گرمی تھی اور بے پناہ گرمی! ناصر کاظمی کی پہلی بارش یاد آگئی
گرمی تھی اور ایسی گرمی
مٹکوں میں پانی جلتا تھا
راولپنڈی صدر سے سیکرٹریٹ جانے والی بس کے انتظار میں کھڑا رہا۔ پگھلتا رہا اور اخبار تہہ کرکے اپنے آپ کو پنکھی جھلتا رہا۔ بس آئی تو دوسروں کی طرح میں بھی پیچھے بھاگا اور لٹک گیا۔ ڈنڈے کو پکڑتے، جھولتے، گرنے سے اپنے آپ کو بچاتے بس کے درمیان والی جگہ پر پہنچنے میں کئی منٹ لگ گئے۔ میرا خیال تھا کہ وہاں رش کم ہوگا لیکن وہی دروازے والی حالت تھی۔
اچانک میں ٹھٹھک گیا۔ جو صاحب ڈنڈے کو پکڑے میرے آگے کھڑے تھے اور بار بار ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے مسافر پر آدھے گر رہے تھے، ذرا سا پلٹے تو میں نے پہچان لیا۔
شوکت ترین تھے وزیر خزانہ۔ ان سے اچھی خاصی شناسائی تھی۔ میں اکثر انہیں ٹی وی پر دیکھتا ہوں۔ وہ بھی یقینا کالم کے ساتھ چھپنے والی میری تصویر دیکھتے ہوں گے۔ اسی شناسائی کے حوالے سے میں نے قدرے بے تکلفی سے سلام کیا۔’’شوکت! آپ کیسے؟ وزیرخزانہ ہو کر بس میں؟ اور وہ بھی کھڑے ہو کر! ڈنڈے کو پکڑ کر جھولتے جھومتے گرتے بچتے ہوئے!‘‘شوکت ترین مسکرائے! اگرچہ انہوں نے کوئی ایسا تاثر نہ دیاجس سے معلوم ہو کہ وہ مجھے پہچان گئے ہیں لیکن دلآویز مسکراہٹ بہر حال ان کے وجیہہ چہرے پر نمایاں تھی۔ بہت رسان سے بولے۔’’میں نے حالیہ بجٹ کے دنوں میں عوام کو تلقین کی تھی کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔کہنے کو تو میں نے کہہ دیا لیکن سچ پوچھئے، بعد میں ندامت ہوئی۔ میں نے سوچا، کتنی بُری بات ہے، جو بات میں عوام کو کہہ رہا ہوں، خود نہیں کرتا، چنانچہ اب میں نے سرکاری گاڑیاں واپس کردی ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ ہی کے ذریعے آتا جاتا ہوں۔‘‘
وزیر خزانہ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سفر کا پتہ ہی نہ چلا۔ کنڈکٹر کی پائیدار آواز گونجی۔’’سیکرٹریٹ والے اتر جائیں۔‘‘ ترین صاحب کا نائب قاصد بس سٹاپ پر ان کا انتظار کر رہاتھا۔ اُس نے ان کا بریف کیس پکڑنا چاہا میںمتاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ترین صاحب نے نائب قاصد کو پیار سے منع کیا ’’بھائی، میں بھی تمہاری طرح ہی کا انسان ہوں۔ اپنا سامان خود اٹھائوں گا۔‘‘مجھے وزارتِ خزانہ والی عمارت سے آگے جانا تھا۔ میری منزل وزیراعظم کا دفتر تھا۔ کل رات اہل محلہ میرے پاس آئے تھے۔ دن اور رات میں کئی بار بجلی جا رہی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ صحافی ہونے کے ناطے میں ان کی مدد کرسکتا ہوں۔ انہوں نے خود ہی تجویز پیش کی کہ میں وزیراعظم صاحب کی خد مت میں حاضر ہو کر انکی فریاد پہنچائوں۔ میں اسی سلسلے میں وزیراعظم کی خدمت میں حاضر ہو رہا تھا۔
سلسلے اور حاضر ہونے کے حوالے سے مشہور مزاحیہ اداکار لہری یاد آرہے تھے۔ ایک فلم میں انکی شادی ہوتی ہے۔ حجلۂ عروسی میں اپنی نئی نویلی بیگم کے پاس جب پہنچتے ہیں تو اسے کہتے ہیں ’’وہ ہماری آج شادی ہوئی ہے۔ ہم اسی سلسلے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔‘‘
وزیراعظم کے دفتر کے پھاٹک پر اور اندر حفاظتی عملے کا رویہ مثبت تھا۔ اس بار میری پسلیاں ٹھوک بجا کر دیکھی گئیں نہ دانتوں کو گنا گیا۔ حیرت کی انتہا نہ رہی جب عالیشان اور وسیع و عریض دفتر کے اندر داخل ہونے کے بعد دیکھا کہ بجلی غائب تھی اور ہر طرف شمعدان روشن تھے۔ ایک طرف کچھ مستری نما افراد ایک پرانے جنریٹر کی مرمت کر رہے تھے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ جنریٹر پرانا ہے اور کام نہیں کرتا، لیکن وزیراعظم نے نیا خریدنے سے منع کیا ہے اور فضول خرچی سے احتراز کرتے ہوئے اسی کی مرمت کا حکم دیا ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وزیراعظم کے حکم کیمطابق وزیراعظم کے دفتر اور گھر…اور تمام وزیروں کے دفتروں اور محلات میں اسی طرح لوڈ شیڈنگ ہوا کریگی جس طرح پورے ملک میں ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کی خدمت میں پیشی ہوئی اور انہوں نے مسکرا کر آنے کا سبب پوچھا تو جیسا کہ قارئین جانتے ہیں، ذہین تو میں ہوں، میں نے فوراً فیصلہ کیا کہ اب اہل محلہ کی فریاد پہنچانے کی کوئی تُک نہیں ہے، وزیراعظم خود لالٹین کی زرد اداس روشنی میں کام کر رہے تھے۔ چنانچہ فوراً بات بنائی اور عرض کیا کہ آپ نے وزیراعظم کے دفتر اور محل میں لوڈ شیڈنگ نافذ کرکے میرے محلے کے لوگوں کے دل جیت لئے ہیں۔ چنانچہ میں ان کی طرف سے آپکی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرنے حاضر ہوا ہوں۔
میں چائے اور سموسوں کا انتظار کر رہا تھا کہ وزیراعظم نے میرا ذہن پڑھ لیا۔ فرمایا کہ قائداعظم کی تقلید میں ہم نے تنورِ شکم بھرنے کا سلسلہ موقوف کردیا ہے۔ قائداعظم تو کابینہ کے اجلاس میں بھی سرکاری خرچ پر چائے نہیں پینے دیتے تھے۔ میں نے، (ایک پھیکے پن سے) اس تبدیلی کی بھی تعریف کی۔ رخصت ہوا تو وزیراعظم نے اپنے سٹاف افسر کو حکم دیا کہ کالم نگار کو ہمارے حالیہ اقدامات دکھائے جائیں۔ بتائے جانے کے بجائے دکھائے جانے پر مجھے تعجب ہوا لیکن جلد ہی استعجاب دُور ہوگیا۔ سٹاف افسر نے وزیراعظم کے دفتر کے مختلف حصے دکھائے۔ ایک کمرے میں جنرل مشرف کی کابینہ کے ارکان پریشان حال بیٹھے دکھائی دیئے۔ قمیضوں کے بٹن کھلے ہوئے، بال بکھرے ہوئے، رنگتیں زرد، معلوم ہوا کہ وزیراعظم نے چینی کے بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں سزا دینے کا حکم دیا ہے۔ ایک اور کمرے میں دو تنومند پولیس افسر ورزش کر رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ انہیں خصوصی ڈیوٹی پر دُبئی بھیجا جا رہا ہے جہاں سے یہ سندھ کے سابق چیف منسٹر ارباب غلام رحیم کو واپس لائیں گے۔ ارباب صاحب کیخلاف بہت سے الزامات ہیں۔ تازہ ترین الزام جو سامنے آیا ہے اخبارات کی رُو سے یہ ہے کہ جنرل مشرف سے انہوں نے خصوصی طور پر بُلٹ پروف گاڑی درآمد کرنے کی اجازت لی۔ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے دیئے گئے۔ارباب صاحب نے گاڑی درآمد کی اور حکومت کے بجائے گاڑی کی رجسٹریشن اپنے نام پر کرالی۔ اور اب بقول ان کے اپنے یہ گاڑی انکے کراچی والے گھر کے گیراج میں کھڑی ہے۔ پریس کے استفسار پر انہوں نے پہلے تو یہ دعویٰ کیا کہ گاڑی انکے ذاتی ’’خزانے‘‘ سے خریدی گئی تھی۔ اسکے فوراً بعد یہ کہا کہ کسی دوست نے’’تحفے‘‘ میں دی تھی۔ ارباب صاحب بہت مذہبی اور خدا ترس واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے چیف منسٹر ہائوس میں تعویذ لکھنے، زائچے بنانے اور دم درود کرنے کیلئے خصوصی ماہرین رکھے ہوئے تھے جو سرکاری ہیلی کاپٹروں کے علاوہ سرکاری پلاٹوں سے بھی بہرہ ور ہوتے تھے!
لیکن وزیراعظم کا اصل کارنامہ اور تھا۔ ایک خصوصی دفتر دکھایا گیا جہاں بہت سے مستعد چست و چالاک اہلکار بالکل تیار کھڑے تھے۔ معلوم ہوا کہ منتخب اداروں کے ارکان کی جانچ پڑتال کیلئے خصوصی محکمہ وجود میں لایا گیا ہے۔ حکومت نے بالآخر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ ہمارے منتخب ارکان اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں چنانچہ انہیں ہفتے میں سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے زیر نگرانی رکھا جائیگا اور ان میں سے جو قانون شکن ثابت ہوئے انکے ساتھ وہ سلوک ہوگا کہ حاجی پرویز اور شمائلہ بی بی کی داستانیں لوگ بھول جائیں گے!
اُس شام میں گھر واپس پہنچا تو مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے۔ جس قوم کا وزیر خزانہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا ہو، وزیراعظم کے دفتر اور گھر میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہو، سابق وزیروں کو چینی کے بحران کی سزا ملتی ہو، اربابوں اور چیف منسٹروں سے قومی دو لت کا حساب لیا جاتا ہو اور منتخب ارکان کو قانون کی ذرا سی بے حرمتی پر بھی معاف نہ کیا جاتا ہو، اُس قوم کو کون شکست دے سکتا ہے؟