::: " بارتھس، دریدا اور اسٹروس کی فکری ساخت کا معنیاتی نقشہ " :::
رونالڈ بارتھس{Barthes۔۔۔۔۔ 1915۔1980 } کی علمی اور تنقیدی شہرت، وجودی ، مارکسسٹ، ماہر ساختیات ، لسانیات دان اور متنی نقاد کے ہے۔ وہ ایک عرصے تک ژان پال سارتر کے نظریات سے متاثر رہے مگر بعد میں وہ سارتر کے نظریات کے ناقد بن گئے۔ بارتھس نے شروع سے ہی مغربی فکر سے اپنی نے بےچینی اور بیزاری کا اظہار کیا۔ جو فلسفی وجودیت کا بھی اہم نکتہ تھا۔ کیونکہ وجودیت نے فرد کو اہمیت دیتے ہوئے اس کی آزادی پر زور دیا جو " فرد" کے سبب ہی پروان چڑھتی ہے۔ بارتھس نے لازمیت اور جبریت کے خلاف علم اٹھاتے ہوئے اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کی اور انتشار اور نراجیت کوقبول کرنے سے بھی برا تصور نہیں کرتے۔ ادب اور اشیاء عوامل کی معنی خیزی کا پیغام دیتے ہیں۔ جس میں معین معنی شامل نہیں ہوتے۔ مصنف، متن اور قاری کا رشتہ اپنی نشاط کے اعتبار سے شہوانی نوعیت کا ہوتا ہے۔ وہ قرات کے دوران جسم سے گفتگو کرتا ہے۔ اور وہ یوں ادب کو " مانوس تصور" کہتے ہیں۔ اور اس " مانوس تصور" کو مسترد کردینے کے حامی ہیں۔ باتھس حقیقی معنوں میں " ادبی ساختیاتی تنقید کے پہلے نقاد " ہیں۔ لہذا بارتھس نے ادب کے مقتتدر اور کلاسیکی تصور پر اپنی برہمی کا بھی اظہار کیا ہے۔ وہ مکتبی تنقید کے سخت مخالف تھے۔ وہ یسار نو/ نیا کمیونزم سے بھی متاثر رہے۔ جب ہھی انھوں نے ادبی تنقید پر غیر تاریخی تصور کا فقدان پر اعتراض کیا ہے۔ لیکن وہ عصری ادبی تاریخوں سے مطمن بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کے یہاں ادب اور معاشرے کے معنی خیز جدلیاتی رشتوں میں کوئی روح دکھائی نہیں دیتی ۔ ابان میں معنویت پہلے سے چھپی ہوتی ہے جس کی مدر سے مخصوص ثقافت معاشرتی حقائق کو قیاس میں لاتی ہے۔ بارتھس نے موضوعی فلسفیانہ جمالیاتی نظریات اور لسانی ہیت پسندی کے درمیان خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی۔ ان کی علمی وتنقیدی شہرت وجودیت پسند، مارکسسٹ، ماہر ساختیات ، لسانیات دان اور متنی نقاد کے بھی ہے۔ عمرانیات کو انھوں نے ادب کے ساتھ منسلک کردیا اور فکری رویوں کی بئی حدود بھی متعین کیں اور اس کی درجہ بندی سے انحراف کرتے ہوئے "نظامیانہ" کو رد کیا۔ لہذا ماہر عمرانیات ان کے نظریات سے معاملہ کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ بارتھس کی تین/3 کتابوں ۔۔۔ writing Degree zone…… Elements …. S/Z کو بہت شہرت ملی۔ ایک نظام، تجریدی ماڈل اور سائنسیی اصولوں سے دور رہ کر ایک تحریک کے طور پر ساختیات کو اپنایا۔ لیکن ژاک دریدا/ Derrida نےساخت کے حوالے سے بعد از ساختیات / structuralist فکر پر واضح طور پر نشان لگا دیا گیا ہے،اور متن کو تہس نہس کرکے بچون کا کھلونا بنا دیا۔ اور لفظیات کی خوب شعبدہ بازی کی۔ اور انسانی علوم کو بھی خوب داغ دار کیا۔ اور فکری نراجیت برپا کی۔ کلودیل لیوی اسٹراس کی ساختیاتی بشریات کا مطالعہ دریدا کے لیے خاصا کٹھن بھی تھا۔ وہ یوں کہ یہ مغربی روایت میں کسی بھی گفتگو کے لیے بہت ضروری ہے کہ فکری مخاطبہ اور فلسفیانہ مفروضات اس کے خلاف خود کا تعین بھی کرتا ہے اور خود ہی فکری جال میں پھس جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے فرار ہونے کی کوشش بھی کی جاتی ہے اور ان مفروضات اور فکری متعلقات کو سلجھا نہیں پاتے۔ اس کے لیے فکری فطانت اور زہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ فلسفیانہ اور تنقیدی سطح پر ماضی میں زیر بحث آچکے ہوتے ہیں۔ جس میں معنویت کبھی عیان ہوتی ہے اور کبھی یہ چھپی ہوتی ہے۔ اور فرد ان کی آزاد نہ تشریح کرتے ہوئے بھی آزادانہ تشریح نہیں کرپاتا۔ بعض دفعہ یہ فکری مشقیں شرمندگی کا سبب بھی بنتی ہیں۔
یہ کالم فیس بُک کے اسپیجسے لیا گیا ہے۔