میں نے دفتر روانگی سے قبل اپنے ننھے بیٹے کو گود میں لے کر پیار کیا۔ وہ میری ٹانگوں سے لپٹ گیا تھا ۔ ابھرتے شعور کے ساتھ وہ یہ سمجھنے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ میں یہ میرے جانے کا وقت ہے اور اب ملاقات شایدگہری شام یا رات ہی کوہوپائے۔ اس کی ننھی آنکھوں سے ساتھ لے جانے کی معصوم خواہش ٹپک رہی تھی اور بچھڑ جانے کے ڈر سے اس کی گرفت میری ٹانگوں کے گرد مضبوط ہوچکی تھی ۔ میں نے بمشکل اسے خود سے جدا کیااورگاڑی کی جانب جانب بڑھنے لگا۔ہر بار کی طرح لنچ باکس بھولنے لگا تھا کہ بیگم نے پھر سے یاد کروایا اور جب تک میں اسے لے کر روانہ نہیں ہوگیا میری نگرانی کی۔ میرے تصور میں اب بھی میرے بیٹے کا چہرہ تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ خود باپ بننے سے پہلے اپنے والدِ محترم کی وہ قدرہر گز نہیں ہوسکتی جو اس انوکھے تجر بے کے بعد ہوتی ہے۔دفتر پہنچتے ہی مجھے بھابی کافون آیا، اس کے بعد بھائی کا فون آیاتھااوراس نے والدہ سے بات کروائی ؛ سبھی لوگ بہت پریشان تھے اور ان کا ایک ہی تقاضہ تھا کہ میں جلد از جلدواپس گھر پہنچوں۔وجہ میری بیگم تھی، بلکہ حقیقت میں میرے سسر صا حب تھے ، ان پر فالج کا حملہ ہو تھا ۔ سسرال سے فون وصول ہوتے ہی میری بیگم کی اپنی حالت غیر ہونے لگی تھی کہ اسے والدہ کا ساتھ کم ہی نصیب ہوا تھااور والدِ محترم ہی کل کائنات تھے۔ میں نے بہت سے ادھورے کام پھر کل پر چھوڑے اورواپس گھر پہنچ گیا۔ گھر پر سبھی لوگ بیگم کو تسلی دینے کی کوشش کررہے تھے اور وہ روئے جارہی تھی۔ چند منٹوں بعد میں فیصل آباد سے حافظ آباد کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔
Iحافظ آباد پہنچ کر معلوم ہوا کہ سسر صاحب کو لاہور لے جاچکے ہیں کہ چھوٹے شہروں میں اتنے قابل ڈاکٹر نہیں ملتے۔ میں اس بات سے کسی حد تک متفق تھا اور کسی حد تک نہیں بھی۔ یہ بجا ہے کہ لاہور کو پیرس بنانے کے خواب نے حکومتِ وقت کی توجہ چھوٹے شہروں کے مکینوں سے ہٹا دی ہے اور صحت و تعلیم کبھی بھی ہماری اہم ضروریات میں شامل نہیں رہے ہیں لیکن اس کے باوجود موجودہ نظام میں رہتے ہوئے بھی مریضوں کے ساتھ پورا پورا انصاف نہیں ہو رہا ۔ لاہور سے طبی امداد کے بعد شام کے وقت سسر صاحب کو واپس حافظ آباد لے آیا گیا۔ اب جو صورتِ حال میرے سامنے تھی وہ بالکل چکرا کر رکھ دینے والی تھی۔ انہیں ہائی بلڈ پریشرکا مسئلہ کافی دیر سے تھا۔ایسے میں کسی حکیم نے یہ مشورہ دیا تھا کہ گرم چیزیں مثلاً کھجور، زیتون کا تیل، گوشت، پائے وغیرہ زیادہ سے زیادہ کھانے سے یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ ’’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘‘کے مصداق انہوں نے اس انوکھی معلوما ت پر عمل شروع کیا اور اس کا نتیجہ ہائی بلڈ پریشرکی صورت میں دماغ کی رگ کے پھٹ جانے کی صورت میں نکلا جسے عرفِ عام میں فالج کہا جاتاہے ۔ جس وقت ہائی بلڈ پریشر کی صورت میں انہیں سرکاری ہسپتال لے جایا گیا کہ مسئلہ زیادہ گھمبیر دکھائی دے رہا تھا، ڈاکٹر صا حب نے (معلوم نہیں ڈاکٹر موجود بھی تھا کہ نہیں، کہ عام طور پر ہر سٹیتھ سکوپ پکڑے شخص کو ہم ڈاکٹر ہی تصور کر لیتے ہیں)بلڈ پریشر چیک کیا تو اس کا لیول بہت بڑھا ہوا تھا، اس نے بجائے یہ کہ اس کا علاج کرتا جو کہ ہر گز مشکل نہیں، ایک گولی اور ٹیکے سے یہ
