ہے”۔
”یہ جھوٹ ہے”۔ فاطمہ نے چلا کر کہا ۔
”یہ سچ ہے”۔ اس نے کہا ۔ ”ہم نے تمہیں اُجرت کے طور پر لیا ہے۔ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں تمہارے ہاتھ میں بیس اشرفیوں کی تھیلی دے آیا تھا۔ تم نے خاوند نے کہہ دیا کہ تم قاتل ہو اور تم نے بے وقوفی یہ کی کہ اُسے یہ بھی کہہ دیا کہ تم کوتوال کو بتادوگی۔ وہ تم سے پہلے ہی تنگ آیاہوا تھا۔ اُس کی داشتہ نے اُس کے دل اور اس کی عقل پر قبضہ کر لیا تھا۔ میں تمہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ لڑکی کون ہے اور کہاں سے آئی ہے اورکیا کرنے آئی ہے۔ دوسرے دن تمہارا خاوند ہمارے ٹھکانے پر آیا۔ ایسا بے ایمان آدمی ہے کہ اس نے ہمیں خضرالحیات کے قتل کے عوض پچاش اشرفی اور سونے کے دو ٹکڑے دینے کا وعدہ کیا تھا ، مگر کام ہوگیا تو صرف بیس اشرفی بھیجی۔ میں نے تمہیں استعمال کیا اور یہ رقم تمہارے ہاتھ میں دے دی، تا کہ تمہیں بھی اس راز کا عمل ہوجائے۔ ہمارا تیر نشانے پر بیٹھا۔ دوسرے دن وہ ہمارے ٹھکانے پر آیا اور پچاس اشرفیاں دینے لگا۔ سونے کے ٹکڑے پھر بھی ہضم کر رہاتھا۔ میرے ان ساتھیوں نے کہا کہ اب ہم بہت زیادہ اُجرت لیںگے۔ اگر وہ نہیں دے گا تو ہم کسی نہ کسی طرح کوتوال تک خبر پہنچا دیں گے۔ اسے اب خطرہ یہ نظر آرہا تھا کہ تمہیں بھی پتا چل گیا تھا کہ قاتل وہی ہے اس کا علاج اس نے یہ سوچا کہ ہمیں کہا تم میری بیوی کو اُٹھا لے جائو۔ میں تمہارے لیے راستہ صاف کردوں گا۔ ہم جان گئے کہ وہ اپنی داشتہ کے زیر اثر تم سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور اب وہ اس لیے تمہیں غائب کرنا چاہتاتھا کہ تم اس کے جرم کی گواہ بن گئی ہو اور اُسے کہہ بھی چکی ہو کہ تم کوتوال کوخبر کردوں گی”۔
فاطمہ کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔ وہ حیرت زدہ ہو کر اُن تینوں کو باری باری دیکھتی تھی۔ اُن کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ یہ آنکھیں ڈرائونی اور خوفناک تھیں۔ اُن کی زبان میں مٹھاس اور اپنائیت کی جھلک ضرور تھی ۔ انہوں نے اُسے دھمکی نہیں دی ، بلکہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس کا تڑپنا، رونا اور بھاگنا بے کار ہے۔
”میں نے تمہیں دیکھا تھا”۔ نقاب پوش نے اُسے کہا …… ”جب مصلح الدین نے کاہ کہ میری بیوی کو اُجرت کے طور پر اُٹھالے جائو تو میں نے سکندریہ کی منڈی کے بھائو سے تمہاری قیمت کا اندازہ کیا۔ تم ابھی جوان ہو اور خوبصورت بھی ہو۔ تم بڑے اچھے داموں بک سکتی ہو۔ ہم مان گئے۔ اگر تمہارا خاوند ہمیں اتنی زیادہ اُجرت نہ دیتا تم ہم نے اسے بتا دیا تھا کہ اُسے زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا اور اس کی داشتہ کو اغوا کر لیا جائے گا۔ اُس نے ہمیں بتایاکہ آج رات اُس کے گھر میں کوئی ملازم نہیں ہوگا۔ کتا بھی بندھا ہوا ہواگا۔ البتہ بڑا دروازہ اندر سے بند ہوگا کہ تم دیکھ لو تو شک نہ کرو …… ہم تینوں نے ایک دوسرے کے اوپڑ کھڑے ہو کر تمہارے گھر کی دیوار پھلانگی ۔ ہم نے ہاتھوں میں خنجر لے رکھے تھے اورہم سنبھل سنبھل کر چل رہے تھے ، کیونکہ تمہارے خاوند پر بھروسہ نہیں تھا۔ وہ ہمیں مروا سکتا تھا ، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہمارے لیے راستہ واقعی صاف تھا ۔ تمہیں اُٹھایا اور لے آئے”۔
”اِس نے یہ کہانی تمہیں اس لیے سنائی ہے کہ تم اپنے خاوند کے گھر کو دل سے نکال دو”…… دوسرے نقاب پوش نے کہا …… ”ہم تمہیں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ ہم تین آدمی اکیلی عورت کی مجبوری کا فائدہ نہیں اُٹھائیں گے۔ ہم بیوپاری ہیں۔ کرائے کا قتل اور اغوا ہمارا پیشہ ہے۔ ہم تمہارے جسم کے ساتھ کھیل کر خوش ہونے والے نہیں۔ تین مرد ایک عورت کو اغوا اور مجبور کرکے تفریح کریں تو یہ کوئی فخر والی بات نہیں ”۔
”تم سکندریہ کے بازار میں بیچو گے ؟”فاطمہ نے بے بسی کے لہجے میں پوچھا …… ”میری قسمت میں اب عصمت فروشی لکھی ہے؟”
”نہیں”۔ ایک نقاب پوش نے جواب دیا…… ”عصمت فروشی کے لیے جنگلی اور صحرائی لڑکیاں خریدی جاتی ہیں۔ تم حرم کی چیز ہو۔ کسی باعزت امیر کے پاس جائو گی۔ ہمیں بھی تو اچھی قیمت چاہیے۔ ہم تمہیں مٹی میں نہیں پھینکیں گے۔ تم اب رونا اور غم کرنا چھوڑ دو ، تاکہ تمہارے چہرے کی دلکشی اور رونق قائم رہے، ورنہ تم عصمت فروشی کے قابل رہ جائو گی ۔ تھوڑی دیر کے لیے سوجائو”۔
٭ ٭ ٭
