زیر طبع کتاب ' وار فکشن ' سے
انگریزی افسانہ
( Only This – 1944 )
روآل ڈال ( Roald Dahl )
اُس رات بہت زیادہ کہرا پڑا تھا جس نے باڑوں اورمیدانوں میں گھاس کو یوں سفید کر رکھا تھا جیسے برف پڑتی رہی ہو لیکن رات صاف اور خوبصورت تھی ؛ چاند بھی تقریباً پورا تھا اورستارے بھی پوری طرح جگمگا رہے تھے ۔
ایک بڑے کھیت کے ایک کونے میں ایک کاٹیج تنہا کھڑا تھا ۔ اس کے سامنے والے دروازے سے ایک پگڈنڈی شروع ہوتی تھی جو کھیت سے ہوتی ہوئی سیڑھیوں تک جاتی اور پھر اس کے اڈوں سے اوپر دوسرے کھیت سے ہوتی اس دروازے تک پہنچتی جو اُس راہ پرکھلتا تھا جہاں سے گاﺅں تین میل کی دوری پر واقع تھا ۔ ارد گرد کوئی مکان نہ تھا اور سارا مضافات کھلا اور ہموار تھا ۔ جنگ کی وجہ سے وہاں بہت سے کھیتوں میں ہل پھیرا جا رہا تھا ۔
چاند کی چاندنی کاٹیج پر بکھری ہوئی تھی ۔ چاندنی کھلی کھڑکی سے ہوتی اس بیڈ روم میں بھی روشنی پھیلا رہی تھی جس میں ایک عورت سو رہی تھی ۔ وہ سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ چھت کی جانب تھا ۔ اس کے لمبے بال اس کے ارد گرد تکیے پر پھیلے ہوئے تھے۔ گو وہ سو رہی تھی لیکن اس کے چہرے کو دیکھ کر یہ نہیں لگتا تھا جیسے کوئی بندہ آرام سے سو رہا ہو۔ وہ کبھی خوبصورت رہی ہو گی لیکن اب اس کے ماتھے پر باریک باریک جھریاں بھی ابھری ہوئی تھیں اور اس کے چہرے کی جلد یوں سخت تھی جیسے اسے کھینچ کر اُس کی گالوں کی ہڈیوں پر تانا گیا ہو ۔ اس کا منہ البتہ ابھی بھی گداز تھا ، سوتے میں بھی اس نے اپنے لب بند نہیں کئے ہوئے تھے ۔
بیڈ روم چھوٹا تھا اور اس کی چھت بھی نیچی تھی اور جہاں تک فرنیچر کا تعلق ہے ، وہاں صرف ایک ڈریسنگ ٹیبل اور ایک ہتھیوں والی کرسی تھی ۔ عورت کے کپڑے اس کرسی کی پشت پر پڑے تھے جو اس نے سونے سے پہلے اتار کر وہاں رکھے تھے ۔ اس کے کالے جوتے بھی کرسی کے پاس ہی فرش پرپڑے تھے ۔ ڈریسنگ ٹیبل پر ایک ہیئر برش ، ایک خط اور ایک بڑی سی تصویر پڑی تھی ۔ یہ تصویر وردی میں ملبوس ایک نوجوان کی تھی جس کی قمیض کے بائیں طرف دو پروں والا بِلا جڑا ہوا تھا ۔ یہ ایک مسکراتے جوان کی تصویر تھی، ایک ایسی ، جیسی کوئی بندہ اپنی ماں کے لئے بھیجتا ہے ، تصویر کا فریم مہین لکڑی کا اور سیاہ تھا ۔ چاند کھلی کھڑکی سے چمکتا رہا اور عورت سوتی تو رہی لیکن یہ ایک بے سکون نیند تھی ۔ اس کے سانس کی لگاتار آواز اور اس کے کمبل کی سرسراہٹ ، جوسونے میں تھرتھراہٹ کے دورا ن پیدا ہوتی ، کے علاوہ کہیں بھی کوئی شور نہ تھا ۔