نارمل ہونا شروع ہوجاتا ہے، لاہور لیجانے کا مشورہ دیا۔
سردیوں کی دھند آمیز رات میں بھاری وجود کے ساتھ مریض کو تکلیف کے عالم میں ایک شہر سے دوسرے شہر لے جانا کسی ظلم سے کم نہ تھا لیکن باامرِ مجبوری لے جایا گیا۔ راستے میں کسی قسم کی طبی مدد نہ ہونے کی وجہ سے بلڈ پریشر کنٹرول نہ ہوا ور دماغ کی رگ پھٹ گئی، فالج ہوا اور ایک اچھا بھلا، چلتا پھرتا شخص محتاج ہو کر بستر پر آن پڑا۔ میں نے جس وقت ان کا میڈیکل چارٹ اور لاہور لے جانے کی ایڈوائس پڑھی یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ بلڈ پریشر کا انتہائی خطرناک لیول لکھا ہوا ہے اور کسی بھی قسم کی دوائی نہیں دی گئی۔ دوائی کا میں نے لواحقین سے خود بھی دریافت کیا تھا کہ کیا ڈاکٹر نے لاہور لے جانے کے مشورے سے پہلے کسی قسم کی دوائی دی تھی، جواب نفی میں تھا۔ سسر صاحب دو ہفتے بستر پر پڑے رہے اور پھر ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا، افسوس مریض کے اس دنیا سے جانے سے زیادہ فرسٹ ایڈ سے ناواقفیت اور ڈاکٹر کے انسان دشمن رویے پر۔
ہمارے معاشرے میں ادویات جس بہتات کے ساتھ میسر ہیں اس سے بھی زیادہ آسانی کے ساتھ مفت طبی مشورے مل جاتے ہیں۔ میڈیکل سٹورپر جائیے یا نہ جائیے ڈسپرین ، پیرا سٹا مول اور بروفن آپ کو کریانہ سٹور پر بھی مل جائے گی ۔ پیٹ درد کی پھکی کسی چنے بیچنے والے خان بابا، جوتے گانٹھتے موچی اور بال کاٹتے ان پڑھ نائی سے با آسانی مل جائے گی اور بعض اوقات تو اتنی کم قیمت پر کہ پیٹ خراب ہو نہ ہو منہ کا ذائقہ درست کرنے کے لیے بھی شوق فرما سکتے ہیں۔آپ کو سر درد میں کیا کھانا ہے اس کا مشورہ کوئی صفائی والا، گدھا ریڑھی چلاتا شخص یا پھر نویں دسویں جماعت کی بچی بھی دے دے گی ۔ مجھے بیشتر ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب مریض تک رسائی ہوتی ہے تو وہ فالج زدہ ہوتاہے یا موت کے منہ میں جا چکا ہوتا ہے اور
اس کا سبب اکثر ڈسپرین یا بے ہوشی کے درمیان پلائے جانے والا پانی وغیرہ نکلتا ہے۔ بے ہوش مریض کو پانی پلانا اور سر درد میں ڈسپرین کا استعمال ان پڑھ لوگوں تک ہی محدود نہیں، ہمارے پڑھے لکھوں کی کثرت کا بھی شیوہ ہے۔ اپنی زندگی میں پانچ سو کے قریب ٹریننگ سیشنز کے دوران میں نے یہی سوال (کہ بے ہوش مریض کو پانی پلانا چاہیے یا نہیں اور سر درد میں کیا کھانا چاہیے) ہزاروں لوگوں کے سامنے رکھا لیکن مجھے کبھی درست جواب نہیں ملا۔ ہم نے شاید کبھی اس بات کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا کہ ہمیں میڈیکل کا بالکل بنیادی علم یا اس کی الف ب کے بارے میں پتہ ہونا چاہیے۔ ہمیں فرسٹ ایڈ کے بارے میں جاننا چاہیے، ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہمارے روز مرہ کے استعمال میں کون سی ادویات ہمارے لیے نقصان دہ ہیں اور کونسی ادویات کسی حد تک ایمرجنسی میں استعمال کرسکتے ہیں۔یقین کیجیے یہ ہر گز مشکل نہیں ہے۔ میں اس حوالے سے چند احتیاطی تدابیر اور مشکل مسائل کے آسان حل پیش کیے دیتا ہوں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ بے ہوش مریض کو کبھی بھی پانی مت پلائیے، کیونکہ یہ پانی سانس کی نالی پر پردہ، جو کہ بے ہوشی کی صورت میں ہٹ چکا ہوتا ہے اس سے رک نہیں پائے گا ، پانی سیدھا پھیپھڑوں کی جانب جائے گا اور مریض کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے ہوش مریض اور ایسے مریض جنہیں ڈاکٹر جواب دے چکے ہوتے ہیں بانیت اور بطورِ ثواب پانی پلایا جاتا ہے ، اس سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرا مشورہ یہ کہ اکثر مریض جب بے ہوش ہوتے ہیں اور ان کے سر پر کوئی چوٹ یا جسم سے خون وغیرہ نہ بہا ہو تو زیادہ
امکان یہی ہوتا ہے کہ ان کی بے ہوشی کا سبب شوگر کا لیول کم ہونا ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر آپ کے پاس گلوکو میٹر یعنی شوگر لیول چیک کرنے کا آلہ ہے یا نہیں بھی ہے تو شوگر لیول بڑھانے کا انجکشن لگا سکتے ہیں ۔ اس کی قیمت آٹھ روپے ہے اور بازار سے با آسانی میسر ہے، آپ اسے اپنے دفاتر ، سکولوں کالجوں وغیرہ میں کہیں بھی رکھ سکتے ہیں ۔ اگر نہیں تو اسے کھانے کے لیے کوئی بھی میٹھی چیز دی جاسکتی ہے، میٹھی چیز جیسے چینی وغیرہ پانی میں گھول کر بھی دی جا سکتی ہے۔ اس سے اگر شوگر لیول کم ہو تو فوراً افاقہ ہوگا اور اگر خدانخواستہ پہلے ہی بڑھا ہوگا تو پھر بھی نقصان کے امکانات بہت کم یا نہ ہونے کے برابرا ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شوگر لیول کا کم ہوناانتہائی خطرناک اور مہلک ہے جب کہ بڑھنے کے فوری اثرات کم ہیں۔تیسرا مشورہ یہ کہ اگر مریض کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے اور آپ با آسانی چیک کرسکتے ہیں تو ایسی صورتِ حال میں ایک گولی کیپوٹن ، آدھی گولی اس کی زبان کے نیچے رکھ دیجیے۔بلڈ پریشر کی نارمل رینج 80-120ہے ۔ اگر بلڈ پریشر 150سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو آدھی گولی رکھیے، اگر 180, 190تک پہنچتا ہے تو پوری گولی زبان کے نیچے رکھی جا سکتی ہے۔ یہ بھی بہت ہی کم قیمت گولی ہے، آپ کے دفاتر وغیرہ میں موجود ہونی چاہیے، جیب میں بھی رکھی جاسکتی ہے۔یہ ننھی سی گولی ہائی بلڈ پریشر کی صورت میں ہمیشہ کے لیے فالج زدہ ہونے سے بچا لیتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسی صورتِ حال میں ٹیکہ بھی لگتا ہے لیکن وہ صرف ڈاکٹر ہی لگائے گا۔ اگر کسی کو دل کا دورہ پڑاہے اور اس کی واضح علامات ہیں تو آدھی گولی اینجی سڈ اس کی زبان کے نیچے رکھی جاسکتی ہے، یاد رکھیے دل کے دورے کی واضح علامات ہوتی ہیں اور کبھی نہیں بھی ہوتی، اگر کوئی ڈاکٹر تصدیق کرے، یا آپ ا س کے بارے میں کچھ معلومات کسی ڈاکٹر سے لے لیں تو آپ اینجی سڈ گولی کو با آسانی استعمال کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں ہر روز کتنے ہی انسان بلڈپریشر کی زیادتی کے سبب فالج اور ہارٹ اٹیک کی صورت میں متاثر ہو رہے اور مر رہے ہیں۔ ہماری ذرا سی توجہ ہماری اور ہمارے اپنوں کی زندگیوں کو محفوظ بنا سکتی ہے۔ بات صرف احساس کی ہے۔ فرسٹ ایڈ باقاعدہ سیکھیے اور انسانی زندگی کو محفوظ بنانے کی ہر ممکن کوشش کیجیے ۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1824521394445509/