یہ دیکھ کر ان لوگوں نے اس کے ساتھ کوئی بے ہودہ حرکت نہیں کی ، دست درازی نہیں کی ، فاطمہ کو کچھ سکون سا محسوس ہوا۔ رات بھیر وہ اذیت میں بھی رہی تھی ۔ تھیلے میں دہری کرکے اسے بند کیا گیاتھا، جسم درد کر رہا تھا۔ وہ لیٹی اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد اُس کی آنکھ کھل گئی۔ اُس کا دل خوف اور گھبراہٹ کی گرفت میں تھا۔ اس صورت حال کو وہ قبول نہیں کر سکتی تھی۔ اُس نے دیکھا کہ تینوں نقاب پوش سوئے ہوئے ہیں۔ وہ بھی رات بھر کے جاگے ہوئے تھے۔ فاطمہ نے پہلے تو یہ سوچا کہ کسی ایک کا خنجر نکال کر تینوں کو قتل کردے، لیکن اتنی جرأ ت نہیں کر سکی۔ تینوں کو قتل کرنا آسان نہیں تھا۔ اُس نے گھوڑے دیکھے۔ ان لوگوں نے زینیں نہیں اُتاری تھیں۔ وہ آہستہ سے اُٹھی اور دبے پائوں ایک گھوڑے تک پہنچی۔ سورج ٹیلوں کے پیچھے جاتا رہا تھا اور فاطمہ کو معلوم ہی نہ تھا کہ وہ قاہرہ سے کسی طرف اور کتنی دورہے۔ اس نے یہ خطرہ مول لے لیا اور صحرا کی وسعت میں بھٹک بھٹک کر مرجائے گی ، ان لوگوں کے ہاتھوں سے ضرور نکلے گی۔
اُسے نے گھوڑے پرسوارہوتے ہی ایڑ لگا دی ۔ ٹاپوئوں نے نقاب پوش کو جگادیا۔ انہوں نے فاطمہ کو ٹیلے کی اوٹ میں جاتے دیکھ لیا تھا۔ دو نقاب پوش گھوڑوں پر سوار ہوئے اور تعاقب میں گھوڑے سرپت بھگا دئیے۔ فاطمہ کے لیے مشکل یہ تھی کہ اُسے ٹیلوں کے قید خانے سے نکلنے کا راستہ معلوم نہیں تھا ۔ صحرائی ٹیلے بھول بھلیوں جیسے ہوتے ہیں ۔ صرف صحرا کے بھیدی ان سے واقف ہوتے ہیں۔ فاطمہ ایسے رُخ ہولی جہاں آگے ایک اور ٹیلے نے راستہ روک رکھا تھا۔اُس نے وہاں جا کر پیچھے دیکھا تو نقاب پوش تیزی سے اس کے قریب آرہے تھے۔ اس نے گھوڑے کو ٹیلے پر چڑھایا اور ایڑ مارتی گئی، گھوڑا اچھا تھا۔ اوپر جا کر پرے اُتر گیا۔ وہ ایک طرف کو گھوڑا موڑ لے گئی۔ آگے راستہ مل گیا۔ نقاب پوش بھی پہنچ گئے۔ فاصلہ کم ہو رہا تھا۔ فاطمہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا، جب اُس نے اپنے سامنے سمندر کی طرح کھلا صحرا اور چار شتر سوار اپنی سمت آتے دیکھے۔ اُس نے چلانا شروع کر دیا …… ”بچائو ، ڈاکوئوں سے بچائو”…… وہ اُن تک پہنچ گئی۔
اُس کے پیچھے دونوں نقاب پوشوں کے گھوڑے باہر آئے۔ شتر سواروں کو دیکھ کر انہوں نے گھوڑوں کی باگیں کھینچیں اور گھوڑے موڑے بھی۔ شتر سواروں نے اونٹ دوڑادئیے۔ ایک نے کمان میں تیر رکھ کر چھوڑا تو تیر ایک گھوڑے کی گردن میں اُتر گیا ۔ گھوڑا درد سے تڑپا، اُچھلا اور بے قابو ہوگیا۔ سوار کود گیا۔ شتر سواروں نے انہیں للکارا تو دوسرے نے گھوڑا روک لیا۔ انہیں معلوم تھا کہ چار شتر سوار تیر اندازوں کی زد میں ہیں۔ فاطمہ نے انہیں بتایا کہ ان کا ایک ساتھی اندرہے۔ ان دونوںکو پکڑ لیا گیا…… یہ چاروں سلطان ایوبی کی فوج کے کسی کشتی دستے کے سپاہی تھے۔ سلطان ایوبی نے سارے صحرا میں کشتی پہرے کا انتظام کر رکھا تھا ، تا کہ اچانک حملے کا خطرہ نہ رہے اور صلیبی تخریب کار مصر میں داخل نہ ہو سکیں۔ ان گشتی دستوں کا بہت فائدہ تھا۔ انہوں نے کئی مشتبہ لوگ پکڑے تھے۔ اب یہ نقاب پوش اُن کے پھندے میں آگئے ۔ فاطمہ نے انہیں بتایا کہ اُسے کس طرح یہاں تک لایا گیا ہے ، وہ کس کی بیوی ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ ناظم مالیات خضرالحیات قتل ہوگیا ہے۔ قتل اس کے خاوند مصلح الدین نے کرایا ہے ، جو شہر کا ناظم ہے اور قاتل ان تینوں میں سے ایک ہے۔
تیسرے نقاب پوش کو بھی پکڑ لیا گیا۔ اُن سے خنجر لے لیے گئے۔ ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دئیے گئے۔ ان کاایک گھوڑا تیر لگنے سے بھاگ گیا تھا۔ ایک گھوڑے پر دو نقاب پوشوں کو اور تیسرے پر ایک کو بٹھا کر سپاہی اپنے کمانڈر کے پاس لے چلے۔ فاطمہ کو انہوں نے اونٹ پر بٹھالیا۔ اس اونٹ کا سوار اپنے ایک ساتھی کے پیچھے سوار ہوگیا۔ اس قافلے کے سامنے چار میل کی مسافت تھی جو انہوں نے سورج غروب ہونے تک طے کرلی۔ وہ ایک نخلستان تھا ، جہاں خیمے بھی نصب تھے۔ یہ اس دستے کا ہیڈ کواٹر تھا۔ فاطمہ کو اس کمان دار کے سامنے پیش کیا گیا۔ تینوں نقاب پوشوں کو پہرے میں بٹھا دیا گیا ۔ انہیں اگلے روز قاہرہ بھیجنا تھا۔
٭ ٭ ٭
صلیبیوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کرک میں بیٹھے بیٹھے صلاح الدین ایوبی کا انتظار نہیں کریں گے۔ انہوں نے فوج کو تقسیم کرنا شروع کردیا۔ فرانس کی فوج کو انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کو راستے میں روکنے کے لیے تیاری کا حکم دیا ۔ ریمانڈ کی فوج مسلمانوں کی فوج پر عقب سے حملے کے لیے مقرر ہوئی۔ کرک کے قلعے کے دفاع کے لیے جرمنی کی فوج تھی، جس کے ساتھ فرانس اور انگلستان کے کچھ دستے تھے۔ انہیں جاسوسوں نے بتا دیا تھا کہ سلطان ایوبی نئی فوج تیار کر رہا ہے۔ صلیبی حکمرانوں نے اس اقدام کا جائزہ لیا کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے ٹریننگ کیمپ پر حملہ کرکے پیچھے ہٹ آئیں، لیکن اُن کی انٹیلی جنس نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ دلیل یہ دی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے دفاع کی تین تہیں بنا رکھی ہیں، جن میں ایک تہہ متحرک ہے۔ اس کے علاوہ اس کے دیکھ بھال کے دستے دور دورتک گھومتے پھرتے ہیں اور صحرا میںہلتی ہوئی ہر چیز کو قریب جا کر دیکھتے ہیں۔ ان دفاعی انتظامات کو دیکھ کر صلیبیوں نے اس حملے کا خیال دل سے نکال دیا۔