تب ، کہیں دور سے دھیمی لیکن گہری گونج سنائی دی جو ابھرتی چلی گئی اوراونچی سے اونچی ہوتی گئی یہاں تک کہ پورا آسمان اس کے شور سے بھر گیا جو دھمک پر دھمک پیدا کئے جا رہا تھا ۔ یہ دھمک جاری رہی اور ختم نہ ہوئی ۔
شروع میں ہی بلکہ اس سے بھی پہلے جب یہ نزدیک آئی تو عورت نے اسے ایسے سنا جیسے وہ نیند میں بھی اس کی منتظر رہی ہو اور اسے اِس لمحے کے آنے کا خدشہ ہو ۔ جب اس نے اسے سنا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور کچھ دیر تک بستر پر ساکت لیٹے لیٹے خاموشی سے اسے سنتی رہی ۔ پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ، کمبل کو ایک طرف کیا اور بستر سے باہر نکل کر کھڑکی کی طرف گئی ۔ اس نے اپنے ہاتھ کھڑکی کی سِل پر رکھے اور باہر کی طرف جھکی اور آسمان کی طرف دیکھنے لگی ۔ اس کے بال اب اس کے کندھوں اور اس کے سُوتی شب خوابی کے لباس ، جو اس نے پہن رکھا تھا ، پر پھیلے ہوئے تھے ۔
وہ کافی دیر تک ، اس ٹھنڈ میں ، یونہی کھڑکی پر جھکی شور سنتی رہی اور اوپر دیکھتے ہوئے آسمان پر کچھ کھوجتی رہی ، لیکن اسے سوائے چاند اور ستاروں کے اور کچھ نظر نہ آیا ۔
” خدا تمہاری ۔ ۔ ۔ “ ، اس نے اونچی آواز میں کہا ، ” اے پیارے خدا ، اس کو اپنی امان میں رکھنا ۔ “
پھر وہ مڑی اور جلدی سے بستر میں جا بیٹھی اور پرے کیا کمبل کھینچا اور اسے اپنے شانوں پر چادر کی طرح لپیٹ لیا ۔ اس نے پیروں میں اپنے کالے جوتے پہنے اور کرسی تک گئی اور اسے کھینچ کر کھڑکی کے بالکل سامنے کرکے اس پر بیٹھ گئی ۔
اس کے سر کے اوپر شور اوردھمک اسی طرح جاری تھی ۔ یہ شور کافی دیر جاری رہا کیونکہ بمبار طیاروں کا ایک طویل قافلہ جنوب کی طرف جا رہا تھا ۔ عورت اس سارے عرصے میں کمبل لپیٹے کھڑکی سے باہر آسمان کو تکتے ہوئے بیٹھی رہی ۔
پھر یہ سب ختم ہو گیا ۔ اگلی رات خاموشی میں گزر گئی ۔ پالا پھر سے کھیتوں اور باڑوں پر اتنا زیادہ پڑا کہ لگتا تھا سارے مضافات نے سانس لینا بند کر دیا ہو ۔ آسمان میں ایک فوج مارچ کر رہی تھی ۔ سارے علاقے کے لوگوں نے شور سنا اور انہیں معلوم تھا کہ یہ کس طرح کا شور تھا ؛ انہیں معلوم تھا کہ جلد ہی ، یہاں تک کہ ان کے سونے سے پہلے ہی ، ایک جنگ ہو گی ۔ مئے خانوں میں بیئر پیتے ہوئے بندوں نے باتیں کرنا بند کر دیں تاکہ وہ سن سکیں ۔ گھروں میں ، خاندانوں نے اپنے ریڈیو بند کیے اور صحنوں و باغات میں باہرآ نکلے اور کھڑے ہو کر آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ۔ فوجیوں نے اپنے خیموں میں اپنے بحث مباحثے اور ایک دوسرے پر چِلانا بند کیا ، رات میں کام سے لوٹتے مردوں اور عورتوں نے گھر واپس جاتے ہوئے سڑکوں پر خود کو وہیں کھڑا کیا جہاں انہوں نے شور سنا تھا ، اور منتظر نگاہوں سے آسمان کو تکنا شروع کر دیا ۔
