بشیرانصاری سے کب اور کہاں تعارف ہوا، کچھہ یاد نہیں۔ لگتا ہے ہمیشہ سے دوست تھے۔
سب سے پہلے بہاولپور میں اندرون فرید گیٹ ، بند روڈ کا ایک مکان یاد آتا ہے جہاں ایس ای کالج میں تعلیم کیلئے احمد پور شرقیہ سے آئے ہوئے طالب علم رہتے تھے۔ بشیرحسین انصاری اور ممتاز آثم تو یاد ہیں ۔ ان کے ساتھہ کوئی اور بھی رہتا تھا یا نہیں، یہ ذہن میں نہیں۔ افضل مسعود کراچی میں لأ پڑھ رہے تھے، وہ آتے رہتے تھے ۔ پھر تعلیم مکمل کرکے احمد پور واپس آگئے تو زیادہ تواتر سے آنے لگے۔ اکثر وہیں ٹھہر جاتے ۔ وہ سینئر اور نظریاتی گورو تھے۔ طویل نشستیں ہوتیں۔ اس مکان میں کئی اہم لوگ آئے ۔ میاں افتخارالدین کے صاحبزادے قومی اسمبلی کے رکن میاں عارف افتخار ایک پوری رات وہاں رہے۔گپ شپ میں صبح ہوگئی. ناشتے کے بعد رخصت ہوئے ۔ کہا یہ میری زندگی کی سب سے زیادہ پرلطف رات تھی۔
انہی دنوں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بہاولپور کی تنظیم بنائی ۔ بشیر انصاری سربراہ تھے۔ میں سیکریٹری تھا۔ پھر پیپلز پارٹی سرگرم ہونے لگی۔ افضل مسعود پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ہم سب نے پیپلز پارٹی سے امیدیں وابستہ کرلیں۔
بشیرانصاری نے بی اے کا امتحان ادھورا چھوڑا اور پیپلز پارٹی کے حامی اخبارات وجرائد کیلئے کام کرنے لگے۔ The Sun کیلئے کام کررہے تھے کہ پیپلز پارٹی کا اپنا اخبار ’’ مساوات ‘‘ آگیا ۔ اس سے وابستہ ہوئے اور یہ وابستگی طویل عرصہ رہی۔ بہاولپور کے مقامی اخبارات میں بھی کام کرتے رہے۔ ایک ہی وقت دو دو تین اخبارات کے ادارئیے لکھے ۔ نیوز ایڈیٹر کے طور پر بھی پورا اخبار مرتب کرتے رہے۔ روزنامہ ’’مغربی پاکستان‘‘ سے وابستگی زیادہ طویل رہی۔ اس کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر قمر بھٹی بہت اعتماد کرنے لگے ۔ انہیں اپنی فرزندی میں بھی لے لیا۔ ان کی بیٹی نے اچھے بُرے ہر طرح کے حالات میں ہنسی خوشی ساتھہ نبھایا۔
بہاولپور کے صحافی سینئیر کے طور پر عزت کرتے تھے۔ بشیرانصاری متعدد بار انجمن صحافی ان بہاولپور کے عہدیدار اور پریس کلب کے صدر بنائے گئے۔ اس دوران بہاولپور میں ریڈیو سٹیشن بھی قائم ہوگیا تھا۔ اس میں سکرپٹ رائٹنگ کا بہت کام کیا، گفتگو کے پروگراموں میں بھی شریک ہوتے رہے۔
اسلام آباد سے سرائیکی ’’روہی‘‘ ٹی وی کا اجرأ ہوا تو کوئی دوست اصرار کرکے وہاں لے گئے ۔ وہاں کام میں مزا آنے لگا تو ساری فیملی منتقل ہوگئی ۔ پھر یہ ہوا کہ روہی ٹی وی بند ہوگیا ۔ پھر بے روزگاری۔۔۔۔ پھر پنڈی ، اسلام آباد کے متعدد اخبارات کیلئے کام کیا۔ بچے بھی وہیں کام کرنے لگے۔ ایک بیٹی کی شادی بھی وہیں ہوگئی۔
بہاولپور تھے تو جب بھی میں لاہور سے بہاولپور جاتا ملاقات ہوجاتی. (میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخل ہوا تھا اور پھر روزنامہ امروز میں جگہ مل گئی)
اسلام آباد جانے کے بعد بشیر انصاری کا لاہور آنا بہت کم ہوا، میں بھی اسلام آباد نہ جا سکا، سو ملاقاتیں بہت کم ہوئیں ، فون پر بات ہوجاتی۔ فیس بک پر میں بہت دیر سے آیا۔ بشیر انصاری اس وقت تک فیس بک کی مقبول شخصیت بن چکے تھے۔ ان کے حلقے میں خواتین کی تعداد بہت زیاہ تھی ۔ شاید اس لئے کہ وہ شریف آدمی تھے۔ خواتین کو ان سے تعلق میں اپنی نیک نامی کے تحفظ کا اطمینان ہوتا تھا۔
بیماریوں نے گھیرا اور آمدورفت محدود ہوئی تو بشیرانصاری تحقیقی مقالات لکھنے میں بھی مدد کرنے لگے۔ اس نان گریجویٹ صحافی نے کم از کم تین خواتین کے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے لکھہ ڈالے۔ یہ تو میرے علم میں آئے ، اور بھی ہوں گے۔ مجھے کہا اس نوعیت کا کام ہو تو ریفر کردیا کروں۔ مالی یافت بھی ہوتی ہے اور کتابیں بھی ہاتھہ آجاتی ہیں۔ ایسے ہی ملنے والی ایک دو کتابوں کے بارے میں کہا کہ وہ بھابی کو دینی ہیں لیکن اس کا موقع نہ ملا.
پنڈی میں ڈاکٹر فرحت عباس نے ان کے معالج کی ذمہ داریاں سنبھالے رکھیں ۔ فرحت عباس شاعر ہیں ، ملتان سے تعلق ہے لیکن تعلیم بہاولپور کے قائداعظم میڈیکل کالج سے حاصل کی تھی اور ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے معروف تھے۔اسی وقت سے تعلق چلا آرہا تھا جو انہوں نے خوب نبھایا۔
بشیر انصاری کل رخصت ہوگئے۔ اندرون فرید گیٹ کے اس مکان کی محفلوں کے شرکأ میں سے افضل مسعود اور ممتاز آثم پہلے ہی جاچکے، بس میں رہ گیا ہوں۔
“