ایک امرکی مصنف انٹینی ویسٹ نے متعدد مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ صلیبیوں کے پاس صلاح الدین ایوبی کی نسبت چار گناہ فوج تھی، جس میں زرہ پوش پیادہ اور سوار دستوں کی بہتات تھی۔ اگر یہ فوج صلاح الدین ایوبی پر براہِ راست حملہ کردیتی تو مسلمان زیادہ دیر جم نہ سکتے ، مگر صلیبی فوج کو شوبک کی شکست میں جو نقصان اُٹھانا پڑا، اس کی ایک دہشت بھی تھی جو میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے فوجیوں پر طاری تھی۔ صلیبیوں کامورال متز لزل تھا، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ شوبک کو وہ لوہے کا قلعہ سمجھتے تھے۔ وہ اپنی فوج کو صحرا میں بھیج کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ سلطان ایوبی کو قلعوں سے دور ہی ختم کردیں گے۔ وہ کرک کے دفاع میں بیٹھے رہے اور ایوبی نے شوبک نے لیا اور صحرا میں صلیبیوں کو آمنے سامنے کی جنگ کا موقع دئیے بغیر انہیں چھاپہ ماروں سے مروا دیا ۔ اس کی ”آگ کی ہانڈیوں” نے گھوڑوں اور اونٹوں کو اتنا دہشت زدہ کیا کہ خاصے عرصے تک جانور معمولی سی آگ دیکھ کر بھی بدک جاتے تھے۔ انٹینی ویسٹ نے یہ ثبوت بھی مہیا کیا ہے کہ صلیبی فوج مختلف بادشاہوں اور ملکوں کی مرکب تھی جوبظاہر متحد تھی ، لیکن یہ اتحاد برائے نام تھا کیونکہ ہر بادشاہ او اس کی فوج کا اعلیٰ کمانڈر ملک گیری اور بادشاہی کی توسیع کا خواہش مند تھا۔ ان میں صرف یہ جذبہ مشترکہ تھا کہ مسلمان کو ختم کرنا ہے، مگر ان کے دلوں میں جو اختلافات تھے، وہ اُن کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔
: مورج لکھتے ہیں کہ صلیبی سازشوں کے ماہر تھے اور مسلمانوں کے جس علاقے پر قابض ہوجاتے تھے، وہاںقتل عام اور آبروریزی شروع کردیتے تھے۔ اس کے برعکس صلاح الدین ایوبی محبت اور اخلاقی قدروں کو ایسی خوبی سے استعمال کرتا تھا کہ دشمن بھی اس کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ اس کے علاوہ اُس نے اپنی فوج میں یہ خوبی پیدا کردی تھی کہ دس سپاہیوںکا چھاپہ مار دستہ ایک ہزار نفری کے فوجی کیمپ کو تہس نہس کرکے غائب ہوجاتا تھا۔ یہ لوگ جان قربان کرنے کو معمولی سی قربانی سمجھتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی جس اندازسے میدانِ جنگ میں تھوڑی سی فوج کو ترتیب دیتا تھا ، وہ بڑی سے بڑی فوج کو بھی بے بس کردیتی تھی۔ شوبک اور کرک کے میدان میں بھی اس نے اسی جنگی دانشمندی کامظاہرہ کیا تھا۔ صلیبیوں نے اس کا جائزہ لیا، اپنی فوج کی جسمانی اور جذباتی کیفیت دیکھی تو انہوں نے براہ راست حملے کا خیال چھوڑ دیا اور کوئی دوسرا ڈھونگ لیا، لیکن اس ڈھنگ کے متعلق بھی انہیں شک تھا۔ اس کاعلاج انہوں نے یہ کیا کہ مصر میں بغاوت بھڑکانے اور سوڈانیوں کو مصر پر حملہ کرنے پر اُکسانے کا اہتمام کرلیا۔
مصر کے نائب ناظم امور شہری مصلح الدین کی طرف سے انہیں اُمید افزا رپورٹیں مل رہی تھیں، وہاں ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ مصر کا ناظم خضرالحیات قتل ہوگیا ہے اور مصلح الدین پکڑا گیا ہے۔ کرک تک یہ اطلاع پہنچنے کے لیے کم از کم پندرہ دن درکار تھے، کیونکہ راستے میں سلطان صلاح الدین کی فوج تھی۔ قاصد بہت دُور کا چکر کاٹ کر اور قدم پھونک پھونک کر کر ک جاسکتے تھے۔ بہت دنوں کا چلا ہواایک قاصد اُس رات وہاںپہنچا ، جس رات فاطمہ اغوا ہوئی تھی۔ اُس نے رپورٹ دی کہ بغاوت کے لیے فضا سازگار ہے، لیکن سوڈانی ابھی حملے کے لیے تیار نہیںہیں۔ ن کے ہاں گھوڑوں کی کمی ہے، ان کے پاس اونٹ زیادہ ہیں۔ انہیں کم و بیش پانچ سو اچھے گھوڑوں کی ضرورت ہے۔ اتنی ہی زینیں درکار ہیں۔ فرانسیسی فوج کے کمانڈر نے کہا کہ پانچ سو گھوڑے فوراً روانہ کر دئیے جائیں اور ان کے ساتھ صلیبی فوج کے پانچ سات افسروں کو بھی بھیج دیا جائے جو سوڈانیوں کی جنگی اہلیت اور کیفیت کا جائزہ لے کرحملہ کرائیں۔