یہ پہلے جیسا ہی تھا ۔ جیسے ہی رات میں بمبار طیاروں نے جنوب کی جانب رخ کیا تھا ، جن لوگوں نے بھی ان کے شور کو سنا ، وہ عجیب طرح سے خاموش ہو گئے ۔ ان عورتوں کے لئے جن کے مرد ان جہازوں کے ساتھ تھے یہ لمحہ برداشت سے باہر تھا ۔
اب جبکہ وہ جا چکے تھے اور ان کی عورتیں پیچھے کرسیوں پر ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے بیٹھی تھیں لیکن وہ نہ سوئی ۔ اس کا چہرہ پیلا پڑا ہوا تھا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے گالوں کی جلد مزید کھِنچ گئی ہو اور اس نے آنکھوں کے گرد جھریاں ڈال دی ہوں ۔ اس کے لب یوں کھلے ہوئے تھے جیسے وہ کسی کو باتیں کرتا سن رہی ہو ۔ وہ واقعی اس کی آواز کو سن رہی تھی ، جیسے وہ ، کھیتوں سے کام سے لوٹتے وقت ، اسے کھڑکی کے باہر سے پکارا کرتا تھا ۔ وہ اسے یہ کہتے ہوئے سن رہی تھی کہ اسے بھوک لگ رہی تھی اور یہ کہ کھانے میں کیا تھا ۔ اور جب وہ اندر آتا تھا تو اس کے کندھوں کے گرد بازو ڈال کراسے بتاتا تھا کہ وہ سارا دن کیا کرتا رہا تھا ۔ جب وہ اس کے لئے کھانا لاتی تو وہ کھاتے ہوئے اسے کہتا کہ وہ بھی کچھ کیوں نہیں لے لیتی تو اس کو پتہ ہی نہ ہوتا کہ وہ اسے کیا کہے اور وہ صرف اتنا ہی کہہ پاتی کہ ابھی اسے بھوک نہیں تھی ۔ وہ بیٹھی اسے دیکھتی رہتی اور اس کے لئے چائے پیالی میں ڈالتی اور پھر کچھ دیر بعد وہ اس کی پلیٹ لئے باورچی خانے جاتی تاکہ اس کے لئے کھانے کو کچھ اور لا سکے ۔
یہ آسان نہیں تھا کہ بندے کا ایک ہی بچہ ہو ۔ وہ خالی پن ، جب وہ وہاں نہیں تھا اور ہر وقت کی یہی آگاہی کہ کسی وقت ، کہیں بھی ، اسے کچھ ہو سکتا تھا ؛ اس بات کا گہرا شعور کہ اس کے پاس زندہ رہنے کو اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ؛ یہ کہ اگر اسے کچھ ہو گیا تو اس کے پاس بھی مرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو گا ۔ فرش صاف کرنا ، برتن دھونا یا گھر صاف کرنا کس کام کا رہے گا ؛ آگ جلانے کے لئے لکڑیاں اکٹھا کرنے کا کیا جواز ہو گا یا مرغیوں کو دانہ ڈالنے کی کیا ضرورت باقی رہے گی ؛ اور زندہ رہنے کی بھی کیا اہمیت رہ جائے گی ؟
