آج – ١٨؍ اگست ١٩٣٥
نقاد ، ادیب ، نغمہ نگار،ممتاز ترقی پسند شاعر اور فلم ' بازار ' کے گیت " کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئیگی" کے لئے مشہور شاعر ” بشرؔ نواز صاحب “ کا یومِ ولادت…
امین نواز خاں کے بیٹے،معروف نقاد،ادیب ،ہجو گو،ممتازشاعراور نغمہ نگار بشارت نواز خاں دنیائے ادب میں بشر نواز کے نام سے جانے گئے۔ ١٨؍ اگست ١٩٣٥ء کو اورنگ آباد، مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ والدعلی گڑھ کے فارغ التحصیل اوراورنگ آباد میں ناظم تعلیمات تھے ۔والدہ ممتازفاطمہ عالمہ تھیں جودرس قرآن دیا کرتی تھیں۔انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد گریجویشن کے لئے حیدرآباد کاسفرکیا لیکن اعلی تعلیم مکمل نہ ہوسکی۔ ان کی شاعری کا آغاز ١٩٥٣ء میں ہوا۔ وہ ١٩٥٤ء سے ہی بڑے بڑے مشاعروں میں مدعو کیے جانے لگے۔ حی آباد کے مشاعرے میں پہلی باران کوممتازترقی پسند شاعر مخدوم محی الدین نے متعارف کروایا ۔شعری مجموعے رائیگاں اوراجنبی سمندرکےعلاوہ ایک تنقیدی مجموعہ نیا ادب نئے مسائل ان کے ادبی آثار ہیں ۔ وہ ترقی پسند تحریک کے ممتاز شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔نواز اپنی نظموں کے آہنگ سے بھی پہچانے گئے ۔ایک عرصے تک فلموں سے وابستہ رہے۔ فلم بازارکا نغمہ کروگے یاد توہربات یاد آئیگی انہی کا لکھاہواہے۔ان کے لکھے ہوئے نغمے محمد رفیع ،لتا منگیشکر،آشا بھونسلے سمیت کئی اہم فن کاروں کی آواز میں سامعین تک پہنچتے رہے ہیں۔ریڈیو کے لیے کئی ڈرامے لکھے اور ٹی وی سیریل امیر خسرو کا اسکرپٹ بھی انہی کا لکھا ہوا ہے۔دیو ناگری میں بھی ان کا کلام موجود ہے ۔ ٩ جولائی ٢٠١٥ء کو دار فانی سے رخصت ہوگئے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر بشرؔ نواز کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتہ نکل آیا
—
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
گزرتے وقت کی ہر موج ٹھہر جائے گی
—
کہتے کہتے کچھ بدل دیتا ہے کیوں باتوں کا رخ
کیوں خود اپنے آپ کے بھی ساتھ وہ سچا نہیں
—
یہ اہتمام چراغاں بجا سہی لیکن
سحر تو ہو نہیں سکتی دیئے جلانے سے
—
وہی ہے رنگ مگر بو ہے کچھ لہو جیسی
یہ اب کی فصل میں کھلتے گلاب کیسے ہیں
—
تیز ہوائیں آنکھوں میں تو ریت دکھوں کی بھر ہی گئیں
جلتے لمحے رفتہ رفتہ دل کو بھی جھلسائیں گے
—
چھیڑا ذرا صبا نے تو گلنار ہو گئے
غنچے بھی مہ جمالوں کے رخسار ہو گئے
—
دل کے ہر درد نے اشعار میں ڈھلنا چاہا
اپنا پیراہن بے رنگ بدلنا چاہا
—
ربط ہر بزم سے ٹوٹے تری محفل کے سوا
رنجشیں سب کی گوارا ہیں ترے دل کے سوا
—
بہ ہر عنواں محبت کو بہارِ زندگی کہئے
قرینِ مصلحت ہے اس کے ہر غم کو خوشی کہیے
—
ہر نئی رت میں نیا ہوتا ہے منظر میرا
ایک پیکر میں کہاں قید ہے پیکر میرا
—
کوئی صنم تو ہو کوئی اپنا خدا تو ہو
اس دشت بے کسی میں کوئی آسرا تو ہو
—
جب کبھی ہوں گے تو ہم مائلِ غم ہی ہوں گے
ایسے دیوانے بھی اس دور میں کم ہی ہوں گے
—
کیا کیا لوگ خوشی سے اپنی بکنے پر تیار ہوئے
ایک ہمیں دیوانے نکلے ہم ہی یہاں پر خوار ہوئے
بشرؔ نواز
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