صلیبیوں کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی ۔ انہوں نے کرک میں اعلان کردیاکہ مصر پر حملے کے لیے پانچ سو گھوڑوں کی فوری ضرورت ہے۔ عیسائی باشندوں نے تین دنوں میں گھوڑے مہیا کردئیے جو ایسے راستے سے روانہکر دئیے گئے، جس کے متعلق یقین تھا کہ پکڑے نہیں جائیں گے۔ اس کا راہنما وہی جاسوس تھا جو گھوڑے مانگنے آیاتھا۔ وہ سوڈانی تھا اور تین سال سے جاسوسی کر رہا تھا۔ ان گھوڑوں کے ساتھ آٹھ صلیبی فوج کے افسر تھے، جنہیں سوڈانے حملے کی قیادت کرنی تھی۔ انہیں یقین دلایا گیاتھا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج کویہاں سے نکلنے نہیں دیاجائے گا…… سلطان صلاح الدین ایوبی کو صرف یہ معلوم تھا کہ مصر کے حالات ٹھیک نہیں ، لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ حالات آتش فشاں پہاڑ بن چکے ہیں جو پھٹنے والا ہے۔ علی بن سفیان نے اسے یہ تسلی دے رکھی تھی کہ اُس نے جاسوسی کا جو جال بچھایا ہے، وہ خطروں سے قبل از وقت خبردار کردے گا۔ انہیں خضرالحیات کے قتل اور مصلح الدین کی گرفتاری کا بھی علم نہیں تھا۔ غیاث بلبیس کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع بجھوادے ، لیکن اُس نے یہ کہہ کر اس مشورے پر عمل نہیں کیا تھا کہ تفتیش مکمل کرکے اصل صورت حال سے سلطان ایوبی کو آگاہ کرے گا۔
فاطمہ کو گشتی دستے کے کمانڈر نے رات الگ خیمے میں رکھا۔ سحر کا دُھندلگا ابھی صاف نہیں ہوا تھا۔ اب اُسے اور تینوں نقاب پوشوں کو آٹھ محافظوں کے ساتھ قاہرہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ یہ قافلہ سورج غروب ہونے کے بعد قاہرہ پہنچا اور سیدھا کوتوالی گیا۔ غیاث بلبیس اس واردات کی تفتیش میں مصروف تھا۔ اُس وقت وہ تہہ خانے میں تھا۔ اُس نے مصلح الدین کے گھر کے تلاشی لی اور وہاں سے اُس کی داشتہ کر برآمد یاتھا۔ وہ اپنے آپ کو ازبک مسلمان بتاتی تھی۔ اُس نے بلبیس کو گمراہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس کے جواب میں بلبیس نے اُسے اُس کوٹھری کی جھلک دکھائی ، جہاں بڑے بڑے سخت جان مرد بھی سینے کے راز اُگل دیا کرتے تھے۔ لڑکی نے اعتراف کرلیا کہ وہ یروشلم سے آئی ہے اورعیسائی ہے۔ اُس نے اعتراف کے ساتھ بلبیس کو اپنے جسم اوردولت کے لالچ دینے شروع کردئیے۔ بلبیس نے مصلح الدین کے گھرکی تلاشی میں جو دولت برآمد کی تھی، اس نے اُس کا دماغ ہلا دیا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ مصلح الدین کیوں صلیبیوں کے جال میں پھنس گیا تھا۔ خود لڑکی اس قدر پر کشش اورچرب زبان تھی کہ اُسے ٹھکرانے کے لیے پتھر دل کی ضرورت تھی۔
بلبیس نے اپنا ایمانت ٹھکانے رکھا۔ اُس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ تو کوئی بہت بڑی سازش تھی جس کی کڑیاں یروشلم سے جا ملتی ہیں۔ اُس نے لڑکی سے کہاکہ وہ ہر ایک بات بتا دے۔ لڑکی نے جواب میں کہا …… ”فا طمہ کو گشتی دستے کے کمانڈر نے رات الگ خیمے میں رکھا۔ سحر کا دُھندلگا ابھی صاف نہیں ہوا تھا۔ اب اُسے اور تینوں نقاب پوشوں کو آٹھ محافظوں کے ساتھ قاہرہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ یہ قافلہ سورج غروب ہونے کے بعد قاہرہ پہنچا اور سیدھا کوتوالی گیا۔ غیاث بلبیس اس واردات کی تفتیش میں مصروف تھا۔ اُس وقت وہ تہہ خانے میں تھا۔ اُس نے مصلح الدین کے گھر کے تلاشی لی اور وہاں سے اُس کی داشتہ کر برآمد یاتھا۔ وہ اپنے آپ کو ازبک مسلمان بتاتی تھی۔ اُس نے بلبیس کو گمراہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس کے جواب میں بلبیس نے اُسے اُس کوٹھری کی جھلک دکھائی ، جہاں بڑے بڑے سخت جان مرد بھی سینے کے راز اُگل دیا کرتے تھے۔ لڑکی نے اعتراف کرلیا کہ وہ یروشلم سے آئی ہے اورعیسائی ہے۔ اُس نے اعتراف کے ساتھ بلبیس کو اپنے جسم اوردولت کے لالچ دینے شروع کردئیے۔ بلبیس نے مصلح الدین کے گھرکی تلاشی میں جو دولت برآمد کی تھی، اس نے اُس کا دماغ ہلا دیا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ مصلح الدین کیوں صلیبیوں کے جال میں پھنس گیا تھا۔ خود لڑکی اس قدر پر کشش اورچرب زبان تھی کہ اُسے ٹھکرانے کے لیے پتھر دل کی ضرورت تھی۔
بلبیس نے اپنا ایمانت ٹھکانے رکھا۔ اُس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ تو کوئی بہت بڑی سازش تھی جس کی کڑیاں یروشلم سے جا ملتی ہیں۔ اُس نے لڑکی سے کہاکہ وہ ہر ایک بات بتا دے۔ لڑکی نے جواب میں کہا …… ”میں جو کچھ بتا سکتی تھی ، بتا دیا ہے۔ اس سے آگے کچھ بتائوں گی تو یہ صلیب کے ساتھ دھوکا ہوگا۔ میں صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھا چکی ہوں کہ اپنے فرض کی ادائیگی میں جان دے دوں گی۔ میرے سا تھ جو سلوک کرنا چاہو کرلو، کچھ نہیںبتائوں گی۔ اگر مجھے آزاد کرکے یروشلم یاکرک پہنچا دو گے تو منہ مانگی دولت تمہارے قدموں میں رکھ دی جائے گی۔ مصلح الدین تمہاری قید میں ہے۔ اس سے پوچھ لو، وہ تمہارا بھائی ہے۔ شاید کچھ بتا دے”۔