اب جبکہ وہ کھلی کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی تو اسے ٹھنڈ محسوس نہیں ہو رہی تھی ؛ اسے بس تنہائی اور خوف کا شدید احساس تھا ۔ خوف نے اسے ایسا گھیرا اور اس پر ایسے حاوی ہوا کہ وہ اسے مزید برداشت نہ کر سکی اور وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ پھر سے کھڑکی پر جھک گئی اور آسمان کی طرف تکنے لگی ۔ اسے، ایسے میں ، رات خوبصورت نہ لگی ؛ یہ ٹھنڈی اور صاف تھی لیکن اصل میں بہت ہی خطرناک بھی ۔ اس نے کھیتوں یا باڑوں کی طرف نہیں دیکھا اور نہ ہی مضافات میں پھیلے پالے کو قالین کی طرح بچھے دیکھا ، اس نے دیکھا تو صرف آسمان کی اتھاہ گہرائیوں میں جہاں خطرہ ہی خطرہ تھا ۔
وہ پھر آہستہ آہستہ مڑی اور دوبارہ اپنی کرسی میں دھنس گئی ۔ خوف اور شدید ہو گیا ۔ وہ اس کے سوا اور کچھ سوچ ہی نہ پائی کہ وہ بس اسے دیکھ لے اور اس کا ساتھ حاصل کر سکے ۔ وہ اسے اسی وقت دیکھنا چاہتی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس بات کو اگلے روز پر ٹالنے سے دیر ہو جائے گی ۔ اس نے اپنا سر کرسی کی پشت سے لگایا اور جب اس نے آنکھیں بند کیں تو اس نے ایک ہوائی جہاز دیکھا ؛ یہ اسے چاند کی روشنی میں صاف نظر آیا ، یہ رات میں ایک بڑے کالے پرندے کی طرح آگے بڑھ رہا تھا ۔ وہ اس کے اتنا نزدیک تھی کہ وہ دیکھ سکتی تھی اس مشین کی ناک کس سمت میں ہر شے سے آگے نکلی ہوئی تھی جیسے پرندے کی گردن اپنے راستے کی تلاش میں آگے کو نکلی ہوتی ہے ۔ وہ اس کے پروں اور جسم پر بنے نشان دیکھ سکتی تھی اور جانتی تھی کہ وہ اس کے اندر ہے ۔ اس نے اسے دو بار پکارا لیکن کوئی جواب نہ آیا ؛ تب خوف اور اس کے لئے اس کی چاہت اس کے اندر یوں اُبلی جسے برداشت کرنا اس کے لئے پھر مشکل ہو گیا اور یہ درد رات میں اور بڑھتا گیا اتنا کہ وہ بالآخر پھر سے اس کے ساتھ جا ملی ، اس کے برابرجا کھڑی ہوئی اور اگر وہ ہاتھ بڑھاتی تو اسے چھو تک سکتی تھی ۔
وہ ہاتھوں میں دستانے پہنے کنٹرول پینل کے سامنے بیٹھا تھا ۔ اس نے ایک بھاری فلائنگ سوٹ پہن رکھا تھا جس نے اس کے جسم کو دوگنا بھاری اور بے شکل کر رکھا تھا ۔ وہ سامنے دیکھ رہا تھا اور اس کی نظر ، سامنے لگے پینل پر لگے آلات ، پر تھی ۔ اس کا دھیان اور کسی بات پر نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اس مشین کو اڑا رہا تھا ۔
اِس بار اُس نے پھر سے اسے پکارا ۔ اُس نے اِس بار اسے سنا اور اپنے اردگرد دیکھا اور جب اُس نے اسے دیکھا تو وہ مسکرایا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور اس کے کندھے کو چھوا ۔ سارا خوف ، ساری تنہائی اور دوری کا احساس جاتا رہا اور وہ خوش ہو گئی ۔
وہ لمبا عرصہ اس کے ساتھ رہی اور اسے مشین اڑاتا دیکھتی رہی ۔
