بسنتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعمت احمر کی گردن پہ چلتا کھردرا مذہبی چھرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،، مسعود قمر دے لئی جس دے نال میری پُھک دُکھ سانجھے سی اج نئیں تے کدے وی نئیں سی ،،
یہ تھی وہ تحرہر جو پنجابی افسانوں کی کتاب ،، بسنتی،، کے اندرونی صفحوں کے پہلے صفحے پہ لکھی تھی
،، بسنتی،، نعمت احمر کے پنجابی افسانوں کے مجموعہ کے نام ہے جو اس نے لائل پور سے سویڈن آنے والے ایک پادری کے ذریعے مجھے پہنچایا تھا
نعمت احمر لائل پور کے چند ان ادیب دانشوروں میں سے ایک تھا جو نہ صرف دنیا کے نچلے طبقے کے لیے لکھتا تھا بلکہ ان کے حقوق کے لیے جد وجہد کرنے میں بھی عملی طور پہ حصہ لیتا تھا بلکہ بہت زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا ۔۔۔۔۔
تنظیمی طور پہ وہ ،، پروفیسر گروپ ،، کے ساتھ وابستہ تھا مگر پاکستان اور خصوصی طور پہ لائل میں چلنے والی ہر اس تحریک میں شامل ہوتا تھا جو مزدور طبقے کے حقوق کے لیے چل رہی ہوتی چاہے وہ ادبی سطح پہ ہو ، سیاسی سطح پہ ہو یا مزدور یونیں کی سطح پہ ہو
نعمت احمر ہوتا اسکی سائیکل ہوتی اور چمڑے کے تھیلے میں سیاسی پمفلٹ ، میٹنگس ، کے پروگرام، جلوسوں کے پروگرام ، افسانے ، اور ،، مرکز ادب و فن ،، کے اجلاسوں کے دعوت نامے ہوتے وہ گلستان کالونی سے دس دس پندرہ پندرہ کلومیٹر تک سائیکل چلا کر دوستوں کے گھروں ان کے دفتروں اور ان کی دوکانوں پہ جاتا اور دوستوں کو ،، مرکزادب و فن ، کے اجلاس کے دعوت نامے پہنچتا ،دوستوں کو اجلاس میں شامل ہونے کے لیے درخواستیں کرتا ، دوستوں کو سمجھتا کہ اج کے دور میں ہمارا ادبی اور سیاسی اجلاسوں شامل ہو کر آج کی سیاسی و ادبی صورت حال پہ گفتگو کرنا کیوں ضروری ہے ۔۔۔
نعمت احمر اجلاس کا پروگرام بتاتے وقت دوست کے ساتھ اس طرح گفتگوکرتا کہ سُننے والا خود کو اہم سمجھنے لگ جاتا اور اجلاس میں شرکت کو ایک انقلابی اقدام سمجھتا ۔۔۔
نعمت احمر پھر جمعہ کی شام کو دھوبی گھاٹ میں قائم میونسپل لائبریری کا گیٹ کھلوا کر باہر فٹ پاتھ پہ کھڑا ہو جاتا اور دائیں بائیں دیکھتے ہوئے دوستوں کو تکتا رہتا ، کبھی کبھی تو اجلاس اتنے بھر پور ہوتے کے مہینوں ان کا تذکرہ سارے شہر میں ہپوتا رہتا اور کبھی کبھار نعمت احمر فٹ پاتھ پہ کھڑا رہتا اور دوست دوسرے ہوٹلوں میں کسیلی چائے پہتے سگرٹوں کے دھوئیں کے مرغولے بناتے بحث کر رہے ہوتے کہ لوگ ملک میں صعنتی انقلاب کے لیے اُٹھ کیوں نہیں کھڑے ہوتے ؟
نعمت احمر جب فٹ پاتھ پہ کھڑا کھڑا تھک جاتا تو لائبریری کا دروازہ بند کرواتا اور اپنی سائیکل چلاتا اور اسی ہوٹل میں پینچ جاتا جہاں بیٹھے دوست انقلاب پہ گفتگو کر رہے ہوتے نعمت احمر بھی بغیر کسی سے گلہ کیے چُپ چاپ اس بحث میں شامل ہو جاتا اور ایسے ہی نعمت احمر سیاسی اجلاسوں اور جلوسوں میں دوستوں کو شرکت کے لیے آمادہ کرتا پھرتا ۔
ایک وقت میں وہ میرے محلے سمن آباد کےپرائیمری سکول میں بطور اُستاد ملازم تھا ۔۔۔ وہ گلستان کولونی سے سمن آباد آتا سکول ختم ہونے کے بعد میرے گھر آجاتا مجھ پہ ان دنوں پیغمبری وقت تھا ہم کبھی ایک کبھی دو روٹیاں مل کر کھاتے اور شہر کی طرف چل پڑتے ۔۔راستے میں ہم الیاس اسد کی دوکان پہ پڑاؤ کرتے جہاں اعجاز ناصر ۔ افضل جوشو اور بھٹی صاحب یا پہنچے ہوتے یا تھؤری دیر میں پینچ جاتے اور پھر یہ اداکاروں سیاسی ورکروں اور ادیبوں کا قافلہ شہر میں داخل ہو جاتا،
بسنتی میں چھپنے والے تقریباٰ سارے افسانے میں نے نعمت احمر سے سائیکل چلاتے یا لائل پور کی سڑکوں پہ چلتے چلتے سُنے ہوئے ہیں
پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کرنا کبھی بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ ہمیشہ ان کو کافر دہریہ کہہ کر ان سے نفرت کا اظہار کیا گیا اور لوگوں کو ان سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ایسا کرنے میں ملک کی دائیں بازو کی سیاست کرنے والے لوگ ملک کی فوجی اور سول نوکری شاہی سے لے کر ان کے اپنے گھروالے بھی شامل ہوتے تھے ۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں سُرخ رنگ کی جلد والی کتاب اگر کسی کے ہاتھ میہں پکڑی ہوتی تو اس شخس کو کیمونسٹ اور کافر سمجھا جاتا تھا، پولیس اگر گھر میں چھاپہ مارتی تو اور کچھ لے جاتی یا نہ لے جائے مگر سُرخ رنگ کی جلدوں والی ساری کتابیں اُٹھا کر لے جاتی تھی
ایسے ملک میں ایک غیر مسلم کا بائیں بازو کی سیاست کرنا،، آ بیل مجھے مار ،، والی بات ہی تھی۔ ایک مسلمان اگر کیمو نیزم کی سیاست کر رہا ہوتا تو وہ تو شاید کسی وقت بخشا جا سکتا تھا مگر ایک غیر مسلم اگر بائیں بازو کی سیاست کر رہا ہوتا اور پھر خاص طور اگر اس کا تعلق بہت ہی نچلے طبقے سے ہو تو اس کو کبھی نہیں بخشا جاتا تھا ۔ یاد رہے یہ میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب معاشرہ ابھی ِ، طالبان معاشرہ ،، نہیں بنا تھا ، اج تو اپنے گردان جدا کروانے کے لیے طالبان مخالف ہونا ہی کافی ہے چاہے آپ مسلمانوں کے ہی کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں
نعمت احمر بھی اسی نفرت کا شکار بنا اس کا تبادلہ سمندری روڈ پہ میانی گاؤن کے قریب ایک گاؤں دسوہا کے ہائی اسکول میں ہو گیا تھا ۔ اس کی ترقی بطور ہیڈ ماسٹر کے متوقع تھی اور اس ترقی کو روکنے کے لیے پہلے گاؤں میں پھر اسکول میں اس کے کافر ہونے کا چرچا زور شور سے کیا گیا ۔ پھر ایک دن گاؤن کے مولوی نے اپنے ایک جمعہ کے خطبے میں نعمت احمر کو شاتم رسول کے نام سے پکارا ۔ اور پھر ایک دن گاؤن کے اندر ایک نوجوان کے اند ممتاز قادری نے جنم لیا اور۔،،،،، اور پھر گاؤن میں پیدا ہونے اس ممتاز قادری نے6 جنوری 1992 کو پیپلز کالونی میں علامہ اقبال یونیورسٹی کے دفتر کے باہر نعمت احمر کو دبوچ لیا اور نعمت احمر کی گردن پہ اپنے مذہب کا کھردرا چھرا چلا دیا ۔ اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔۔ اور اگلے دن نوائے وقت نے ۔۔ نعمت احمر کے قتل کی خبر شاتم رسول کا خاتمہ کے عنوان سے لگائی
لوگوں نے اس گاؤن میں پیدا ہونے والے ممتاز قادری پہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کئیں اور اس کے بوسے لیے ۔
جیسے سلیمان تاثیر کے قاتل ممتازز قادری کو بری کرانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ، شریف اور دوسرے نامی گرامی وکلا اور حکومت کے اندر بیٹھے ممتاز قادی دن رات ایک کیے ہوئے تھے اسی طرح اس وقت بھی نعمت احمر کے قاتل کو ملک کے شریفوں ، نسیم شاہوں ،مولوی مشتاقوں ، انوا الحقوں اور دوسرے نامی گرامی وکلا نے رہا کر لیا تھا۔
جس طرح ممتاز قادری کے کیس کی سماعت کے موقعح پہ اس کے حامی سیکنڑوں کی تعداد میں مذہبی نعرے مار مار کر عدالت کو بے نام دھمکیاں دے رہے تھے اور اس ملک کے سیکولر لبرل اور روشن خیال لوگوں کا سایہ بھی وہاں نظر نہیں آ رہا تھا اسی طرح اس وقت بھی لائل پور کے کسی ادبی و سیاسی پلیٹ فارم سے نہ تو نعمت احمر کے قتل کے خلاف کوئی مذمتی قراردار پاس ہوئی نہ اس قتل کے حلاف کو ئی جلوس نکالا اور میری اطلاع کے مطابق ۔ کامریڈ سردار ، الیاس اسد اور طارق ویرا کے علاوہ کسی نے نعمت احمر کی تدفیں میں بھی حصہ نہیں لیا
کسی کو بہر ِ سماعت نہ وقت نہ دماغ
نہ مدعی ، نہ شہادت ، حساب پاک ہوا
یہ خون ِ خاک نشیناں تھا ،رزقِ خاک ہوا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“