بلبیس نے اُس سے مزید کچھ بھی نہ پوچھا۔ وہ مصلح الدین کے پاس چلا گیا۔ مصلح الدین بڑی بری حالت میں تھا۔ اسے چھت کے ساتھ اس طرح لٹکایا گیا تھا کہ رسہ کلائیوں سے بندھا تھا اوراس کے پائوں فرش سے اوپر تھے۔ بلبیس نے جاتے ہی اُس سے پوچھا …… ”مصلح دوست! جو پوچھتا ہوں ، بتادو۔ تمہاری بیوی کہاں ہے؟ اور اسے کس سے اغوا کرایا ہے؟ اب تمہیں کچھ اور باتیں بھی بتانی پڑیں گی۔ تمہاری داشتہ اپنے آپ کو بے نقاب کرچکی ہے”۔
”کھول دے مجھے ذلیل انسان!”…… مصلح الدین نے غصے اور درد سے دانت پیس کر کہا …… ”امیر مصر کو آنے دے۔ میں تیرا یہی حشر کرائوں گا”۔
اتنے میں بلبیس کے ایک اہل کار نے آکر اس کے کان میں کچھ کہا۔ حیرت سے اُس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔ وہ دوڑتا ہوا تہ خانے سے نکلا اور اوپر چلا گیا۔ وہاں مصلح الدین کی بیوی اور اُسے اغوا کرنے والے تین آدمی بیٹھے تھے۔ فاطمہ نے اُسے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوئی اور تینوں کس طرح پکڑے گئے ہیں۔ بلبیس فاطمہ اور تین مجرموں کو تہ خانے میں لے گیااور مصلح الدین کے سامنے جا کھڑا کیا۔ مصلح الدین نے انہیں دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ بلبیس نے پوچھا …… ”ان تینوں میں سے قاتل کون ہے؟”…… مصلح الدین خاموش رہا۔ بلبیس نے تین دفعہ پوچھا۔ وہ پھربھی خاموش رہا۔ بلبیس نے تہ خانے کے ایک آدمی کواشارہ کیا۔ وہ آدمی آگے گیا اور مصلح الدین کی کمر کے گرد بازو ڈال کراس کے ساتھ لٹک گیا۔ اس آدمی کاوزن مصلح الدین کی کلائیاں کاٹنے لگا جو رسے سے بندھے ہوئی تھیں۔ اُس نے درد سے چیختے ہوئے کہا …… ”درمیان والا”۔
بلبیس تینوں کو الگ لے گیا اور انہیں کہا کہ وہ بتادیں کو وہ کون ہیں اور یہ سارا سلسلہ کیا ہے، ورنہ یہاں سے زندہ نہیں نکل سکیں گے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور بولنے پر رضا مند ہوگئے۔ بلبیس نے انہیں الگ الگ کر دیا اور فاطمہ کو اوپر لے گیا۔ فاطمہ نے اُسے وہی بات سنائی جو سنائی جا چکی ہے۔ اُس نے اپنے متعلق یہ بتایا کہ اس کی ماں سوڈانی اورباپ مصر ی ہے۔ تین سال گزرے، وہ اپنے باپ کے ساتھ مصر آئی۔ مصلح الدین نے اُسے دیکھ لیا اور اس کے باپ کے پاس آدمی بھیجے۔ اسے یہ معلوم نہیں کہ رقم کتنی طے ہوئی۔ اب اسے مصلح الدین کے گھر چھوڑا گیا اور ایک تھیلی لے کر چلا گیا۔ مصلح الدین نے ایک عالم اور چند ایک آدمیوں کو بلا کرباقاعدہ نکاح پڑھوایا اور وہ اس کی بیوی بن گئی۔ اُسے شک تھاکہ باپ اُسے یہاں بیچنے کے لیے ہی لایاتھا۔ مصلح الدین کے خلاف اُسے کبھی بھی شک نہیں ہوا تھا کہ وہ اتنا برا آدمی ہے۔ وہ شراب نہیں پیتا تھا۔ اس کی باہر کی سرگرمیوں کے متعلق فاطمہ کو کچھ بھی معلوم نہیں
: لدین ایوبی نے شوبک کی طرف کوچ کیا تواس کے فوراً بعد مصلح الدین میں ایک تبدیلی آئی ۔ وہ رات بہت دیر تک باہر رہنے لگا۔ ایک رات فاطمہ نے دیکھا کہ وہ شراب پی کر آیاہے۔ فاطمہ کا باپ شرابی تھا۔ وہ شراب کی بواور شرابی کو پہچان سکتی تھی ۔ اُس نے مصلح الدین کی محبت کی خاطر یہ بھی برداشت کیا۔ پھر گھر میں رات کے وقت اجنبی سے آدمی آنے لگے۔
٭ ٭ ٭
گھٹا ٹوپ اندھیرا:
پہلی صلیبی جنگ کا دوسرا دور صلیبیوں کی کامیابی پر منتج ہوا۔ ان کی پے در پے فتوحات نے عراق، شام اور فلسطین کے مسلمانوں کو لامتناہی مصائب و آلام میں مبتلا کردیا۔ ان بیچاروں کی نہ جان محفوظ تھی نہ آبرو۔ چند سال کے اندر اندر صلیبی اقتدار کے سیلاب نے بڑے وسیع علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جن میں ایڈیسہ، انطاکیہ، یروشلم، بیروت ،طرابلس، عکہ، صور، صیدان، ارسوف، قیصاریہ، اڈانا، ممترا، طرطوس اور بانیاس جیسے بارونق شہر بھی شامل تھے۔
اس اقتدار کو عیسائیوں کے دو انتہا پسند مذہبی فرقوں نے بڑی تقویت پہنچائی۔ کہنے کو تو ان کا نام ٹمپلرز (خُدامِ معبد) اور ہاسپیٹلرز (خدام شفاخانہ) تھا، لیکن ان دونوں فرقوں نے اپنے آپ کو فوجی بنیادوں پر منظم کرلیا تھا اور عیسائی سلطنت کی پشت و پناہ بن گئے تھے۔ وہ مسلمانوں کے جانی دشمن تھے اور ان کو دکھ پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی جارحانہ سرگرمیوں اور دہشت انگیزیوں سے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا تھا۔ امام ابن اثیر کا بیان ہے کہ: ”ان لوگوں کے انسانیت سوز افعال سے شیطان بھی پناہ مانگتا تھا۔“
(ٹیمپلرز (Templers) ابتداء میں یہ ایک مذہبی تنظیم تھی جس کی بنیاد 1118ء میں رکھی گئی۔ اس کا مرکز یروشلم میں تھا اور اس کا مقصد یروشلم کے عیسائی زائرین کی حفاظت کرنا تھا۔ 1186ء میں یروشلم کو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے فتح کرلیا تو ان لوگوں نے قبرص کو اپنا مستقر بنا لیا۔ ان میں سے کچھ لوگ لندن جا کر آباد ہوگئے، لندن کا یہ علاقہ آج بھی ٹمپل (The Temple) کے نام سے مشہور ہے اور وہاں ایک گرجا ان لوگوں کی یاد دلاتا ہے۔ تیرھویں صدی عیسوی کے آخر میں اس فرقہ کا خاتمہ ہو گیا۔