وہ بار بار اس کی طرف دیکھتا ، مسکراتا اور ایک بار تو اس نے کچھ کہا بھی ، لیکن وہ انجنوں کے شور میں کچھ سن نہ پائی ۔ اچانک اس نے سامنے کی طرف ، جہاز کی ونڈ شیلڈ کی طرف اشارہ کیا اور اس نے دیکھا کہ آسمان سرچ لائٹوں سے بھرا ہوا تھا ۔ یہ سینکڑوں کی تعداد میں تھیں ؛ روشنی کی لمبی انگلیاں کاہلی سے ، آسمان پر ادھر ادھر سفر کر رہی تھیں ۔ وہ کسی ایک وقت میں مل کر اکٹھی ہوتیں اور ایک نکتے پر مرکوز ہونے کے بعد پھر سے منتشر ہو جاتیں ۔ پھر وہ کسی اور جگہ مرکوز ہوتیں اور پھر اپنی اپنی راہ ہو لیتیں ۔ وہ رات میں ہر وقت کسی بمبار طیارے کی متلاشی رہتیں جو اپنے ہدف کو نشانہ بنانے چلے آ رہے تھے ۔
اس نے سرچ لائٹوں کے پیچھے طیارہ شکن توپیں دیکھیں ۔ یہ نیچے قصبے سے موٹے چتکبرے غلافوں میں لپٹی ہوئی تھیں اور ان کے گولے جب فضا میں آ کر پھٹتے تو آسمان کے علاوہ بمبار طیاروں کے اندر تک کو روشن کر دیتے ۔
اب وہ سیدھا آگے دیکھ رہا تھا اور اس کا دھیان جہاز اڑانے کی طرف تھا اور وہ سرچ لائٹوں سے بچتا سیدھا طیارہ شکن توپوں کے غلافوں کی طرف جا رہا تھا ۔ وہ دیکھتی رہی اور منتظر رہی ۔ وہ نہ تو ہِلی اور نہ ہی کچھ بولی مبادا اس کا دھیان اپنے کام سے ہٹ نہ جائے ۔
جب اس نے اپنے بائیں طرف کے قریبی انجن سے شعلے اٹھتے دیکھے تو اسے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ نشانہ بن چکے تھے ۔ وہ انہیں سائڈ پینل کے شیشے میں سے انہیں دیکھ رہی تھی ۔ یہ شعلے پر کو چاٹتے ہوئے اوپر اٹھ رہے تھے اور ہوا انہیں پیچھے کی طرف اڑائے لے جا رہی تھی ۔ وہ انہیں پر کی کالی سطح پر پھیلتے ہوئے دیکھتی رہی یہاں تک کہ وہ کاک پٹ کے اندر تک آ گئے ۔ اسے خوف محسوس نہ ہوا ۔ وہ اسے اب بھی وہاں بیٹھا ہوا دیکھ رہی تھی ، وہ آرام سے بیٹھا شعلوں کو دیکھتا ہوا مشین کو اڑائے جا رہا تھا ۔ اس نے ایک بار اس کی طرف دیکھا اور مسکرایا بھی ۔ اور اسے لگا کہ خطرے کی کوئی بات نہ تھی ۔ اس نے دیکھا کہ اس کے چاروں طرف سرچ لائٹیں اور طیارہ شکن توپیں تھیں ۔ ان سے نکلتے ہوئے گولے تھے اور ان کے پیچھے رنگ برنگی پھلجھڑیاں ، آسمان ، آسمان نہ تھا بلکہ یہ ایک ایسی محدود جگہ تھی جو روشنیوں اور دھماکوں سے بھری ہوئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اس میں سے مشین اڑا کر لے جانا ممکن نہ تھا ۔
بائیں پر ، پرشعلے اب زیادہ بھڑک رہے اور ساری سطح پر پھیل گئے تھے ۔ یہ شعلے جاندار تھے اور وہ جہاز کو کھاتے ہوئے پیچھے جا رہے تھے اور ہوا انہیں اور بھڑکائے جا رہی تھی ۔
اور پھر دھماکہ ہوا ۔ اندھا کر دینے والی سفید چمک اور ایک زور دار جھٹکا ، جیسے کسی نے کاغذ کے لفافے کو پُھلا کر مُکے سے پھاڑا ہو ۔ پھر وہاں شعلوں اور سفیدی مائل سرمئی دھوئیں کے سوا کچھ نہ تھا ۔ شعلے فرش سے ، کاک پٹ کی دونوں اطراف سے پھیل رہے تھے اور دھواں اتنا دبیز تھا کہ دیکھنا دشوار اور سانس لینا ناممکن تھا ۔ وہ ڈری اور حواس باختہ ہو گئی کیونکہ وہ ابھی بھی اندر تھا کنٹرولز پر بیٹھا ، مشین اڑا رہا تھا ۔ اسے متوازن رکھنے کے لئے وہ کبھی سٹیرنگ کو ایک طرف موڑتا کبھی دوسری طرف ۔ اور پھر ایک سرد ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے دھندلے پن سے محسوس کیا کہ کسی کی انگلیاں اسے دبوچے جلتے ہوئے جہاز سے دور ہو رہی ہوں ۔
اب ہر شے میں بس شعلے ہی تھے اور اس نے دھوئیں میں سے اسے اپنی کرسی پر ہی بیٹھے دیکھا ۔ وہ ’ سٹیرنگ وہیل‘ سے کشتی کر رہا تھا ۔ اس کا ساتھی باہر کود گیا ۔ جیسے ہی وہ کودا ، اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنے چہرے کی طرف کیا کیونکہ وہاں شدت کی گرمی تھی ۔ وہ اس کی طرف بڑھی اور اس کا کندھا تھاما ، اسے زور سے ہلایا اور چیخی، ” آﺅ ، جلدی کرو، تمہیں باہر نکلنا ہو گا ، جلدی ، جلدی کرو ۔ “
تب اس نے دیکھا کہ اس کا سر اس کے سینے پر ڈھلک گیا تھا ۔ وہ بے جان اور بیہوش تھا ۔ اس نے مضطرب ہو کر اسے اس کی کرسی سے دروازے کی طرف کھینچنے کی کوشش کی لیکن وہ بے جان اور بھاری تھا ۔ دھواں اس کے گلے اور پھیپھڑوں میں بھر گیا اور اس کا سانس اکھڑنے لگا ۔ اب وہ ہذیانی کیفیت میں تھی ، وہ موت اور ہر شے کے خلاف لڑ رہی تھی ۔ اس نے کوشش کرکے اپنے ہاتھ اس کے بازوﺅں تلے دئیے اور اسے کسی حد تک دروازے کی طرف کھینچا لیکن وہ اسے اس سے آگے نہ کھینچ سکی ۔ اس کی ٹانگیں سٹیرنگ وہیل سے الجھ گئیں اور کہیں کوئی ایسا بکسوا تھا جسے وہ کھول نہ سکی ۔ تب اسے احساس ہو گیا سب ناممکن تھا وہاں دھواں تھا ، شعلے تھے ، نہیں تھا تو وقت نہیں تھا ، یہ سوچ کر اس کی ساری طاقت جاتی رہی ۔ وہ خود بھی اس کے اوپر گر گئی اور ایسے رونے لگی جیسے زندگی میں پہلے کبھی اس طرح نہ روئی ہو ۔
پھر جہاز نے پلٹا کھایا اور نوک کے بل نیچے گرنے لگا اور وہ سامنے سے آتی آگ میں دھنس گئی کیونکہ اس کی یاد میں شعلے ہی شعلے تھے اور جل جانے کی بو ۔
اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کا سر کرسی کی پشت پر ٹکا ہوا تھا ۔ اس کے ہاتھوں نے کمبل کے کناروں کو بھینچا ہوا تھا جیسے وہ اسے اپنے جسم کے گرد سختی سے لپیٹنا چاہتی ہو ۔ اس کے بال اس کے کندھوں پر پھیلے ہوئے تھے ۔