ہاسپیٹلرز (Hospitallers) ابتداء میں یہ بھی ایک خالص مذہبی تنظیم تھی جس کا مقصد بوڑھے اور بیمار عیسائیوں کی خبر گیری اور یروشلم کے عیسائی زائرین کی ضرورتوں کو پورا کرنا تھا، اس کی بنیاد 1050ء میں رکھی گئی۔ بعد میں یہ ایک زبردست فوجی تنظیم کی صورت اختیار کرگئی۔ جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے یروشلم کو فتح کیا تو یہ لوگ قبرص چلے گئے، پھر انہوں نے روڈس اور آخر میں مالٹا کو اپنا مرکز بنایا۔ 1799ء میں اس تنظیم کا بھی خاتمہ ہوگیا۔)
ارضِ شام و فلسطین وغیرہ کے بدقسمت مسلمانوں کے لیے صلیبی اقتدار ایک گھٹا ٹوپ اندھیرے کی مانند تھا، جس میں ان کو روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ 1099ء سے لے کر 1128ء تک کا زمانہ مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی پُر آشوب دور تھا۔
اہلِ یورپ کو جن حالات میں ایشیا کے اسلامی ممالک پر حملہ کرنے کی جرات ہوئی، ان کا مختصر سا خاکہ پہلے باب میں کھینچ دیا گیا ہے، لیکن تعجب ہے کہ صلیبیوں کی مسلسل فتوحات اور چیرہ دستیوں نے بھی مسلمان حکمرانوں کو بیدار نہ کیا، وہ بدستور آپس میں لڑتے بھڑتے رہے اور اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی طرف مطلق توجہ نہ کی۔
یہ صحیح ہے کہ صلیبی اقتدار کی ہلاکت خیزیوں سے حمص، حماۃ، دمشق، موصل اور حلب کے شہر کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوگئے تھے، لیکن مصیبت یہ تھی کہ ارد گرد بجلیاں کوندتے دیکھ کر بھی ان شہروں کے حکمرانوں میں باہمی اتحاد و تعاون کے جذبے کا فقدان تھا۔ ایشیائے کوچک کے مردِ مجاہد قلیج ارسلان اور مقامی امیروں نے اس زمانہ میں بعض دفعہ انفرادی طور پر صلیبیوں کے خلاف جدوجہد کی اور ان کو شکستیں بھی دیں، لیکن کسی ایک مرکز سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی کامیابیوں کا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے اور ان علاقوں کے مسلمان مسلسل صلیبیوں کے مظالم کا تختۂ مشق بنتے رہے۔
(صلیبیوں کی مسلسل فتوحات نے اہل یورپ کے خون میں پھر حرارت پیدا کردی اور بارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ان کے مزید لشکروں نے مسلمانوں کی سرزمین ہتھیانے کے حرص میں مبتلا ہوکر ارض مشرق کا رخ کیا۔ ان میں سب سے بڑا لشکر ڈیوک ولیم آف اکیوٹین اور سٹیفنز آف برگنڈی کی قیادت میں ایشیائے کو چک میں داخل ہوا۔
ان کے ساتھ صلیبیوں کا نامور سردار ریمنڈ (ریماں) بھی آملا۔ اس لشکر کی مجموعی تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ سلطان قلیج ارسلان اور امیر کربوغا والیٔ موصل نے متحد ہوکر ہیلس کے کنارے پر صلیبیوں کے اس زبردست لشکر کا مقابلہ کیا اور اس کو ایسی خوفناک شکست دی کہ بہت کم صلیبی اپنی جانیں سلامت لے جاسکے۔
اس کے بعد ڈیڑھ لاکھ صلیبی جنگجوؤں پر مشتمل دو اور فوجیں کونٹ ڈی نرد اور کونٹ آف پوئیٹرس اور ڈیوک آف بویریا کے ماتحت قسطنطنیہ سے روانہ ہوئیں۔ ان دونوں فوجوں کو بھی قلیج ارسلان اور امیر کربوغا نے یکے بعد دیگرے تباہ کردیا۔ صرف ایک ہزار صلیبی بڑی مشکلوں سے موت یا غلامی سے بچے۔
495ھ میں امیرِ کربوقا نے وفات پائی۔ اس کے بعد موصل پر امیر جرکمیش (جکرمش) نے قبضہ کرلیا، امیر جرکمیش اور امیر سقمان اور تقی والیٔ حصن کیفہ ایک دوسرے کے مخالف تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو صلیبیوں کے خلاف متحد ہو جانے کی توفیق دی اور انہوں نے حران کے باہر صلیبی طالع آزماؤں کا مقابلہ کیا۔ امیر سقمان کے ساتھ سات ہزار ترکمان اور امیر جرکمیش کے ساتھ تین ہزار عرب اور کرد تھے، ان کے مقابلہ پر صلیبیوں کی تعداد چالیس ہزار تھی جس کی قیادت بالڈون دوم (یروشلم کا آئندہ بادشاہ) جوسلن حاکم طبریہ اور بوہمنڈ کر رہے تھے۔
تین روز کی خوفناک جنگ کے بعد صلیبی ہزیمت اٹھا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور بالڈون اور جوسلن مسلمانوں کے ہاتھ اسیر ہوگئے۔ بوہمنڈ اور اس کا بھتیجا بھاگ کر ایڈیسہ چلے گئے۔ امیر جرکمیش کی وفات کے بعد جادلی والیٔ موصل نے عیسائیوں سے سازش کر کے بالڈون اور جوسلن کو رہا کردیا۔
اسی زمانہ میں ایک دفعہ ہمنڈ والیٔ انطاکیہ مسلمان علاقوں کو تاخت و تاراج کرنے کی مہم پر نکلا ہوا تھا، دانشمندیہ خاندان کا حکمران محمد کمشتگین ابن دانشمند اس پر جا پڑا اور صلیبی لشکر کے پرخچے اڑا دیے۔ بوہمنڈ اور اس کے چچا زاد بھائی رچرڈ کو مسلمانوں نے قیدی بنالیا اور کہیں چار سال بعد انہوں نے فدیہ دے کر رہائی حاصل کی۔
1113ء میں یروشلم کے بادشاہ بالڈون نے دمشق پر چڑھائی کی، امیر طغتگین والیٔ دمشق نے امیر مودود والیٔ موصل سے مدد مانگی۔ امیر مودود اُس دور کا بہت بڑا مجاہد تھا اور اس نے اپنے طوفانی حملوں سے صلیبیوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ جونہی والیٔ دمشق کا پیغام ملا، وہ خم ٹھونک کر صلیبیوں کے مقابلہ پر آ گیا۔
منجار اور ماردین (maridin) کے مسلم حکمران بھی اس کے ساتھ مل گئے، ان سب نے مل کر جھیل طبریہ (Tiberias) کے پاس ایک خونریز لڑائی میں صلیبیوں کو شکست فاش دی۔ ان کے ہزاروں آدمی میدانِ جنگ میں کھیت رہے اور ایک بڑی تعداد جھیل طبریہ اور دریائے اردن (جورڈن) میں ڈوب کر ہلاک ہوگئی۔ افسوس کہ امیر مودود کو اسی سال ایک باطنی (اسماعیلی شیعہ) خودکش حملہ آور نے جامع دمشق میں شہید کردیا اور عالم اسلام ایک ایسے عظیم مجاہد سے محروم ہوگیا جسے اللہ تعالٰی نے قیادت کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔
جون 1119ء میں امیر نجم الدین الغازی والیٔ ماردین نے البلاط کے مقام پر صلیبیوں کو ایک زبر دست شکست دی۔ اسی طرح اس زمانے میں مصریوں نے بعض ساحلی جنگوں میں صلیبیوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔)
بغداد کی عباسی خلافت اور مصر کی فاطمی (شیعی) خلافت ایک دوسرے کی حریف تھیں، ان کا ایک مرکز پر جمع ہونا تو امرِ محال تھا، لیکن اپنے طور پر بھی ان میں اتنی سکت نہ تھی کہ صلیبیوں سے نبرد آزما ہوسکیں۔ مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی تھی اور بغداد اور قاہرہ کے حکمران "ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم” کا مصداق بنے ہوئے تھے۔
اس پُر آشوب دور میں چشمِ فلک نے یہ نظارے بھی دیکھے کہ مسلمان حکمران اور امراء ایک دوسرے کے خلاف صلیبیوں سے مدد لے رہے ہیں یا ان کو مدد دے رہے ہیں۔ (تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو)
(صلیبیوں نے جن دنوں انطاکیہ کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ شیعہ فاطمی حاکمِ مصر نے محصور مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے عیسائیوں کے پاس سفیر بھیجے اور بہت کچھ رعایتیں دے کر ان سے صلح کرنے کی کوشش کی۔ مؤرخ مچاڈ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ: مصر کے شیعہ حاکم کے سفیروں نے صلیبیوں کو مبارکباد دی کہ انہوں نے فاطمی (شیعی) خلافت کے دشمنوں (یعنی ترکوں) پر فتح حاصل کرلی ہے، لیکن صلح کی یہ گفت و شنید صلیبیوں کے جوش جنون کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی۔
اس کے بعد جب صلیبیوں نے عرقہ کا محاصرہ شروع کیا تو مصر کے شیعہ حاکم نے پھر ان کے پاس سفیر بھیجے جو اپنے ساتھ عیسائی سرداروں کے لیے بیش بہا تحائف لےکر گئے۔ صرف گاڈ فری ڈی بوئکن کے لیے چالیس ہزار دینار نقد، تیس خلعتِ پارچات (قیمتی ملبوسات) بہت سے سونے چاندی کے برتن اور ایک عربی گھوڑا تھا۔
500ھ میں سلطان محمد سلجوقی نے جادلی سقادا کو موصل کا امیر مقرر کیا۔ کچھ عرصہ بعد سلطان اس سے بدظن ہوگیا اور امیر مودود کو ایک لشکر جرار دے کر جادلی کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ جادلی شکست کھا کر بھاگ نکلا اور الغازی صاحبِ ماردین کے پاس پناہ لی، جب وہاں بھی بچاؤ نہ دیکھا تو صلیبیوں سے ساز باز کرلی اور بالڈون اور جوسلن کو جو اس کی قید میں تھے رہا کردیا۔
بالڈون کے زمانۂ اسیری میں اس کی ریاست ایڈیسہ (عدیسہ) پر ٹنکرڈ نے قبضہ کرلیا تھا۔ بالڈون نے جادلی سے مدد لے کر ایڈیسہ پر چڑھائی کردی۔ ادھر ٹنکرڈ نے رضوان بن تتش امیرِ حلب سے مدد مانگی۔ رضوان نے مسلمانوں کے مفاد سے غداری کرتے ہوئے ٹنکرڈ کو بھر پور مدد دی۔ طل بشر کے پاس دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی۔ اس لڑائی میں مسلمان متحارب صلیبیوں کے مددگار بن کر ایک دوسرے کے خلاف جنگ کر رہے تھے، حالانکہ وہ چاہتے تو صلیبیوں کی نا اتفاقی سے کما حقہ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
دمشق کے امیر تشتگین نے 522ھ/ 1128ء میں وفات پائی تو اس کے جانشین تاج الملوک بوری کےاسماعیلی (شیعہ) وزیر نے 1129ء میں دمشق عیسائیوں کو دے ڈالنے کی سازش کی، لیکن اس سازش کا بروقت انکشاف ہوگیا اور دمشق عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے سے بچ گیا، بانیاس کے غدار حاکم اسماعیل نے اپنا شہر صلیبیوں کے حوالے کردیا اور خود انہی کے پاس یروشلم میں جا کر مقیم ہو گیا۔