باہر ، چاند اب آسما ن میں نیچے اتر آیا تھا اور کہرا بھی کھیتوں اور باڑوں پر موٹی دبیز تہہ میں جما ہوا تھا اور کہیں کوئی آواز نہ تھی ۔ پھر جنوب کی جانب سے دھیمی لیکن گہری گونج سنائی دی جو ابھرتی چلی گئی اوراونچی سے اونچی ہوتی گئی یہاں تک کہ پورا آسمان اس کے شور سے بھر گیا جو دھمک پر دھمک پیدا کئے جا رہا تھا ۔ اس میں ، البتہ اُن کے گانے کی آواز بھی شامل تھی جو لوٹ رہے تھے ۔
لیکن عورت جو کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی ، نے حرکت نہ کی ۔ وہ تو کچھ دیر پہلے ہی مر چکی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روآل ڈال( Roald Dahl) ایک برطانوی ادیب تھا ۔ ناول نگاری اور افسانہ نگاری کے علاوہ سکرین رائٹر بھی تھا ۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں سات سال تک برطانوی ائیر فورس میں لڑاکا پائلٹ بھی رہا ۔ اس نے اس جنگ میں دشمن فوج کے کئی جہاز مار گرائے تھے اور سفارتی خدمات بھی انجام دیں ۔
اس کی کئی کہانیوں اور ناولوں کو فلمایا بھی گیا ؛ اس کے لکھے سکرپٹس میں جیمز بانڈ سیریز کی 1967 ء کی فلم ' You Only Live Twice ' بھی شامل ہے ۔ اس کی لکھی 32 اقساط پر مبنی ٹیلی سیریز میں ' Tales of the Unexpected ' اہم ہے ۔ اس کی شاعری کی تین کتابیں بھی شائع ہوئیں ۔
اس نے انیس ناول لکھے جن میں سے سترہ بچوں کے ادب میں شمار ہوتے ہیں ۔ اس کی کہانیوں کے تیرہ مجموعے شائع ہوئے جن میں سے آٹھ بچوں کے ادب میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ اس حوالے سے20 ویں صدی کا ایک اہم ادیب بھی گردانا جاتا ہے ۔ اس نے نان فکشن کے زمرے میں بھی نو کتابیں لکھیں ۔ اس کی بیشتر کتابیں ’ بیسٹ سیلر ' بھی رہیں ۔ اس کی کہانیاں اور ناول اپنے غیر متوقع انجام کے لئے مشہور ہیں ۔
اس نے دو شادیاں کیں ؛ پہلی شادی امریکی اداکارہ ' پیٹریشیا نیل ' سے 1953ء میں ہوئی جو تیس سال تک قائم رہی ،پیڑیشیا سے اس کے پانچ بچے پیدا ہوئے ؛ ان میں برطانوی ادیبہ ' ٹیسا ' اور سکرپٹ رائٹر ' لوسی ' بھی شامل ہیں ۔ دوسری شادی برطانوی فلم میکر ' فِلسٹی کراس لینڈ ' سے 1983ء میں ہوئی جو اس کی وفات تک قائم رہی ۔
13 ستمبر 1916 ء کو ویلز میں پیدا ہوا یہ ادیب 74 سال کی عمر میں 23 نومبر 1990 ء کو آکسفورڈ ، برطانیہ میں خون کے کینسر کے ہاتھوں فوت ہوا ۔
درج بالا کہانی کے علاوہ ' The Smoker ' بھی اہم ہے جو ' Man from the South ' نام سے دو بار فلمائی بھی جا چکی ہے ۔ ' Only This ' پہلی بار ’ لیڈیز ہوم جرنل ‘ کے مارچ 1944 ء کے شمارے میں شائع ہوئی اور بعد میں اس کے افسانوں کے مجموعے ’ Over to You ‘ میں شامل کی گئی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...