بالڈون ثانی شاہِ یروشلم ایک دفعہ رملہ (فلسطینی علاقہ) میں مقیم تھا کہ مسلمانوں نے شہر کو گھیر لیا۔ بالڈون کے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہ تھی، لیکن ایک مسلمان فوجی نے کسی پرانے احسان کا بدلہ چکانے کے لیے اس دشمنِ اسلام کی مدد کی اور اس کو ایک پوشیدہ راستے سے نکال کر ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنی فوجوں کو منظم کرکے مسلمانوں پر ایک بھر پور حملہ کیا، جس کی تاب نہ لا کر انہیں پسپا ہونا پڑا۔ اس قسم کے اور بھی متعدد واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں دینی غیرت اور حمیت کا کس قدر فقدان تھا۔)
اس پر مستزاد یہ کہ اس افراتفری میں اسماعیلی (شیعہ) دہشت پسندوں (یعنی حسن ابن صباح کے پیروکار باطنی خودکش حملہ آوروں) کی خوب بن آئی تھی۔ ایک طرف تو وہ حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنی سلطنت (دولتِ اسماعیلیہ مشرقیہ یا دولت ملاحدہ کہستان) کو وسیع سے وسیع تر کر رہے تھے اور قلعہ گرد کوہ، لامسر، رودبار، طبس، کہستان، خور، خوسف، قائین، تون وغیرہ پر قبضہ کر چکے تھے۔
اور دوسری طرف اپنی دہشت گردی سے بالواسطہ صلیبیوں کے ہاتھ مضبوط کررہے تھے جو مسلمان حکمران، امیر، والی یا عالم ان کے خلاف ذرا بھی حرکت کرتا۔ باطنی خودکش حملہ آور (حشیشین) فوراً پہنچ کر اس کا کام تمام کردیتے تھے۔ دنیائے اسلام کی کئی نامور شخصیتیں ان کی خون آشامی کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں۔
امیر مودود صاحبِ موصل، آقستقر برسقی، قاضی ابوسعید ہروی، جناح الدولہ قاضی ابوالعلا صاعد نیشا پوری، عبداللطیف خجندی، فاطمی خلیفۂ مصر الآمر باحکام اللہ، عباسی خلیفہ المسترشد باللہ، دولت شاہ علوی حاکم اصفہان، قاضی عبدالواحد وزیر فخرالملک ابوالمظفر بن خواجہ نظام الملک وغیرہ جیسے اکابرِ وقت اُس پُر آشوب دور میں باطنی فدائیوں (حشیشین خودکش حملہ آوروں) کی تلواروں کا شکار ہوئے۔
ستم بر ستم یہ کہ باطنی (شیعہ) فدائی صلیبیوں کی طرح حجاج کے قافلوں کو بھی لوٹنے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ غرض اس بد قسمت سرزمین کے مسلمان چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے۔ باہمی تشتت وافتراق نے ان کو ذلت و ادبار کے عمیق گڑھے میں گرا دیا تھا۔ خود عیسائی مؤرخ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت صرف اس لیے تھی کہ ان کی طاقت منقسم تھی اور وہ باہمی تنازعات اور لڑائیوں میں الجھے ہوئے تھے۔ (لین پول۔ فلپ کے حتی وغیرہ)
مؤرخ ابن اثیر نے اس پُر آشوب دور کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے: "عیسائیوں کی تعداد بہت زیادہ اور ان کی فوجیں بہت جوشیلی اور طاقتور تھیں۔ ان کے ظلم وجور حد سے بڑھ گئے تھے۔ بغیر کسی ڈر کے وہ جو چاہتے کر گزرتے تھے۔ ان کی سلطنت بالائی الجزیرہ میں ماردین سے لےکر مصر کی سرحد العریش تک پھیلی ہوئی تھی۔
حران اور رقہ میں انہوں نے بڑی تباہی مچائی تھی، ان کا شیطانی سیلاب نصیبین کے دروازوں تک پہنچ گیا تھا۔ انہوں نے حیہ کے صحرائی راستہ کے سوا دمشق کو جانے والے تمام راستے بند کر دیے تھے اور شہروں پر بلا لحاظ آبادی خراج (ظالمانہ ٹیکس) لگا دیا تھا، حلب سے چند قدم باہر انہی کا سکہ چلتا تھا۔ کوئی شخص خواہ وہ خدا کا ماننے والا تھا یا دہریہ ان کی دستِ بُرد سے بچا ہوا نہ تھا۔ ان کے فوجی دستے اور دہشت پسند گروہ (ہاسپیٹلرز اور ٹمپلرز) جزیرہ ابن عمر اور رأس العین تک چھاپے مارتے تھے۔
دیارِ بکر میں عمید تک اور حماۃ سے حلب تک کے علاقے ان کی لوٹ مار کی آماجگاہ بن گئے تھے۔ تجارتی قافلے ان رہزنوں کے خوف سے بند ہوگئے تھے اور تجارت کا نام ونشان تک مٹ گیا تھا۔ ہر طرف خوف و ہراس کا عالم تھا اور مسلمان عجب بے بسی کی حالت میں تھے۔“
ان نازک حالات میں مظلوم مسلمانوں کی دعائیں بالآخر رنگ لائیں۔ یکایک اُفقِ مشرق پر ایک درخشندہ ستارہ نمودار ہوا، جس کی تیز روشنی سے صلیبی غارت گروں کی آنکھیں چندھیا گئیں اور مسلمانوں کے پژمردہ قلوب امید اور یقین کے نور سے معمور ہو گئے، مسلمانوں کے لیے فرشتۂ رحمت بن کر ظاہر ہونے والا یہ کوکب درخشندہ ابوالجود عمادالدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ تھا۔
(واضح رہے کہ یہ وہ زنگی بن سنغر نہیں جو دانائے مشرق شیخ سعدی کے مربی ابو بکر بن سعد زنگی والیٔ فارس کا جدِ امجد تھا۔)
اس مردِ مجاہد نے اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور صلیبیوں کے مقابلے میں بے سہارا مسلمانوں کے لیے ڈھال بن گیا۔ اس نے اپنی مجاہدانہ ضربوں سے صلیبیوں کی صفوں میں جگہ جگہ رخنے ڈال دیے اور صلیبی اقتدار کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
ماخوذ از ”المَلِکُ العادل سلطان نور الدین محمود زنگیؒ“
تصنیف: طالب ہاشمی صاحب